لاہور۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد سے منگل کے روز برطانوی ہائی کمشنر رابرٹ برنکلے اور برطانوی وزارت خارجہ کے ساؤتھ ایشیا اور افغانستان ڈیسک کے انچارج ایڈم تھامسن نے اسلام آباد میںان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔ برطانوی ہائی کمشنر اور وزارت خارجہ کے اہلکار نے قاضی حسین احمد سے پاک افغان تعلقات ، قبائلی علاقہ جات کی صورتحال، سرحد حکومت کی مذاکرات پالیسی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ قاضی حسین احمد نے برطانوی وفد کو بتایا کہ مذاکرات ہی تمام مسائل کے حل کا راستہ ہیں اور مستقبل میں اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعریف متعین کرنی چاہیے اور اس میں ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جو فلسطین اور کشمیر میں نئے المیوں کو جنم دے رہی ہے ۔ افغانستان اور عراق کا ذکر کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے کہا کہ بیرونی جاحیت کا مقابلہ کرنے والے لوگوں کو کس طرح انتہا پسند قرار دیا جا سکتا ہے ؟ جبکہ اقوام متحدہ نے بھی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے ۔ نئی حکومت اور ججوں کی بحالی سے متعلق استفسار کے جواب میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ نئی حکومت کو بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ہم جلد ی میں اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کریں گے اور نہ فی الحال ایجی ٹیشن کا ارادہ ہے ۔ ہم نئی حکومت کو کارکردگی دکھانے کا موقع دینا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی طے شدہ مسئلہ ہے ۔ حکمران اتحاد نے 30 دن میں قوم سے ججوں کی بحالی کا وعدہ کیا ہے ۔ اس میں بدگمانی کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دس دن باقی رہ گئے ہیں یہ بھی گزر جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج اسی مدت میں بحال ہو جائیں گے ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, April 22, 2008
عالمی برادری کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعریف متعین کرنی چاہیے اور اس میں ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے ۔قاضی حسین احمد
لاہور۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد سے منگل کے روز برطانوی ہائی کمشنر رابرٹ برنکلے اور برطانوی وزارت خارجہ کے ساؤتھ ایشیا اور افغانستان ڈیسک کے انچارج ایڈم تھامسن نے اسلام آباد میںان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔ برطانوی ہائی کمشنر اور وزارت خارجہ کے اہلکار نے قاضی حسین احمد سے پاک افغان تعلقات ، قبائلی علاقہ جات کی صورتحال، سرحد حکومت کی مذاکرات پالیسی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ قاضی حسین احمد نے برطانوی وفد کو بتایا کہ مذاکرات ہی تمام مسائل کے حل کا راستہ ہیں اور مستقبل میں اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعریف متعین کرنی چاہیے اور اس میں ریاستی دہشت گردی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جو فلسطین اور کشمیر میں نئے المیوں کو جنم دے رہی ہے ۔ افغانستان اور عراق کا ذکر کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے کہا کہ بیرونی جاحیت کا مقابلہ کرنے والے لوگوں کو کس طرح انتہا پسند قرار دیا جا سکتا ہے ؟ جبکہ اقوام متحدہ نے بھی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے ۔ نئی حکومت اور ججوں کی بحالی سے متعلق استفسار کے جواب میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ نئی حکومت کو بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ہم جلد ی میں اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کریں گے اور نہ فی الحال ایجی ٹیشن کا ارادہ ہے ۔ ہم نئی حکومت کو کارکردگی دکھانے کا موقع دینا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی طے شدہ مسئلہ ہے ۔ حکمران اتحاد نے 30 دن میں قوم سے ججوں کی بحالی کا وعدہ کیا ہے ۔ اس میں بدگمانی کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دس دن باقی رہ گئے ہیں یہ بھی گزر جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج اسی مدت میں بحال ہو جائیں گے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment