صدر پرویز مشرف اور نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مل جل کر ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ جبکہ صدر نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے ۔ تین سٹیج ٹرانزیشن آخری مرحلے میں ہے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو چکے ہیں اور یہ انتخابات آزادانہ منصفانہ اور شفاف انداز میں پر امن طریقے سے ہوئے جو ایک قابل فخر امر ہے ۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے انتخاب کے بعد اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے ۔ جبکہ یوسف رضا گیلانی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے اور نگراں حکومت ختم ہو گئی ہے اب جینا مرنا پاکستان کیلئے ہی ہوگا،آئین کے مطابق چلیں گے تو کوئی تصادم نہیں ہو گا یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ قو م کے مشکور ہیں جس نے خوش اسلوبی کے ساتھ انتخابات میں اپنا مینڈیٹ دیا، اس سے ان کی امنگوں کا عکس نظر آتا ہے کہ کس طرح کے لوگوں کو یا کس قسم کے منشور کو وہ آگے لانا چاہتے تھےعوام نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ وہ ملک و قوم کے لیے بہترین کام کریں گے آئندہ دور بہت مشکل ہو گا کیونکہ دہشت گردی انتہا پسندی اور معاشی مسائل درپیش ہیں انھوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ اپنے ملک اور اپنی قوم پر فخر ہے اور ہم پاکستان کے لیے ہی جئیں اور مریں گے۔ یوسف رضا گیلانی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پہلے100 دن کی گنتی شروع ہو جائے گی اور ہاو¿س کے فلور پر وہ آئندہ سو دن کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔ جس میں معیشت اور بحرانوں کے حوالے سے معاملات شامل ہوں گے ۔ موجودہ صورتحال میں چیلنجز سے نمٹنا ایک پارٹی کا کام نہیں ہے اس لیے تمام فورسز کو یکجا ہو کر ملک کو ان بحرانوں سے نکالنا ہو گا ۔ پارلیمنٹ کو با اختیار اور سپریم بنانا ہے اور اداروں کو مضبوط بنانا ہے سید یوسف رضا گیلانی کے اعتما د کے ووٹ کے بعد ان کے سو دن کی حکمت عملی شروع ہو جائے گی لہکن اس سے پہلے وکلاءکے تیس دن پورے ہو جائیں گے کیا اگر نئی حکومت ججز محال کرانے میں ناکا م ہو جا تی ہے تو کیا وہ ان بحرانوں پر قا بو پا لے گی جس کا اس نے عزم کیا ہے ؟ 100 دن کی سوچ بچار سے بہتر ہے ایک ہفتے میں ایسے فیصلے کئے جا ئیں اور ان فیصلوں کی مدد سے ان وجوہات کا سرے سے ہی خاتمہ کر دیا جا ئے جو بحران پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ فوری طور پر ججز کو بحال کیا جائے نیز 1973ءکے آئین کو اپنی اصل حالت میں لا یا جائے اور ایسے تمام آرڈیننس اور قوانین کو ایک قرار داد کے ذریعے ختم کیا جا ئے جو فو جی آمروں نے ا پنے اقتدار کو طول اور تحفظ دینے کے لئے جعلی مجلس شوری اور اور جعلی ووٹوں سے معرض وجود میں آنے والی پالیمنٹ سے حما یت لے کر بنائے۔ از سر نو قانون سازی کی جا ئے ۔ اور 58/2B کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا ئے اور ایسے تما م راستے بند کئے جا ئیں جو آمریت کی طرف جاتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان سے قبل گورنمنٹ آف انڈیا کے ایکٹ کا حصہ جو بر طانوی حکومت نے بنا یا تھا کہ اگر غلام ملک ہندوستان کے لوگ بغاوت کریں تو بغاوت کی صورت میں متعلقہ صوبے یا علاقے پر برٹش آرمی Take Over کرسکتی ہے اور اس ایکٹ کو بد قسمتی سے آ زادی کے بعد بھی لاگو کر دیا گیا اور فوجی گروپوں کو اقتدار چھیننے کا مو قع ملتا رہا ۔ اور اس ایکٹ کو بھی ایک سازش کے تحت شامل کیا گیا تا کہ بر طانیہ اور امریکہ اپنے نا پاک عزائم کو پو را کرنے کہلئے اس ملک اور عوام کو کنٹرول کر سکیں اور اس طرح کی ملتی جلتی کئی اور بھی بیماریاں ہیں جن پر نظرثانی بہت ضروری ہے۔ 1973ء کے آئین سے آمریت کی تمام نشانیاں ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ دہشت گردی کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے قومی امنگوں کے مطابق پالیسیاں وضح کی جائیں عدلیہ کی بحالی کے لئے پارلیمنٹ سے قرارداد کی منظوری فوری طور پر کی جائے سید یوسف رضا گیلانی سے توقع ہے کہ وہ پاکستان اور اس کی عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے اور وزیر اعظم کے منصب کا مورال بحال کرنے میں کامیاب ہو نگے ۔ پانچ سالوں میں اس منصب کی توقیر کو خاک میں ملا دیا گیا ہے ۔ اصل مبارکباد کی مستحق سولہ کروڑ عوام ہے ۔ 18فروری کو عوام نے واضح اور دو ٹوک مینڈیٹ دے کر آمریت پر کالی ضرب لگائی ہے ۔عوام کی جدوجہد کا مرحلہ مکمل ہوا ہے تاہم کئی مراحل ابھی باقی ہیں ۔ پہاڑ کی طرح نئی حکومت کے سامنے کئی مسائل ہیں ۔ پورے ملک کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے ۔ وہ پاکستان جو 12 اکتوبر 1999ء کے وقت موجود تھا اب نہیں ہے ا ملک کی آزاد ی اور خود مختاری کو خاک میں ملا دیا گیاہے ۔ ملک کی بنیادیں ہلا دی ہیں کہا جارہا ہے کہ جمہوریت بحال کی گئی ہے نئی حکومت کو اقتدار نہیں مسائل منتقل ہوئے ہیں ۔ملک میں بد امنی ، لاقانونیت ، قتل وغارت گری ،بم دھماکے ، خود کش حملے ، بے روز گاری ،مہنگائی سمیت بجلی ،آٹے ،گیس کا بحران ہے ۔قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے ۔ 42ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ،28 کھرب روپے کے اندرونی قرضے ہیں ۔ اقتصادی بد حالی ہے ۔بگڑا ہوا آئین ،ٹوٹی ہوئی عدلیہ تباہ حال ادارے نئی حکومت کو منتقل کیے گئے ہیں ۔ عوام کی مدد اور تعاون سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا نا گزیر ہے ۔ ججز کی رہائی پر پوری قوم نے جشن منایا عوام کو خوشی ہوئی مگر ساتھ ندامت بھی کیونکہ ایک آمر نے ملک کو اس مقام پر پہنچایا ہے دنیا کیا سوچے گی ۔ ججز کو زیر حراست رکھنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ انصاف فراہم کرنے والے قید کر دیے گئے ۔ شرمناک ڈرامہ کھیلا گیا ۔ اس ڈرامہ میں ملوث تمام کرداروں کا محاسبہ ناگزیر ہے ۔ اب عوم اس انتظار میں ہیں کہ کب وہ دن آئے گا جب اعلان مری کے مطابق تمام ججز اپنے عہدوں پر کام شروع کردیں گے ۔ آزاد عدلیہ ہی کے نتیجے میں ملک جمہوریت کا قلعہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ مثیاق جمہوریت کی ایک ایک شق پر عمل ضروری ہے ۔ 1973ء کے آئین سے آمریت کے تمام نشانیاں ختم کر دی جائیں ۔اصوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے میں تاخیر نہ کی جائے ۔ عوامی مینڈیٹ میں روڑھے نہ اٹکائے جائیں امریکی اعہدیداروں کا بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد ہونے والے تمام فیصلے فرد واحد کی جانب سے کیے گئے ۔تمام پالیسیاں عوامی امنگوں اور جذبات کے مطابق بنائی جائیں گی اور عوام کے تعاون سے ان پر عملدر آمد کیا جائے گا ۔ نئی پارلیمنٹ وجود میں آچکی ہے ۔ سارے معاملات اور پالیسیاں پارلیمنٹ میں زیر بحث لائی جائیں ۔ عوام کے نمائندے دہشت گردی کے حوالے سے پالیسیوں کا ہر پہلو سے جائزے لیں ۔ ور اس مقصد کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جا ئے جس میں تمام کی نمائندگی ہو۔ عالمی نقطہ نظر کو بھی سامنے رکھ کر دہشت گردی کے خلاف قومی اور ملکی مفادات کے تحت سفارشات مرتب کی جائیں اور پارلیمنٹ میں لائیں ۔ اور امریکہ پر زور دیا جائے کہ جس طرح امریکہ اپنے ملک کو دہشت گردی سے صاف اور پاک کرنا چاہتا ہے ۔ نئی حکومت کی خواہش بھی ہو کہ ہماری بستیوں پر میزائل اور بم نہ برسائے جائیں ۔معصوم لوگوں سے ان کی زندگیاں نہ چھینی جائیں ہماری گلیو ں اور سڑکوں پر خون کی ندیاں نہ بہائیں جائیں ۔ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ملک کا کوئی حصہ دفتر سڑکیں پولیس کوئی بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں ۔سیاست دان ،بے نظیر بھٹو ، سرکاری اہلکار ، عام لوگ قتل ہو رہے ہیں یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ پا کستان امریکہ یورپ بلکہ دنیا کے ہر حصے میں امن چا ہتا ہے۔18فروری 2008ءکو عوام نے فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ کس ہاتھوں میں ملک کی بھاگ دوڑ دینا چاہتے ہیں ۔ عوامی امنگوں کے مطابق حکومت سازی ہونی چاہیے اور قومی پالیسیاں بنائیں جائیں ۔ پرویز مشرف کو عوام مزید برداشت نہیں کر سکتی پارلیمنٹ ،انتظامیہ پولیس 16کروڑ عوام ایوان صدر کے ساتھ نہیں ہیں امریکہ بھی حالات کو سمجھے ۔ پاکستان میں اب مزید ون مین شو نہیں چلنا چاہیئے۔ عوام کے موڈ کو سمجھ لیا جائے ۔پارلیمنٹ آزاد اور خو د مختار ادارہ ہے ۔ فرد واحد کی جانب سے ججز کی بحالی کے لئے دو تہائی اکثریت کی بات کرنا فراڈ ہے ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, March 26, 2008
جینا مر نا اے وطن تیرے لئے نئے وزیر اعظم کا عزم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری ا حسن پریمی
صدر پرویز مشرف اور نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مل جل کر ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ جبکہ صدر نے کہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے ۔ تین سٹیج ٹرانزیشن آخری مرحلے میں ہے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو چکے ہیں اور یہ انتخابات آزادانہ منصفانہ اور شفاف انداز میں پر امن طریقے سے ہوئے جو ایک قابل فخر امر ہے ۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے انتخاب کے بعد اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے ۔ جبکہ یوسف رضا گیلانی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے اور نگراں حکومت ختم ہو گئی ہے اب جینا مرنا پاکستان کیلئے ہی ہوگا،آئین کے مطابق چلیں گے تو کوئی تصادم نہیں ہو گا یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ قو م کے مشکور ہیں جس نے خوش اسلوبی کے ساتھ انتخابات میں اپنا مینڈیٹ دیا، اس سے ان کی امنگوں کا عکس نظر آتا ہے کہ کس طرح کے لوگوں کو یا کس قسم کے منشور کو وہ آگے لانا چاہتے تھےعوام نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ وہ ملک و قوم کے لیے بہترین کام کریں گے آئندہ دور بہت مشکل ہو گا کیونکہ دہشت گردی انتہا پسندی اور معاشی مسائل درپیش ہیں انھوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا ہے کہ اپنے ملک اور اپنی قوم پر فخر ہے اور ہم پاکستان کے لیے ہی جئیں اور مریں گے۔ یوسف رضا گیلانی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پہلے100 دن کی گنتی شروع ہو جائے گی اور ہاو¿س کے فلور پر وہ آئندہ سو دن کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔ جس میں معیشت اور بحرانوں کے حوالے سے معاملات شامل ہوں گے ۔ موجودہ صورتحال میں چیلنجز سے نمٹنا ایک پارٹی کا کام نہیں ہے اس لیے تمام فورسز کو یکجا ہو کر ملک کو ان بحرانوں سے نکالنا ہو گا ۔ پارلیمنٹ کو با اختیار اور سپریم بنانا ہے اور اداروں کو مضبوط بنانا ہے سید یوسف رضا گیلانی کے اعتما د کے ووٹ کے بعد ان کے سو دن کی حکمت عملی شروع ہو جائے گی لہکن اس سے پہلے وکلاءکے تیس دن پورے ہو جائیں گے کیا اگر نئی حکومت ججز محال کرانے میں ناکا م ہو جا تی ہے تو کیا وہ ان بحرانوں پر قا بو پا لے گی جس کا اس نے عزم کیا ہے ؟ 100 دن کی سوچ بچار سے بہتر ہے ایک ہفتے میں ایسے فیصلے کئے جا ئیں اور ان فیصلوں کی مدد سے ان وجوہات کا سرے سے ہی خاتمہ کر دیا جا ئے جو بحران پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ فوری طور پر ججز کو بحال کیا جائے نیز 1973ءکے آئین کو اپنی اصل حالت میں لا یا جائے اور ایسے تمام آرڈیننس اور قوانین کو ایک قرار داد کے ذریعے ختم کیا جا ئے جو فو جی آمروں نے ا پنے اقتدار کو طول اور تحفظ دینے کے لئے جعلی مجلس شوری اور اور جعلی ووٹوں سے معرض وجود میں آنے والی پالیمنٹ سے حما یت لے کر بنائے۔ از سر نو قانون سازی کی جا ئے ۔ اور 58/2B کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا ئے اور ایسے تما م راستے بند کئے جا ئیں جو آمریت کی طرف جاتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان سے قبل گورنمنٹ آف انڈیا کے ایکٹ کا حصہ جو بر طانوی حکومت نے بنا یا تھا کہ اگر غلام ملک ہندوستان کے لوگ بغاوت کریں تو بغاوت کی صورت میں متعلقہ صوبے یا علاقے پر برٹش آرمی Take Over کرسکتی ہے اور اس ایکٹ کو بد قسمتی سے آ زادی کے بعد بھی لاگو کر دیا گیا اور فوجی گروپوں کو اقتدار چھیننے کا مو قع ملتا رہا ۔ اور اس ایکٹ کو بھی ایک سازش کے تحت شامل کیا گیا تا کہ بر طانیہ اور امریکہ اپنے نا پاک عزائم کو پو را کرنے کہلئے اس ملک اور عوام کو کنٹرول کر سکیں اور اس طرح کی ملتی جلتی کئی اور بھی بیماریاں ہیں جن پر نظرثانی بہت ضروری ہے۔ 1973ء کے آئین سے آمریت کی تمام نشانیاں ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ دہشت گردی کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے قومی امنگوں کے مطابق پالیسیاں وضح کی جائیں عدلیہ کی بحالی کے لئے پارلیمنٹ سے قرارداد کی منظوری فوری طور پر کی جائے سید یوسف رضا گیلانی سے توقع ہے کہ وہ پاکستان اور اس کی عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے اور وزیر اعظم کے منصب کا مورال بحال کرنے میں کامیاب ہو نگے ۔ پانچ سالوں میں اس منصب کی توقیر کو خاک میں ملا دیا گیا ہے ۔ اصل مبارکباد کی مستحق سولہ کروڑ عوام ہے ۔ 18فروری کو عوام نے واضح اور دو ٹوک مینڈیٹ دے کر آمریت پر کالی ضرب لگائی ہے ۔عوام کی جدوجہد کا مرحلہ مکمل ہوا ہے تاہم کئی مراحل ابھی باقی ہیں ۔ پہاڑ کی طرح نئی حکومت کے سامنے کئی مسائل ہیں ۔ پورے ملک کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے ۔ وہ پاکستان جو 12 اکتوبر 1999ء کے وقت موجود تھا اب نہیں ہے ا ملک کی آزاد ی اور خود مختاری کو خاک میں ملا دیا گیاہے ۔ ملک کی بنیادیں ہلا دی ہیں کہا جارہا ہے کہ جمہوریت بحال کی گئی ہے نئی حکومت کو اقتدار نہیں مسائل منتقل ہوئے ہیں ۔ملک میں بد امنی ، لاقانونیت ، قتل وغارت گری ،بم دھماکے ، خود کش حملے ، بے روز گاری ،مہنگائی سمیت بجلی ،آٹے ،گیس کا بحران ہے ۔قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے ۔ 42ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ،28 کھرب روپے کے اندرونی قرضے ہیں ۔ اقتصادی بد حالی ہے ۔بگڑا ہوا آئین ،ٹوٹی ہوئی عدلیہ تباہ حال ادارے نئی حکومت کو منتقل کیے گئے ہیں ۔ عوام کی مدد اور تعاون سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا نا گزیر ہے ۔ ججز کی رہائی پر پوری قوم نے جشن منایا عوام کو خوشی ہوئی مگر ساتھ ندامت بھی کیونکہ ایک آمر نے ملک کو اس مقام پر پہنچایا ہے دنیا کیا سوچے گی ۔ ججز کو زیر حراست رکھنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ انصاف فراہم کرنے والے قید کر دیے گئے ۔ شرمناک ڈرامہ کھیلا گیا ۔ اس ڈرامہ میں ملوث تمام کرداروں کا محاسبہ ناگزیر ہے ۔ اب عوم اس انتظار میں ہیں کہ کب وہ دن آئے گا جب اعلان مری کے مطابق تمام ججز اپنے عہدوں پر کام شروع کردیں گے ۔ آزاد عدلیہ ہی کے نتیجے میں ملک جمہوریت کا قلعہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ مثیاق جمہوریت کی ایک ایک شق پر عمل ضروری ہے ۔ 1973ء کے آئین سے آمریت کے تمام نشانیاں ختم کر دی جائیں ۔اصوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے میں تاخیر نہ کی جائے ۔ عوامی مینڈیٹ میں روڑھے نہ اٹکائے جائیں امریکی اعہدیداروں کا بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد ہونے والے تمام فیصلے فرد واحد کی جانب سے کیے گئے ۔تمام پالیسیاں عوامی امنگوں اور جذبات کے مطابق بنائی جائیں گی اور عوام کے تعاون سے ان پر عملدر آمد کیا جائے گا ۔ نئی پارلیمنٹ وجود میں آچکی ہے ۔ سارے معاملات اور پالیسیاں پارلیمنٹ میں زیر بحث لائی جائیں ۔ عوام کے نمائندے دہشت گردی کے حوالے سے پالیسیوں کا ہر پہلو سے جائزے لیں ۔ ور اس مقصد کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جا ئے جس میں تمام کی نمائندگی ہو۔ عالمی نقطہ نظر کو بھی سامنے رکھ کر دہشت گردی کے خلاف قومی اور ملکی مفادات کے تحت سفارشات مرتب کی جائیں اور پارلیمنٹ میں لائیں ۔ اور امریکہ پر زور دیا جائے کہ جس طرح امریکہ اپنے ملک کو دہشت گردی سے صاف اور پاک کرنا چاہتا ہے ۔ نئی حکومت کی خواہش بھی ہو کہ ہماری بستیوں پر میزائل اور بم نہ برسائے جائیں ۔معصوم لوگوں سے ان کی زندگیاں نہ چھینی جائیں ہماری گلیو ں اور سڑکوں پر خون کی ندیاں نہ بہائیں جائیں ۔ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ملک کا کوئی حصہ دفتر سڑکیں پولیس کوئی بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں ۔سیاست دان ،بے نظیر بھٹو ، سرکاری اہلکار ، عام لوگ قتل ہو رہے ہیں یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ پا کستان امریکہ یورپ بلکہ دنیا کے ہر حصے میں امن چا ہتا ہے۔18فروری 2008ءکو عوام نے فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ کس ہاتھوں میں ملک کی بھاگ دوڑ دینا چاہتے ہیں ۔ عوامی امنگوں کے مطابق حکومت سازی ہونی چاہیے اور قومی پالیسیاں بنائیں جائیں ۔ پرویز مشرف کو عوام مزید برداشت نہیں کر سکتی پارلیمنٹ ،انتظامیہ پولیس 16کروڑ عوام ایوان صدر کے ساتھ نہیں ہیں امریکہ بھی حالات کو سمجھے ۔ پاکستان میں اب مزید ون مین شو نہیں چلنا چاہیئے۔ عوام کے موڈ کو سمجھ لیا جائے ۔پارلیمنٹ آزاد اور خو د مختار ادارہ ہے ۔ فرد واحد کی جانب سے ججز کی بحالی کے لئے دو تہائی اکثریت کی بات کرنا فراڈ ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment