International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, March 26, 2008

اب ٹوٹ جائیں گی زنجیریں اب ایوانوں کی خیر نہیں!









وزیر اعظم کے اعلان کے چند ہی منٹوں بعد ہوا کا رُخ ایسی تیزی سے بدلا کہ ججز کالونی کے باہر پتھروں کی بھاری رکاوٹیں اور خار دار تاریں جسے چشم زدن میں ہوا کی طرح اُڑ گئیں



پاکستان کی تاریخ میں مارچ کے مہینے کو ابھی تک صرف تئیس مارچ کے حوالے ہی اہمیت حاصل تھی کہ اس روز لاہور کے منٹو پارک جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے وہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی۔

اب تقویم ماہ وسال نے ایک مرتبہ پھر آغاز بہار کے اس مہینے کی چوبیس تاریخ کو اس مملکت خدادداد پاکستان میں ایک نئی بہار کی آمد دیکھی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ شاید اب بُرے دن گزر ہی جائیں اور اس ملک کے ساٹھ سال سے غربت اور بیروزگاری کی چکی میں پستے عوام کی آواز سنی جا سکے۔

اس ملک عزیز میں آئین و قانون کی بالا دستی ہو،عدلیہ اور جج آزاد ہوں،پارلیمان اپنے فیصلے خود کرے، ادارے مضبوط ہوں، عوام کی حکمرانی ہو،ملک سے آمریت ہمیشہ کے لیئے رخصت ہو جائے،فوج سرحدوں کی حفاظت پر مامور رہے،سیاست میں فریب اور دھوکہ بازی اور ضمیر فروشی ختم ہو اور خلق خدا راج کر پائے۔

کہنے کو تو یہ ساری باتیں ایک خواب سا لگتی ہیں لیکن اگر ملک کے باضمیر عوام اور سیاستدان ایک مرتبہ صدق دل سے یہ سب کچھ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیں تو سفر طویل ضرور ہو سکتا ہے اور کچھ مشکلات بھی درپیش ہو سکتی ہیں لیکن یہ سب کچھ ناممکن نہیں ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں شاید پہلی مرتبہ متعدد سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کو کسی حد تک بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا عہد کیا ہے اور سرحد کی عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت جمیعت العلمائے اسلام اور مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے ساتھ دست تعاون دراز کیا ہے۔ اگر اس تعاون کا مقصد پاکستان کی ناگفتہ صورت حال کو بہتر بنانا اور اس ملک کے مظلوم عوام کے مصائب میں کمی کرنا ہے تو اس کی کامیابی کی دعا کرنا ہم سب کا فرض ہے لیکن اگر خدا نخواستہ اس کا مقصد ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بنانا اور طالع آزماؤں کے مقاصد کو پورا کرنے میں معاون بننا ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہوگا اور عوام کو جو اب خاصے با شعور ہو چکے ہیں ابھی سے ان اقدامات پر نظر رکھنا ہو گی۔

نئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور انکی کابینہ کے ساتھ ساتھ مخلوط حکومت میں سیاسی جماعتوں کے لیئے یہ نہایت صبر آزما اور حکمت عملی سے بھرپور سفر ہو گا اور ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا اور اس ملک میں ساٹھ سال سے عوامی خواہشات پر حکمرانی کرنے والی بیوروکریسی کے کارندوں پر نگاہ رکھنی ہو گی جو اس اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیش کریں گے۔

جس بھاری اکثریت سے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں اسی قدر بھاری ذمیداری اب ان پر اور انکے رفقا پر عائد ہوگی۔ قومی اسمبلی میں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد انہوں نے گرفتار شدہ ججوں کی رہائی کے حوالے سے پہلا اعلان کر کے ہی اپنی ترجیحات اور سمت کا تعین خاصی حد تک کر دیا ہے۔ ان کی سیاسی فہم و فراثت اور حکمت عملی کے بارے میں کسی اور وقت بات کریں گے۔

اسوقت تو مجھ جیسے سخت دل آدمی کی آنکھوں میں بھی ٹی وی پر وہ مناظر دیکھ کر آنسو آ گئے ہیں جن میں پانچ ماہ سے زائد عرصے کے بعد کسی قانون اور حکم کے بغیر گرفتار شدہ جج اپنے ہی ملک میں آزاد ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں نئے وزیر اعظم کے اعلان کے چند ہی منٹوں بعد ہوا کا رُخ ایسی تیزی سے بدلا کہ ججز کالونی کے باہر پتھروں کی بھاری رکاوٹیں اور خار دار تاریں جسے چشم زدن میں ہوا کی طرح اُڑ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ راستے جو عوام کے لیئے مسدود ہو چکے تھے اور جن پر گرفتار ججوں کے اہل خانہ بھی نہیں نکل سکتے تھے ‘‘شاہراہ آزادی‘‘ کی طرح کھل گئے اور پولیس کے ساتھ خفیہ ایجنسیوں کے جو لاتعداد ارکان رات دن یہاں موجود ہوتے تھے چند ہی لمحوں میں ایسے غائب ہو گئے جیسے انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔

عوام اور وکلا چیف جسٹس افتخار چوہدری کے گھر میں پہنچ گئے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد دنیا بھر میں کتنے ہی لوگوں نے یہ مناظر دیکھے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا پانچ ماہ سے قید چیف جسٹس اپنے بچوں اور اہلیہ کے ساتھ گھر کی بالکونی پر آیا۔ ان میں انکا وہ معصوم بیٹا بالاج بھی تھا جو‘‘سپیشل چائلڈ‘‘ ہے اور جسے دنیا بھر میں سب سے کم عمر سیاسی قیدی قرار دیا گیا تھا۔وہ بیٹیاں بھی موجود تھیں جنہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے سے منع کر دیا گیا تھا۔

یہ سب ایک ایسے سفر کا آغاز ہے جس کے لیئے ہم جیسے کتنے ہی لکھنے والوں کے قلم الفاظ کے بعد اب لہو اگلنے لگے تھے۔ آنکھیں جسیے پتھرا سی گئی تھیں اور سانسوں کی رفتار دھیمی پڑتی نظر محسوس ہوتی لیکن ان چند لمحات نے ہی جیسے ایک نئی قوت دے دی ہے اور مجھے اپنا وہ فلسفہ صادق نظر آتا ہے کہ جسے میں برابر کئی سال سے لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ہمارے عوام کو کسی نے بھی ‘‘عوامی طاقت‘‘ کا شعور ہی نہیں دیا اور اب جب یہ شعور آ گیا ہے تو اب عوام دشمن اور آمر صفت طاقتوں کو یہ فیصلہ بھی خود ہی کرنا ہے کہ کیا وہ اٹھارہ فروری کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ملنے والی عوامی منڈیٹ کا احترام کرنے کو تیار ہیں یا پھر اپنی ناعاقبت اندیشی ،انا پرستی اور ہٹ دھرمی سے اس ملک کو خدا نخواستہ ،خاکم بدہن پھر ایک بار کسی ناگفتہ صورت حال میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔

ایوان صدر کسی کی ذاتی ملکیت نہیں اور نہ ہی یہ عہدہ کسی کو خاندانی وراثت ملا ہے اور نہ ہی اسکا تحفظ امریکہ سمیت کوئی بڑی طاقت کر پائے گی۔ سب سے بڑی طاقت اس قادر مطلق کی جو تمام طاقتوں کو پیدا کرنے والا ہے اور پھر اسکے بعد سب سے بڑی طاقت عوام کی کہ جنکے سامنے دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے سے بڑا آمر اور بڑے سے بڑا طالع آزما بھی نہیں ٹھہر پایا۔

صدر مشرف کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیئے اور آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے کُلی اقتدار کا مزا لوٹنے والے فوجی جرنیل کو شاید ایوان صدر کے فصیل نما دیواروں سے باہر بدلتے ہوئے موسم کا ادراک نہیں ہو رہا اور پاؤں ننگے بھاگتے اور قصر صدارت کی جانب بڑھتے عوام کا شور سنائی نہیں دے رہا۔ اس سے قبل کہ وقت بالکل نہ رہے اور عوام ایسے فیصلے کو اپنے ہاتھ میں لے لیں دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ ‘‘محفوظ راستے‘‘ سے نکل جایا جائے اور ایسے مصلحت پسند مشیروں کی رائے سے اجتناب کیا جائے جو سب اچھا ہے کی نوید سناتے رہتے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمان اب بالا دست ہو گی یہ طے ہو چکا ہے اور ملک کے وزیر اعظم اور حکومت کو اقتدار کی بجائے اختیارات لینے ہوں گے جو اسوقت غاصبانہ طور پر ایک فرد واحد یعنی صدر کی ذات میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس پارلیمان نے سپیکر کے انتخاب سے وزیرا عظم کے انتخاب تک اپنی قوت کا وہ مظاہرہ دکھا دیا ہے جو کسی بھی سوئے ہوئے کو جگانے کے لیئے کافی ہے۔ یہ سوچنا ہو گا کہ اتنی بڑی طاقت کے ساتھ مواخزے کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔

بہتر یہی ہے کہ اب انا کا مسلہ نہ بنایا جائے،ہٹ دھرمی اور ٹکراؤ کی پالیسی سے اجتناب کیا جائے،امریکہ بہادر پر ضرورت سے زیادہ انحصار نہ کیا جائے،عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، عوامی فیصلوں کی آواز سنی جائے، خلق خدا کے موڈ کو محسوس کیا جائے، ہوا کے رخ کا ادراک کیا جائے اور اس قوم پر رحم کیا جائے کہ یہ اب مزید مصائب برداشت نہیں کر سکتی۔

اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ بچے ان نعروں کو پڑھ لیجئے صدر مشرف۔یہ خلق خدا کی آواز ہے اور خلق خدا کے خوابوں کی تعبیر سچ ہونے میں تاخیر تو ہو سکتی ہے لیکن اسے مشعیت خالق رد نہیں کرسکتی۔

No comments: