International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, March 26, 2008
بھارتی سپریم کورٹ نے اسلام میں دو مسلمان بہنوں کے ساتھ بیک وقت شادی جائز قرار دے دی
نئی دہلی ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے دو مسلمانوں بہنوں سے ایک شخص کی بیک وقت شادی کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اسلام مخالف فیصلے سے بھارت بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے دو فاضل جج صاحبان جسٹس التمش کبیر اور جسٹس جے ایم پنچال نے 15 مارچ 2008 ء کو قرآنی آیات کے خلاف ایک فیصلہ صادر کیا ہے جسٹس کبیر نے ایک مسلمان شخص کی دو بہنوں سے بیک وقت آدی کو جائز قرار دیا ہے سپریم کورٹ کے مسلم عقیدے کے اعتبار سے بیوی کے ہوتے بیوی کی بہن سے شادی کرنا قانوناً درست ہے بھارت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا احمد علی قاسمی نے کہا ہیکہ یہ فیصلہ قرآنی آیات کی صریح خلاف ورزی ہے اور مسلم عقیدے کی غلط ترجمانی ہے جس کی اجازت سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو نہیں دی جا سکتی ۔ سپریم کورٹ ‘ تمام ہائی کورٹس اور تمام ذیلی عدالتوں کو دستور ہند اور قانون کے دائرے میں رہ کر تشریح اور فیصلہ کا حق ہے خاص طور پر تمام مذاہب تہذیب و کلچر کو دستور میں جو تحفظ فراہم کیا گیا ہے کوئی عدالت اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی ۔ عدالتوں کا کام ‘ دستور اور قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ کرنا ہے قانون سازی کا اختیار عدالتوں کو ہر گز نہیں ہے قانون ساز ادارے بھی دستوری و بنیادی حقوق کے دائرے کے اندر ہی قانون سازی کر سکتے ہیں قرآن کے حکم کی صریح خلاف ورزی کا حق نہ تو عدالت کو ہے اور نہ ہی قانون ساز اداروں کو اور نہ انتظامیہ کو ۔ آزادی ہند کے 60 سال گزر گئے اور آج بھی ہر سطح پر قانون شریعت اسلامی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اسی لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ان دستوری و بنیادی دفعات کی روشنی میں پارلیمنٹ کے ذریعے واضح اور جامع قانون سازی کی جدوجہد کرے گی ۔ حال ہی میں مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں میں نکاح کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے کوئی بھی مسلمان قرآنی آیات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کو کسی بھی مرحلہ میں قبول نہیں کر سکتا ۔ مولانا نے کہا کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قرآن کے سورہ نساء کی آیت نمبر 23 کی ہدایت کہ ’’ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کی اجازت نہیں ‘‘ ۔ اس سلسلہ ملت کے کسی بھی مکتب فکر اور مسلک کے اندر کوئی اختلاف نہیں ۔ علماء اور دانشوروں اور صحافت سے ہم درخواست کرتے ہیں اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ اور حکومت کو متوجہ کیا جائے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment