پاکستان کے عوام اس وقت تک اپنے آزاد وطن میں محکوم،غلام، بے بس،لاچار، نا انصافی کی وجہ سے ذلیل اور معاشی بد حالی کی وجہ سے خود کشیاں کرتے رہیں گے ۔ جب تک غلامی کے دور کے برطانوی قوانین اور نظام کا خاتمہ ، اور سولہ کروڑ عوام کو ساٹھ سال سے یرغمال بنانے والے مٹھی بر بدیانت لیڈر شپ کو حکومت سازی کے عمل میں شرکت پر پابندی نہیں لگائی جاتی ۔ اور ایسا نظام وضع کرنا ہوگا جس میں ایک عام پاکستانی بھی قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کا نفاذ ہے ۔اس کے بغیر ایوا نوں میں بیٹھے قرضہ چور اور بدمعاش ذہنوں کے حامل غیر جمہوری سیا ستدانوں سے عوام کسی اچھے کی توقع نہ رکھیں۔ اب ہمیں پی سی او ججز تسلیم کرناہوں گے اور تمام معزول جج صاحبان 12مئی 2008ء کو بحال ہو جائیں گے اس مقصد کیلئے اعلان مری کے مطابق قومی اسمبلی قرارداد منظور کریگی اور ا±سی روز ججوں کو بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائیگا۔ آئینی ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو سپریم کورٹ بار کے صدر اعتزاز احسن ،خواجہ حارث ایڈووکیٹ ،عبدالحفیظ پیرزادہ ،رضا ربانی اور فخر الدین جی ابراہیم پر مشتمل ہے۔ عوام نے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے میں آصف زرداری اور انکی ٹیم نے قابل قدر کردار ادا کیا۔ نواز شریف کی کوشش تھی کہ تمام جج اعلان مری کے مطابق 30 اپریل کو بحال ہو جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا جس کا افسوس ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا اور صدر کے تمام آمرانہ اقدامات کو درست کرنا ہوگا مہنگائی اور ناانصافی پر قابو پانا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے جمہوری قوتوں کا اکٹھا رہنا ضروری ہے۔ جبکہ نوازریف نے یہ بھی کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قراردادوں کیخلاف کسی عدالت سے حکم امتناعی جاری نہیں ہو سکتا۔ 8 عظیم کام کیلئے قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں اسلئے ہم نے موجودہ ججوں کو برقرار رکھنے کیلئے آصف زرداری کی تجاویز سے اتفاق کیا ہے قرارداد کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے کنونیئر وفاقی وزیر قانون ہونگے۔ نواز شریف میثاق جمہوریت کے باہر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتے۔آصف زرداری کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ معزول ججز جو بحال ہوں گے یہ کوئی بھی مسائل پیدا نہیں کریں کیونکہ جتنی قوت سیاسی قیادت کے پاس ہے وہ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس نہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے یہ کسی قسم کے مسائل پیدا نہیں کر سکتے۔ اتحاد کے بچانے کے حوالے سے آصف زرداری سے کہا گیاہے کہ اتحادیوں کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور اگر ہم اس ایجنڈے کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اتحاد کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ نواز شریف نے آصف زرداری سے معذرت کر لی تھی کہ اگر ججز بحال نہیں ہوتے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں رہیں گے اور وزارتوں سے الگ ہو جائیں گے۔ معزول ججز کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد چھبیس ہوجائے گی اور بحالی کے بعد تمام ججز اپنے عہدوں پر کام شروع کردیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ججوں کی بحالی سے متعلق قرار داد بارہ مئی کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر مکمل اتفاق کیا ہے۔ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے تمام ججوں کی بحالی کو یقینی بنایا جائیگا ججوں کی بحالی کے حوالے سے واقعات کی کہانی سب کے سامنے ہے لیکن جو کچھ 3 نومبر 2007ء کو ہوا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وزیراعظم کابینہ اور پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے ایک جنرل نے 60 ججوں کو برطرف کردیا۔ اس شرمناک اقدام نے پورے ریاستی اداروں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ وکلائ، سوسائٹی اور معاشرے کے ہر طبقے نے غیر آئینی اقدامات کے خلاف تحریک شروع کی تو( ن) نے اس میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، پہلے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا لیکن بعدازاں انتخابات میں حصہ لیا اور ججوں کی بحالی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور امیدواروں سے حلف لیا کہ وہ اس پر قائم رہیں گے۔ مذاکرات کے بعد آصف علی زرداری کی دبئی میں موجود اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے اہم ذمہ دار شیخ کے محل میں چار گھنٹے تک طویل دورانیے کی بات چیت ہوئی ہے امریکیوں نے آصف علی زرداری اور انکی جماعت کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا وقت دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن پرویز مشرف کے خلاف کم سے کم اقدامات کرنے کی ضمانت آصف علی زرداری سے مانگی ہے۔ دبئی کی شخصیت کی معرفت اس ملاقات میں بہت سے امور طے ہوئے ہیں جس میں صوبہ سرحد میں ان کو اپنا کنٹرول قائم کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ بہت زیادہ آگے بڑھ کر کام کرنے سے باز رہنے کو کہا گیا ہے۔ آصف علی زرداری پر امریکیوں نے دباو¿ بڑھا نا شروع کر دیا ہے۔ ججوں کی بحالی کے معاملہ پر امریکیوں نے آصف کی مدد کرنے کو کہا ہے۔ کہا جا رہا ہے نوازشریف کو مائنس کرنے کیلئے ججوں کی بحالی کافیصلہ صرف اتنے وقت کے لئے ہوگا کہ اگلے کسی نئے حکم کے بعد آصف ججوں کی بحالی کے پریشر سے باہر ہو جائیں گے اور نواز لیگ مری معاہدے کے روح سے اقتدار سے باہر آ جائے گی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے مختلف اہم حلقے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ججوں کی بحالی کے معاملے میں امریکی مداخلت ہو رہی ہے پاکستان میں امریکہ کی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے جاتی عمرہ رائیونڈ میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے ملاقات کی جو ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری رہی ۔ ملاقات کے دوران پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ دونوں رہنماو¿ں نے دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جبکہ نواز شریف نے امریکہ پر ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ ججز کی بحالی پر کسی بھی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور ہمار ے درمیان مذاکرات اور معاملات طے پا چکے ہیں ۔امریکی سفیر جاتی عمرہ پہنچیں تو میاں نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ججز کی بحالی کے حوالے سے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد امریکی سفیر نے نواز شریف سے ملاقات کی خواہش کا اظہا رکیا جس کے بعد دونوں رہنماو¿ں کے درمیا ن یہ ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران امریکی سفیر نے ججز کی بحالی اور دیگر معاملات پر میاں نواز شریف سے بات کی تاہم میاں نواز شریف نے انہیں کہا کہ ججز کی بحالی پاکستانی قوم کا مطالبہ ہے اسی پر ہی ہم نے مینڈیٹ حاصل کیا لہٰذا کچھ بھی ہو جائے ججز کو 2 نومبر کی پوزیشن پر ہر صورت بحال کیا جائے گا ۔
حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کر نے کے لیے اقدامات کرے کیونکہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے سبب ملک کے غریب عوام شدید پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں ملک میں بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے باعث لوگ خودکشی کر رہے ہیں گزشتہ تین ہفتوں میں چاول کی قیمتوں میں بیس سے پچیس روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے ۔ جبکہ کراچی میں قرض کے بوجھ تلے دبے ایک نوجوان نے خودکشی کر لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایل پی جی گیس سلنڈر کا کاروبار کرنے والے 20 سالہ نوجوان طفیل شاہ نے کاروبار کی غرض سے بعض بینکوں سے قرض لیا ہوا تھا جس کی مجموعی مالیت قریباً 15 لاکھ روپے تھی، مگر شہری انتظامیہ نے نیو کراچی نمبر 5 میں قائم اس کی دکان توڑ دی جس کے نتیجے میں اس کا کاروبار ختم ہو گیا اور وہ بینکوں کے قرضے کی قسطیں ادا نہیں کر سکا جس کے باعث وہ ان دنوں سخت پریشان تھا۔ مرحوم کے ایک قریبی عزیز کے مطابق اتوار کو ایم سی بی کا ایک نمائندہ طفیل کے گھر پہنچا تو شرمندگی کے باعث طفیل اس کے سامنے نہیں آیا اور مرحوم کی بہن دروازے پر آئی جسے دیکھ کر بنک کے نمائندے نے شدید سخت و سست کہا۔ پھر اس کی والدہ کو بھی برا بھلا کہا جس کا مرحوم کو شدید دکھ پہنچا اور اس نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے اپنے گھر والوں کے نام ایک خط لکھا اور خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ مرحوم کی لاش عباسی شہید اسپتال پہنچائی گئی۔ جبکہ وطن عزیز میں بدیانت ،بدعنوان،اور بدمعاش حکمرانوں کی صورتحال یہ ہے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افسر شاہی 1400 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہچکچا رہی ہے جس میں 60 ہزار بااثر سیاستدانوں، آرمی افسروں، غیر ملکی کمپنیوں اور کاروباری افراد کے نام شامل ہیں۔ ان افراد نے جنرل مشرف کے دور میں بینکوں سے 54 ارب روپے کے قرضے خاموشی سے معاف کرائے ہیں اور اس قومی لوٹ مار سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے افراد پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ اس نئی صورتحال کا رسوا کن پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پہلے پیش کی تھی جہاں ایک ازخود نوٹس کے تحت ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے لوٹ مار کیخلاف سماعت جاری تھی لیکن پارلیمنٹ میں یہی رپورٹ مختلف حیلے بہانے بنا کر پیش نہیں کی جا رہی۔ اس بات نے ان لوگوں کو حیران کردیا ہے جو ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اس وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جب وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے پاس ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو بتا چکے ہیں کہ مرکزی بینک کو متعلقہ معلومات اکٹھا کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے کسی افسر نے نئے وزیر خزانہ کو نہیں بتایا کہ گزشتہ ماہ یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس ہچکچاہٹ نے اور بھی بہت افسروں کو حیران کردیا ہے اور وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے سٹیٹ بینک کو وہ رپورٹ پیش کرنے سے روک دیا جو پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے شوکت عزیز حکومت کے بااثر افراد نے 54بلین روپے کے قرضے معاف کروائے تھے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے یہ قرضے سیاسی رشوت کے طور پر معاف کئے۔ ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے واجب الادا 54 ارب روپے معاف کر دیئے گئے، جس میں ایک شوگر اور ایک گھی مل پنجاب اور بلوچستان کے وزراء کی ملکیت تھیں۔ ازخود نوٹس کے نتیجے میں سٹیٹ بینک کو ہدایت کی گئی کہ وہ قرض معاف کروانے والوں کے نام پیش کرے اور مرکزی بینک نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان بااثر شخصیات کے ناموں کی فہرست پیش کر دی تھی۔ نئی پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد رکن اسمبلی میاں ستار نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اسمبلی میں سوال کیا اور 1999ء تا 2008ء کے عرصے میں بینکوں سے قرضے معاف کروانے والوں کی فہرست طلب کی۔ اس سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے ہاو¿س کو تحریری طور پر بتایا کہ سٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کو بتایا ہے کہ مطلوبہ معلومات کیونکہ مختلف بینکوں میں بکھری ہوئی ہیں اور 9 سال کے عرصے پر محیط ہے اور قرض لینے والوں کی فہرست بھی طویل ہے۔ ڈار نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے تمام معلومات جمع کرنے کیلئے مزید وقت مانگا ۔ پاکستان کے عوام کا بھی پرزور مطالبہ ہے کہ سابقہ ادوار میں قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے جس معاشرے میں انصاف نہیں رہتا وہاں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔1973ء کا آئین بحال کرکے ملک سے بے روزگاری، بدحالی، بدامنی اور مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے۔ آئین کی بالادستی اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کیلئے عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی ضروری ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ عوام کو سبز باغ دکھانے کی بجائے ان کے حل کیلئے عملی طور پر اقدامات کریں۔ بات ہورہی تھی قرضہ چوروں کی تو اس ضمن میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں شامل وزراء نے 15 ارب روپے کے معاف کردہ قرضوں کی منظوری کیلئے وزیراعظم کی ہی جانب سے پیش کردہ سمری کو مسترد کر دیا تھا۔ اعلیٰ سطحی ذرائع کے مطابق شوکت عزیز نے ہوش اڑا دینے والے 15 ارب روپے کے معاف کردہ قرضوں جو ان کے دور حکومت کے آخری تین سالوں کے دوران معاف کئے گئے تھے کی منظوری کیلئے سمری وفاقی کابینہ کے روبروپیش کی تھی سمری مسترد کرنے سے قبل جب کابینہ نے غیر یقینی کیفیت کے ساتھ دستاویزات کا مطالعہ کیا تو وزراء کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں سمری میں نہ صرف قرضوں پر عائد مارک اپ بلکہ اصلی رقم میں سے بھی 10 ارب روپے کا قرضہ بینکنگ سیکٹر میں موجود شوکت عزیز کے دوست معاف کرا رہے تھے قبل ازیں سینٹ بھی شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے آخری تین سالوں کے دوران معاف کئے جانے والے قرضوں کے بارے میں تفصیلات طلب کر چکی تھی۔ سنیٹر پروفیسر خورشید احمدنے یہ تفصیلات وزارت خزانہ سے حاصل کی تھیں سینٹ میں پیش کی جانے والی سرکاری دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا کہ شوکت عزیزکے دور حکومت کے آخری تین سالوں کے دوران 15 ارب روپے کے خطیر قرضے معاف کئے گئے اس لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والے بڑے صنعتکار تھے جنہوں نے نہ صرف دس ارب روپے کا قرضہ بلکہ اس پر واجب الادا مارک اپ بھی معاف کرا لیا ۔ شوکت عزیز کو کابینہ کے ایک اجلاس میں اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے خاموشی کے ساتھ 15 ارب روپے معاف کردہ قرضوں کی منظوری حاصل کرنے کیلئے دستاویزات اپنی کابینہ کے سامنے پیش کیں یہ قرضے ان کے دور حکومت کے تین سالوں کے دوران معاف کئے گئے تھے شوکت عزیز مستقبل میں احتساب سے محفوظ رہنے کیلئے یہ منظوری حاصل کرنا چاہتے تھے۔تاہم شوکت عزیز کی کابینہ کے اراکین ان کی نیت کے بارے میں شک کا شکار ہو گئے اور سابق وزیراعظم اپنے وزراء کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ وزراء نے شوکت عزیز کو معاف کردہ قرضوں کی منظوری کیلئے پیش کردہ سمری کابینہ کے ایجنڈے سے واپس لینے پر مجبور کردیا کیونکہ قرضے پہلے ہی کابینہ سے پوچھے بغیر وزیراعظم کی ہدایت پر معاف کئے جا چکے تھے۔ کابینہ ایک ایسے ایجنڈے کے اجلاس میں پیش کئے جانے سے چوکنا ہو گئی جو براہ راست ان سے متعلق نہیں تھا۔ شوکت عزیز کو دوران بحث شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ وزراء کی اکثریت حیران تھی کہ شوکت عزیز نے قرضے معاف کرتے وقت تو ان سے مشورہ نہیں کیا لیکن قرضے معاف کرنے کے بعد فیصلے پر کابینہ کی منظوری کی مہر لگوانا چاہتے ہیں۔ ایک اندرونی ذرائع کے مطابق مذکورہ سمری میں 15 ارب کے ان قرضوں کی معافی کی منظوری حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی تھی جو گزشتہ 3 سالوں کے دوران قومی بنکوں نے معاف کئے تھے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ مذکورہ قرضے متعلقہ بنکوں کے بورڈز نے مناسب قوانین کے تحت معاف کئے ہیں۔ شوکت عزیز نے دلیل دی کہ کابینہ کی منظوری محض رسمی کارروائی ہے بصورت دیگر ان بنکوں کو قرضے معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم وزراء نے شوکت عزیز کے اس کمزور موقف کو تسلیم نہیں کیا اور وزیراعظم کی غلطیوں کی بلا روک ٹوک منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ ججوں کی بحالی کو پارلیمنٹ میں نہیں فیصلہ چند لوگ کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کے اشارے پر فیصلے ہوتے ہیں کیونکہ جس روز جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے رفقاء باقاعدہ بحال ہو جائیں گے تو صدر مشرف کی صدارت خطرے میں پڑ جائے گی جو لوگ ججوں کی بحالی میں امتیازی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ فلاں بحال ہو جائے اور فلاں نہ ہو یہ درست نہیں، قیام پاکستان کے 60سال گزرنے کے بعد بھی ہم لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔کسی حکومت نے بھی عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ حق ہمیشہ باطل پر غالب آیا ہے افتخار محمد چودھری کی جنگ ذاتی مفاد کے لیے نہیں قانون اور عدلیہ کی بالادستی کیلئے ہے، وکلا بھی ذاتی نہیں بلکہ سولہ کروڑ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
بدعنوان قیادت اور مظلوم عوام ۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی پاکستان کے عوام اس وقت تک اپنے آزاد وطن میں محکوم،غلام، بے بس،لاچار، نا انصافی کی وجہ سے ذلیل اور معاشی بد حالی کی وجہ سے خود کشیاں کرتے رہیں گے ۔ جب تک غلامی کے دور کے برطانوی قوانین اور نظام کا خاتمہ ، اور سولہ کروڑ عوام کو ساٹھ سال سے یرغمال بنانے والے مٹھی بر بدیانت لیڈر شپ کو حکومت سازی کے عمل میں شرکت پر پابندی نہیں لگائی جاتی ۔ اور ایسا نظام وضع کرنا ہوگا جس میں ایک عام پاکستانی بھی قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کا نفاذ ہے ۔اس کے بغیر ایوا نوں میں بیٹھے قرضہ چور اور بدمعاش ذہنوں کے حامل غیر جمہوری سیا ستدانوں سے عوام کسی اچھے کی توقع نہ رکھیں۔ اب ہمیں پی سی او ججز تسلیم کرناہوں گے اور تمام معزول جج صاحبان 12مئی 2008ء کو بحال ہو جائیں گے اس مقصد کیلئے اعلان مری کے مطابق قومی اسمبلی قرارداد منظور کریگی اور ا±سی روز ججوں کو بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائیگا۔ آئینی ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو سپریم کورٹ بار کے صدر اعتزاز احسن ،خواجہ حارث ایڈووکیٹ ،عبدالحفیظ پیرزادہ ،رضا ربانی اور فخر الدین جی ابراہیم پر مشتمل ہے۔ عوام نے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے میں آصف زرداری اور انکی ٹیم نے قابل قدر کردار ادا کیا۔ نواز شریف کی کوشش تھی کہ تمام جج اعلان مری کے مطابق 30 اپریل کو بحال ہو جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا جس کا افسوس ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا اور صدر کے تمام آمرانہ اقدامات کو درست کرنا ہوگا مہنگائی اور ناانصافی پر قابو پانا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے جمہوری قوتوں کا اکٹھا رہنا ضروری ہے۔ جبکہ نوازریف نے یہ بھی کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قراردادوں کیخلاف کسی عدالت سے حکم امتناعی جاری نہیں ہو سکتا۔ 8 عظیم کام کیلئے قربانی دینے میں کوئی حرج نہیں اسلئے ہم نے موجودہ ججوں کو برقرار رکھنے کیلئے آصف زرداری کی تجاویز سے اتفاق کیا ہے قرارداد کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے کنونیئر وفاقی وزیر قانون ہونگے۔ نواز شریف میثاق جمہوریت کے باہر کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتے۔آصف زرداری کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ معزول ججز جو بحال ہوں گے یہ کوئی بھی مسائل پیدا نہیں کریں کیونکہ جتنی قوت سیاسی قیادت کے پاس ہے وہ عدالتوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس نہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے یہ کسی قسم کے مسائل پیدا نہیں کر سکتے۔ اتحاد کے بچانے کے حوالے سے آصف زرداری سے کہا گیاہے کہ اتحادیوں کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور اگر ہم اس ایجنڈے کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اتحاد کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ نواز شریف نے آصف زرداری سے معذرت کر لی تھی کہ اگر ججز بحال نہیں ہوتے تو وہ کابینہ کا حصہ نہیں رہیں گے اور وزارتوں سے الگ ہو جائیں گے۔ معزول ججز کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد چھبیس ہوجائے گی اور بحالی کے بعد تمام ججز اپنے عہدوں پر کام شروع کردیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ججوں کی بحالی سے متعلق قرار داد بارہ مئی کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر مکمل اتفاق کیا ہے۔ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے تمام ججوں کی بحالی کو یقینی بنایا جائیگا ججوں کی بحالی کے حوالے سے واقعات کی کہانی سب کے سامنے ہے لیکن جو کچھ 3 نومبر 2007ء کو ہوا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وزیراعظم کابینہ اور پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے ایک جنرل نے 60 ججوں کو برطرف کردیا۔ اس شرمناک اقدام نے پورے ریاستی اداروں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ وکلائ، سوسائٹی اور معاشرے کے ہر طبقے نے غیر آئینی اقدامات کے خلاف تحریک شروع کی تو( ن) نے اس میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، پہلے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا لیکن بعدازاں انتخابات میں حصہ لیا اور ججوں کی بحالی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا اور امیدواروں سے حلف لیا کہ وہ اس پر قائم رہیں گے۔ مذاکرات کے بعد آصف علی زرداری کی دبئی میں موجود اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے اہم ذمہ دار شیخ کے محل میں چار گھنٹے تک طویل دورانیے کی بات چیت ہوئی ہے امریکیوں نے آصف علی زرداری اور انکی جماعت کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا وقت دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن پرویز مشرف کے خلاف کم سے کم اقدامات کرنے کی ضمانت آصف علی زرداری سے مانگی ہے۔ دبئی کی شخصیت کی معرفت اس ملاقات میں بہت سے امور طے ہوئے ہیں جس میں صوبہ سرحد میں ان کو اپنا کنٹرول قائم کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ بہت زیادہ آگے بڑھ کر کام کرنے سے باز رہنے کو کہا گیا ہے۔ آصف علی زرداری پر امریکیوں نے دباو¿ بڑھا نا شروع کر دیا ہے۔ ججوں کی بحالی کے معاملہ پر امریکیوں نے آصف کی مدد کرنے کو کہا ہے۔ کہا جا رہا ہے نوازشریف کو مائنس کرنے کیلئے ججوں کی بحالی کافیصلہ صرف اتنے وقت کے لئے ہوگا کہ اگلے کسی نئے حکم کے بعد آصف ججوں کی بحالی کے پریشر سے باہر ہو جائیں گے اور نواز لیگ مری معاہدے کے روح سے اقتدار سے باہر آ جائے گی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے مختلف اہم حلقے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ ججوں کی بحالی کے معاملے میں امریکی مداخلت ہو رہی ہے پاکستان میں امریکہ کی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے جاتی عمرہ رائیونڈ میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے ملاقات کی جو ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری رہی ۔ ملاقات کے دوران پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ دونوں رہنماو¿ں نے دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جبکہ نواز شریف نے امریکہ پر ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ ججز کی بحالی پر کسی بھی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور ہمار ے درمیان مذاکرات اور معاملات طے پا چکے ہیں ۔امریکی سفیر جاتی عمرہ پہنچیں تو میاں نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ججز کی بحالی کے حوالے سے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد امریکی سفیر نے نواز شریف سے ملاقات کی خواہش کا اظہا رکیا جس کے بعد دونوں رہنماو¿ں کے درمیا ن یہ ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران امریکی سفیر نے ججز کی بحالی اور دیگر معاملات پر میاں نواز شریف سے بات کی تاہم میاں نواز شریف نے انہیں کہا کہ ججز کی بحالی پاکستانی قوم کا مطالبہ ہے اسی پر ہی ہم نے مینڈیٹ حاصل کیا لہٰذا کچھ بھی ہو جائے ججز کو 2 نومبر کی پوزیشن پر ہر صورت بحال کیا جائے گا ۔
حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کر نے کے لیے اقدامات کرے کیونکہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے سبب ملک کے غریب عوام شدید پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں ملک میں بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے باعث لوگ خودکشی کر رہے ہیں گزشتہ تین ہفتوں میں چاول کی قیمتوں میں بیس سے پچیس روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے ۔ جبکہ کراچی میں قرض کے بوجھ تلے دبے ایک نوجوان نے خودکشی کر لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایل پی جی گیس سلنڈر کا کاروبار کرنے والے 20 سالہ نوجوان طفیل شاہ نے کاروبار کی غرض سے بعض بینکوں سے قرض لیا ہوا تھا جس کی مجموعی مالیت قریباً 15 لاکھ روپے تھی، مگر شہری انتظامیہ نے نیو کراچی نمبر 5 میں قائم اس کی دکان توڑ دی جس کے نتیجے میں اس کا کاروبار ختم ہو گیا اور وہ بینکوں کے قرضے کی قسطیں ادا نہیں کر سکا جس کے باعث وہ ان دنوں سخت پریشان تھا۔ مرحوم کے ایک قریبی عزیز کے مطابق اتوار کو ایم سی بی کا ایک نمائندہ طفیل کے گھر پہنچا تو شرمندگی کے باعث طفیل اس کے سامنے نہیں آیا اور مرحوم کی بہن دروازے پر آئی جسے دیکھ کر بنک کے نمائندے نے شدید سخت و سست کہا۔ پھر اس کی والدہ کو بھی برا بھلا کہا جس کا مرحوم کو شدید دکھ پہنچا اور اس نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے اپنے گھر والوں کے نام ایک خط لکھا اور خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ مرحوم کی لاش عباسی شہید اسپتال پہنچائی گئی۔ جبکہ وطن عزیز میں بدیانت ،بدعنوان،اور بدمعاش حکمرانوں کی صورتحال یہ ہے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افسر شاہی 1400 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہچکچا رہی ہے جس میں 60 ہزار بااثر سیاستدانوں، آرمی افسروں، غیر ملکی کمپنیوں اور کاروباری افراد کے نام شامل ہیں۔ ان افراد نے جنرل مشرف کے دور میں بینکوں سے 54 ارب روپے کے قرضے خاموشی سے معاف کرائے ہیں اور اس قومی لوٹ مار سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے افراد پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ اس نئی صورتحال کا رسوا کن پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پہلے پیش کی تھی جہاں ایک ازخود نوٹس کے تحت ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے لوٹ مار کیخلاف سماعت جاری تھی لیکن پارلیمنٹ میں یہی رپورٹ مختلف حیلے بہانے بنا کر پیش نہیں کی جا رہی۔ اس بات نے ان لوگوں کو حیران کردیا ہے جو ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اس وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جب وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے پاس ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو بتا چکے ہیں کہ مرکزی بینک کو متعلقہ معلومات اکٹھا کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے کسی افسر نے نئے وزیر خزانہ کو نہیں بتایا کہ گزشتہ ماہ یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس ہچکچاہٹ نے اور بھی بہت افسروں کو حیران کردیا ہے اور وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے سٹیٹ بینک کو وہ رپورٹ پیش کرنے سے روک دیا جو پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے شوکت عزیز حکومت کے بااثر افراد نے 54بلین روپے کے قرضے معاف کروائے تھے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے یہ قرضے سیاسی رشوت کے طور پر معاف کئے۔ ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے واجب الادا 54 ارب روپے معاف کر دیئے گئے، جس میں ایک شوگر اور ایک گھی مل پنجاب اور بلوچستان کے وزراء کی ملکیت تھیں۔ ازخود نوٹس کے نتیجے میں سٹیٹ بینک کو ہدایت کی گئی کہ وہ قرض معاف کروانے والوں کے نام پیش کرے اور مرکزی بینک نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان بااثر شخصیات کے ناموں کی فہرست پیش کر دی تھی۔ نئی پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد رکن اسمبلی میاں ستار نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اسمبلی میں سوال کیا اور 1999ء تا 2008ء کے عرصے میں بینکوں سے قرضے معاف کروانے والوں کی فہرست طلب کی۔ اس سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے ہاو¿س کو تحریری طور پر بتایا کہ سٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کو بتایا ہے کہ مطلوبہ معلومات کیونکہ مختلف بینکوں میں بکھری ہوئی ہیں اور 9 سال کے عرصے پر محیط ہے اور قرض لینے والوں کی فہرست بھی طویل ہے۔ ڈار نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے تمام معلومات جمع کرنے کیلئے مزید وقت مانگا ۔ پاکستان کے عوام کا بھی پرزور مطالبہ ہے کہ سابقہ ادوار میں قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے جس معاشرے میں انصاف نہیں رہتا وہاں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔1973ء کا آئین بحال کرکے ملک سے بے روزگاری، بدحالی، بدامنی اور مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے۔ آئین کی بالادستی اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کیلئے عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی ضروری ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ عوام کو سبز باغ دکھانے کی بجائے ان کے حل کیلئے عملی طور پر اقدامات کریں۔ بات ہورہی تھی قرضہ چوروں کی تو اس ضمن میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں شامل وزراء نے 15 ارب روپے کے معاف کردہ قرضوں کی منظوری کیلئے وزیراعظم کی ہی جانب سے پیش کردہ سمری کو مسترد کر دیا تھا۔ اعلیٰ سطحی ذرائع کے مطابق شوکت عزیز نے ہوش اڑا دینے والے 15 ارب روپے کے معاف کردہ قرضوں جو ان کے دور حکومت کے آخری تین سالوں کے دوران معاف کئے گئے تھے کی منظوری کیلئے سمری وفاقی کابینہ کے روبروپیش کی تھی سمری مسترد کرنے سے قبل جب کابینہ نے غیر یقینی کیفیت کے ساتھ دستاویزات کا مطالعہ کیا تو وزراء کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں سمری میں نہ صرف قرضوں پر عائد مارک اپ بلکہ اصلی رقم میں سے بھی 10 ارب روپے کا قرضہ بینکنگ سیکٹر میں موجود شوکت عزیز کے دوست معاف کرا رہے تھے قبل ازیں سینٹ بھی شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے آخری تین سالوں کے دوران معاف کئے جانے والے قرضوں کے بارے میں تفصیلات طلب کر چکی تھی۔ سنیٹر پروفیسر خورشید احمدنے یہ تفصیلات وزارت خزانہ سے حاصل کی تھیں سینٹ میں پیش کی جانے والی سرکاری دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا کہ شوکت عزیزکے دور حکومت کے آخری تین سالوں کے دوران 15 ارب روپے کے خطیر قرضے معاف کئے گئے اس لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والے بڑے صنعتکار تھے جنہوں نے نہ صرف دس ارب روپے کا قرضہ بلکہ اس پر واجب الادا مارک اپ بھی معاف کرا لیا ۔ شوکت عزیز کو کابینہ کے ایک اجلاس میں اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے خاموشی کے ساتھ 15 ارب روپے معاف کردہ قرضوں کی منظوری حاصل کرنے کیلئے دستاویزات اپنی کابینہ کے سامنے پیش کیں یہ قرضے ان کے دور حکومت کے تین سالوں کے دوران معاف کئے گئے تھے شوکت عزیز مستقبل میں احتساب سے محفوظ رہنے کیلئے یہ منظوری حاصل کرنا چاہتے تھے۔تاہم شوکت عزیز کی کابینہ کے اراکین ان کی نیت کے بارے میں شک کا شکار ہو گئے اور سابق وزیراعظم اپنے وزراء کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ وزراء نے شوکت عزیز کو معاف کردہ قرضوں کی منظوری کیلئے پیش کردہ سمری کابینہ کے ایجنڈے سے واپس لینے پر مجبور کردیا کیونکہ قرضے پہلے ہی کابینہ سے پوچھے بغیر وزیراعظم کی ہدایت پر معاف کئے جا چکے تھے۔ کابینہ ایک ایسے ایجنڈے کے اجلاس میں پیش کئے جانے سے چوکنا ہو گئی جو براہ راست ان سے متعلق نہیں تھا۔ شوکت عزیز کو دوران بحث شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ وزراء کی اکثریت حیران تھی کہ شوکت عزیز نے قرضے معاف کرتے وقت تو ان سے مشورہ نہیں کیا لیکن قرضے معاف کرنے کے بعد فیصلے پر کابینہ کی منظوری کی مہر لگوانا چاہتے ہیں۔ ایک اندرونی ذرائع کے مطابق مذکورہ سمری میں 15 ارب کے ان قرضوں کی معافی کی منظوری حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی تھی جو گزشتہ 3 سالوں کے دوران قومی بنکوں نے معاف کئے تھے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ مذکورہ قرضے متعلقہ بنکوں کے بورڈز نے مناسب قوانین کے تحت معاف کئے ہیں۔ شوکت عزیز نے دلیل دی کہ کابینہ کی منظوری محض رسمی کارروائی ہے بصورت دیگر ان بنکوں کو قرضے معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم وزراء نے شوکت عزیز کے اس کمزور موقف کو تسلیم نہیں کیا اور وزیراعظم کی غلطیوں کی بلا روک ٹوک منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ ججوں کی بحالی کو پارلیمنٹ میں نہیں فیصلہ چند لوگ کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کے اشارے پر فیصلے ہوتے ہیں کیونکہ جس روز جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے رفقاء باقاعدہ بحال ہو جائیں گے تو صدر مشرف کی صدارت خطرے میں پڑ جائے گی جو لوگ ججوں کی بحالی میں امتیازی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ فلاں بحال ہو جائے اور فلاں نہ ہو یہ درست نہیں، قیام پاکستان کے 60سال گزرنے کے بعد بھی ہم لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔کسی حکومت نے بھی عوام کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ حق ہمیشہ باطل پر غالب آیا ہے افتخار محمد چودھری کی جنگ ذاتی مفاد کے لیے نہیں قانون اور عدلیہ کی بالادستی کیلئے ہے، وکلا بھی ذاتی نہیں بلکہ سولہ کروڑ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment