International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 1, 2008

کیا واشنگٹن ایک غیر مستحکم پاکستان میں دلچسپی رکھتا ہے,عوام کیخلاف ایک بہت بڑی سازش : تحریر اے پی ایس ،اسلام آباد

آئینی پیکج کی منظوری تک پارلیمنٹ خطرے میں رہے گی کیونکہ ماضی کی ترامیم نے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کیلئے ایسی تمام ترامیم کا خاتمہ ضروری ہے کا لا باغ ڈیم کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں بحث کرانا ضروری نہیں ہے یہ ایک سیاسی معاملہ تھا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے پارلیمنٹیرینز ، سیاستدانوں اور میڈیا کوکردار ادا کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔ پارلیمنٹ کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگااور ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو پارلیمانی جمہوری نظام کے راستے میں حائل ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ دنوں مسلم دنیا کی پہلی خاتون اول سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے صحافیوں کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیہ کے موقع پر کیا۔ انہوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کے انتظامات کئے جارہے ہیں لیکن میڈیا کارروائی کے حذف شدہ حصے ہرگز شائع اور نشر نہ کرے، 8سالہ آمریت کے بعد جمہوریت پنپنے لگی ہے اب مثبت پہلووں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے سیشنز کیلئے پارلیمنٹ کیلنڈر تیار کرلیاگیا ہے ۔ بچت مہم کے تحت قومی اسمبلی بجٹ کے 35کروڑ روپے حکومت کو واپس کردےئے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں میڈیا اور پارلیمان کے درمیان بہتر اور قریبی رابطے ضروری ہیں۔ میڈیا پارلیمنٹ کے فیصلوں کوعوام تک پہنچانے کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے ، اس کردار کو وسعت دینا ضروری ہے ۔ جس کیلئے قومی اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ عوام کی پارلیمنٹ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔ صحافیوں اور سیاسی ورکرز نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اسی لئے 8سالہ دور آمریت کے بعد جمہوریت کی بحالی کو ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے ۔ جس کا احساس مجھے آئی پی یو کی کانفرنس سے ہوا جو حال ہی میں جنوبی افریقہ میں منعقد ہوئی تھی ۔ آئی پی یو پارلیمنٹ کے اجلاس کی صدارت دراصل پاکستان کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ انہوں نے کہاکہ 8سالہ آمریت کے بعد ملک میں جمہوریت پنپنے لگی ہے ۔ ہمیں منفی کے بجائے مثبت پہلوو¿ں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ اسپیکر نے میڈیا سے کہاکہ قومی اسمبلی کی کارروائی کے حذف شدہ حصوں کو ہرگز شائع اور نشر نہ کیاجائے۔ اس بارے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔مسائل اجاگر کرنے اور پالیسی سازی میں میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو پارلیمان کے باہر فیصلے کرنے کے اختیارات حاصل ہیں کیو نکہ قوم نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے اور جب یہ معاملہ اسمبلی میں لایا جائے تو اس پر ارکان اسمبلی بحث کریں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ تجویز کردہ قانونی سازی کے معاملات پر اپنا ابتدائی کام مکمل کریں ،انہوں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک سیاسی معاملہ تھا اور تین صوبوں نے ویسے بھی اس کے خلاف قراردادیں پاس کردیں تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔اسیر ارکان پارلیمنٹ کو پیش کرنے کے اصول پر عملدرآمد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پر قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں نے ماضی سے سبق سیکھ لئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزراءکی پارلیمان میں موجودگی کو یقینی بنانا پارٹی قائدین کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ بھی اس معاملے پر نظر رکھیں گی تا کہ ارکان اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہوں۔ سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے گزارش ہے کہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران صحافیوں کو پریس کارڈ حاصل کرنے میں دشواری کو بھی ختم کیا جائے کیونکہ سابقہ اجلاسوں کے دوران کارڈ جاری کرے والے متعلقہ ا ہلکاروں کا رویہ دیکھنے میں یہ آیا ہے ایسے صحافی جن کی ایکریڈیشن کے علاوہ اپنے اخبار یا ایجنسی کے ڈیکلریشن بھی ہیں ان کو بھی پریس کارڈ حاصل کرنے میں ذلیل کیا جاتا ہے جبکہ ان کا یہ حق ہے اور متعلقہ اہلکاروں کا یہ فرض ہے کہ قومی اسمبلی کے پریس کارڈ کے اجراء اور اس کے حصول میں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ جبکہ سپیکر قو می اسمبلی سے گزارش ہے کہ وہ پی آئی ڈی سے نئی میڈیا لسٹ منگوائیں تاکہ اس کے مطابق بعد میں شامل ہونے والے ایکریڈٹ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔ کیونکہ ہر اجلاس کے دوران ان اداروں کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے جبکہ فٹ پاتھوں پر ملنے والے صحافی جن کی کسی اخبار یا کسی بھی صحافتی ادارے سے وابستگی نہیں وہ کارڈ پہلے حاصل کر لیتے ہیں۔ اور اس بات کا بھی سختی سے نوٹس لیا جائے کہ ایک ادارے کو بیس بیس کارڈ جاری کر دیے جاتے ہیں جبکہ کسی ادارے کو ایک کارڈ بھی جاری نہیں کیا جا تا اس ضمن میں سپیکر قو می اسبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن ، اور پی آئی او چودھری غلا م حضور باجوہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ تما م اداروں کے ساتھ اگرچہ یکساں سلوک نہیں کیا جا تا تو کم از کم کسی کو نظر انداز بھی نہ کیا جا ئے۔ اگرچہ بڑے اداروں کا پارلیمانی رپورٹنگ کہلئے سٹاف زیادہ ہے لیکن کسی کو یہ بھی حق نہیں پہنچتا کسی ادارے کے اٰ یڈ یٹر کو نظر انداز کر کے کسی دوسرے ادارے کے کیمرہ مین کو تر جیح دیں۔ مذکورہ بالا حکام سے آخری گزارش ہے کہ متعلقہ اہلکار جو اسمبلی کے پریس کارڈ کے اجراءکے فرائض پر مامور ہیں انھیں یہ بھی پتہ ہو کہ ڈائر یکٹر( پارلیمنٹ) پریس، پی آئی ڈی بڑا ہوتا ہے یا پی آئی او کیونکہ گذشتہ دنوں راقم الحروف کا پریس کارڈ کے حصول کیلئے پی آئی ڈی جانے کا اتفاق ہوا۔اس ضمن میں راقم الحروف نے ایک درخواست اور ایکریڈیشن کارڈ کی کا پی متعلقہ برانچ کے ایک اہلکار کو دی۔ یہ اہلکار جو کارڈ بنانے کے فرائض پر ما مور ہے وہ اس ادارے کا نائب قاصد تھا وہ تکرار کرنے لگا کہ آپ درخواست پر میڈم کے دستخط کروالیں میں نے اسے کہا کہ جب پی آئی او صاحب نے ایکریڈیشن کا رڈ پر دستخط کئے ہوئے ہیں تو میڈم کے دستخطوں کی کیا ضرورت ہے میں نے اسے مزید کہا کہ آپ یہ درخوست میڈم کو دے دینا وہ خود دیکھ لے گی کہ اس کا کا رڈ بنا نا ہے کہ نہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اہلکار جنہیں یہ معلوم نہیں کہ پی آئی او بڑا ہوتا ہے یا ڈائریکٹر یا اگر انھیں یہ ساری باتیں معلوم ہیں تو سمجھ لیں کہ وہ خواہ مخواہ دوسرں کو پریشان کر رہے ہیں۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ماضی میں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھی رہے تاہم دوستی کو نظر لگ گئی اور سازشوں کے ذریعے فاصلے پیدا ہوئے، وہ ہفتہ کو شاہی سید کی رہائش گاہ پر اے این پی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی سے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں 12مئی کے واقعات پر افسوس ہے ، انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہم قریب آگئے اور دوستیاں مضبوط ہو رہی ہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی پشتو اور اردو بولنے والوں کے درمیان بھائی چارے کیلئے کام کرے گی، ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرکے آگے بڑھنا چاہئے ہم کل بھی بھائی تھے اور آج بھی بھائی ہیں انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج میں صوبے کا نام پختون خواہ نام رکھنا خوش آئند ہے، اسفند یار ولی نے کہا کہ آپ بھی بھائی چارہ اور امن کی کوشش کریں اسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، نیک نیتی سے کام کرکے لوگوں کے مسائل حل کرینگے، آئندہ کسی سازش کا شکار نہیں ہونگے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہے ۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور عوامی نیشنل پارٹی نے سانحہ 12مئی 2007ء کی تحقیقات عدالتی کمیشن کے ذریعے کرانے پر اتفاق کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ میں ملوث مجرموں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار ، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کے ہمراہ شاہی سید کی رہائش گاہ پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر محمد امین خٹک ، ایم کیو ایم کے رہنما بابر خان غوری، شعیب احمد بخاری ، وسیم آفتاب و دیگر بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں اے این پی کے رہنماو¿ں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ملاقات کا اہتمام کیا، یہ ملاقات ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی خواہش پر کی جارہی ہے اور اس سے دونوں جماعتوں کے درمیان محبت اور اخوت بڑھے گی، غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا اور دونوں جماعتیں ملکر شہر کراچی کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں گی ۔ انہوں نے کہا کہ 1980ء کی دہائی میں ایک سازش کرتے ہوئے کراچی میں قیام پزیر اکائیوں کو دست گریباں کرایا گیا اس موقع پر قائد تحریک الطاف حسین نے جیل سے ولی خان کے نام لکھے گئے خط میں باچا خان کے فلسفے سے اتفاق کرتے ہوئے یہ پیغام دیا تھا کہ سازشوں کا قلع قمع کیا جائے اور بھائیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے ، ہم آہنگی کا یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن اس کے ساتھ سازشیں بھی چلتی رہیں، انہوں نے کہا کہ اے این پی اور ایم کیو ایم ہمیشہ فطری اتحادی رہی ہیں اور دونوں نے کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے اس بات کا شدت سے احساس کیا جارہا تھا کہ غلط فہمیاں دور کی جائیں ، دل سے ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور کراچی میں موجود کثیر یکجہتی بحران سے مشترکہ طور پر نمٹا جائے انہوں نے کہا کہ آج ہماری دونوں کی کوششیں رنگ لائیں اور ہم اس موقع پر قوم کو خوشخبری دینا چاہتے ہیں، ہمارے درمیان بہت سے ایشوز پر بات ہوئی ہے اور دونوں جماعتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اگر صوبائی سطح پر کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی ملکر مسئلے کا حل نکالیں گے ہم یہاں خلوص دل سے آئے ہیں اور مل جل کر کام کریں گے ، اسی میں سب کی بھلائی ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجلی وپانی کے بحران سے ملکر نمٹنا ہو گا۔ ایک سوال پر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ حالیہ رابطے کے سبب دوریاں ختم ہوں گی‘ فاصلے مٹیں گے اور جو خوف کی فضا ہے اس کا یقینا خاتمہ ہو گا۔ اس موقع پر اسفند یار ولی نے کہا کہ ہمارے درمیان دو تین باتوں پر تبادلہ خیال ہوا ہے اور اس بات پر اتفاق ہے کہ اس شہر کو دونوں جماعتوں نے روشنیوں کا شہر بنانے میں کردار اد اکیا ہے‘ ہمارے دو تین اہم ایشو ہیں جس پر بات کرنا چاہتے ہیں اس میں کچی آبادی‘ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم قبائلی علاقوں میں امن قائم کر سکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں‘ ہم متحد ہو کر مسئلے حل کر سکتے ہیں تاہم اس کے لئے ایک ہی ملاقات میں سب کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں جو قومی مفاہمتی عمل شروع ہوا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے دونوں جماعتیں آگے بڑھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی انا کو چھوڑ کر آگے جانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملاقات میں سارے معاملات ختم نہیں ہو سکتے اس کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک سوال پر اسفند یار ولی نے کہا کہ ہم نواز شریف کو بھی اس بات کے لئے ضرورت پڑنے پر تیار کریں گے کہ وہ کراچی میں امن کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ صوبائی قیادتیں ملکر مسئلے کا حل نکال لیں گی اور الطاف حسین کو زحمت نہیں دینا پڑیگی۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ تو حکومتوں میں شامل ہیں تو پھر یہ مطالبہ کس سے کررہے ہیں تو اسفند یار ولی نے کہا کہ ہم حکومت میں شامل ضرور ہیں لیکن حکومت میں اہم شراکت دار کوئی اور جماعت ہے جس کی رضا مندی ضروری ہے۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بات پر بالکل متفق ہیں کہ سانحہ 12 مئی کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ جبکہ عوام نے کہا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت میں کارروائی اور اعتماد کی کمی نے ملک کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا ہے جبکہ شکست خوردہ لیکن ضدی صدر اس سیاسی نظام کو تباہ کرکے اپنا بدلہ لینے کیلئے پرعزم ہیں جس کو وہ قابو نہیں کرپائے۔ ایک ایسے وقت میں جب مختلف اقسام سے بھرپور اتحادی مجمع کی نہ کوئی سمت متعین ہے اور نہ اسے کسی بات کا پتا ہے، سیاسی قیادت اپنی صلاحیتوں سے ہونے والے نقصانات اور معاملات پر قابو پانے میں افسوس اور نا امیدی کے ساتھ ناکام ہو رہی ہے۔ مینڈیٹ بالکل واضح طور پر صدر پرویز مشرف کے خلاف تھا لیکن انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور زبردستی خود کو منوا رہے ہیں، امید کر رہے ہیں کہ دوسرے غلطیاں کریں گے اور انہیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس مل جائے گی اور ساکھ بحال ہوجائے گی۔ یہ خطرناک سوچ ملکی مفاد کے خلاف ہے اور اس سے ملک کو المناک نقصان ہوسکتا ہے جو کہ ان کی سوچ او رسمجھ سے بالاتر ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ایک ایسا اتحاد تشکیل دیا ہے جو بے رنگ ہے اور اصولوں، خیالات اور کسی بھی طرح کے معیار سے عاری ہے اور ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک قو می تجزیہ نگارنے یہ بھی کہا ہے کہ ملک کو جن بڑے، تباہ کن اور خوفناک سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں سیاستدان پریشان ہیں اور نہ ہی فوجی جرنیل۔ دونوں خاموشی کے ساتھ الزام اور ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر عالمی بینک اور امداد دینے والے دیگر مغربی اداروں نے ایسے سخت اور مشکل مطالبات کرنا شروع کردیئے ہیں کہ قومی اتحاد کی ایک حکومت کو بھی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ان پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آئیں گی؛ جس سے پہلے سے کچلے ہوئے عوام دل شکستہ اور بے یارو مددگار ہوجائیں گے۔ ایک مثال یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے الٹی میٹم دیا ہے کہ چند ماہ میں بجلی کے نرخوں میں 110 فیصد اضافہ کیا جائے یعنی بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت ساڑھے پانچ روپے سے ساڑھے 12 روپے ہوجائے گی۔ یہ مشورہ نہیں بلکہ ایک حکم ہے۔ سیاسی طور پر اس طرح کے اضافے کا مطلب کیا ہوگا یہ بالکل واضح ہے۔ اسی طرح سے صدر پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جوکروں کو انتخابات میں جتوانے کیلئے جس طرح سے ہر سخت اور مشکل فیصلے کو ٹال دیا، اس سے نئی حکومت کے پاس پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کرنے، اسٹاک ایکسچینج پر اثر انداز ہونے یا کسی اور طرح کی چالاکی دکھانے کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ مغربی طاقتیں، خصوصاً امریکا، اب تک پریشان ہیں کہ آخر کس کی حمایت کی جائے۔ آسان آپشن یہ ہے کہ صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور صدر پرویز کی حمایت جاری رکھی جائے لیکن امریکا کو یہ احساس نہیں کہ جب تک مشرف کرسی پر موجود رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آئیگا۔ اس ہی پریشانی میں نئی حکومت کی مدد کرنے کی بجائے، واشنگٹن پھندے کو مزید کسنے میں مصروف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے اس نے پاکستان کی جانب سے خرچ کی گئی رقم کی نقد ادائیگی روک دی ہے۔ اس نے سعودی عرب کے بازو بھی مروڑ دیئے ہیں کہ پاکستان کو سستا یا مفت تیل فراہم نہ کیا جائے جس طرح وہ ماضی میں آمروں کو فراہم کرتا رہا ہے۔ اس نے پاکستان پر دباو¿ ڈالنے کیلئے آئی ایم ایف / عالمی بینک کو بھی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے اپنے اسٹیٹ بینک، جسے نظام کی ناکامیوں کیخلاف دفاع کرنا چاہئے تھا، نے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجانا اور بحران سے خبردار کرنا شروع کردیا ہے۔ اسلئے اگر واشنگٹن ایک غیر مستحکم پاکستان میں دلچسپی رکھتا ہے تو یہ بہتر حکمت عملی ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ یہ سوچ رہا ہے کہ اسلام آباد پر دباو¿ ڈال کر جمہوری تجربہ جلد ناکام ہوجائے گا اور پاکستانی عوام مخالف دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کیلئے ایک اور جرنیل فوجی حکمرانی نافذ کردے گا تو وہ بہت دور کی سوچ رہا ہے۔ تیزی سے گزرتے ہوئے گھنٹے، دن اور ہفتے ایک ایسی مستحکم حکومت کا تقاضا کرتے ہیں جو حقیقی مسائل کو حل کرسکے لیکن وہ ترکیب جو استعمال کی جا رہی ہے وہ ساکھ سے محروم صدر، پارلیمنٹ میں سمجھوتہ کرچکی سیاسی قیادت اور ہر غلطی پر پردہ ڈالنے والی لچکدار عدلیہ کا ملیدہ ہے۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔ لیکن وہ لوگ جنہیں فیصلہ کرنا ہے، صدر پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، آصف علی زرداری اور چیف جسٹس افتخار چوہدری، ایک ہی صفحے پر موجود نہیں ہیں، ہر کوئی اپنی انا کا غلام ہے، اور یہ سب ایک ایسا ملیدہ بنا رہے ہیں جسے نام نہاد جمہوریت کہتے ہیں اور جس کیلئے ہر کوئی چلّا رہا تھا۔ یہ عوام کیخلاف ایک بہت بڑی سازش ہے۔ ہر ایک کی جانب سے چالبازیاں کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ صدر کو بالآخر جانا ہی ہے کیونکہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں، اسلئے انہیں مستعفی ہوجانا اور نظام کو اپنے استحکام کے راستے تلاش کرنے دینا چاہئے۔ زرداری صاحب کو وہی کہنا چاہئے جو وہ سمجھتے ہیں اور مزید امیج اور ساکھ کو گرنے نہ دیں۔ تین نومبر کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردینا چاہئے لیکن اس وقت انہیں کام جاری رکھنے کا اشارہ دینا چاہئے تاکہ وہ کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں۔ جنرل کیانی جلد فیصلہ کرلیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور قوم کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے۔ یہ وہ ہی ہیں جن کی وجہ سے نیا نظام سنبھل نہیں پا رہا ۔ اصولوں پر چلنے والوں کو کوئی نہیں جھکا سکتا منزل حاصل کرکے رہیں گے۔ وکلا کوتقسیم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں،دیکھنا ہے بازوئے قاتل میں ابھی کتنا دم باقی ہے۔ عدلیہ کا وقار اور خود مختاری بحال کرنے کیلئے وکلا کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے قابل قدر کردار ادا کیا ہے آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلئے مل کرجدوجہد کرنی ہے دیکھنا ہے کہ بازوئے قاتل میں ابھی کتنا دم باقی ہے۔ مشن اور کاز بڑا نوبل ہے۔ 9 مارچ کے بعد وکلا نے تحریک کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔ جب آپ اصولوں پرچل رہے ہوں تو کوئی آپ کو جھکا نہیں سکتا عوام اپنی جدوجہد کو حتمی منزل تک پہنچائیں گے۔مالیاتی خسارے میں ریکارڈ اضافہ ہو ا ہے اور مہنگائی بڑھے گی، حکومت مالیاتی خسارہ کنٹرول کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے معاشی خرابیوں کے باوجود یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ 15/ برسوں کے دوران ساختی اصلاحات اور آزادکاری کے اقدامات کے نتیجے میں معیشت میں بنیادی طور پر لچک پیدا ہوئی ہے اور اگر مزید اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کرنے پر توجہ دی جائے اور اصلاحی اقدامات کیے جائیں تو معیشت کی نمو کی رفتار پھر تیز ہوسکتی ہے۔ ملکی معیشت بڑھتے ہوئے دباو¿ کا شکار ہے کئی منفی ملکی و عالمی واقعات اہم معاشی اظہاریوں (Economic Indicators) میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں جس کے باعث توقع ہے کہ رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح 5.5سے 6/فیصد کے درمیان ہوگی جبکہ افراط زر کی شرح بھی 11/ سے 12/? فیصد کے درمیان رہے گی سالانہ جاری حسابات کا خسارہ بطور فیصد جی ڈی پی ریکارڈ سطح پر پہنچنے و الا ہے حکومت کو نہ صرف مالیاتی خسارے کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے بلکہ اپنے اخر اجات پورے کرنے کے لیے مرکزی بینک کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی قرضے حاصل کر نے کے لیے انتظامات کرنے پڑیں گے۔ حکومت کی جانب سے بڑی مالیت میں لیے گئے قرض کا اثر خاص طور پر مالی سال 2008ء میں نمایاں رہا 10/ مئی 2008ئ تک یہ قرض بڑھ کر 551.0 ارب تک پہنچ گیا جو ایک ریکارڈ ہے مالی سال کے اسی مدت میں یہ قرضہ صرف 45.7 ارب روپے ہے اس طرح حکومت کی و اجب الادا مجموعی قرض 940.6 ارب روپے ہوگیا ہے اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ سال 2008ء کی صرف پہلی ششماہی کی معلومات دستیاب ہیں تاہم اندازہ ہے کہ جولائی تا مارچ کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے مالی سال 2007ء کے سالانہ خسارے سے زیادہ ہوگا۔ حد سے بڑھے ہوئے مالیاتی تحرک، توانائی کی متعینہ قیمتوں میں اضافہ، شرح مبادلہ میں حالیہ تبدیلیوں اور مسلسل سخت موقف سے بھی ملک کا تجارتی خسارہ کافی حد تک بہتر ہونے کی توقع ہے یہ خسارہ کافی عرصے سے بڑھتا چلا جارہا ہے اب اسے کم کرنا ضروری ہے، رواں مالی سال کے دوران بجٹ توازن منفی 6.5 سے منفی 7/ فیصد اور کرنٹ اکاو¿نٹ بیلنس منفی 7.3 فیصد سے منفی 7.8 فیصد ہوگا جبکہ ان دونوں کا ہدف بالترتیب منفی 4 اور منفی 5 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ ورکرز ریمٹس ہدف 5.8ارب ڈالر کے ہدف سے بڑھ کر 6.2 سے 6.7 ارب ڈالر تک ہوجائے گا جبکہ ملکی درآمدات 34/ ارب ڈالر اور برآمدات 19.9 ارب ڈالر ہوگی مالیاتی اثاثے 13.7 فیصد کے ہدف سے بڑھ کر 17/ سے 19/ فیصد کے درمیان ہونگے۔ جولائی سے اپریل کے دوران مالیاتی خسارہ 3.6 فیصد ہوگیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ جی ڈی پی کا 1.9 فیصد تھا اسی طرح تجارتی خسارہ 7.8سے بڑھ کر جی ڈی پی کا 10.7 فیصد اور روا ں حساب کا خسارہ 4.6فیصد سے بڑھ کر 7/ فیصد ہوگیا جولائی سے اپریل تک کے دوران خالص غیر ملکی سرمایہ کاری 5.9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 3.6 ارب ڈالر ہوگئی۔جولائی سے اپریل تک کے دوران افراط زر کی شرح 9.8 فیصد رہی جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران یہ شرح 7.8 فیصد تھی اس طرح بڑی صنعتوں کی شرح افزائش 9/ فیصد سے کم ہو کر 4.8 فیصد رہ گئی جبکہ ٹیکس وصولی کی شرح بھی 20/ فیصد سے کم ہو کر 16.3 فیصد ہوگئی۔ صدر پرویزمشرف کے خلاف سرگرم سابق فوجی افسران نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی وہ آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے ایک سخت پیغام میں سابق فوجی افسران نے کہا ہے کہ غلط کام کرنے پر مشرف کا احتساب ہونا چاہئے۔ بریگیڈیئر (ر) میاں محمد محمود کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں سابق فوجی افسران نے کہا کہ معاشرہ جسٹس افتخار چوہدری کی واپسی چاہتا ہے اور وہ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اجلاس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی موجودگی کو خاص طور پر نوٹ کیا گیا کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی جگہ وہ آرمی چیف بننے والے تھے لیکن محلاتی سازشوں کا شکار بن گئے۔ نواز شریف نے ہمیشہ علی قلی خان کے خلاف دیئے گئے مشورے کو اہمیت دینے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اجلاس میں شریک دیگر نمایاں شخصیات میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جمشید گلزار کیانی، میجر جنرل (ر) شفیق احمد، میجر جنرل (ر) ایم ارشد ملک، میجر جنرل (ر) ہدایت نیازی، میجر جنرل (ر) ایم اے زبیری، بریگیڈیئر (ر) خادم حسین، بریگیڈیئر (ر) میاں محمود، بریگیڈیئر (ر) تاج، بریگیڈیئر (ر) عبدالسلام، بریگیڈیئر (ر) عربی خان، لیفٹیننٹ کرنل (ر) دالیل اور کیپٹن (ر) ظہیر الدین بابر شامل تھے۔ اجلاس کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) سلام اختر نے کہا کہ اجلاس میں 10 جون کو وکلاء برادری کی جانب سے ہونے والے لانگ مارچ میں شرکت کے منصوبے پر غور کیا گیا۔ سابق فوجی افسران نے اس موقع پر زیادہ سے زیادہ سابق فوجیوں کو شرکت کرنے پر راضی کرنے کیلئے ر ضامندی ظاہر کی ہے۔ سابق فوجی افسران کو بھیجی گئی ایک اپیل میں کہا گیا ہے کہ صورتحال اب یہ ہوچکی ہے کہ ہم تماشائی بن کر مزید نہیں بیٹھ سکتے او رہمیں اس مشکل گھڑی میں مطلوبہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ سابق فوجی افسران کے گروپ نے، تاہم، واضح کیا کہ سابق فوجی کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) سلام نے کہا، ”ہم قوم کے بہترین مفاد میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں پرویز مشرف کے تین نومبر کے غیر آئینی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس بحران پر شدید تشویش لاحق ہے جس کا سامنا پاکستان کر رہا ہے“۔سابق فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین سوسائٹی نے واضح کیا ہے کہ اگر صدر پرویز مشرف نے 10 جون سے قبل استعفیٰ نہیں دیا تو سابق فوجی وکلاء تحریک میں بھرپور طریقے سے شامل ہوجائیں گے، پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کو محفوظ راستہ دینے کی بجائے ان کا قانون کے مطابق ٹرائل کیا جانا چاہئے، ایکس سروس مین سوسائٹی وکلاء تحریک کی بھرپور حمایت کرے گی، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ اجلاس میں اس بات کا اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کو 10 جون تک کا ٹائم دیا جائے گا تاکہ وہ صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دیدیں تاہم اگر انہوں نے اس دوران استعفیٰ نہیں دیا تو ان کی تنظیم وکلاء تحریک میں شامل ہو جائے گی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ان کی تنظیم معزول ججز کی بحالی کیلئے وکلاء کی جدوجہد میں برابر کی شریک ہو گی اور ان کی بھرپور حمایت کی جائے گی۔ پارلیمانی ریاست میں آذادعدلیہ کا کرداربہت اہم ہے ۔آزاد عدلیہ کے بغیر نظام حکومت مضبوط نہیں ہوسکتا عوام نے اس ملک میں 14مہینے پہلے فیصلہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں قانون اور عدلیہ آزاد ہوگی جب افتخار چودھری نے نو مارچ کو ایک آمر کے سامنے انکار کیا تھا تو انھیں یقین نہ تھا کہ سولہ کروڑ عوام ان کے ساتھ ساتھ آج کھڑ ے ہوں گے ساٹھ سال تک ملک میں آئین کو پامال کیا گیا ۔ چیف جسٹس کو اکاموڈیٹ کرنے کی بات کی گئی مگر انھوں نے انکار کر دیا افتخار چودھری نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ کسی کے سامنے نہیں جھکوں گااگر وہ نو مارچ کو جھک جا تے تو قوم سے غداری ہوتی۔تیرہ مارچ کووہ پہلی مرتبہ اپنے گھر سے تن تنہا نکلا اس وقت وکلارہنما اعتزاز احسن ،منیر اے ملک،علی احمد کرد،طارق محمود اور حامد خان نے ان کا ساتھ دیا جو آج تک ہم سب کے سامنے آج بھی مو جود ہیں ساری دنیا میں کبھی کسی نے اتنی بڑی تحریک نہیں چلائی جتنی پاکستان میں چلائی گئی ہے ۔ عوام نے اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے یہ اقدام کیا ہے اور اب لوگوں نے سوچ لیا کہ لوگوں کو گھروں پر انصاف ضرور ملے گا ۔ میڈیا وکلا کی تحریک کی آواز ہے جب آزاد عدلیہ نہیں ہوگی توپھر لوٹ مار اور دہشتگردی ہوگی اور کراچی کے واقعے سے ایسا لگتا ہے کہ لوگ خود گلی کو چوں میں فیصلہ کر رہے ہیں 72فیصدلوگ عدالتوں سے مطمئن نہیں ہیں اور اپنے فیصلے خود کرنے کے حق میں ہیں ایسے میں لوگ کہا ں جائیں کیونکہ اب عدالتوں میں انصاف نہیں مل رہا ہے لوگوں کو معلوم ہے کہ اب جسٹس صبیح الدین جیسے ججز عدالت میں موجود نہیں ہیں منتخب زیراعظم نے صرف ایک حکم دیا تو ججز کے گھر سے رکاوٹیں ہٹا دیں گئیں یہ جمہوریت کی طاقت ہے عوام کی کوشش ہے کہ عدلیہ کی آذادی کی تحریک کامیا ب ہو ۔ اگر عدلیہ آ ز اد ہوگی توجمہوری ڈھانچے کی مدد کرے گی اور عدلیہ آزاد نہ ہوئی تو وہ رکاوٹیں ڈالے گی حقیقت میں آزاد عدلیہ کا اہم کردار ہے اورجو جمہوری نظام کو تقویت بخشتی ہے یہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی ضمانت ہوتی ہے کچھ بھی ہوجائے عوام آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے کراچی میں وکلا نے جانوں کی قربانی دی اور نقصانات اٹھائے جس کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔ وکلا کو سازشوں کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر یا درکھیں تحریک ضرور کامیاب ہوگی آزاد عدلیہ جمہوریت کے لئے ڈھال کا کام کرے گی اور کسی آمرکی یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ اسمبلیوں کے خلا ف کو ئی کارروائی کر سکے پاکستان کے عوام کی منزل آزاد عدلیہ کی بحالی ہے ۔جو جلد کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ اے پی ایس ،اسلام آباد

No comments: