ہما ر ی تحریک کا مقصد صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ سماجی اور معاشی آزادی ہے ‘اعتزاز احسن ‘ جسٹس طارق پرویز، منیر اے ملک ، حامد خان، علی احمد کرد، عبدالطیف آفریدی اور د یگر کا پشاور ہائی کورٹ میںکلاء مشتمل کنونشن سے خطاب
پشاور۔ پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ معزول ججز پر مشتمل’آزاد عدلیہ ہی مستقبل میں صدر کی جانب سے اٹھاون ٹو بی کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے متعلق بھیجی گئی ریفرنس پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتی ہے۔پشاور ہائی کورٹ میں تقریباً چھ ہزاروکلاء پرمشتمل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے افتخار محمد چودھری کا کہناتھا کہ اگر مستقبل میں صدر پاکستان اٹھاون ٹو بی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہیں تو جب وہ اپنے اس اِقدام کو چودہ روز کے اندر ریفرنس کی صورت میں عدالت بھیجتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے ایک آزاد عدلیہ کی عدم موجودگی میں اس ریفرنس پر کس قسم کا فیصلہ سامنے آئے گا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور اتحادیوں پر مشتمل حکومت کو اشارتاً پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ریفرنس معزول ججوں پر مشتمل’آزاد عدلیہ کے پاس بھیجی جائے گی تو اس کافیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوگا کیونکہ ہم سب نے ماوراء آئین اِقدام کی مخالفت کرتے ہوئے حلف لینے سے انکار کیا تھا اور اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی تو آپ صدارتی ریفرنسوں پر مثبت فیصلوں کی توقع نہ رکھیں۔معزول چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی یا حکومت کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی تو جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی بصورت دیگر’اب پچھتائے کیا جب چڑیا چک گئی کھیت۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ آزاد عدلیہ کی غیر موجودگی میں دہشت گردی، لوٹ مار اور تخریب کاری میں اضافہ ہوگا ۔ان کے مطابق کراچی میں ڈاکؤوں کی زندہ جلانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اداروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے اوروہ اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بعض عناصر وکلاء کی تحریک کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہے ہیں لہذا وکلا متحد ہوکر ان قوتوں کا راستہ روکیں کیونکہ بقول ان کے اب منزل بہت قریب ہے۔ اگرچہ انہوں نے ابتداء میں’پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے میں عدلیہ کے کردار‘ کے موضوع پر لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کا اعلان کیا تاہم انہوں نے فی البدیہہ تقریر کرتے ہوئے موضوع سے ہٹ کر گزشتہ مارچ سے شروع ہونے والی وکلاء کی تحریک پر تفصیلی روشنی ڈالی۔کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انکی تحریک کا مقصد صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ سماجی اور معاشی آزادی ہے تاکہ ملک کو قومی سلامتی کی ریاست سے فلاحی ریاست میں تبدیل کیا جائے جس میں ہر شہری کو انکی دہلیز پر انصاف مل سکے۔ انکا کہنا تھا کہ1958ء میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر قائداعظم کے فلاحی ریاست کے تصور کو غیر محسوس طریقے سے قومی سلامتی ریاست میں تبدیل کردیا۔ان کے مطابق سوویت یونین کے پاس چالیس ہزار ایٹم بم ، جدید میزائل سسٹم اور ٹینک تھے مگر قومی سلامتی کی ریاست ہونے کی وجہ سے آج صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔ تقریب سے پشاور ہائی کورٹ کے معزول چیف جسٹس جسٹس طارق پرویز، منیر اے ملک ، حامد خان، علی احمد کرد، عبدالطیف آفریدی اور پنجاب کے مختلف شہروں کے بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے بھی تقریر کی۔ اس سے قبل معزول چف جسٹس افتخار چودھری نے پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداروں جبکہ جسٹس طارق پرویز نے مردان بار ایسوسی ایشن کی نومنتحب کابینہ سے حلف لیا۔ افتخار محمد چودھری سپریم کورٹ کے معزول ججوں جسٹس ناصرالملک، سردار رضا خان اور اپنے دیگر وکلاء ساتھیوں کے ہمراہ سنیچر کی صبح گیارہ بجے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے پشاور کے لیے روانہ ہوئے تھے اور تین گھنٹے کا فاصلہ گیارہ گھنٹے میں طے کرنے کے بعد رات کے دس بجے پشاور پہنچ گئے۔انہوں نے راستے میں اٹک میں وکلاء کی ایک تقریب سے خطاب بھی کیا۔ پشاور کے وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں نے پنجاب اور سرحد کو ملانے والے خیر آباد پل پر انکا استقبال کیا اور اس موقع پر انہوں نے جنرل مشرف کیخلا ف اور افتخار چودھری اور عدلیہ کی آزادی کے حق میں پرزور نعرے بازی کی۔ معزول چیف جسٹس کو صوبائی حکومت نے وی آئی پی سکیورٹی فراہم کی تھی اور انکی حفاظت پر 1500سے زائد پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ ہائی کورٹ کی عمارت کے ارد گرد تمام راستوں کو خار دار تار بچھاکر بند کردیا گیا تھا جبکہ تقریب میں شرکت کرنے والوں کی دو مقامات پر تلاشی لی گئی۔ پشاور میں منعقدہ وکلاء کے کنونشن میں صوبہ سرحد کے تمام اضلاع کے علاوہ بلوچستان، راولپنڈی، منڈی بہاوالدین، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے درجنوں وکلاء نے شرکت کی اور شرکاء رات کے چار بجے تک تقاریر سنتے رہے۔ معزولی کے بعدافتخار چودھری کا صوبہ سرحد کا یہ دوسرا دورہ ہے پچھلے سال اکیس اپریل کو بھی انہوں نے پشاور کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نومنتخب کابینہ سے حلف لیا تھا۔
No comments:
Post a Comment