International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, May 29, 2008

قا نون شکن کچھ تو عوام کاخیال کریں ۔ تحریر اے پی ایس ،اسلام آباد


صدر پرویز نے اپنی صدارت بچانے کیلئے ججوں کو برطرف کیا تھا، پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی بحالی کا معاملہ مجوزہ آئینی پیکیج سے مشروط نہیں کرنا چاہئے اور معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدالتوں کے تمام ججوں کو فوری بحال کیا جائے۔ صدر پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ پارلیمنٹ اور عوام کو کرنا چاہئے اور امریکا اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج جتنی جلدی بحال ہوں گے اتنا جلد ہی پاکستان کا امیج (تشخص) دنیا میں بہتر ہو گا۔ وہ اپنی حکومت سے کہیں گے کہ وہ ججوں کی بحالی کے سلسلے میں پاکستان حکومت پر دباو¿ ڈالے۔ جبکہ امریکی سینیٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا ایسے معاہدوں کا مخالف ہے جس میں طالبان اور القاعدہ فریق ہیں۔ تاہم امریکا ایسے تمام معاہدوں کی حمایت کرے گا جو قبائلی عمائدین کے ساتھ ہوں گے۔ ر س فین گولڈ نے کہا کہ القاعدہ کے ارکان نائن الیون میں ملوث ہیں اور وہ اب بھی امریکا کو نقصان پہنچانے پرتلے ہوئے ہیں۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ امریکی سینیٹر نے سرحد پار دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان سرحد کی مکمل نگرانی ایک مشکل کام ہے تاہم اس حوالے سے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا مستحکم ہونا خطے کے مفاد میں ہے۔ امریکا کو پاکستانی عوام اور جمہوریت کی حمایت کرنی چاہئے تاہم امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ امریکا کی پاکستان میں فرد واحد کی حمایت کرنے کی پالیسی غلط تھی اور امریکا کو اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تقریباً سب ہی سے ملاقات کی ہے لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ معزول ہونے والے ججوں کی آخر کیا برا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہئے اور ان کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری لانا ہے۔ امریکی سینیٹر رس فائن گولڈامریکی سنیٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے رکن سنیٹر رسفائن گولڈ نے صدر پرویز مشرف اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں جِس میں دوطرفہ تعلقات، پاکستان میں ہونے والی حالیہ سیاسی تبدیلیوں اور انسدادِ دہشت گردی سے متعلق معاملات پر بات چیت کی گئی۔سنیٹر فائن گولڈ نے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے بھی اسلام آباد میں ا±ن کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی اور پاکستان کے عدالتی بحران پر تبادلہ خیال کیا۔اِس ملاقات میں سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر بیرسٹر اعتزاز احسن بھی موجود تھے جِنہوں نے معزول چیف جسٹس اور امریکی سینیٹر کے مابین ہونے والی بات چیت کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا:’وہ، ظاہر ہے حیران تھے کہ کسی ملک میں چیف جسٹس کو اِس طرح گرفتار رکھا جا سکتا ہے۔ حال ہی سے متعلق کم از کم فائن گولڈ نے تو بالکل اتفاق کیا بلکہ ا±ن کو جب یہ کہا گیا کہ یہ ایگزیکیوٹو آرڈر سے ہو سکتا ہے، تو ا±نہوں نے کہا کہ ایگزیکیوٹو آرڈر کی بھی کیا ضرورت ہے، جب یہ غیر قانونی کام ہے تو غیر قانونی کام ہے۔‘واضح رہے کی امریکی کانگریس کے دو مختلف وفود اِن دِنوں پاکستان میں موجود ہیں جو امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق پاک۔امریکہ تعلقات اور یہاں کی سیاسی صورتِ حال پر سیاسی قیادت، رہنماو¿ں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور وکلا تنظیم کے عہدے داروں سے ملاقات میں خصوصاً عدالتی بحران پر آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شرف نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری نے صدر پرویزمشرّف کو ہٹانے کا یقین دلایا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ جو زیادتیاں کیں، ان پر وہ انہیں معاف کرتے ہیں لیکن انہوں نے ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ہم پرویز مشرف کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے، ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو میں بھی وکلاء کی بس میں سوار ہو جاو¿ں گا۔آئندہ دنوں میں قوم نے انقلاب لانا ہے،ایوانِ صدر والے عوام کا جذبہ دیکھ لیں آنے والے دنوں میں پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی، ہم ملک کا نظام بدلیں گے عوامی جذبے سے پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلتی دیکھ رہا ہوں۔ ایوان صدر والے عوام کا یہ جذبہ دیکھ لیں۔ امریکہ ہماری مدد کو نہیں آئے گا، ہمیں اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا ہے ۔ آصف زرداری سے کہا تھا کہ عوام نے 18 فروری کو صدر مشرّف کے خلاف فیصلہ دے دیا آج دنیا میں ہمارے ملک کی کوئی عزّت نہیں ہے۔ پاکستان کی خودمختاری داو¿ پر لگی ہوئی ہے، قوم کو آنے والے دنوں میں انقلاب لانا ہے، میں اس قوم کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، ہم قوم کو دوبارہ سرخرو کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم نے طے کرنا ہے کہ فیصلے واشنگٹن کے حکم پر کرنے ہیں یا خود ۔ دس سال قبل ایٹمی دھماکوں کے بعد واجپائی ہمارے ملک آنے پر مجبور ہو گئے تھے، آج ہم اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔ میں اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کو معاف کرتا ہوں لیکن ہمیں اور ہمارے ملک کو غیر ملکی قوّتوں کا غلام بنا دیا گیا ہے، لال مسجدمیں خون کی ہولی کھیلی گئی، معصوم بچّوں اور بچّیوں کو شہید کیا گیا، ڈالروں کے عوض لوگوں کو بیرون ملک بیچا گیا، ڈاکٹر قدیر کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ۔ کیا آپ یہ جرائم معاف کرنے کوتیار ہیں تو شرکاء نے کہا”نہیں۔ ہرگز ایسا نہیں کرسکتے“ انہوں نے کہا صدر مشرف کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے۔ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ ہم زندہ قوم ہیں۔ وکلاء کی جدّوجہد کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔ ہم نے عدلیہ کی آزادی کیلئے وزارتیں چھوڑ دی ہیں۔ انہوں نے کہا اقتدار سے زیادہ ہمیں ملک عزیز ہے۔ ہم پاکستان کو سنواریں گے، ان اداروں کو بحال کرائیں گے، میں ججوں کی بحالی کی قسم اٹھاتا ہوں۔ آصف علی زرداری سے کہہ دیا ہے کہ اگر ججز بحال نہ ہوئے تو وکلا کے ساتھ ان کی بس میں بیٹھ کر اسلام آباد لانگ مارچ میں شریک ہو جاو¿ں گا۔ ہم اس مقصد کیلئے اقتدار چھوڑ دیں گے۔ قوم آج ڈاکٹر قدیر کو خراج تحسین پیش کرتی ہے کہ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔ ججز کی بحالی کیلئے وزارتیں چھوڑنے پر ن لیگ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ زرداری صاحب نے عوام کے مینڈیٹ پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی خودمختاری داو¿ پر لگی ہوئی ہے۔ آصف زرداری سے ملاقات میں سارے ایشوز پر بحث ہوئی ہے۔ اعلان مری پر عمل درآمد نہ ہونے کا دکھ ہے۔ چیف جسٹس کی مدّت ملازمت کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔ قوم چاہتی ہے کہ پرویز مشرف ایوانِ صدر چھوڑ دیں۔ عوام نے اٹھارہ فروری کو ان کے خلاف فیصلہ دیدیا ہے۔ اب وہ اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے ایوان صدر چھوڑ دیں۔ انہیں اب صدر پرویز مشرف کی بجائے صرف پرویز مشرف کہنا چاہئے۔ صدر کے مواخذے کے لئے تعداد موجود ہے، دل ہونا چاہئے مواخذے کے لئے ہمیں ق لیگ کی ضرورت نہیں ہے، اس کے بغیر بھی سارے کام ہوسکتے ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا گورنر آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہماری حکومت ہل گئی ہے۔ ہمارے پاس عوامی مینڈیٹ ہے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہماری مشترکہ حکومت ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ ان کی جماعت معزول ججوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ ایک جامع آئینی اصلاحات کا پیکیج بھی متعارف کرانا چاہتی ہے جس سے ملک کے تمام ادارے آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کریں گے۔ کچھ طاقتیں مارشل لاء کی سازش کر رہی ہے، ہم وکلاء تحریک کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ملک میں نظام کی تبدیلی کے لئے کام کرے گی اور پورے عزم اور لگن کے ساتھ اس سمت میں بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی جو مجوزہ آئینی پیکیج پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہتی ہے اس کا مقصد پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنا اور ایسا نظام متعارف کرانا ہے جس سے ملک کے ذمہ دار افراد عوامی نمائندوں کے ذریعے لوگوں کو جوابدہ ہوں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وزارت قانون کو ہدایت کی ہے کہ وہ قوانین میں ترامیم سمیت جامع جیل اصلاحات شروع کرے تاکہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کے سوا تمام انڈر ٹرائل قیدیوں کو جیل نہ بھیجا جا سکے اور انہیں رہا کردیا جائے سید یوسف رضا گیلانی نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر جیل اصلاحات شروع کرنے کا ا علان کیا ہے کے اپنے منصوبے کا خود انکشاف کیا”انڈر ٹرائل قیدیوں کی مشکلات کو وزیر اعظم سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ وہ پاکستان کے بیروزگاروں کو نوکریاں دینے کے نام پر 5طویل برس جیل میں گزار چکے ہیں ہوں ایک اندازے کے مطابق وزیراعظم کے اس غیر معمولی فیصلے سے فوری طور پر ملک بھر کی جیلوں میں موجود 80,000انڈر ٹرائل قیدیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے، اگر کسی مرحلے میں ا±ن پر جرم ثابت ہوگیا یا ا±نہیں عدالت سے سزا سنائی گئی تو ا±نہیں جیل واپس لایا جاسکتا ہے، وزیراعظم قید کے دوران جیل میں قیدیوں کی کسمپرسی کو دیکھ چکے ہیں، اس عرصے میں ا±نہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے جرائم کے الزامات میں کس طرح غیر انسانی طریقے سے لوگوں کو جیل میں بند کردیا جاتا ہے اور ان کے خاندان کے افراد کو غیر ضروری طور پر عدالتوں ، تھانوں اورجیلوں میں گھسیٹا جاتا ہے، یوسف رضا گیلانی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ قیدی اپنے مقدمات کے فیصلوں کے بغیر ہی عام طور پر 10برس سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار لیتے ہیں ”یہ غیر انسانی سلوک ہے اوروہ ملزم کو پہلے کئی برس تک جیل میں ڈالنے اور مقدمے کا فیصلے ہونے کا کلچر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ جیل کے دنوں میں ا±ن کا خیال پختہ ہوا کہ اگر اللہ نے مجھے عوام کی خدمت کا موقع دیا تو وہ ایک سادہ سا قانون بنائیں گے کہ کسی انڈر ٹرائل قیدی کو ا±س وقت تک جیل میں نہ بھیجا جائے جب تک قانونی طریقے سے عدالت ا±سے سزا وار قرار نہ دیدے ۔ انصاف کے طویل طریقہ کار سے غریبوں کی حالت خراب ہوتی ہے اورجرائم کی شرح میں کمی نہیںآ تی، والدین کی غیر موجودگی میں ان کے بچوں کو مقدمات میں ملوث کرلیا جاتا ہے ۔ مجوزہ قانون کے تحت پولیس صرف مقدمہ درج کرے گی اور باضابطہ طور پر فیصلے کے لئے عدالتوں کو مقدمہ بھجوا دے گی، ملزم کو جیل صرف اسی صورت میں بھیجا جائے گا جب عدالت سزا سنا دے گی۔ جیلیں معمولی جرائم میں ملوث انڈر ٹرائل قیدیوں سے بھری پڑی ہیں اور80فیصد قیدی اور ان کے خاندان انہیں معمولی جرائم کے باعث تکالیف برداشت کررہے ہیں،” ہمیں اب انصاف کی فراہمی کی طرف توجہ دینی ہوگی بجائے اس کے کہ قانون کے نام پر جیلوں کو لوگوں سے بھر دیا جائے، یہ ظلم ہے اور اس کا خاتمہ ہونا چاہئے، ہمیں لوگوں اور ان کے اہل خانہ کی تکالیف کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث لوگوں کو چھوڑ دیا جائے گا یا قتل، زیادتی، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی میں ملوث افراد سے رعایت کی جائے گی، وزیر اعظم نے جرمانے ادا نہ ہونے کے باعث قید افراد کی رہائی کا پہلے ہی حکم دیدیا ہے۔ دو روز قبل 52لاکھ روپے ادا کئے گئے ہیں تاکہ سزا مکمل ہونے کے باوجود قید افراد کو اپنے خاندانوں سے ملنے کا موقع فراہم کیا جاسکے۔ وزیر اعظم نے جیل کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ جن میں بچے کی پیدائش کیلئے مرد قیدیوں نے قیدی عورتوں کی مدد کی، یہ ہماری روایات اور کلچر کے لئے شرمناک بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جیلوں میں اصلاحات کرنی ہوں گی اور جیلوں میں موجود افراد کے جرائم پیشہ بن کر باہر آنے اور معاشرے کے لئے مزید مسائل پیدا کرنے کے بجائے ان کی مدد کرنی ہوگی، وزیراعظم گیلانی نے قیدی عورتوں اور بچوں کے سلسلے میں پہلے ہی جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد سے مشورہ کررہے ہیں اور ا±ن کے لئے کوئی بہتر منصوبہ بنایا جا سکے اوراصلاحات کی جائیں تاکہ پاکستان کے مفید شہری بننے کیلئے ا±ن کی مدد کی جاسکے۔جیل اصلاحات کے کام کو آگے بڑھانے اور انہیں بامعنی بنانے کیلئے وزیراعظم گیلانی ن لیگ کے صدر شہباز شریف سے پہلے ہی مدد مانگ چکے ہیں، کیونکہ موجودہ وزیراعظم سمیت ملک کے تقریباً تمام بڑے سیاستدان جیل میں رہ چکے ہیں اور اب ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ جیلوں کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنائیں۔ دستیاب اعدادو شمار کے مطابق سندھ کی 20جیلوں میں 20ہزار، بلوچستان میں3010، صوبہ سرحد میں 42ہزار اور پنجاب کی جیلوں میں تقریباً 50ہزار قیدی ہیں۔ وزیراعظم نے قانون سازی کیلئے وزارت قانون کو سمری وفاقی کابینہ کو بھیجنے کے لئے کہا ہے تاکہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ فوری طور پر اس سمت پیشرفت کی جائے۔ پاکستان میں 2007 ء میں 310 افراد کو سزائے موت سنائی گئی اور 135 کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جن میں ایک ایسا نوجوان بھی شامل تھا جس نے کم عمری میں قتل کیا تھا۔یہ اعداد و شمار ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے جائزے میں پیش کیے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نومبر 2007 ء میں محمد منشا نامی ایک نوجوان کو پھانسی دی گئی جسے مارچ 2001 ء میں قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس واردات کے وقت وہ صرف پندرہ سال کا تھا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے کہا کہ حکومت گھروں میں تشدد کے واقعات (جن میں زنا اور غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم شامل ہیں) کو روکنے اور ان جرائم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہی۔ پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی تنظیم عورت فاونڈیش کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2007 ء کے پہلے دس ماہ میں صرف صوبہ سندھ میں غیرت کے نام پر 183 خواتین اور 104 مردوں کا قتل ہوا۔ رپورٹ کے مطابق سن 2007 ء میں قبائلی علاقوں میں مسلح گروپوں کی طرف سے لوگوں کو یرغمال بنانے اور انہیں قتل کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔ اسلام آباد میں لال مسجد پر فوجی کارروائی کے بعد حکومتی اور فوجی تنصیبات پر خود کش حملوں میں اضافہ ہوا جس میں کم از کم 400 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ صرف جولائی کے مہینے میں تیرہ خود کش حملے ہوئے اور ان میں 194 افراد ہلاک ہوئے۔اسلامی تنظیوں کے اراکین نے درجنوں افراد کو حکومت کی جاسوسی کرنے یا اسلامی اقدار کی خلاف ورزی کرنے پر قتل کیا۔ اگست کے مہینے میں طالبان کے حامی ایک گروہ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ایک نوعمر لڑکے کو ایک یرغمالی کا سر کاٹتے ہوئے دکھایا گیا۔قبائلی علاقوں میں عورتوں اور بچیوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ستمبر کے مہینے میں بنوں میں دو خواتین کی لاشیں ملیں جن کے ساتھ ایک پرچے پر لکھا ہوا تھا کہ یہ بدکاری میں ملوث تھیں۔ اس رپورٹ میں مارچ 2007 ء میں جنرل مشرف کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو معذول کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والے بحران کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اس بحران کے دوران سیاسی کارکنوں، وکلاء ، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیم کے اراکین پر پولیس تشدد کا بھی ذکر کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاپتہ ہوجانے والے 400 افراد کی بازیابی کے لیے دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت شروع کی۔ ان 400 افراد میں سے سو کے بارے میں پتا چلا لیا گیا۔ ان میں سے اکثر کو جھوٹے مقدمات میں قید رکھا گیا تھا۔ پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے پانچ اکتوبر کو کہا کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ لاپتہ ہونے والے لوگ حکومت کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں اور جو ان کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھنے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ انہوں نے ایسے تمام لوگوں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا اور عدالت کی یہ کارروائی دو نومبر تک جاری رہی۔ لیکن تین نومبر کو جنرل مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کر دیا۔ ان سینکڑوں لاپتہ افراد کے بارے میں ابھی تک کچھ پتا نہیں ہے اور خدشہ ہے کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں سعود میمن کی مثال بھی دی گئی۔ سعود میمن جن کے احاطے میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا قتل ہوا تھا اٹھائیس اپریل دو ہزار سات کو اپنے گھر کے پاس پائے گئے۔ وہ اپنی یاداشت کھو چکے تھے بات کرنے کے قابل نہیں تھے اور ان کا وزن صرف چھتیس کلو گرام ہو چکا تھا۔ ان کا اٹھارہ مئی کو ایک ہسپتال میں انتقال ہو گیا۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے مارچ دو ہزار تین میں جنوبی افریقہ سے گرفتار کیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ اتنا عرصہ کہاں اور کس کی حراست میں رہے۔ نوازشریف نے کہا ہے کہ اس وقت مارشل لاء لگنے کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی مارشل لاء لگانے والے موجود ہیں۔میں کافی عرصے سے زرداری صاحب سے کہہ رہا تھا کہ عوام نے جو ووٹ دیا ہے وہ پرویز مشرف کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف دیا ہے، اب ہمیں ان کو زیادہ موقع نہیں دیناچاہئے۔ پرویز مشرف کو فارغ کرنے کا سب سے آسان طریقہ مواخذہ ہے، میرا خیال ہے کہ آئینی پیکیج کی منظوری سے قبل یہ کام کرنا چاہئے۔ صدر کے مواخذے کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے سیاسی پارٹیوں کی تقسیم کی وجہ سے مارشل لاء لگے ہیں ۔ اس وقت قوم جاگ رہی ہے، ہمیں باربار مارشل لاء کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اگر جج بحال ہوگئے تو پرویز مشرف ویسے ہی فارغ ہوجائیں گے۔ ججوں کی بحالی کا طریقہ بہت آسان ہے جو اعلان بھوربن میں طے کیا گیا تھا۔ لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی جس آئینی پیکیج کے راستے پر چل رہی ہے اس پر خطرات ہی خطرات ہیں۔ وکلاء کے ساتھ ہم بھرپور تعاون کریں گے، ججوں کی بحالی کی بات جمہوری حکومت کے لیے مشکلات نہیں بلکہ آسانیاں پیدا کرے گی۔ اگر آئندہ سال یا لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی یا پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں ہوگی۔ اگر سیاسی پارٹیاں مختلف نکات پر اختلافات ختم نہیں کرسکیں تو بحران شدید ہوجائے گا۔ راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ تمام مسائل کا حل پارلیمنٹ سے ہی نکلے گا، ججوں کی بحالی کے معاملے کو بھی پارلیمنٹ میں لے جانا چاہئے۔ کالا باغ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی نہیں بنا، اس سے صرف غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں، پہلے وہ ڈیم بنانا چاہئے جس پر اتفاق رائے ہو انہوں نے کہا کہ ہمارا قوم سے وعدہ ہے کہ آئندہ سال سے لوڈشیڈنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی، اس وقت یہ بحران موجود ہے لیکن اس کو ہم نے چیلنج کے طور پر لیا ہے۔ آئندہ سال 14 اگست کو لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بجلی کی بچت کریں۔ 28 مئی کو ملک بھر میں یوم تکبیر جوش و جذبے سے منایا گیا،تمام بڑے شہروں میں جلسے اور جلوس منعقد کئے گئے ،کیک کاٹے گئے،سیمینارز،کانفرنسز اور مذاکروں کا انعقاد کیا گیا اور ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر کو خراج تحسین پیش کیا گیا پاکستان کے ایٹمی قوّت بننے کی سالگرہ کے موقع پر صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت صوبہ بھر کے تمام شہروں لاہور، شیخوپورہ، اوکاڑہ، قصور، ننکانہ صاحب، راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، سرگودھا، خوشاب، بھکر، میانوالی، فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرانوالہ، حافظ آباد، گجرات، منڈی بہاو¿الدین، سیالکوٹ، نارووال،ملتان، لودھراں، ساہیوال، پاکپتن، وہاڑی، خانیوال، ڈیرہ غازیخان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان و دیگر شہروں میں مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا، جس میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی وزراء، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور مرکزی، صوبائی، ڈویڑنل، ضلعی، تحصیل، سٹی عہدیداران نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس موقع پر جگہ جگہ یوم تکبیر کے حوالے سے پاکستان کے پہلے اسلامی ایٹمی ملک بننے کی سالگرہ کی غرض سے کیک کاٹے گئے، جلسے جلوس، سیمینارز، کانفرنسز اور مذاکرے ہوئے، جن میں میاں نواز شریف کی دلیرانہ قیادت کو سنہری حروف میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مقررین نے کہا 28 مئی 1998ء کو آج سے دس سال قبل اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکہ اور اسرائیل سمیت بعض دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ایٹمی دھماکے کئے بلکہ پاکستان کو امّت مسلمہ کی پہلی ایٹمی طاقت کے طور پر عالم اقوام کی صف میں لا کھڑا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے
معزول ججوں کی بحالی کیلئے ملک بھر کے وکلائعدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کر کے احتجاجی ریلیاں نکالیں گے لانگ مارچ کرتے ہوئے 10لاکھ سے زائد افراد پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کریں گے اور ججوں کی بحالی کو ممکن بنائیں گے۔ اگرحکومت نے ججوں کو بحال نہ کیا تو وکلاء لانگ مارچ کے اختتام پر خود ججوں کو لے جا کر ان کی کرسیوں پر بٹھا دیں گے۔ وکلاء برادری صرف اور صرف 2نومبر2007ء کی عدلیہ کی بحالی کو ہی قبول کرے گی اگر جسٹس افتخار محمد چوہدری یا جسٹس جاوید اقبال کوآوٹ کر کے مائنس ون یا مائنس ٹو فارمولا اپنانے کی کوشش کی گئی تو وکلاء اس کو ہرگز قبول نہیں کریں گے آصف زرداری بھی پرویز مشرف کوہٹانے کیلئے ایک لانگ مارچ کا اعلان کریں کیونکہ پرویز مشرف کی موجودگی میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی بحالی اور آزادی ممکن نہیں۔ آصف زرداری ایوان صدر کے گھیراو کا اعلان کریں وکلاء ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ حکومت غیر مشروط طورپر 2نومبر کی عدلیہ کی بحالی کا اعلان کرے۔ ورنہ وکلاء کا لانگ مارچ عدلیہ کی بحالی کو یقینی بنا دے گا۔ اے پی ایس

No comments: