١٨ فروری کے عام انتخابات میں سول سوسائیٹی اور عوام الناس نے صدر پرویز مشرف کی ماوراء آئین آمریت کی نشانیوں کو مسترد کر تے ہوئے ملک کی تین اہم جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ( ن ) اور عوامی نیشنل پارٹی کو ملک پر حکمرانی کا ایک واضح مینڈیٹ دیا تھا۔ انتخابات کے نتائج آنے کے فوراً بعد تینوں جماعتوں کی سیاسی لیڈرشپ نے اسلام آباد میں جمع ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نہ صرف عوام الناس کو اِس عوامی مینڈیٹ کے احترام کا یقین دلایا تھا بلکہ اپنی متحدہ کوششوں سے آمریت کی نشانیوں کو ہمیشہ کیلئے پاکستان کی سیاسی زندگی سے نکال باہر کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا ، حکومت مخالف قوتوں میں چوتھی جماعت مولانا فضل الرحمان کی تھی جس نے اِس عوامی اتحاد پر لبیک کہا ۔ حقیقت یہی ہے کہ آمریت کی چکی میں عرصہ درازسے پسے ہوئے عوام الناس کیلئے یہ اَمر باعث اطمینان تھا کہ لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین میثاقِ جمہوریت کے معاہدے کے پس منظر میں پاکستانی عوام نے بلاآخر آمریت اور اُس کے ایجنٹوں کو ایک زبردست مقابلے میں شکست دیتے ہوئے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرکے ملک میں ایک نئی نورانی جمہوری صبح کی ابتدا کر دی تھی ۔ لیکن ملک کے سیاسی رہنماؤں کو انتخابات میں عظیم الشان کامیابی کے حصول کے بعد اِس اَمر کو بھلانا نہیں چاہئیے کہ یہ نورانی سویرا خود بخود طلوع نہیں ہو گیا ہے بلکہ اِس کیلئے سول سوسائیٹی اور عوام الناس نے ایک طویل جدوجہد کی تھی اور سب سے زیادہ یہ کہ آمریت کے خون آشام ایجنٹوں اور نظریہ ضرورت کے بازی گروں نے ماوراء آئین اقدامات کے ذریعے بلوچستان سے سوات تک خون کی جو چادر بچھائی تھی اُسے سمیٹنے کیلئے خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔ لہذا محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک سے آمریت کے خاتمے اور قومی یکجہتی کو ممکن بنانے کیلئے جس بے خوفی سے شہادت کی منزل تک کا سفر طے کیا تھا اُسے سیاسی موشگافیوں کے باعث کسی صورت رائیگاں نہیں ہونے دیا جانا چاہئیے ۔ اپنی شہادت سے قبل محترمہ نے نظربند چیف جسٹس کے گھر کے باہر واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری ہی ہمارے چیف جسٹس ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر اُن کے گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے گی لیکن کیا محترمہ کی شہادت کے بعد اُن کے اِس قول کو بھلا دیا گیا ہے ؟
درحقیقت ملک میں عام انتخابات کے فوراً بعد جب ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ( ن ) نے صدر پرویز مشرف کے تین نومبر 2007 کے عدلیہ کے خلاف ماوراء آئین اقدامات کوپارلیمنٹ کی قرارداد اور حکومتی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ججز کو بحال کرنے کے عزم کا اعلان کیا تھا تو سول سوسائیٹی اور عوام الناس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی چنانچہ معاہدہ مری پربھوربن میں دستخط ہونے اور مقتدر سیاسی حلقوں کی جانب سے میڈیا کے ذریعے عوام کو بار بار خوشخبری سنانے کا دعویٰ کرنے پر سول سوسائیٹی اور عوام الناس میں یہ اُمید بندھ چلی تھی کہ آزاد عدلیہ کو پٹری سے اُتارنے کے حوالے سے صدر جنرل ( ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے ماوراء آئین اقدامات اور ملک میں عرصہ دراز سے جاری طالع آزمائی سے قوم کو نجات دلانے میں نواز ، زرداری بھوربن معاہدہ نہ صرف قوم کے جمہوری مستقبل کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کریگا بلکہ ملک سے جھوٹ ، مکر اور فریب کی سیاست کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیگا لیکن حالات نے جس تیزی سے کروٹ لی اور پھر جو کچھ ہو وہ اچھا نہیں ہوا کیونکہ ججز کی بحالی کے حوالے سے اِس تمام بے معنی عمل پر عوام نے اپنے آدرشوں کو ٹوٹتے ہوئے محسوس کیا ہے ۔ بات بھوربن سے آگے بڑھ کر دُبئي اور پھر لندن تک چلی گئی اور پھر یوں محسوس ہواہے کہ گویا آمریت کے ایجنٹوں نے اپنے سیاسی مفادات کو چمکانے کیلئے ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان غلط فہمیوں کا ڈول ڈال کر عوامی خوہشات کا گلا گھونٹ دیا ہو ؟
مندرجہ بالا تناظر میںعوام حیران پریشان اور مایوسی کا شکار ہیں کہ ججز کے حوالے سے بھوربن معاہدے پر بڑے کّر و فر سے کئے جانے والے دستخط ، سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی بے معنی کیوں ہو گئے ہیں ؟ سچائی و اچھائی کی آواز بے وفائی کی علامت کیوں بن گئی ہے اور کیا لندن کے میثاقِ جمہوریت سے شروع ہونے والا سفر مری ، بھوربن اور دبئي سے ہوتا ہوا واپس لندن پہنچ کر ایک مرتبہ پھر سے قوم کیساتھ ایک بھیانک مذاق میں تبدیل ہو گیا ہے ؟ ایک جانب تو وفاق کی حکمران پارٹی آمریت کے ماوراء آئین اقدامات کو محدود کرنے اور پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے کیلئے اٹھارویں آئینی ترمیم کا پیکیج بنایا گیا ہے جس پر تاحال کولیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ بھوربن میں ججز کی بحالی کے حوالے سے ایک اہم معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود کولیشن جماعتیں معاہدے پر عمل درامد سے کیوں گریزاں نظر آتی ہیں ؟ کیا بھوربن معاہدے پر بڑھتے ہوئے اختلافات کی موجودگی میں پارلیمنٹ کو خودمختار بنانے کے آئینی پیکیج پر باوقار عمل درامد ممکن ہو سکے گا ، یہی وہ سوال ہے جو سو ل سوسائیٹی کیلئے ناقابلِ فہم بنتا جا رہا ہے۔ بہرحال عوام کی یہی خواہش ہے کہ آمریت کی بازی گری کے ہاتھوں شکست کھانے کی بجائے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو قوم ، قدرت اور حالات نے جس مینڈیٹ سے نوازا ہے اُس کا ہر قیمت پر احترام اور موجودہ پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئیے ۔ بقولِ شاعر ….. ،راہ کھوٹی نہ کرو چلتے رہو ہم سفرو ۔۔۔۔۔ دل کو روشن رکھو انجامِ سفر ہونے تک
حیرت ہے کہ بھوربن معاہدے کے حوالے سے عدلیہ کے مسائل پر پیش رفت کو ممکن بنانے کے بجائے پیپلز پارٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کئے جانے، دونوں بڑی جماعتوں میں باہمی اعتماد اور مشاورت کے فقدان پر مرکزی وزارتوں سے مسلم لیگ (ن) کے وزراء کے مستعفی ہونے ، پنجاب میں باہمی مشاورت کے بغیر پیپلز پارٹی کے نئے گورنر کی تقرری پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تقریب کا بائیکاٹ کئے جانے ، نئے گورنر کی جانب سے وفاق کا نمائندہ ہونے کے باوجود سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ابتدائی طور پر ہی آپ کو متنازعہ سیاسی تقریر میں ملوث کرلینے پر ہی عوام الناس کو یہ احساس ہوا کہ ملکی سیاسی حالات بتدریج بگاڑ کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اِس سے قبل ضمنی انتخابات کے ملتوی کئے جانے میں رحمان ملک کے ملوث ہونے پر بھی دونوں جماعتوں میں اختلافات محسوس کئے گئے تھے جبکہ باہمی مشاورت کے فورم کی غیر موجودگی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں تواتر سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی سیاست کا فائدہ تو صریحاً آمریت کے علم برداروں کو ہی ہو رہا ہے ، جس کا تدارک کیا جانا چاہئیے ۔ عوام الناس تو ویسے ہی سادہ لوح لوگ ہیں لیکن وقت نے اُنہیں حقیقت آشنا ضرور کر دیا ہے کیونکہ وہ گذشتہ کئی دھائیوں میں آمریت کے ہاتھوں بار بار لٹ چکے ہیں اور سیاستدانوں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ اُنہیں اب سیاسی موشگافیوں کے نام پر مزید کسی امتحان میں نہ ڈالا جائے گا ۔ چنانچہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے باوجود سیاسی عناصر کی وعدہ خلافیوں ، بے معنی موشگافیوں ، صدارتی حلقوں کی سازشوں اور چیف جسٹس کو بحال کرنے سے گریز کی سیاست نے حالات کی خرابی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ چنانچہ سول سوسائیٹی اور عوام الناس نہ چاہنے کے باوجود گیارہ جون کے وکلاء کے لانگ مارچ کے حوالے سے ایک اور عوامی تحریک کیلئے تیار نظر ہوتے جا رہے ہیں جس کا بروقت تدارک معاہدہ بھوربن پر عمل کرکے یا پارلیمنٹ میں صدر مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک لا کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔
کیا ملک کی اہم اور مقتدر قومی جمہوری قوتوں کو موجودہ بین الاقوامی تناظر میں جبکہ ملک میں قومی یکجہتی کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ضروری محسوس کی جا رہی ہے ، یہ سمجھانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ اچھائی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرنے میں ہی ملک کی سلامتی اور بہتری کا راز پوشیدہ ہے۔ مندرجہ بالا منظر نامے میں ملک کے غیر جانبدار سیاسی تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کیلئے یہ اَمر تو ممکن نہیں ہے کہ وہ ماوراء آئین قوتوں کے ایجنٹوں اور بازی گروں کی سازشوں کے پس منظر میں تمام امور پر نظر رکھنے والی ملک کی مقتدر سیاسی قوتوں کے سامنے علم و دانش اور فکر و نظر کے نئے چراغ روشن کر سکیں یا قوم کو درپیش غربت ، افلاس ، بے روزگاری اور ناقابلِ یقین حد تک بڑھ جانے والی مہنگائی کے باعث گھر گھر پھیل جانے والی مایوسی اور غم و غصہ کا کلی طور پر احاطہ کر سکیں، لہذا سادہ لوح شہریوں کی طرح گفتگو کرتے ہوئے ، غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور قوم کی جانب سے دونوں سیاسی جماعتوں کے مقتدر رہنماؤں کی خدمت میں قتیل شفائی کے شہرہ آفاق وہ تین اشعار ہی پیشِ کئے جا سکتے ہیں جو کسی وقت پی این اے کی تحریک کے دوران پی این اے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے درمیان عوامی تصادم کی کیفیت پیدا ہونے کے حوالے سے مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ، اور لائین کٹ گئی ، میں بڑی دردمندی کیساتھ پیش کئے تھے ۔
رشتۂ دیوار و در تیرا بھی ہے ، میرا بھی ہے ۔۔۔۔۔ مت جلا اِس کو ، یہ گھر تیرا بھی ہے ، میرا بھی ہےکھا گئی کل ناگہاں جن کو سیاست کی صلیب ۔۔۔۔۔ اِن میں اِک نور نظر تیرا بھی ہے ، میرا بھی ہےکیوں لڑیں آپس میں ہم ایک ایک سنگ میل پر ۔۔۔۔۔ اِس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے ، میرا بھی ہے
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment