International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, June 12, 2008
قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔دوسرا حصہ
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں نے سماجی انصاف کو جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد کا بنیادی اصول بنایا۔ اسی طرح ہم بھی اِن گروپوں کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اور موجودہ بجٹ اِس مسئلے کا حل پیش کرے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑھتی ہوئی اور دیرپا نموکے لیے درکار انفراسٹرکچر کے اہم منصوبوں میں نہ توسرکاری شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی اور نہ ہی نجی شعبے میں اِس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مثال کے طور پر بجلی کے شعبے میں ملک اپنی تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامناکر رہا ہے۔بجلی کی طلب اور رسد میں فرق تقریباً 4,500میگا واٹ ہے۔ میں اِس نُکتے کو اجاگر کرنا چاہوں گا کہ یہ فرق اِس حقیقت کے باوجود پڑا کہ باوجود گذشتہ دہائی میں نجی شعبے سے 6,500 میگا واٹ اضافہ کیا گیا جو تمام پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی انرجی پالیسی 1994ء کے تحت منظور کی تھی۔ یہ آئی پی پیز جو ہمارے لیے مفید وسیلہ ثابت ہوئے، کو بلاجواز بدنام کیا گیا اور اُن پر تنقید کی گئی۔ حالانکہ انرجی پالیسی 1994ء کے تحت دی گئی مراعات کے تحت سسٹم میں اضافی گیس قابلِ ذکر مقدار میں شامل کی گئی لیکن اب اِس وقت طلب اور رسد کے درمیان فرق 1.5 ارب مکعب فٹ ہے۔ اور اگر سسٹم میں اضافی فراہمی کے اہم ذرائع شامل نہ کیے گئے تو اِس فرق میں مزید تیزی سے اضافہ ہو گا۔ ہمیں مقامی ذرائع کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے درآمد اور سرحد پار پائپ لائنوں کے ذریعے گیس کی فراہمی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اپنی موجودہ سہولیات کے بہتر استعمال کی خاطر بجلی کے شعبے کو گیس کی فراہمی ترجیحی بنیاد پر بڑھانی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا، قوم کو لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ درپیش تھا۔ ہم نے صورتحال کا جائزہ لیا اور عوام کے ساتھ ساتھ صنعت و زراعت کے شعبوں کو بجلی کی قلت سے چھٹکارہ دلانے کے لیے مختصر درمیان اور طویل مدت کے مختلف اقدامات کررہے ہیں۔ اِن اقدامات میں بجلی کے استعمال میں بچت، موجودہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی پیداوار اور اس کا باکفایت استعمال شامل ہے جس سے 1500 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ ہم قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ اِن اقدامات کے ذریعے لوڈ شیڈنگ میں بڑی حد تک کمی ہو جائے گی۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے 24 گھنٹے مسلسل بجلی کی فراہمی جاری رہے گی جبکہ آٹے اور گھی کی ملوں کو روزانہ 18 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی۔ زرعی ٹیوب ویلوں کو ہر رات 10 گھنٹے مسلسل بجلی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ رعایتی نرخوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پانی کی دستیابی اب ملک کو درپیش ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں توسیع کی اِس سے پہلے اِس قدر ضرورت نہ تھی تاہم پانی کا باکفایت استعمال بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اِس لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اِضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے باکفایت استعمال پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن گذشتہ 8سال کے دوران اسے نظر انداز کیا گیا۔ کسانوں کے لیے ریلیف اور ترغیب کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کے لیے مراعات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات اور سمتوں کا تعین کیا جا رہا ہے۔ تاکہ زرعی شعبہ قومی معیشت میںاہم کردار ادا کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 510 روپے فی 40 کلو گرام سے بڑھا کر 625 روپے کی ہے۔ بوائی کے آئندہ سیزن سے پہلے یعنی اگست ستمبر میں گندم کی آئندہ فصل کے لیے امدادی قیمت پر نظرثانی کی جائے گی۔ ملک بھر میں ڈیموں کی تعمیر، آبپاشی کے نظاموں کی بحالی، نکاسیٔ آب کے نظام میں بہتری اور نہروں اور کھالوں کو پختہ کرنے کے ذریعہ آبی وسائل کے باکفایت استعمال اور دستیابی میں بہتری لانے کے لیے پی ایس ڈی پی میں 75 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ زرعی پیداوار کے اعلیٰ معیارکوقائم رکھنے اور اِس کی برآمد میں سہولت پیدا کرنے کے لیے ملک بھر میں کولڈ چین قائم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ قابل کاشت رقبے میں اضافہ اور بہتری کے لیے غیر ملکی تعاون سے بلڈوزروں کی درآمد کے انتظامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی اے پی فصلوں کی پیداوار میںاضافے کے لیے نہایت اہم کھاد ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اس اہم کھاد کے استعمال کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔ اور زرعی پیداوار کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ حکومت ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی کو دوگنے سے زیادہ کرتے ہوئے 470 روپے فی بیگ سے بڑھا کر 1000 روپے فی بیگ کر رہی ہے۔ دیگر کھادوں پر سبسڈی کی فراہمی بھی جاری رہے گی۔ کھادوں پر سبسڈی کی مد میں مختص رقم 25 ارب روپے سے بڑھا کر 32 ارب روپے کر دی گئی ہے۔کھادوں اور زرعی ادویات کی درآمد اور اندرون ملک فروخت پر سیلز ٹیکس سے چھوٹ تاکہ کسانوں کو یہ اشیاء سستے داموں فراہم ہو سکیں۔ کھادوں اور زرعی ادویات پر ڈیوٹی کے مکمل خاتمے سے بجٹ پر 6ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتی اور دیگر شعبوں کے مقابلہ میں زرعی شعبہ میں قرضوں کی فراہمی محدود ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران زرعی شعبہ کو قرضوں کے لیے 30 ارب روپے کی اضافی رقم فراہم کی جائے گی۔ اس شعبہ کو قرضوں کی مد میں پہلے ہی 130 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں اور ہم زرعی ترقیاتی بنک کو بھی مزید فعال بنا رہے ہیں اور اس کے دائرہ کار میں اضافہ کریں گے۔وزیر خزانہ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ کو مالیاتی اقدامات کے ذریعہ یہ مراعات اور سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں چاول کی صحت مند اور معیاری پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے چاول کے بیج کی درآمد پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے اور غلے کو جہاز سے اتارنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ایسی مشینیں اور آلات جو مقامی طور پر تیار نہیں کیے جاتے، ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی مقامی سطح پر تیار ہونے کی شرط کو ختم کردیا گیا ہے اور فصلوں کی انشورنس کے پریمیئم پر عائد 5فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز۔ان اقدامات سے فصلوں کی پیداوار بڑھے گی اور عام آدمی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے لائیو سٹاک اور ڈیری کے شعبے کے حوالے سے کہا کہ مویشی اور دودھ دیہی آبادی کی آمدنی اور روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے، اس استعداد سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا گیا۔ اس شعبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے سفید انقلاب کے لیے وزیرِاعظم کے خصوصی اقدام کے تحت اس شعبہ کے لیے پی ایس ڈی پی کے ذریعہ 1.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبہ میں مویشیوں کی افزائش و پرورش، گوشت کی پیداوار، مویشیوں کے لیے علاج معالجہ کی سہولت، دودھ اکٹھا کرنے، اسے محفوظ کرنے اور دیگر ڈیری مصنوعات کی پیداوار کو ترقی دینا، جانوروں اور پودوں کی صحت کا معائنہ کرنے کے لیے سہولتوں کے مربوط قومی ادارے کا قیام اور پولٹری کے امراض کے لیے این اے آر سی کی مویشیوں کی صحت کی لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کرنا شامل ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment