اسلام آباد ۔ قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2008-09ء کیلئے 2010 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے ،جو گزشتہ مالی سال کے بجٹ کی نسبت تقریباً 3فیصد زیادہ ہے ۔نئے مال سال کے بجٹ میں 1493.2ارب روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ جبکہ 549.7ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ اور ایف بی آر کا ہدف 1295ارب روپے مقرر کیا گیا ہے نئے بجٹ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی آسامیاں 16 سے بڑھا کر 29 کرنے، انتہائی غریب طبقے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اجراؤفاقی حکومت کے تمام ملازمین کی بنیادی تنخواہ اور پنشن میں 20 فیصد اضافہ، کم سے کم پینشن 2000 روپے کرنے ،اقتصادی استحکام کی بحالی، مالیاتی خسارے میں نمایاں کمی، سبسڈیز کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے، کمزور طبقوں کے تحفظ و آمدن میں اضافے، زراعت اور مینوفیکچرنگ کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کو بجٹ کے بنیادی اہداف قرار دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا گیا ہے کہ آئندہ بجٹ معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گا اور اس سے مقامی و بیرونی سرمایہ کاری میں قابل قدر اضافہ ہو گا اور یہ اقتصادی استحکام، سماجی انصاف اور معاشرے کے تمام طبقوں کی خوشحالی کے ایک نئے دور کا نقیب ہو گا۔ وفاقی وزیر خزانہ سید نوید قمر نے بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ورثے میں ملنے والی معیشت 11 ستمبر2001ء کے واقعات سے پیدا ہونے والے حالات پر قائم تھی۔ معاشی ترقی ہوئی مگر وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ مغرب سے سرمائے کی ایک بڑی مقدار نکال کر ترقی پذیر ممالک کو منتقل کی گئی، مالیاتی منتقلیوںکے غیر رسمی چینلز بند کر دیے گئے جس کے نتیجے میں بنکاری کے معمول کے چینلز کے ذریعے ترسیلات کا بہت بڑا بہاؤ آیا۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے حلیفوں سے قابلِ ذکر امداد حاصل ہوئی۔غیر ملکی سرمائے کے بہاؤ میں قابلِ ذکر اضافے سے ملک کو ذرِمبادلہ کے زخائر کے ساتھ ساتھ درآمدات کے لیے زیادہ طلبکی بلند سطح قائم رکھنے میں مدد ملی۔ معیشت کے حجم میں نمایاں اضافہ ہوا اور بلند شرحِ نمو حاصل ہوئی۔ تاہم زیادہ تر شرحِ نمو کاروں، ٹی وی سیٹ، ریفریجریٹرز، ائرکنڈیشنرز، اور موبائل فون وغیرہ جیسی اشیاء کے استعمال میں اضافے کی صورت میں ہوئی۔ دیرپا بنیادوں پر بلند شرحِ نمو میں مدد دینے کے لیے صنعت، بنیادی ڈھانچے اور زراعت میں اِس تناسب سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ترقی اور لازم انفراسٹرکچر کے درمیان اِس فرق کی عکاسی اِس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ہمارے پاس اِس طرح کی دیرپا اشیاء کے استعمال کے لیے بجلی ہی نہیں ہے۔ اِسی طرح موٹر کاروں میں اضافے کے مطابق شہری سڑکوں میں توسیع نہیں کی گئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 9مارچ 2007ء کو عدالتی بحران شروع ہونے کے بعدملک کو کئی صدموںکا سامنا کرنا پڑا، جس سے ترقی کی کمزور بنیاد سامنے آ گئی، اس کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بڑے پیمانے پر خوراک کی قِلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اِن بحرانوں کے باوجود حکومت بے عملی کا شکار رہی اور اِن چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درکار تکلیف دہ فیصلوں میں سیاسی مصلحت کی بنا پر تاخیر کی۔ موجودہ بجٹ نے اِن بحرانوں سے منسلک تمام خرابیوںکا سامنا کیا ہے۔ یہ خرابیاں اِس قدر ہیں کہ اِن سے گذشتہ 4برسوں کے دوران معیشت کو حاصل ہونے والے ثمرات ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دورانِ سال پیش آنے والے غیر موافق واقعات پر ایک فوری نظر ڈالنے سے ہمیں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔2007-08ء میںمعیشت گذشتہ سال کے 7.2 فیصدکے ہدف اور 6.8 فیصد کی حقیقی شرحِ نمو کے مقابلے میں 5.8 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ اور زراعت دونوں شعبوں میں ہدف سے کم بالترتیب 5.4 فیصد اور 1.5 فیصد ترقی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افراطِ زرکی شرح گذشتہ سال کی 7.8 فیصد کے مقابلے میں 11 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مربوط کوششوں کے باوجود رواں سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ GDP کے 4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مالی رعایتوں کی مد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جو بڑی حد تک اِس بھاری خسارے کا سبب بنا۔407 ارب روپے کی اِن رعایتوں میں پٹرولیم کے لیے 175 ارب روپے، بجلی کے لیے 133 ارب روپے، گندم کے لیے40 ارب روپے اور ٹیکسٹائل و کھاد کے لیے 48 ارب روپے شامل ہیں۔ جبکہ سبسڈی کی مد میں بجٹ میں صرف 114 ارب روپے رکھے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ غیر معمولی مالیاتی خسارے کے باعث ادائیگیوں کے توازن کو بھی بے مثال خسارے کے سامنا ہے۔ حسابِ جاریہ کے خسارے کا تخمینہ 11.9 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 7 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر جو کہ اکتوبر 2007ء میں 16.5ارب ڈالر تھے، کم ہو کر اپریل 2008ء تک 12.3 ارب ڈالر رہ گئے۔ اِس سے شرحِ مبادلہ پر اثر پڑا، جولائی 2007ء سے اپریل 2008ء تک تقریباً 6.4 فیصد کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر خسارہ سٹیٹ بنک سے قرضے حاصل کر کے پوراکرنا پڑا۔ جس کا مطلب ہے کہ مزید نوٹ چھاپے گئے۔ مرکزی بنک سے کم سے کم مئی 2008ء تک 551 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے گئے جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ نوٹوں کی اِس چھپائی کا مطلب سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ بغیر پیداوار کے سرمایے میں اضافے سے صرف قیمتوں میں اضافہ ہونا تھا جو کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اِس عمل کو روکنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر افراطِ زر کی شرح موجودہ شرح سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی اور جیسا کہ میں نے کہا افراطِ زر کی یہ شرح پہلے ہی ملک کی تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال2008-09ء کا بجٹ ایک دیرپا منصوبے کا حصہ ہے جس پر موجودہ حکومت کام کر رہی ہے اور جسے جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی۔اِسی طرح ہم بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے ایک طویل مدتی جائزہ لے رہے ہیں۔ آئندہ سال کے دوران پیش آنے والے مجموعی اقتصادی حالات کے حوالہ سے اہم مفروضات پر روشنی ڈالنا مفید ہوگا جو بجٹ پر اثرانداز ہوں گے۔ اِن میں سال 2008-09ء کے دوران مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں 5.5 فیصد اضافہافراطِ زر کو 12 فیصد تک محدود کرنا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے مجموعی سرمایہ کاری کی سطح25 فیصد رکھنا۔ مالیاتی خسارہ 4.7 فیصد تک محدود کرنا۔حسابِ جاریہ کے خسارے کو کم کر کے GDP کے 6فیصد تک لانا۔جون 2009ء کے آخر تک زرِ مبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر تک لاناشامل ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری ترقی کا ایک اہم محرک ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں نجی شعبے کے مقابلے میں اِس میں کمی آئی ہے مگر یہ ایک خوش آئند پہلو ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ نجی شعبہ اقتصادی ترقی کا زیادہ بوجھ برداشت کرے۔ قومی اقتصادی کونسل نے مالی سال 2008-09ء کے لیے 549.7 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے جو 2007-08 کے لیے بجٹ کے ہدف 520ارب روپے سے5 فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بجٹ 2008-09 کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی اہداف مقرر کر رہے ہیں۔اقتصادی استحکام بحال کرنے کے لیے مالیاتی خسارہ میںنمایاں کمی ‘سبسڈیز کی فراہمی کے نظام کی بہتری اور جاریہ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو کم از کم 12 ارب ڈالر کی سطح پر لے جایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نقد رقوم کی فراہمی کے متعین پروگرام کے ذریعہ کمزور طبقوں کو تحفظ فراہم کرنا اور اُن کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا اور زراعت اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں کی پیداوار اور مقابلے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اقتصادی نمو، سرمایہ کاری اور نجی شعبہ کو قائدانہ کردار دینے کے عزم کے اعلان کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرکے نمو کی رفتار تیز کرنے کے لیے سازگار ڈھانچے کی فراہمی میں حائل بنیادی رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی اعشاریوں میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے اِس شعبہ کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ ہوگا جبکہ کم لاگت کے گھروںکی تعداد میں نمایاں اضافہ کرنا تاکہ گھروں کی ضرورت اور اُن کی فراہمی میں خاص طور سے کم آمدنی والے طبقوں کے لیے فرق کو کم سے کم کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2008-09 ء کے لیے بجٹ کا تخمینہ رواں سال 2007-08ء کے بجٹ کی کارکردگی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور رواں سال کے نظرثانی شدہ مالیاتی خسارے 7 فیصد کے مقابلہ میں آئندہ مالی سال 2008-09 بجٹ خسارے کا تخمینہ مجموعی ملکی پیداوار کا 4.7 فیصد ہے۔ اس سے نمایاں مالیاتی رد و بدل اور سرکاری مالیات میں استحکام ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے لیے اس ہدف کا تعین محصولات جمع کرنے کے نظام میں بہتری اور اخراجات پر کنٹرول کے اقدامات کے ذریعہ ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے محصولات کے 2007-08 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینے 1000 ارب روپے سے بڑھ کر 2008-09 کے لیے 1250ارب روپے ہو جائیں گے۔ یہ اضافہ 25 فیصد کے برابر ہے جبکہ قدرتی نمو اور بجٹ میں تجویز کردہ صوابدیدی کوششیں ہمیں محصولات کی وصولی میںمعقول اضافے کی توقع کی بنیاد فراہم کریں گے۔آئندہ سال وفاقی اخراجات کا تخمینہ 1493 ارب روپے ہے جبکہ 2007-08 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینہ 1516 ارب روپے تھا۔ ہم مالیاتی نظم و ضبط کے لیے مجوزہ اقدامات کی بنیاد پر اخراجاتِ جاریہ میں مزید بچت کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نیشنل فنانس کمیشن دوبارہ تشکیل دے گی اور صوبوں کی جانب سے این ایف سی کے ارکان کی نامزدگی موصول ہوتے ہی کمیشن کا اجلاس طلب کرے گی۔صوبوں کو گرانٹ سمیت رقوم کی منتقلی کا اندازہ رواں سال کے لیے نظر ثانی شدہ تخمینے 490 ارب روپے کے مقابلہ میں2008-09 میں 606 ارب روپے ہے۔ یہ اضافہ 24 فیصد ہے۔ متوقع آمدنی اور اخراجات ظاہرکرتے ہیں کہ صوبوں کے کیش بیلنس میں اُن کے پی ایس ڈی پی کے لیے صوبوں کے اپنے حصے اور فاضل اخراجات پورے کرنے کے بعد79 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مذکورہ بالا اندازوں کی بنیاد پر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ بجٹ معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ ہماری کامیابی کاپیمانہ مالیاتی مارکیٹ کے اعتماد میں مزیدکمی کے عمل کے رُکنے میں ہے اور مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ کاری میں مزید اضافے سے ہو گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس امر کا دستاویزی ثبوت بکثرت موجود ہے کہ پاکستان میں گذشتہ دہائی کے دوران آمدنی کی تقسیم بتدریج خراب ہوئی۔ اِس عرصے کے دوران حاصل ہونے والی دولت مساویانہ طور پرتقسیم نہیں ہوئی۔ اگرچہ بیشتر افراطِ زر بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ ہے اور قیمتوں میں مطلوبہ اضافے کا ایک بڑا حصہ اب بھی منتقل کیا جانا باقی ہے۔ کمزور طبقات اور مقررہ آمدنی والے گروپوں کو درپیش حالات کم سے کم غیر مستحکم اور زیادہ سے زیادہ ناقابلِ برداشت سطح پر ہیں۔ ہم غریبوں کی حالتِ زار سے الگ تھلگ رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس اب بھی اقدامات کا وقت ہے۔ اِس سے قبل کہ وہ ریاست کی جانب سے اپنی زندگیوں میں کسی نتیجہ خیز کردار سے مایوس ہو جائیں، اُن کے مطالبات کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اِن لوگوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حقیقی آمدنیوںمیں کمی کی مشکلات سے دور کرناچاہیے۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, June 12, 2008
قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔پہلا حصہ
اسلام آباد ۔ قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2008-09ء کیلئے 2010 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے ،جو گزشتہ مالی سال کے بجٹ کی نسبت تقریباً 3فیصد زیادہ ہے ۔نئے مال سال کے بجٹ میں 1493.2ارب روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ جبکہ 549.7ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ اور ایف بی آر کا ہدف 1295ارب روپے مقرر کیا گیا ہے نئے بجٹ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی آسامیاں 16 سے بڑھا کر 29 کرنے، انتہائی غریب طبقے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اجراؤفاقی حکومت کے تمام ملازمین کی بنیادی تنخواہ اور پنشن میں 20 فیصد اضافہ، کم سے کم پینشن 2000 روپے کرنے ،اقتصادی استحکام کی بحالی، مالیاتی خسارے میں نمایاں کمی، سبسڈیز کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے، کمزور طبقوں کے تحفظ و آمدن میں اضافے، زراعت اور مینوفیکچرنگ کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کو بجٹ کے بنیادی اہداف قرار دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا گیا ہے کہ آئندہ بجٹ معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گا اور اس سے مقامی و بیرونی سرمایہ کاری میں قابل قدر اضافہ ہو گا اور یہ اقتصادی استحکام، سماجی انصاف اور معاشرے کے تمام طبقوں کی خوشحالی کے ایک نئے دور کا نقیب ہو گا۔ وفاقی وزیر خزانہ سید نوید قمر نے بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ورثے میں ملنے والی معیشت 11 ستمبر2001ء کے واقعات سے پیدا ہونے والے حالات پر قائم تھی۔ معاشی ترقی ہوئی مگر وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ مغرب سے سرمائے کی ایک بڑی مقدار نکال کر ترقی پذیر ممالک کو منتقل کی گئی، مالیاتی منتقلیوںکے غیر رسمی چینلز بند کر دیے گئے جس کے نتیجے میں بنکاری کے معمول کے چینلز کے ذریعے ترسیلات کا بہت بڑا بہاؤ آیا۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے حلیفوں سے قابلِ ذکر امداد حاصل ہوئی۔غیر ملکی سرمائے کے بہاؤ میں قابلِ ذکر اضافے سے ملک کو ذرِمبادلہ کے زخائر کے ساتھ ساتھ درآمدات کے لیے زیادہ طلبکی بلند سطح قائم رکھنے میں مدد ملی۔ معیشت کے حجم میں نمایاں اضافہ ہوا اور بلند شرحِ نمو حاصل ہوئی۔ تاہم زیادہ تر شرحِ نمو کاروں، ٹی وی سیٹ، ریفریجریٹرز، ائرکنڈیشنرز، اور موبائل فون وغیرہ جیسی اشیاء کے استعمال میں اضافے کی صورت میں ہوئی۔ دیرپا بنیادوں پر بلند شرحِ نمو میں مدد دینے کے لیے صنعت، بنیادی ڈھانچے اور زراعت میں اِس تناسب سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ترقی اور لازم انفراسٹرکچر کے درمیان اِس فرق کی عکاسی اِس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ہمارے پاس اِس طرح کی دیرپا اشیاء کے استعمال کے لیے بجلی ہی نہیں ہے۔ اِسی طرح موٹر کاروں میں اضافے کے مطابق شہری سڑکوں میں توسیع نہیں کی گئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 9مارچ 2007ء کو عدالتی بحران شروع ہونے کے بعدملک کو کئی صدموںکا سامنا کرنا پڑا، جس سے ترقی کی کمزور بنیاد سامنے آ گئی، اس کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بڑے پیمانے پر خوراک کی قِلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اِن بحرانوں کے باوجود حکومت بے عملی کا شکار رہی اور اِن چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درکار تکلیف دہ فیصلوں میں سیاسی مصلحت کی بنا پر تاخیر کی۔ موجودہ بجٹ نے اِن بحرانوں سے منسلک تمام خرابیوںکا سامنا کیا ہے۔ یہ خرابیاں اِس قدر ہیں کہ اِن سے گذشتہ 4برسوں کے دوران معیشت کو حاصل ہونے والے ثمرات ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دورانِ سال پیش آنے والے غیر موافق واقعات پر ایک فوری نظر ڈالنے سے ہمیں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔2007-08ء میںمعیشت گذشتہ سال کے 7.2 فیصدکے ہدف اور 6.8 فیصد کی حقیقی شرحِ نمو کے مقابلے میں 5.8 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ اور زراعت دونوں شعبوں میں ہدف سے کم بالترتیب 5.4 فیصد اور 1.5 فیصد ترقی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افراطِ زرکی شرح گذشتہ سال کی 7.8 فیصد کے مقابلے میں 11 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مربوط کوششوں کے باوجود رواں سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ GDP کے 4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مالی رعایتوں کی مد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جو بڑی حد تک اِس بھاری خسارے کا سبب بنا۔407 ارب روپے کی اِن رعایتوں میں پٹرولیم کے لیے 175 ارب روپے، بجلی کے لیے 133 ارب روپے، گندم کے لیے40 ارب روپے اور ٹیکسٹائل و کھاد کے لیے 48 ارب روپے شامل ہیں۔ جبکہ سبسڈی کی مد میں بجٹ میں صرف 114 ارب روپے رکھے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ غیر معمولی مالیاتی خسارے کے باعث ادائیگیوں کے توازن کو بھی بے مثال خسارے کے سامنا ہے۔ حسابِ جاریہ کے خسارے کا تخمینہ 11.9 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 7 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر جو کہ اکتوبر 2007ء میں 16.5ارب ڈالر تھے، کم ہو کر اپریل 2008ء تک 12.3 ارب ڈالر رہ گئے۔ اِس سے شرحِ مبادلہ پر اثر پڑا، جولائی 2007ء سے اپریل 2008ء تک تقریباً 6.4 فیصد کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر خسارہ سٹیٹ بنک سے قرضے حاصل کر کے پوراکرنا پڑا۔ جس کا مطلب ہے کہ مزید نوٹ چھاپے گئے۔ مرکزی بنک سے کم سے کم مئی 2008ء تک 551 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے گئے جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ نوٹوں کی اِس چھپائی کا مطلب سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ بغیر پیداوار کے سرمایے میں اضافے سے صرف قیمتوں میں اضافہ ہونا تھا جو کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اِس عمل کو روکنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر افراطِ زر کی شرح موجودہ شرح سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی اور جیسا کہ میں نے کہا افراطِ زر کی یہ شرح پہلے ہی ملک کی تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال2008-09ء کا بجٹ ایک دیرپا منصوبے کا حصہ ہے جس پر موجودہ حکومت کام کر رہی ہے اور جسے جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی۔اِسی طرح ہم بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے ایک طویل مدتی جائزہ لے رہے ہیں۔ آئندہ سال کے دوران پیش آنے والے مجموعی اقتصادی حالات کے حوالہ سے اہم مفروضات پر روشنی ڈالنا مفید ہوگا جو بجٹ پر اثرانداز ہوں گے۔ اِن میں سال 2008-09ء کے دوران مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں 5.5 فیصد اضافہافراطِ زر کو 12 فیصد تک محدود کرنا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے مجموعی سرمایہ کاری کی سطح25 فیصد رکھنا۔ مالیاتی خسارہ 4.7 فیصد تک محدود کرنا۔حسابِ جاریہ کے خسارے کو کم کر کے GDP کے 6فیصد تک لانا۔جون 2009ء کے آخر تک زرِ مبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر تک لاناشامل ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری ترقی کا ایک اہم محرک ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں نجی شعبے کے مقابلے میں اِس میں کمی آئی ہے مگر یہ ایک خوش آئند پہلو ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ نجی شعبہ اقتصادی ترقی کا زیادہ بوجھ برداشت کرے۔ قومی اقتصادی کونسل نے مالی سال 2008-09ء کے لیے 549.7 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے جو 2007-08 کے لیے بجٹ کے ہدف 520ارب روپے سے5 فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بجٹ 2008-09 کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی اہداف مقرر کر رہے ہیں۔اقتصادی استحکام بحال کرنے کے لیے مالیاتی خسارہ میںنمایاں کمی ‘سبسڈیز کی فراہمی کے نظام کی بہتری اور جاریہ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو کم از کم 12 ارب ڈالر کی سطح پر لے جایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نقد رقوم کی فراہمی کے متعین پروگرام کے ذریعہ کمزور طبقوں کو تحفظ فراہم کرنا اور اُن کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا اور زراعت اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں کی پیداوار اور مقابلے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اقتصادی نمو، سرمایہ کاری اور نجی شعبہ کو قائدانہ کردار دینے کے عزم کے اعلان کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرکے نمو کی رفتار تیز کرنے کے لیے سازگار ڈھانچے کی فراہمی میں حائل بنیادی رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی اعشاریوں میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے اِس شعبہ کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ ہوگا جبکہ کم لاگت کے گھروںکی تعداد میں نمایاں اضافہ کرنا تاکہ گھروں کی ضرورت اور اُن کی فراہمی میں خاص طور سے کم آمدنی والے طبقوں کے لیے فرق کو کم سے کم کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2008-09 ء کے لیے بجٹ کا تخمینہ رواں سال 2007-08ء کے بجٹ کی کارکردگی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور رواں سال کے نظرثانی شدہ مالیاتی خسارے 7 فیصد کے مقابلہ میں آئندہ مالی سال 2008-09 بجٹ خسارے کا تخمینہ مجموعی ملکی پیداوار کا 4.7 فیصد ہے۔ اس سے نمایاں مالیاتی رد و بدل اور سرکاری مالیات میں استحکام ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے لیے اس ہدف کا تعین محصولات جمع کرنے کے نظام میں بہتری اور اخراجات پر کنٹرول کے اقدامات کے ذریعہ ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے محصولات کے 2007-08 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینے 1000 ارب روپے سے بڑھ کر 2008-09 کے لیے 1250ارب روپے ہو جائیں گے۔ یہ اضافہ 25 فیصد کے برابر ہے جبکہ قدرتی نمو اور بجٹ میں تجویز کردہ صوابدیدی کوششیں ہمیں محصولات کی وصولی میںمعقول اضافے کی توقع کی بنیاد فراہم کریں گے۔آئندہ سال وفاقی اخراجات کا تخمینہ 1493 ارب روپے ہے جبکہ 2007-08 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینہ 1516 ارب روپے تھا۔ ہم مالیاتی نظم و ضبط کے لیے مجوزہ اقدامات کی بنیاد پر اخراجاتِ جاریہ میں مزید بچت کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نیشنل فنانس کمیشن دوبارہ تشکیل دے گی اور صوبوں کی جانب سے این ایف سی کے ارکان کی نامزدگی موصول ہوتے ہی کمیشن کا اجلاس طلب کرے گی۔صوبوں کو گرانٹ سمیت رقوم کی منتقلی کا اندازہ رواں سال کے لیے نظر ثانی شدہ تخمینے 490 ارب روپے کے مقابلہ میں2008-09 میں 606 ارب روپے ہے۔ یہ اضافہ 24 فیصد ہے۔ متوقع آمدنی اور اخراجات ظاہرکرتے ہیں کہ صوبوں کے کیش بیلنس میں اُن کے پی ایس ڈی پی کے لیے صوبوں کے اپنے حصے اور فاضل اخراجات پورے کرنے کے بعد79 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مذکورہ بالا اندازوں کی بنیاد پر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ بجٹ معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ ہماری کامیابی کاپیمانہ مالیاتی مارکیٹ کے اعتماد میں مزیدکمی کے عمل کے رُکنے میں ہے اور مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ کاری میں مزید اضافے سے ہو گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس امر کا دستاویزی ثبوت بکثرت موجود ہے کہ پاکستان میں گذشتہ دہائی کے دوران آمدنی کی تقسیم بتدریج خراب ہوئی۔ اِس عرصے کے دوران حاصل ہونے والی دولت مساویانہ طور پرتقسیم نہیں ہوئی۔ اگرچہ بیشتر افراطِ زر بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ ہے اور قیمتوں میں مطلوبہ اضافے کا ایک بڑا حصہ اب بھی منتقل کیا جانا باقی ہے۔ کمزور طبقات اور مقررہ آمدنی والے گروپوں کو درپیش حالات کم سے کم غیر مستحکم اور زیادہ سے زیادہ ناقابلِ برداشت سطح پر ہیں۔ ہم غریبوں کی حالتِ زار سے الگ تھلگ رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس اب بھی اقدامات کا وقت ہے۔ اِس سے قبل کہ وہ ریاست کی جانب سے اپنی زندگیوں میں کسی نتیجہ خیز کردار سے مایوس ہو جائیں، اُن کے مطالبات کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اِن لوگوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حقیقی آمدنیوںمیں کمی کی مشکلات سے دور کرناچاہیے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment