International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, June 12, 2008

قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔چوتھا حصہ

انہوں نے کہا کہ کاروں، ائرکنڈیشنرز اور دیگر دفتری سامان کی خریداری پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں سب سے پہلے وزیراعظم نے اپنے دفتر کا بجٹ کم کرنے کی قربانی دی۔ اُن کے آفس کا بجٹ 329.8 ملین روپے سے کم کر کے 230.9 ملین روپے کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی اورسینٹ نے بھی اپنے غیر ترقیاتی اور تنخواہوں کے علاوہ اخراجات گذشتہ سال کی سطح پر رکھنے سے اتفاق کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں قومی احتساب بیورو کے کردار کو محدود کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ قومی احتساب بیورو کے بجٹ میں 30 فیصد کٹوتی کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کے طور پر حکومت نے یک سطری دفاعی بجٹ پیش کرنے کا ماضی کا طریقہ کار ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دفاعی اخراجات کی تمام متعلقہ تفصیلات پارلیمنٹ میں بحث اور نظرثانی کے لیے دستیاب ہوں گی۔ دستیاب وسائل کے باکفایت استعمال کے ذریعہ زیادہ مالیاتی نظم و ضبط کے حوالہ سے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اسوقت بجٹ سے مجموعی طور پر 400 ارب روپے کی سبسڈیز دی جا رہی ہیں۔ ملکی مالیات کو تحفظ دینے کے لیے سبسڈیز میں تفصیلی کٹوتی ضروری اور ناگزیر ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مرکزی بنک سے قرضوں کا حصول ناقابلِ قبول سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ہم مسئلہ کے حل کے لئے ’’گورنمنٹ کمرشل پیپر‘‘کے نام سے ایک نیا طریقہ تشکیل دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی سے سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے۔ چنانچہ حکومت نے ان کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سہولت فراہم کرنے کے لئے یہ اقدامات تجویز کئے ہیں کہ وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ‘ یہ اضافہ مسلح افواج کے لیے بھی ہو گا‘ تمام سویلین اور فوجی پنشنرر کی پنشن میں 20 فیصد ‘ کم سے کم پنشن 300 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے ‘ گریڈ ایک تا 19 کے سرکاری ملازمین کے کنوئنس الاؤنس میں 100 فیصد اضافہ‘ گریڈ ایک تا 16 کے سرکاری ملازمین کے لیے میڈیکل الاؤنس 425 روپے سے بڑھا کر 500 روپے ماہوار جبکہ کم سے کم اجرت 4600 سے بڑھا کر 6000 روپے ماہانہ کر دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی بچت سکیموں کے منافع کی شرح میں 2 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے اور بیماری، حادثہ، زلزلہ یا دہشت گردی کے نتیجہ میں معذور ہونیوالے سرکاری ملازمین کو پنشن کی پوری مراعات ملیں گی۔ اس سلسلہ میں 10 سال سروس کی شرط ختم کی جاتی ہے جبکہ گریڈ ایک تا 15 کے کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی تجویز ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن پر نظرثانی کے لیے پے اینڈ پنشن کمیشن قائم کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی اسامیاں 16سے بڑھا کر 29 کی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات کی جائیں گی اور اس کا مقصد ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو ایک جدید، ترقی پسند، موثراور قابل اعتماد ادارہ بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اس سال کے دوران محصولات کی سطح ایک ٹریلین روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا بھاری بوجھ براہ راست ٹیکسوں کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔ جو 39 فیصدتک پہنچ چکے ہیں۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہاس امر کی بے حدضرورت ہے کہ سامان تعیشّ اور غیرضروری اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان تجارتی خسارے کو ممکنہ حدتک کم کیا جاسکے۔چنانچہ یہ تجویز ہے کہ تقریباً 300غیرضروری اشیا جو سامان تعیشّ اور سامانِ آرائش کے زمرے میں آتی ہیں ان پر ڈیوٹی 15%، 20%اور 25%سے بڑھاکر علی الترتیب 30% اور 35% کردی جائے۔ ان اشیا ء میں خوشبویات، سامان آرائش و زیبائش، کراکری، ٹائلز، فرنیچر، شکار کا اسلحہ اور گھریلو سامان از قسم ائیرکنڈیشنر، ریفریجریٹر، ڈیپ فریزر، کوکنگ رینج، وغیرہ شامل ہیں۔ جن دیگر اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے ان میں بسکٹ، چاکلیٹ، کوکیز ، سگریٹ، سگار اور بنی بنائی غذائی اشیاء بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح وہ عمدہ شاندار اور موٹرکاریں اور جیپیں یعنی آرام دہ گاڑیاں جو 1800cc انجن یا اس سے زیادہ بڑے انجن والی ہوں ، ان پر ڈیوٹی کی شرح نوے فیصد سے بڑھاکر سو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ ایسی پرُانی موٹر کاریں اور جیپیں جو 1800ccسے کم انجن پر مشتمل ہوں ، ان پر مروّجہ سکیم کے مطابق کسٹمز ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکسز پر مشتمل ایک مقررہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ مقررہ رقم یعنی فکسڈ ڈیوٹی کو دس فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔ موبائل فون کی درآمد پر 500روپے فی سیٹ کی لگانے کی تجویز ہے۔ پان پر امپورٹ ڈیوٹی کی موجودہ شرح 150روپے فی کلوگرام ہے، اسکو 200روپے فی کلوگرام کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کی شرح برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح پندرہ فیصد سے سولہ فیصد کر دی جائے۔ پی ڈی سی کے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ حکومت جب ضروری سمجھے تو سی این جی اور ایل پی جی جیسے ضروری ایندھن پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ ٹیکس عائد کر سکے۔انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ ٹیلی کام کے شعبے کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح 16% کی بجائے 21% کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ 850CC سے زیادہ کی گاڑیوں کی درآمد اور اندرون ملک فروخت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ فیصد عائد کی جائے جبکہ بینکنگ، انشورنس اور فرنچائز سروسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 5% سے بڑھا کر 10% کر دی جائے اور افراط زر کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز ہے کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی فکسڈ شرح 750 روپے فی میٹرک ٹن سے بڑھا کر 900 روپے فی میٹرک ٹن کر دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 16 کروڑ کی آبادی میں ٹیکس گزاروں کی تعداد کا صرف 22 لاکھ ہے اس لئے حکومت انکم ٹیکس نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لئے تجویز کرتی ہے کہ انکم ٹیکس کی 35 استثنات کو واپس لیا جائے اور دوسری تجویز “انوسٹمنٹ ٹیکس سکیم” کی ہے جس کے ذریعے کوئی بھی ٹیکس گزار اپنے گزشتہ کاروبار اور اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو پر صرف دو فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کر سکے گا ۔ یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسے ٹیکس گزاروں کے ماضی کے حسابات کی چھان بین نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت بڑے وسیع پیمانے پر ایک پروگرام چلانا چاہتی ہے تاکہ ٹیکس، جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکس گزاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے یہ ٹیکس سہولیات تجویز کی جاتی ہیں کہ 0.5 فیصد کی شرح سے کم سے کم ٹیکس ان کمپنیوں پر عائد کیا جاتا ہے جو یا تو خسارہ دکھاتی ہیں یا کسی چھوٹ کی وجہ سے ٹیکس ادا نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لئے ٹیکس آمدنی کی بنیادی حد 1,50,000 سے بڑھاکر 1,80,000جبکہ خواتین ٹیکس گزاروں کیلئے بنیادی حد 2 لاکھ سے 2 لاکھ چالیس ہزارکردی جائے۔ وزیر خزانہ نے ایڈوانس انکم ٹیکس کے حوالے سے کہا کہ تجویز ہے کہ صنعتی اور تجارتی دونوں درآمدات پر دو فیصد کی یکساں شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس ٹیکس کو صنعتی کمپنیوں کے لئے ایڈجسٹ ایبل بنایا گیا ہے جبکہ صنعتی اور تجارتی صارفین جن کا بجلی کا بل 20,000 روپے ماہانہ سے زائد ہو ان پر 10 فیصد کی شرح سے پیشگی ٹیکس عائد کیا جائے جو ان کے حتمی ٹیکس سے منہا کیا جا سکے گا۔ اس اقدام سے ان ٹیکس گزاروں کو اپنا سالانہ جملہ ٹیکس بارہ اقساط میں ادا کرنے کی سہولت مل جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے تک صرف جائیداد سے آمدنی پر ایک فرد یا جماعتِ اشخاص کی آمدنی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہونے کی شکل میں 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس واجب الادا تھا۔ یہ اقدام نہایت واضح طور پر زیادہ آمدنی والوں کے حق میں تھا۔ اس تفریق کو ختم کرتے ہوئے “زیادہ کماؤ تو زیادہ ٹیکس دو” کے اصول پر تجویز کیا جاتا ہے کہ اس مد میں زیادہ آمدنی والوں پر بتدریج 5 فیصد سے 15 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے عرصے میں سب سے زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ میں دیکھی گئی ہے جس سے صنعتی ترقی بھی متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری کا رخ صنعتوں کی طرف موڑنے اور پلاٹوں کی بے اندازہ قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ آباد کاروں اور بلڈرز کے لیے بالترتیب، پلاٹوں پر 100 روپے فی مربع گز اور تعمیر شدہ جائیداد پر 50روپے فی مربع فٹ کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ بجٹ اقتصادی استحکام، سماجی انصاف اورمعاشرے کے تمام طبقوں کی خوشحالی کے ایک نئے دور کا نقیب ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ پاکستان کے تمام لوگوں کے لیے ہے۔ یہ ان تمام طبقات سے قربانیاں چاہتا ہے جو قربانیاں دے سکتے ہیں۔ یہ غریبوں اور کمزوروں کو تحفظ دے گا۔ یہ ایک جامع پیغام اور شراکت کا احساس دیتا ہے۔جن بحرانوں کا ہمیں سامنا ہے وہ کٹھن ضرور ہیں تاہم ان پر ضرور قابو پا لیں گے

No comments: