International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, June 12, 2008

قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔تیسرا حصہ

وزیر خزانہ نے کہا کہ ماہی پروری کے شعبہ میں ایکوا کلچر اور جھینگے پالنا ‘ پاکستان کے مخصوص اقتصادی زونز کے سٹاک اسسمنٹ سروے پروگرام اور گوادر میں ماہی پروری کے تربیت کے منصوبہ جیسے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جن کے لیے بجٹ میں 1.1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کاشتکاروں کو معیاری بیج کی فراہمی کے لیے نیشنل کمرشل سیڈ پروگرام تیار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بی ٹی کاٹن کی مختلف اقسام متعارف کروانے کے لیے مذاکرات کا تیزی سے آغاز کر دیا گیا ہے۔اِس سے کپاس کی پیداوار میں ہمارے کسانوں کی پیداوار کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ پیداوار اور زیرِکاشت رقبے میں اضافہ کیا جا سکے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وسیع رقبے فراہم کیے جائیں گے۔ تاکہ زراعت کے مقامی شعبے کو سرمایہ اورٹیکنالوجی فراہم ہو سکے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری صنعت مقابلے کی صلاحیت کھو رہی ہے۔ جس کی عکاسی ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات میں کمی سے ہو رہی ہے۔طریقۂ کار میں رکاوٹیں پاکستان میں تجارت کی لاگت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اِسی طرح بجلی اور دیگر انفراسٹرکچر کی سہولتوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے ہماری مقابلے کی صلاحیت پر بُرا اثر پڑا ہے۔ مقامی مینوفیکچرنگ کو مراعات دینے کے لیے متعدد مالیاتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سی کے ڈی‘ ایس کے ڈی سلائی مشین کی درآمد پرڈیوٹی 5%سے 20% کرنے کی تجویز ہے تاکہ مقامی صنعت کو جو سلائی مشین کے پرزہ جات تیار کرتی ہے، تحفظ ملے اور یہ صنعت ترقی کرے۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے خام مال اور پرزہ جات پر ڈیوٹی کی شرح ان کے استعمال کے مطابق زیرو فیصد‘ پانچ فیصد اوردس فیصد کرنے کی تجویز ہے۔جس کا انحصار اُن کی نوعیت اور ضروریات پر ہے۔انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی صنعت کے ٹیرف پر مبنی نظام کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔ اِس مقصد کے لیے پاکستان کسٹمز ٹیرف کی متعلقہ ٹیرف مدات میں مناسب ردوبدل کرنے کی تجویز ہے۔ کچھ ٹیرف لائنز کو ختم اور کچھ کو ایک دوسرے میں مدغم اور کچھ نئی ٹیرف لائنز بھی بنانے کی تجویز ہے۔ ان تمام ٹیرف لائنز پر پندرہ فیصد اضافی ڈیوٹی کی شرح بھی لاگو رہے گی کیونکہ یہ تمام اشیاء مقامی طورپر تیار کی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی اے پالیسٹر سٹیپل فائبر بنانے کا بہت اہم کیمیائی جز ہے۔تجویز یہ ہے کہ پی ٹی اے پر شرح کسٹمز ڈیوٹی پندرہ فیصد سے کم کرکے 7.5فیصد کردی جائے اور پالیسٹر سٹیپل فائبر پر شرح ڈیوٹی 4.5 فیصد کردی جائے۔ اس تجویز سے امید ہے کہ ہماری پارچہ جات کی صنعت کو بہت فائدہ ہوگا۔ اور اس سے متعلقہ ملبوسات کی صنعت بھی فروغ پائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے اور مقامی صنعت کو مراعات دینے کے لیے تجویز ہے کہ ادویات سازی میں کام آنے والے کیمیائی اجزاء اور اِن کی پیکنگ میں کام آنے والے اجزاء پر ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کردی جائے۔ اسی طرح 18زندگی بچانے والی ادویات جوکینسر یا اسی طرح کے مُوذی امراض میں استعمال ہوتی ہیں، ان پر ڈیوٹی بالکل ختم کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کیلشیم کاربائٹ پر ڈیوٹی کی شرح پندرہ فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاسٹک سوڈا پر ڈیوٹی کی موجودہ شرح جو 5,000/- روپے فی ٹن ہے کو 4,000/- روپے فی ٹن کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرنٹنگ سکرینز پر ڈیوٹی کی شرح پندرہ فیصد سے کم کر کے دس فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ اس کے خام مال پر ڈیوٹی معاف کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے مقامی صنعت کی ترقی ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بکُرم پر درآمدی ڈیوٹی کی شرح فی الوقت 25 فیصد ہے۔ لہذا یہ تجویز ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی قدروقیمت میں اضافے کے لیے کسٹمز ڈیوٹی کی شرح بکُرم پر 25 فیصد سے کم کرکے دس فیصد کردی جائے۔انہوں نے کہا کہ مال کے تیارکنندہ اور مال برآمد کرنے والوں کیلئے مال کے ایسے نمونے جس کو ویسے فروخت نہ کیا جاسکے، اُس کو درآمد کرنے کیلئے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ جس کے تحت ان نموناجات کی مشروط درآمد کی اجازت ہے۔ یہ تجویز ہے کہ ایسے نمونوں کی درآمد ہرقسم کے کارخانہ داروں کو دی جائے چاہے وہ براہ راست برآمدکنندگان ہوں یا باالواسطہ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تارکول سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس پر موجودہ شرح ڈیوٹی پانچ فیصد ختم کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیس آئل پر موجودہ ڈیوٹی کی شرح 20 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیرف کے مطابق کال سنٹرز میں استعمال ہونے والے آلات پر ڈیوٹی کی شرح پانچ فیصد ہے جبکہ ان پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ کال سینٹروں کے شعبے میں ترقی کی بہت گنجائش موجود ہے لہذا اس کو پرکشش بنانے کے لئے مزید مراعات کی ضرورت ہے۔ کال سنٹروں کے دو اہم اجزاء میں وائس کارڈز اور واسٹ ٹرمینلز پر دس فیصد ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے جبکہ ڈیجیٹل کال ریکارڈرز پر ڈیوٹی بیس فیصد ہے۔ تجویز ہے کہ کال سنٹروں کے ان اجزاء پرڈیوٹی کی شرح کم کر کے پانچ فیصد کر دی جائے اور سیلز ٹیکس کی بھی چھوٹ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر طرح کی پولیسٹر فلم پر اِس نوعیت کی دیگر اشیاء کی طرح بیس فیصد کی یکساں شرح کے حساب سے ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سی این جی بسوں پر موجودہ ڈیوٹی کی شرح پندرہ فیصد ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتربنانے اور ماحول کی بہتری کے لئے تجویز یہ کہ سی این جی بسوں پر ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بندرگاہ کے اخراجات میں کمی کے لیے تجویز ہے کہ کھدائی کی مشینوں ڈریجرز کی درآمد کو کسٹمز ڈیوٹی سے مستثنیٰ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ضروری ہے کہ بجلی کے موجودہ وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ بچت ہو سکے اس مقصد کے لئے انرجی سیور بلب کی درآمد پر ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ کی تجویز ہے۔ اس طرح سولر انرجی کے نظام میں استعمال ہونے والے جنریٹرز اور ڈیپ سائیکل بیٹریوں پر بھی ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ واپڈا کے زیر انتظام بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں فی الوقت بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ پانچ فیصد ڈیوٹی پر درآمد کرسکتی ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ ایسی کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ ڈیوٹی کے بغیر منگوانے کی اجازت دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے انرجی سیور بلب پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز ہے۔ جس سے نہ صرف ان کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے بلکہ ان کا استعمال بڑھے گا اور ان کی فراہمی بھی یقینی ہو گی۔ اندازہ ہے کہ اس اقدام سے تقریباً 1000 میگا واٹ بجلی کی بچت ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مقامی صنعت میں سرمایہ کاری کے لئے گورنمنٹ کچھ مراعات دیتی ہے۔ ان مراعات میں کچھ اشیاء خام مال، پرزہ جات اور اجزاء پر ڈیوٹی نہیں لی جاتی بشرطیکہ یہ مقامی طور پر نہ بنتے ہوں۔ تاہم مقامی طورپر نہ بننے کی شرط جو پہلے عائد کی گئی تھی اسے ختم کر نے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تجویز ہے کہ ایسے مکمل پلانٹ جن کی سی اینڈ ایف قیمت پچاس ملین ڈالر یا اس سے زیادہ ہو، اور ان کو کوئی نیا صنعتی پراجیکٹ قائم کرنے کے لئے منگوایا جا رہا ہو توان پر مقامی تیاری کی شرط لاگو نہ کی جائے۔ اس تجویز سے افسروں کی صوابدید کم ہو گی اور سرمایہ کاری کے لئے اچھا ماحول میسر ہو گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ دیہی اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے تجویز ہے کہ وہاں قائم ہونے والی صنعتوں پر پہلے سال دس فیصد فرسودگی الاؤنس کے علاوہ نوے فیصد اضافی الاؤنس بھی دیا جائے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز ہے کہ سٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ کمپنیوں کے حصص کی فروخت پر “کیپٹل گین” کی موجودہ چھوٹ کو مزید دو سال کے لئے جاری رکھا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ تجویز ہے کہ کاسٹک سوڈا پر بھی سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹ کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجویز ہے کہ غیر ممالک میں مقیم کاروباری افراد کے پاکستان کے مختلف تجارتی میلوں کے دوروں کے موقع پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ کے لئے سیلز ٹیکس کے قانون میں موزوں ترمیم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو صحت کی سہولیات سستے داموں مہیا کرنے کے لئے تجویز ہے کہ مقامی تیار شدہ طبی آلات، اوزار، پرزہ جات، ریجنٹس اور ڈسپوزیبلز کی سرکاری ہسپتالوں اور 50 بستروں تک کے خیراتی ہسپتال کو مقامی فراہمی سیلز ٹیکس سے مستثنی کر دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت آزاد جموں و کشمیر فنڈز کی کمی کی وجہ سے اپنے ٹیکس گزاروں کو اس سیلز ٹیکس کے ریفنڈ کی اجازت نہیں دیتی اس لئے تجویز ہے کہآزاد جموں و کشمیر کے ٹیکس گزاروں کو پاکستان سے اشیاء کی فراہمی پر سیلز ٹیکس کا ریفنڈ ادا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی بجٹ کے لیے منظور شدہ منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد 3 سو ارب روپے کی مالیت کے منصوبے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ اِن منصوبوں سے معیشت کو برائے نام فائدہ پہنچا ہے۔ اِس جائزے کی تفصیلات الگ فراہم کی جائیں گی۔تاہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جو ترقیاتی منصوبہ ہم قوم کو پیش کر رہے ہیں وہ ہماری ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے جو اقتصادی حقائق کے ساتھ ساتھ عوام کی اُمنگوں پر مبنی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نجی اور سرکاری شعبہ کی شراکت کو فروغ دینے کے لیے آپریشنل فریم ورک اور پالیسی بتدریج تشکیل دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بلوچستان میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زونزکے قیام کے لیے 1 ارب روپے مختص کرے گی حطار میںچائنا پاک اکنامک زون ‘ خوشحال گڑھ صوبہ سرحد میں تعمیر نو مواقع زونزکے لیے صنعتی اسٹیٹ اور صوبہ سرحد میں صنعتوں کی بحالی اور اُن کو جدید بنانے کے اقدامات بھی شامل ہیں جبکہ صنعتی ترقی کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ نجی و سرکاری شعبہ کی شراکت کے ذریعے، صوبہ سرحد میں ٹیکسٹائل سٹی، گارمنٹس سٹی اور ماربل اینڈ گرینائٹ سٹی جیسے خصوصی زونز کے قیام پر بھی غور جاری ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کے شعبے کو حکومت اولین ترجیح دے رہی ہے اور اس شعبے کے متعدد منصوبوں کے لئے 66 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اور اندازہ ہے کہ آئندہ سال کے آغاز تک بجلی کی پیداوار میں 2200 میگا واٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں سڑکوں کے نیٹ ورک میں تیر رفتار توسیع کے لیے بجٹ میں 37 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ ان میں قابلِ ذکر مکران کوسٹل ہائی وے، اسلام آباد پشاور موٹر وے (M-1) کراچی ناردرن بائی پاس، انڈس ہائی وے فیز تھریIII، نوشکی دالبندین روڈ، مانسہرہ-ناران- جھل کھڈ- چلاس روڈ، لواری ٹنل ایکسس روڈز، قراقرم ہائی وے کی توسیع، بہتری اور بحالی، حسن ابدال، مانسہرہ- ایبٹ آباد ایکسپریس وے اور فیصل آباد-خانیوال ایکسپریس وے، سمیت 60منصوبے شامل ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آزاد کشمیر شمالی علاقہ جات اور فاٹا جیسے مخصوص علاقوں کے ترقیاتی پروگراموں کے لیے مختص رقم 21.2 ارب روپے سے بڑھا کر 26.2 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کم آمدنی والے افراد کیلئے کثیر الجہتی حکمتِ عملی تیار کر رہے ہے جس کے ذریعے غربت میں کمی کے لئے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جائے گا اور کم آمدنی والے طبقوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں گے اور علاقائی سطح پر کم لاگت کے مکانات کا ایک وسیع پروگرام شروع کیا جائے گا جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقے کے لیے مکانات کی دستیابی میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تعلیم کے لیے ترقیاتی منصوبہ میں 24.6 ارب روپے مختص کرنا تجویز کیا ہے۔شعبۂ صحت کے پروگراموں کے لیے 19 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں جو ناکافی ہیں انہیں بڑھا کر دو لاکھ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیماریوں سے بچاؤ کے متعدد پروگراموں ای پی آئی ، ایچ آئی وی-ایڈز کنٹرول پروگرام، نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام، نابینا پن کے کنٹرول کا قومی پروگرام،ہیپاٹائٹس پر کنٹرول، زچہ و بچہ اور بچوں کی صحت کے پروگرام کو بہتر بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے 2.2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جس کے تحت ملک بھر میں گاؤں کی سطح پر فلٹریشن پلانٹس لگائے جائیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ غریب آدمی کے لئے ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ شروع کیا جائے گا ۔ اِس پروگرام کے تحت ہم انتہائی غریب افراد کے لیے 34 ارب روپے کی بجائے پچاس ارب روپے فراہم کریں گے ۔ غریبوں کے لئے بیت المال جیسے جاری پروگراموں کے ذریعے مدد جاری رکھی جائے گی اِس کے علاوہ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے غذائی اشیاء کی رعائتی نرخوں پر فراہمی بھی جاری رہے گی اور یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد بڑھا کر 6,000 کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ماضی کے چھوٹی ترقیاتی سکیموں کے پیپلز ورکس پروگرام کو بحال کر رہے ہیں اور اس کے لئے 28.4 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایک کمیشن قائم کر رہی ہے جو بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے اپنی تجاویز دے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل انٹرشپ پروگرام جاری رہے گا اور توقع ہے کہ 2008-09ء کے دوران کم سے کم 30ہزار پوسٹ گریجویٹ طلباء اِس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔ اِنٹرن شپ پروگرام کے لیے بجٹ میں 1.6 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پیپلز روزگار پروگرام بھی خودروزگاری کے مواقع پیدا کرنے کے لئے روزگار پیدا کرنے کے کسی بھی پروگرام کا حصہ ہو گا اور اس کے تحت نیشنل بنک کے زیرِ اہتمام جاری خود روزگار سکیم کو تقویت دی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقی نسواں کیلئے حکومت نے تمام سرکاری محکموں میں مجموعی طور پر خواتین کا 10 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔ اِس سے فیصلہ سازی کے عمل میں اُن کاکردار بڑھے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مائیکرو فنانس کے ذریعے حکومت 2010ء تک مزید 30 لاکھ افراد کو چھوٹے قرضوں تک رسائی فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے 100 روزہ پروگرام میں 10 لاکھ نئے گھروں اعلا ن کیا تھا۔ اِن منصوبوں کو رواں سال کے دوران شروع کرنے کے لیے 2 ارب روپے کا فنڈ مختص کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کے استحکام کے لیے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنا اولین ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے غیر ترقیاتی اور تنخواہوں کے علاوہ اخراجات کو گذشتہ سال کی نظر ثانی شدہ سطح پر منجمد کرنے کی تجویز ہے۔

No comments: