اسلام آباد ۔ وفاقی وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران میکرو اکنامک استحکام لانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ آئندہ بجٹ میں غریبوں کو ریلیف ا ور امیروں کے زیر استعمال پر تعیش اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے اس امر کا اظہار انہوں نے آج یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو عبداللہ یوسف ‘ سیکرٹری وزرات خزانہ فرخ قیوم اور وزارت خزانہ کے اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان اور دیگر اعلی افسران بھی موجود تھے۔ اس موقع پر خطا ب کرتے ہوئے وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور ریونیو میں اضافے کے ذریعے میکرو اکنامک استحکام لانا ایک چیلنج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہم نے ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے زراعت ا ور صنعت پر حکومتی توجہ دی ہے ۔ اس کے لیے نجی شعبے کو آگے لایا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور افراط زر کو قابو میں لا کر ہی ہم مالیاتی خسارے کو قابو کر سکتے ہیں ۔ تاکہ ہماری معیشت دباؤ سے نکل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے کو ریلیف دیں گے جس کے لیے ہم نے ابتدائی طورپ ر 34 ارب روپے مالیت سے بے نظیر کارڈ سکیم کا اجرا کر رہے ہیں ۔ ابتدائی طور پر اس کارڈ کے ذریعے ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے 30 لاکھ گھرانوں کو ریلیف دیا جائے گا تاہم بعد میں اس فنڈ کو 50 ارب تک بڑھا دیا جائے گا۔ اور پچاس لاکھ گھرانوں کو ریلیف دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیت المال اور زکوہ کے نظام میں خامیوں کے باعث ہی بے نظیر کارڈ سکیم شروع کی ہے جس کے ذریعے نادرا کے ڈیٹا کے مطابق بلا تخصیص غریب طبقے کو ریلیف دیں گے۔ ان کارڈوں کو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ا ور بنکوں اور ڈاکخانوں کے ذریعے نقد رقم دی جائے گی اس حوالے سے تمام رکاوٹوں کو بھی ختم کیا جائے گا تاکہ غریب شخص آسانی سے بنک سے رقم نکلوا سکے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ جو بنیادی تنخواہ کے ساتھ ساتھ الاؤنسز کی بنیاد پر اضافہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری معیشت کو محصولات کی اشد ضرورت ہے ۔ آئندہ مالی سال کے لیے 12 کھرب 51 ارب روپے کا حدف مقرر کیا ہے ۔ جس کو حاصل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب ہم نئے شعبوں میں ٹیکس عائد کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ایف بی آر کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جائے گا۔ جبکہ افراط زر میں اضافے سے بھی محصولا ت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے روٹی ‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کے تحت غریبوں کو ریلیف دے رہے ہیں جبکہ امیروں کے زیر استعمال پرتعیش اشیاء پر ٹیکس لگا رہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کی شرح 15 سے 16 کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کہیں سے تو محصولات حاصل کرنے تھے اس کے لیے یاتو ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑتا تھا۔ یا پھر قرضے لینا پڑتے تھے مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹیکس میں اضافہ کرکے محصولات حاصل کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک ایکس چینج پر کیپٹیل گین ٹیکس لگانے کا فیصلہ اس لیے موخر کیا گیا کہ اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لائی جا رہی ہے اس کے لیے وزیراعظم سیکرٹریٹ نے رضا کارانہ اپنے اخراجات میں کمی لائی ہے انہوں نے کہا کہ ایوان صدر ‘ سپریم کورٹ ا لیکشن کمیشن اور وزیراعظم سیکرٹریٹ اپنا بجٹ مقرر بناتے ہین اس لیے ہم اس میں کمی یا بیشی نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نیب کو ایک غیر ضروری اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا ادارہ تصور کرتے ہیں۔ اس لیے اس کو مستقبل قریب میں ختم کردیا جائے گا۔ تاہم ابتدا کے طور پر اس کے بجٹ میں کمی لائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری نیب کے ذریعے نہیں بلکہ آڈٹ کے ذریعے ہی ہوا کرے گی ۔ چھوٹے چھوٹے قرضوں پر سود کی زیادہ شرح کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کو ختم کرنے کے لیے مائیکرو فنانسنگ انسٹیٹیوشن کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران حکومتی کارکردگی کے بارے میں جاری اعداد و شمار پر دستخط میں نے اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کئے ہیں اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں ۔ اگر کسی پر یہ ثابت ہوا کہ غلط اعدادو شمار غلط پیش کئے گئے ہیں تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ججوں کی تعداد 16 سے 29 کرنے پر انہوںنے کہا کہ وزارت خزانہ کاکام صرف ان ججوں کی تنخواہ اور فنانسنگ تھی تاہم باقی طریقہ کار طے کرنا دیگر وزارتوں کاکام ہے اور فنانس بل میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کو اعتماد میں لیاگیاتھا ۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری اور کارپوریشنوں کا فاضل پیسہ کمرشل بینکوں کے پاس پڑا رہتا ہے مگر اب اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے کہ یہ سرکاری پیسہ جو ان بینکوں میں پڑا رہتا ہے وہ اسٹیٹ بینک کے پاس چلا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ چھوٹے صوبوںکو زیادہ سے زیادہ فنڈز دئیے جائیں کیونکہ ہم صوبوں کی مضبوطی اور ان کی خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پراپرٹی ٹیکس صرف شہری علاقوںمیں بلڈرز پر عائد ہو گا تاہم ذاتی زمین فروخت کرنا اور دیہی علاقوں میںزمینیں کی خرید وفروخت پر اطلاق نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری کی پالیسی ہماری حکومت نے شروع کی تھی جس کو شفاف بنیادوں پر جاری رکھا جائے گا اور آئندہ مالی سال کے دوران نجکاری کا جامع پروگرام بجٹ کے معاملات ختم ہونے کے بعد تیار کر لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ جس کا ہدف 4.7 فیصد مقرر کیا گیاہے ۔اس کو پورا کرنے کے لیے غیر روایتی طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ جو نجکاری کے ساتھ ساتھ ملکی و عیر ملکی سطح پر بانڈز کے اجراء کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, June 12, 2008
صوبوں کو ان کا حق صرف این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔وزیر خزانہ سید نوید قمر
اسلام آباد ۔ وفاقی وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران میکرو اکنامک استحکام لانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ آئندہ بجٹ میں غریبوں کو ریلیف ا ور امیروں کے زیر استعمال پر تعیش اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے اس امر کا اظہار انہوں نے آج یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو عبداللہ یوسف ‘ سیکرٹری وزرات خزانہ فرخ قیوم اور وزارت خزانہ کے اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان اور دیگر اعلی افسران بھی موجود تھے۔ اس موقع پر خطا ب کرتے ہوئے وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور ریونیو میں اضافے کے ذریعے میکرو اکنامک استحکام لانا ایک چیلنج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہم نے ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے زراعت ا ور صنعت پر حکومتی توجہ دی ہے ۔ اس کے لیے نجی شعبے کو آگے لایا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور افراط زر کو قابو میں لا کر ہی ہم مالیاتی خسارے کو قابو کر سکتے ہیں ۔ تاکہ ہماری معیشت دباؤ سے نکل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے کو ریلیف دیں گے جس کے لیے ہم نے ابتدائی طورپ ر 34 ارب روپے مالیت سے بے نظیر کارڈ سکیم کا اجرا کر رہے ہیں ۔ ابتدائی طور پر اس کارڈ کے ذریعے ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے 30 لاکھ گھرانوں کو ریلیف دیا جائے گا تاہم بعد میں اس فنڈ کو 50 ارب تک بڑھا دیا جائے گا۔ اور پچاس لاکھ گھرانوں کو ریلیف دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیت المال اور زکوہ کے نظام میں خامیوں کے باعث ہی بے نظیر کارڈ سکیم شروع کی ہے جس کے ذریعے نادرا کے ڈیٹا کے مطابق بلا تخصیص غریب طبقے کو ریلیف دیں گے۔ ان کارڈوں کو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ا ور بنکوں اور ڈاکخانوں کے ذریعے نقد رقم دی جائے گی اس حوالے سے تمام رکاوٹوں کو بھی ختم کیا جائے گا تاکہ غریب شخص آسانی سے بنک سے رقم نکلوا سکے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ جو بنیادی تنخواہ کے ساتھ ساتھ الاؤنسز کی بنیاد پر اضافہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری معیشت کو محصولات کی اشد ضرورت ہے ۔ آئندہ مالی سال کے لیے 12 کھرب 51 ارب روپے کا حدف مقرر کیا ہے ۔ جس کو حاصل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب ہم نئے شعبوں میں ٹیکس عائد کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ایف بی آر کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جائے گا۔ جبکہ افراط زر میں اضافے سے بھی محصولا ت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے روٹی ‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کے تحت غریبوں کو ریلیف دے رہے ہیں جبکہ امیروں کے زیر استعمال پرتعیش اشیاء پر ٹیکس لگا رہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کی شرح 15 سے 16 کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کہیں سے تو محصولات حاصل کرنے تھے اس کے لیے یاتو ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑتا تھا۔ یا پھر قرضے لینا پڑتے تھے مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹیکس میں اضافہ کرکے محصولات حاصل کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک ایکس چینج پر کیپٹیل گین ٹیکس لگانے کا فیصلہ اس لیے موخر کیا گیا کہ اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لائی جا رہی ہے اس کے لیے وزیراعظم سیکرٹریٹ نے رضا کارانہ اپنے اخراجات میں کمی لائی ہے انہوں نے کہا کہ ایوان صدر ‘ سپریم کورٹ ا لیکشن کمیشن اور وزیراعظم سیکرٹریٹ اپنا بجٹ مقرر بناتے ہین اس لیے ہم اس میں کمی یا بیشی نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نیب کو ایک غیر ضروری اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا ادارہ تصور کرتے ہیں۔ اس لیے اس کو مستقبل قریب میں ختم کردیا جائے گا۔ تاہم ابتدا کے طور پر اس کے بجٹ میں کمی لائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری نیب کے ذریعے نہیں بلکہ آڈٹ کے ذریعے ہی ہوا کرے گی ۔ چھوٹے چھوٹے قرضوں پر سود کی زیادہ شرح کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کو ختم کرنے کے لیے مائیکرو فنانسنگ انسٹیٹیوشن کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران حکومتی کارکردگی کے بارے میں جاری اعداد و شمار پر دستخط میں نے اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کئے ہیں اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں ۔ اگر کسی پر یہ ثابت ہوا کہ غلط اعدادو شمار غلط پیش کئے گئے ہیں تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ججوں کی تعداد 16 سے 29 کرنے پر انہوںنے کہا کہ وزارت خزانہ کاکام صرف ان ججوں کی تنخواہ اور فنانسنگ تھی تاہم باقی طریقہ کار طے کرنا دیگر وزارتوں کاکام ہے اور فنانس بل میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کو اعتماد میں لیاگیاتھا ۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری اور کارپوریشنوں کا فاضل پیسہ کمرشل بینکوں کے پاس پڑا رہتا ہے مگر اب اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے کہ یہ سرکاری پیسہ جو ان بینکوں میں پڑا رہتا ہے وہ اسٹیٹ بینک کے پاس چلا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ چھوٹے صوبوںکو زیادہ سے زیادہ فنڈز دئیے جائیں کیونکہ ہم صوبوں کی مضبوطی اور ان کی خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پراپرٹی ٹیکس صرف شہری علاقوںمیں بلڈرز پر عائد ہو گا تاہم ذاتی زمین فروخت کرنا اور دیہی علاقوں میںزمینیں کی خرید وفروخت پر اطلاق نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری کی پالیسی ہماری حکومت نے شروع کی تھی جس کو شفاف بنیادوں پر جاری رکھا جائے گا اور آئندہ مالی سال کے دوران نجکاری کا جامع پروگرام بجٹ کے معاملات ختم ہونے کے بعد تیار کر لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ جس کا ہدف 4.7 فیصد مقرر کیا گیاہے ۔اس کو پورا کرنے کے لیے غیر روایتی طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ جو نجکاری کے ساتھ ساتھ ملکی و عیر ملکی سطح پر بانڈز کے اجراء کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment