مزاحمت نہیں مفاہمت کا وقت ہے
آئین میں مواخذے کا طریقہ کار موجود ہے ۔پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے گی قبول ہو گا
آئین میں ترامیم کے ذریعے میرے اختیارات میں کمی کی گئی تو بیکار نہیں بیٹھوں گا
موجودہ حکومت کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر رہا ہوں ۔ پارلیمنٹ آزاد و خود مختار ہے
ججز کے بارے میں پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے مجھے اور میری قوم کو قبول ہو گا
میرے بارے میں پھیلائی جانے والی باتیں غلط اور افواہ ہیں جن سے عوام پریشان ہیں
ڈاکٹر قدیر کے بیان کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں تھا غلط بیانی سے کام لیا جا رہاہے
لال مسجد آپریشن میں حصہ لینے والوں کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں
صدر مملکت کی سینئر صحافیوں سے بات چیت
اسلام آباد ۔ صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ مزاحمت نہیں مفاہمت کا وقت ہے ایوان صدر میں کوئی سازشیں نہیں ہو رہی ہیں استعفیٰ نہیں دوں گا ۔آئین میں مواخذے کا طریقہ کار موجود ہے ۔آئین میں ترامیم کے ذریعے میرے اختیارات میں کمی کی گئی تو بیکار نہیں بیٹھوں گا ۔ جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں ۔معاشی بحران اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر رہا ہوں ۔ پارلیمنٹ آزاد و خود مختار ہے ۔ججز کے بارے میں پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے مجھے اور میری قوم کو قبول ہو گا ۔ وزیر اعظم کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں ۔ سیاستدانوں سے میری ملاقاتوں کو سازش کیوں قرار دیا جاتا ہے ۔ میرے بارے میں پھیلائی جانے والی باتیں غلط اور افواہ ہیں جن سے عوام پریشان ہیں ۔ایوان صدر کسی سے تصادم نہیں چاہتا ۔ مرنا جینا ملک میں ہے یہیں رہوں گا ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بیان کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ریاست کے اندر راز پر کھلے عام بات نہیں ہونی چاہیے ۔ ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تھا۔ ججوں کو برطرف نہیں کیا گیا ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ صدر مملکت نے قومی ایشوز سیاسی صورتحال اور ملک و قوم کو درپیش مختلف بحرانوں کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا اور اپنا موقف بیان کیا ۔صدر نے کہا کہ ملک کے لیے سب کو سوچنا چاہیے ۔ میری نظر میں بحرانوں کو موثر حکمت عملی کے تحت حل کیا جا سکتا ہے۔ تصادم نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے۔ تصادم سے ملک کو نقصان ہو گا۔ معیشت مزید متاثر ہو گی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسیوں پر عملدرآمد کو حکومت یقینی بنائے ۔ انہوں نے کہاکہ دنیا میں خوراک اور معاشی بحران کی وجہ سے یقیناً ہماری معیشت دباؤ میں ہے تاہم ہماری معیشت میںاتنی طاقت ہے کہ وہ اس بحران کو سہہ سکے ۔ انہوں نے کہاکہ جائزہ اس بات کالینا ہو گا کہ معاشی اور اقتصادی بحران کب پیدا ہوا ۔ میرے خیال میں آخری 70 دنوں میں معاشی مسائل پیدا ہوئے ۔ہم نیچے جا رہے ہیں اس ملک کو بچائیں ۔ انہوں نے کہاکہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں دنیا میں گندم چاول سمیت خوراک کے بحران کے بھی یقیناً ہماری معیشت پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں عالمی واقعات اور خطے کی صورتحال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے شارٹ ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنانی ہوں گی ۔ مستقبل میں پانی کا بحران بھی ہو سکتاہے۔ قبل از وقت منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ اس کا حل ہمارے ہاتھوںمیں ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ وافر مقدار میں ہائیڈرل بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ڈیم اور نہریں بنانا ہوں گی قوم کو بیدار کرنا چاہتا ہوں ۔ ایشوز کوایمرجنسی بنیادوں پر حل نہ کیاگیا تو ملک کا مستقبل انتہائی خطرناک ہو گا۔ معیشت تباہ ہو گی ۔غریب پس جائے گا غریب بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ بحرانوں کے حل موجود ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یقیناً وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں ہمیں شک نہیں ہے ۔وزیر اعظم کو میری حمایت حاصل رہے گی ۔سیاسی بحران کو حل ہونا چاہیے ۔آئین کے مطابق کام کر رہا ہوں میری طرف سے حکومت میں مداخلت ہو گی نہ ایسا ہو گا اور مداخلت کر بھی کیسے سکتا کابینہ میرے ماتحت تو نہیں ہے ۔ایوان صدر میں سازشیں نہیں بلکہ مجموعی طور پر مفاہمت کا مرکز ہے۔ انہوں نے کہاکہ معمول کے مطابق زندگی گزار رہا ہوں ٹینس کھیلتا ہوں ، تیراکی کے لیے جاتاہوں ، سماجی زندگی معمول کے مطابق ہے کوئی سیاستدان ملنے آ جائے تو یہ کون سی سازش ہے ۔ لگتا ہے کہ انہیں سازش فوبیا ہو گیا ہے پارلیمنٹ آزاد و خود مختار ہے جو بحث ہو رہی ہے اس سے بخوبی اس کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ یہ ججز کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جاناچاہتے ہیں۔ آئینی پیکج بنایا گیا ہے پارلیمنٹ جوبھی حتمی فیصلہ کرے گی مجھے اور قوم کو قبول ہو گا ۔جمہوریت کا سخت حامی ہوں میں غیر متوازن نہیں کہ اٹھاون ٹو بی استعمال کروں ۔ مقامی حکومتوں کا نظام دیا ۔ پالیسی میں جو خلاء تھا اس کی وجہ سے نچلی سطح پر اختیارات کے نظام نے اسے پر کیا ۔انہوں نے واضح کیا کہ بیرون ملک ان کا کوئی گھر ہے نہ جانے کا ارادہ ہے ۔صورتحال انتہائی نازک ہے سیاسی جماعتوں کو چاہیے وہ ذمہ داری کا ثبوت دے صدر پاکستان کے خلاف افواہیں پھیلانے والے درحقیقت پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔پارلیمنٹ سے خطاب کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ اگر گارنٹی ملے تو وہ ضرور پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے۔ نواز شریف سے بات چیت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب دیتے ہوئے صدر نے کہاکہ وہ نواز شریف سے بات کرنے کو تیار ہیں ۔صدر نے واضح کیا صدارت کا عہدہ ایسا نہیں ہے جسے بے وقعت کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جسٹس افتخار محمد چوہری سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وکلاء کے لانگ مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ نے ایوان صدر کا رخ کیا تو اس وقت دیکھا جا ئے گا۔ انہوں نے کہاکہ انہوںنے تو صرف چیف جسٹس کو برطرف کیاتھا جبکہ بقایا ججوں نے اپنی مرضی سے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا تھا۔ بلوچستان کے حالات کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے صدر نے کہاکہ ظاہر ہے اقدامات بھی غیر معمولی ہی ہوتے ہیں ۔ محاذ آرائی سے گریز کرنا ہو گا۔ سابقہ فوجیوں کی تنظیم کے حوالے سے صدر نے کہاکہ یہ لوگ جس ادارے میں زندگیاں گزار کر گئے ہیں آج اس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں ۔حالانکہ ان کے موقف میں کوئی وزن نہیں ہے ۔میڈیا کی آزادی کے لیے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔ 90 فیصد اپوزیشن میرے ساتھ ہے ۔ فوج میں 35 سال تک فیلڈ کمانڈر رہا ہوں بیک فٹ پر یقین نہیں رکھتا ۔ میری فورس میرے خلاف کارروائی نہیں کرے گی ۔لیفٹیننٹ جنرل (ر ) جمشید گلزار کیانی کے انٹرویو کے حوالے سے کہا کہ فوج میں تمام معاملات مشاورت سے طے کئے جاتے ہیں ۔ جو کام بھی ہوتا ہے مشاورت کے ذریعے ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں سابق کور کمانڈر راولپنڈی کا بیان سیکرٹ ایکٹ کے زمرے میں آتاہے فوج کو اس کا جائزہ لینا چاہیے ۔امریکا کے نئے صدر سے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے صدر پرویز مشرف نے کہاکہ بیانات کی اپنی بات ہوتی ہے مگر جب امریکا کے نئے صدر افغانستان ، پاکستان ، فاٹا ، کی تفصیلات اور صورتحال سے آگاہ ہوں گے تو یقیناً ان کا تصور تبدیل ہو جائے گا۔لال مسجد آپریشن کے حوالے سے صدر نے کہا کوئی کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں ہوئے ایسا ہوتا تو پورا آبپارہ تباہ ہو جاتا اور لوگ مارے جاتے جنرل کیانی فوج میں رہنے کے باوجود اس طرح کا غلط بیان کیوں دے رہے ہیں ۔ آپریشن درست تھا ۔ دنیا میں بدنامی ہو رہی تھی آپریشن کرنے والوں کو سلوٹ کرتا ہوں
No comments:
Post a Comment