صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ مزاحمت نہیں مفاہمت کا وقت ہے ایوان صدر میں کوئی سازشیں نہیں ہو رہی ہیں استعفیٰ نہیں دوں گا ۔آئین میں مواخذے کا طریقہ کار موجود ہے ۔آئین میں ترامیم کے ذریعے میرے اختیارات میں کمی کی گئی تو بیکار نہیں بیٹھوں گا ۔ جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں ۔معاشی بحران اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر رہا ہوں ۔ پارلیمنٹ آزاد و خود مختار ہے ۔ججز کے بارے میں پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے مجھے اور میری قوم کو قبول ہو گا ۔ وزیر اعظم کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں ۔ سیاستدانوں سے میری ملاقاتوں کو سازش کیوں قرار دیا جاتا ہے ۔ میرے بارے میں پھیلائی جانے والی باتیں غلط اور افواہ ہیں جن سے عوام پریشان ہیں ۔ایوان صدر کسی سے تصادم نہیں چاہتا ۔ مرنا جینا ملک میں ہے یہیں رہوں گا ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بیان کے حوالے سے کوئی دباو¿ نہیں تھا۔ ریاست کے اندر راز پر کھلے عام بات نہیں ہونی چاہیے ۔ ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا تھا۔ ججوں کو برطرف نہیں کیا گیا ۔ان خیالات کا اظہار گز شتہ روز نجی چینلز کے سٹو ڈ یو پر فا ر مرز بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ صدر مملکت نے قومی ایشوز سیاسی صورتحال اور ملک و قوم کو درپیش مختلف بحرانوں کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا اور اپنا موقف بیان کیا ۔صدر نے کہا کہ ملک کے لیے سب کو سوچنا چاہیے ۔ میری نظر میں بحرانوں کو موثر حکمت عملی کے تحت حل کیا جا سکتا ہے۔ تصادم نہیں مفاہمت کی ضرورت ہے۔ تصادم سے ملک کو نقصان ہو گا۔ معیشت مزید متاثر ہو گی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسیوں پر عملدرآمد کو حکومت یقینی بنائے ۔ دنیا میں خوراک اور معاشی بحران کی وجہ سے یقیناً ہماری معیشت دباو¿ میں ہے تاہم ہماری معیشت میںاتنی طاقت ہے کہ وہ اس بحران کو سہہ سکے ۔ جائزہ اس بات کالینا ہو گا کہ معاشی اور اقتصادی بحران کب پیدا ہوا ۔ میرے خیال میں آخری 70 دنوں میں معاشی مسائل پیدا ہوئے ۔ہم نیچے جا رہے ہیں اس ملک کو بچائیں عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں دنیا میں گندم چاول سمیت خوراک کے بحران کے بھی یقیناً ہماری معیشت پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں عالمی واقعات اور خطے کی صورتحال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے شارٹ ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنانی ہوں گی ۔ مستقبل میں پانی کا بحران بھی ہو سکتاہے۔ قبل از وقت منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ اس کا حل ہمارے ہاتھوںمیں ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ وافر مقدار میں ہائیڈرل بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ڈیم اور نہریں بنانا ہوں گی قوم کو بیدار کرنا چاہتا ہوں ۔ ایشوز کوایمرجنسی بنیادوں پر حل نہ کیاگیا تو ملک کا مستقبل انتہائی خطرناک ہو گا۔ معیشت تباہ ہو گی ۔غریب پس جائے گا غریب بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ بحرانوں کے حل موجود ہیں یقیناً وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں ہمیں شک نہیں ہے ۔وزیر اعظم کو میری حمایت حاصل رہے گی ۔سیاسی بحران کو حل ہونا چاہیے ۔آئین کے مطابق کام کر رہا ہوں میری طرف سے حکومت میں مداخلت ہو گی نہ ایسا ہو گا اور مداخلت کر بھی کیسے سکتا کابینہ میرے ماتحت تو نہیں ہے ۔ایوان صدر میں سازشیں نہیں بلکہ مجموعی طور پر مفاہمت کا مرکز ہے۔ معمول کے مطابق زندگی گزار رہا ہوں ٹینس کھیلتا ہوں ، تیراکی کے لیے جاتاہوں ، سماجی زندگی معمول کے مطابق ہے کوئی سیاستدان ملنے آ جائے تو یہ کون سی سازش ہے ۔ لگتا ہے کہ انہیں سازش فوبیا ہو گیا ہے پارلیمنٹ آزاد و خود مختار ہے جو بحث ہو رہی ہے اس سے بخوبی اس کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ یہ ججز کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جاناچاہتے ہیں۔ آئینی پیکج بنایا گیا ہے پارلیمنٹ جوبھی حتمی فیصلہ کرے گی مجھے اور قوم کو قبول ہو گا ۔جمہوریت کا سخت حامی ہوں میں غیر متوازن نہیں کہ اٹھاون ٹو بی استعمال کروں ۔ مقامی حکومتوں کا نظام دیا ۔ پالیسی میں جو خلاء تھا اس کی وجہ سے نچلی سطح پر اختیارات کے نظام نے اسے پر کیا ۔انہوں نے واضح کیا کہ بیرون ملک ان کا کوئی گھر ہے نہ جانے کا ارادہ ہے ۔صورتحال انتہائی نازک ہے سیاسی جماعتوں کو چاہیے وہ ذمہ داری کا ثبوت دے صدر پاکستان کے خلاف افواہیں پھیلانے والے درحقیقت پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔پارلیمنٹ سے خطاب کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ اگر گارنٹی ملے تو وہ ضرور پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے۔ نواز شریف سے بات چیت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب دیتے ہوئے صدر نے کہاکہ وہ نواز شریف سے بات کرنے کو تیار ہیں ۔صدر نے واضح کیا صدارت کا عہدہ ایسا نہیں ہے جسے بے وقعت کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جسٹس افتخار محمد چوہری سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وکلاء کے لانگ مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ نے ایوان صدر کا رخ کیا تو اس وقت دیکھا جا ئے گا۔ انہوں نے کہاکہ انہوںنے تو صرف چیف جسٹس کو برطرف کیاتھا جبکہ بقایا ججوں نے اپنی مرضی سے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا تھا۔ بلوچستان کے حالات کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے صدر نے کہاکہ ظاہر ہے اقدامات بھی غیر معمولی ہی ہوتے ہیں ۔ محاذ آرائی سے گریز کرنا ہو گا۔ سابقہ فوجیوں کی تنظیم کے حوالے سے صدر نے کہاکہ یہ لوگ جس ادارے میں زندگیاں گزار کر گئے ہیں آج اس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں ۔حالانکہ ان کے موقف میں کوئی وزن نہیں ہے ۔میڈیا کی آزادی کے لیے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔ 90 فیصد اپوزیشن میرے ساتھ ہے ۔ فوج میں 35 سال تک فیلڈ کمانڈر رہا ہوں بیک فٹ پر یقین نہیں رکھتا ۔ میری فورس میرے خلاف کارروائی نہیں کرے گی ۔لیفٹیننٹ جنرل (ر ) جمشید گلزار کیانی کے انٹرویو کے حوالے سے کہا کہ فوج میں تمام معاملات مشاورت سے طے کئے جاتے ہیں ۔ جو کام بھی ہوتا ہے مشاورت کے ذریعے ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں سابق کور کمانڈر راولپنڈی کا بیان سیکرٹ ایکٹ کے زمرے میں آتاہے فوج کو اس کا جائزہ لینا چاہیے ۔امریکا کے نئے صدر سے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے صدر پرویز مشرف نے کہاکہ بیانات کی اپنی بات ہوتی ہے مگر جب امریکا کے نئے صدر افغانستان ، پاکستان ، فاٹا ، کی تفصیلات اور صورتحال سے آگاہ ہوں گے تو یقیناً ان کا تصور تبدیل ہو جائے گا۔لال مسجد آپریشن کے حوالے سے صدر نے کہا کوئی کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں ہوئے ایسا ہوتا تو پورا آبپارہ تباہ ہو جاتا اور لوگ مارے جاتے جنرل کیانی فوج میں رہنے کے باوجود اس طرح کا غلط بیان کیوں دے رہے ہیں ۔ آپریشن درست تھا ۔ دنیا میں بدنامی ہو رہی تھی آپریشن کرنے والوں کو سلوٹ کرتا ہوں یہ تھی صدر پر ویز مشرف کی گفتگو جس کا مطالعہ کر نے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ آٹھ سا لہ دور میں صدر پر ویز مشرف کو اپنے کسی کر توت پر شر مند گی یا ندا مت نہیں بلکہ انھیں اپنے ہر اس فعل پر فخر ہے جسے عوام میں نفرت کی علا مت سمجھا جا تا ہے بہر حال مشرف با لکل مطمئن ہیں ۔ مشرف کے استعفی کی جہاں تک بات ہے ۔ اس حوالے سے بھی انہوں نے سب پر وا ضح کر دیا ہے کہ استعفی نہیں دوں گا ۔ یعنی پنجا بی کا ایک محا ورہ ہے کہ " پٹ لو جو میرا پٹنا اے " عوامی اور فٹ پا تھی تجز یہ نگا روں کا کہنا ہے کہ مشرف نے اس وقت استعفی نہ د ینے کی بات کی ہے جس کے ایک روز قبل شہباز شریف نے ایک بیان دیا تھا جس میں کہا کیا گیا تھا کہ صدر سے آئینی و قا نو نی تعلقات رہیں گے ۔ مبصرین کہنا ہے کہ مشرف نے یہ جو جرات کی ہے کہ ا ستعفی نہیں دو ں گا ۔ اس کے پس پر دہ حکمران سیا سی جما عتوں کی انھیں آ شیر آ باد حا صل ہے اور عوام کو صرف بے و قو ف بنا یا جا ر ہا ہے ۔ صدر پرویز مشرف کا استعفیٰ سے انکار پر اب ان کا مواخذہ لازمی ٹھہر گیا ہے پارلیمان کی تمام پارٹیوں کو اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف لینا صدر مشرف کو کوئی حق نہیں ہے کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ ججوں کو ایسا حلف اٹھانے پرمجبور کرے جو آئین سے متصادم ہو اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے پر ججوں کو برطرف نہیں کیا جا سکتا آئینی پیکج پر بحث کے لئے مہینوں در کار ہوں گے اور اگر یہ پیکج اسمبلی میں بحث کے لئے پیش کر دیا گیا تو ججوں کی بحالی کا معاملہ موخر ہو جائے گا یہ جماعت یہ تسلیم کر تی ہے کہ تین نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے اور صدر مشرف بھی اس بات کو کئی بار تسلیم کر چکے ہیں اور ایوان صدر میں نجی ا لیکٹرا نک میڈیا کے سٹو ڈیو پر فا رمرز سے بات چیت کر تے ہوئے بھی انہو ںنے کہا کہ میں نے ججوں کو برطرف نہیں کیا اس کا مطلب ہے کہ تمام اقدامات غیر آئینی ہیں ان اقدامات کو کسی آئین کے ذریعے ختم کر نے کی ضرورت نہیں ہے ان کا قانون کی نظر میں وجود ہی نہیں ہے اس کا سبب یہ ہے کہ تمام جج آئین کی روح سے اپنی جگہ موجود ہیں ان کو کام کر نے کا اجازت نامہ چاہیے اور حکومت کا فرض ہے کہ ان کو تحفظ فراہم کرے جہاں تک دس جون کو وکلاء تحریک کا تعلق ہے تو ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صدر کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف تحریک چلائیں تاہم اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے کیونکہ اس ملک میں پہلے ہی امن و امان کی صورتحال خراب ہے تا ہم بہتر یہی ہے کہ دس جون سے پہلے پہلے ججوں کی بحالی کا معاملہ حل ہو جانا چاہیے تمام قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صدر کا تین نومبر کا اقدام بالکل غیر آئینی ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف کو فوری مستعفی ہو جانا چاہیے انہوں نے پارلیمان کی توہین کی ہے ۔ صدر ” نوشتہ دیوار پڑھ لیں“ عوام نے 18 فروری کو ان کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے ۔ تمام ریاستی اداروں میں توازن ضروری ہے ۔ آئینی پیکج کے ذریعے پارلیمنٹ خود مختار ہو گی اس پیکج میں پارلیمان کو بالادست ادارہ بنانے کی بات شامل ہے صدر کا گفتگو میں یہ کہنا کہ وہ اگر پارلیمنٹ نے ان کے اختیارات کم کیے تو وہ مناسب ردعمل ظاہر کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صدر نے ایسا کہہ کر پارلیمنٹ اور آئین کی توہین کی ہے ہم صدر پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آئینی پیکج کے ذریعے پارلیمنٹ اور صدر کے درمیان اختیارات کا جو عدم توازن ہے اس کو درست کریں گے اور پارلیمان کے اختیار ات کو بحال کریں گے۔ جس طرح صحیح جمہوریت میں ہوتا ہے پیپلزپارٹی کو آئین میں ترمیم کرنے کیلئے اکثریت حاصل ہے اس آئینی پیکج میں یہ بات شامل ہے کہ پارلیمان کو صدر کے مقابلے میں بالادست بنایا جائے جو صدر نے پارلیمان کے اختیار چھین کر ایوان صدر میں منتقل کیے ہیں ۔ وہ ان سے ضرور واپس لیے جائیں گے اس بات پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہے اس لیے یہ آئینی پیکج پارلیمان میں جائے گا تو آئینی پیکج کے اس پہلو پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آئے گا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس بات کا ارادہ کیے ہوئے ہے کہ تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دوبارہ مل جائیں انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کو بہت پہلے چلا جانا چاہیے تھا اٹھارہ فروری کے انتخابات میں صدر مشرف کے خلاف واضح پیغام ہے کہ عوام انہیں قبول نہیں کررہے ۔ صدر کی موجودگی سے ملک میں سیاسی اور معاشی عد م استحکام بڑھتا جا رہا ہے ان کا یہ کہنا کہ استعفیٰ نہیں دوں گا مناسب نہیں ہے ان کو جلد از جلد استعفیٰ دے دینا چاہیے بجائے اس کے کہ پارلیمان ان کا مواخذہ کرے انہیں خود ہی چلے جانا چاہیے انہیں خود نوشتہ دیوار پڑھ کر ایک طرف ہو جانا چاہیئے تاکہ اس ملک کے جو سیاسی عدم استحکام اور سیای تقسیم ہے اس کا ازالہ ہو سکے ۔ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت موجود ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ مواخذے کی نوبت آنے سے پہلے صدر خود استعفی دے کر چلے جائیں یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہے اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر مواخذے کی نوبت ضرور آئے گی ایک نہ ایک دن تمام ججوں کو بحال ہونا ہی ہے ۔ اور ججوں کی بحالی کے بارے میں جو انہوں نے گفتگو کی ہے وہ بڑی مضحکہ خیز تھی انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے 60 ججوں کو نہیں نکالا بلکہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر خود اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے ۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) کے ترجمان صدیق الفاروق نے کہا ہے کہ صدرپرویز مشرف استعفیٰ نہیں دیں گے ان سے استعفیٰ لیا جائے گا بالکل اسی طرح جس طرح ان سے وردی اتروائی گئی پرویز مشرف خود تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ غیر آئینی ہیں پرویز مشرف نے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں وہ غیر آئینی ہے اگر پرویز مشرف غیر آئینی اقدامات اور پولیس کی طاقت کے ذریعے ججز کو معزول کر سکتے ہیں اور پوری قوم کو مسائل میں دھکیل سکتے ہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنے آئینی اقدامات کے ذریعے ججوں کو بحال کر سکتے ہیں پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے نئی بات نہیں وہ استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ ان سے استعفیٰ اس طرح لیا جائے گا جس طرح ان سے وردی اتروائی گئی تھی مسلم لیگ بھی مفاہمت چاہتی ہے لیکن ان اقدامات پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی جو پرویز مشرف کی طرف سے غیر آئینی طور پر اٹھائے گئے ہیں ریاست کی ناکامی کی اصل وجہ خود پرویز مشرف ہوں گے۔ اگر وہ عہدہ چھوڑ دیں تو ملکی امور اور تمام نظم و نسق احسن طریقے سے چلنا شروع ہو جائے گا۔پرویز مشرف کے پاس 58ٹو بی کا اختیار نہیں ہے۔لہذٰا اس کے استعمال کا کیا جواز بنتا ہے صدر مشرف کی مثال ایسی ہے کہ انگوروں تک پہنچا نہ جائے اور یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لی جائے کہ انگور کھٹے ہیں پرویز مشرف اٹھاون ٹو بی کا استعمال کر کے کیا امریکہ کو دعوت دیں گے امریکہ تو پہلے ہی پاکستان کو ناکام ریاست بنانا چاہتا ہے کیا پرویز مشرف ایساکر کے امریکہ کو دعوت دیں گے کہ وہ آ کرپاکستان پر قبضہ کرلے ۔ اب نہ امریکہ اور نہ مشرف کی چلے گی۔ جبکہ حمید گل نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور یہ ملک جذبے سے بھرپور 16کروڑ عوام کا ہے جو ملک کو بچانے کیلئے ہم جانیں قربان کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور ہم اس عمر میں بھی کھڑے ہو کر مقابلہ کریں گے کوئی ہمارے اس عزم کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ مشرف کے مز کو رہ با لا بیان کے رد عمل میں مدینہ منورہ سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زر دار ی نے کہا ہے کہ منتخب پارلیمنٹ اختیار رکھتی ہے ،صدر یا وزیر اعظم کو کسی بھی وقت گھر بھیج سکتی ہے پارلیمنٹ آئینی اقدامات کے لئے سب سے با اختیار ادارہ ہوتا ہے میاں محمد نواز شریف ہمارے ساتھ ہیں پیپلز پارٹی کے وزراء پنجاب حکومت میں شامل ہیں سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں آمریت نے جمہوری تسلسل کو متاثر کیا پیپلز پارٹی کی حکومت مسائل پر قابو پائے گی اور عدلیہ مسئلہ بھی حل کر لیا جائے گا پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زر داری نے کہا کہ پاکستان اس وقت بے شمار مسائل اور مشکل دور سے گزر رہا ہے تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت ان مسائل کے حل کے لئے تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تا کہ مسائل پر جلد از جلد قابو پایا جا سکے تمام مسائل کے حل کے لئے اتحادی جماعتیں متحد ہیں میاں نواز شریف ہمارے ساتھ ہیں اور ہمارے وزراء پنجاب حکومت میں ان کے ساتھ ہیں صدر پرویز مشرف اور سٹو ڈیو پر فا ر مرزکے درمیان ملاقات کے سوال پر آصف علی زر داری نے کہا کہ پارلیمنٹ با اختیار ہو تا ہے کوئی بھی منتخب پارلیمنٹ آئینی طریقے سے صدر یا وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتی ہے ہم تمام مسائل پر مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اس مو قع پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ حکومت کی اولین ترجیح ملک میں امن وامان کا قیام اقتصادی ترقی اور استحکام ہے۔ پاکستانی سیاست میں آمریت نے جمہوری تسلسل کو متاثر کیا انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تمام مسائل پر قابو پا لے گی اور عدلیہ کا مسئلہ بھی حل کر لیا جائے گا آئینی اداروں میں توازن قائم کریں گے او رملک میں جلد سیاسی استحکام آئے گا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت عدلیہ کے مسئلے کو حل کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ اور صدر کے درمیان اختیارات کا توازن قائم کرنے کیلئے آئینی پیکج لائے گی وزیراعظم نے کہاکہ ہماری پارٹی کی قیادت اور ہم نے جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے اور بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہمارا اتحاد قائم و دائم ہے جبکہ بعض مبصرین کا خیا ل ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان مفاہمت ہو چکی ہے۔آصف علی زرداری نے انہیں یقین دلادیا ہے کہ ان کا مواخذہ نہیں ہو گا اس لئے پرویز مشرف کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی ہے کہ آئین کے تحت اگر مواخذہ ہو سکتا ہے تو ضرورکریں اور پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے ظاہر ہے کہ این آر او کے ذریعے پرویز مشرف نے آصف علی زرداری پر اتنے احسانات کئے ہیں اوران کی پوری سیاست کارخ ہی بدل دیاہے تو اس کے بدلے میں آصف علی زرداری کو پرویز مشرف پر یہ بھی احسان کرنا چاہیے کہ جو انہوں نے کر دیاہے صدر کی سے بات چیت پر اپنے رد عمل میں عوام کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کے احسانات کی وجہ سے پرویز مشرف کو استعفیٰ نہ دینے کی ہمت ہوئی ہے عوام کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف خود نہیں بول رہے ان کے پیچھے آصف علی زرداری بول رہے ہیں ورنہ ساڑھے تین ماہ میں پرویز مشرف روپوش ہوگئے تھے زیر زمین چلے گئے تھے آصف علی زرداری کی یقین دہانی پر انہوں نے استعفیٰ نہ دینے کی بات کی ہے ۔ آصف علی زرداری نے ان کو کمک اور قوت فراہم کی ہے پی پی پی اور صدر مشرف ایک ہو گئے ہیں اس لئے ا±ن کے خلاف مواخذہ نہ کرنے کی بات ہو رہی ہے پرویز مشرف کے ساٹھ ججوں کو برطرف نہ کرنے کے سوال پر عوام کا کہنا ہے کہ صدر مشرف نے ججوں کو قید کر رکھا تھا اسی لئے وزیراعظم نے ان کی رہائی کا اعلان کیا تھا انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر مشرف جھوٹ کا پلندہ ہیں اس سے پہلے بھی انہوںنے وردی اتارنے جیسے قوم سے بہت وعدے کئے تھے مگر وہ پورے نہ کئے۔صدرمشرف کی کسی بات پر اعتبار نہیں ہے وہ بش اور آصف زرداری کے کہنے پر بڑے سے بڑا سفید جھوٹ بول سکتے ہیں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر ججوں نے ایمانداری کا ثبوت دیا تھا اس لئے مشرف کے الزام کو بالکل مسترد کردینا چاہے اور ایک قانونی آرڈر کے ذریعے تمام ججوں کو بحال کرنا چاہیے اب پیپلز پارٹی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ پرویز مشرف کا موقف مضبوط ہو سکے گا ۔ جبکہ یکس سروس مین سوسائٹی نے وکلاء تحریک کا ساتھ دینے اور لانگ مارچ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہفتہ کو یہاں ایکس سر وس مین سوسائٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بریگیڈیئر(ر) محمود نے کہا کہ ایکس سروس مین سوسائٹی کے سامنے اس وقت دو بڑے مقاصد ہیں ۔ پہلا عدلیہ کی مکمل بحالی دو نومبر کی پوزیشن پر واپسی اور دوسرا ملک میںآمریت کا خاتمہ اور پرویز مشرف کا احتساب ۔ ا ن مقاصد کے حصول کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وکلاء کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا ۔ لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کی جائے گی اور لانگ مارچ کے لیے انتظامات کو مربوط کرنے کے لیے کیے گئے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ لیاقت باغ میں ایک استقبالیہ سنٹر قائم کیا جائے گا ۔ جہاں پنجاب سرحد اور آزادکشمیر سے آنے والے ایکس سروس مین جمع ہوں گے اور یہیں سے لانگ مارچ میں شریک ہوں گے۔ ایکس سروس مین کے لیے قیام کھانے اور نماز وغیرہ کا انتظام کیا جائے گا اور اس اجتماع میں شرکت کے لیے تمام ایکس سروس مین کے رشتہ داروں اورلواحقین کو شرکت کی دعوت عام ہے 13 جون بروز جمعہ کو لانگ مارچ مکمل طورپر پرامن ہو گا ۔ آج ہر طرف سے ریٹائرڈ جرنیلوں پر تنقید کی جا رہی ہے لیکن واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ایکس سروس مین سوسائٹی کے ممبران سب برابر ہیں اور ان میں جرنیل یا سپاہی کی کوئی تحقصیص نہیں ہے ۔ ہم سب کا درجہ ایک ہے ۔پرویز مشرف کے تین ترجمانوں کی جانب سے بازاری زبان استعمال کی جا رہی ہے لیکن اگر یہ ترجمان اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ان پر اصل صور تحال و اضح ہوجائے گی مارشل لاء لگانے والے صرف چند جرنیل ہوتے ہیں جبکہ باقی فوج کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا ۔ اور جب مارشل لاء لگ جاتا ہے توسپریم کورٹ اسے لیگل کور دے دیتی ہے ۔ا س میں سابق فوجی کیا کر سکتے ہیں سلمان تاثیر ( گورنر پنجاب) پہلے سوئے رہے اور گورنر بننے کے بعد انہیں باتیں کرنا آگئیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے جیالے ہونے کے دعویدار ہیں لیکن بے نظیر بھٹو کے قتل کے چھ ماہ گزر گئے اور وہ گورنر بننے کے بعد بے نظیر کی قبر پر مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لیے گئے ۔ا س سے قبل نہ تو انہوں نے بے نظیر کے جنازے میں شرکت کی اور نہ ہی فاتحہ خوانی کے لیے گئے ۔ ایکس سروس مین اور سوسائٹی کے ممبران نے کہا کہ سابق فوجیوں میں کئی ایسے افراد ہیں کہ جنہوں نے پرویز مشرف سے ہاتھ ملانے سے بھی انکار کردیا شیخ رشید کے ایک بیان کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے اور ہم سابق فوجی پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر پاکستان کوآئندہ نسلوں کے لیے مضبوط و مستحکم بنائیں گے۔سوسائٹی کے ممبران نے کہا کہ جنرل جمشید کیانی نے کارگل جنگ کے حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں وہ چشم کشا ہیں اور اگر بھارت کارگل کے معاملے کی تحقیقات کرا سکتا ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیںکر سکتا ۔ بے نظیر دور میں کارگل آپریشن پیش کیا گیا ۔ تو جنرل بابر نے کہا کہ یہ آپریشن قطعی طورپر ناقابل عمل ہے ۔ اس کے باوجود پرویز مشرف نے غیر ذمہ داری کا ثبو ت دیتے ہوئے کارگل آپریشن شروع کیا ۔ اور قوم کو مایوس کیا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کارگل آپریشن کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کرائی جائیں ۔ اس آپریشن سے پہلے نہ تو پاک فضائیہ کے سربراہ کو بتایا گیا اور نہ ہی پاک بحریہ کے چیف سے مشورہ کیا گیا ۔ یہ قوم وملک کے ساتھ دشمنی اور غداری نہیں تو اور کیا ہے ۔ جبکہ شہباز شریف نے کہاہے کہ ججوں کی بحالی کے لیے کوششیں کرنا اورایسی کوششوں کی مکمل معاونت پنجاب حکومت کی اولین ترجیح ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبے سے قبضہ مافیا کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن پہنچنے پر جو ان کے احساسات تھے، ایسے ہی کچھ احساسات تقریبا دس سال کے بعد ایوان میں داخل ہوتے وقت بھی تھے پاکستان مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کواپنا فرض سمجھتی ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کی جائے گی پنجاب حکومت وکلاء کے دس جون کے لانگ مارچ کی حمایت کرتی ہے اور امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے جائیں گے میاں نواز شریف اور وہ خود ذاتی طور پر اس لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوپائیں گے تاہم پارٹی کے نمائندے اور کارکن اس پرامن تحریک میں بھرپور شرکت کریں گے۔میاں شہباز شریف نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کا قیام، غریب طبقے پر سے بوجھ کم کرنا اور قبضہ مافیا کا صفایا ان کی انتظامی ترجیحات ہوں گی۔مسلم لیگ ( ن ) کے صدر نے دوست محمد کھوسہ کی مختصر مدت کے لیے بطور وزیراعلی پنجاب خدمات کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ایک نوجوان مگر منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے گا۔واضح رہے کہ مبصرین میاں شہباز شریف کو ایک اچھا منتظم قرار دیتے ہیں تاہم اس دفعہ جب وہ وزارت اعلی سنبھال رہے ہیں پنجاب کے گورنر ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں صدر مشرف کے قریبی ساتھیوں اور شریف خاندان کے سیاسی حریفوں میں سے خیال کیا جاتا ہے۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment