٭۔ ۔ ۔ وقت آنے پر ڈاکٹر قدیر کا مسئلہ بھی حل کرلیا جائیگا
٭۔ ۔ ۔ تصادم پارلیمنٹ کی جانب سے نہیں وہ کررہے ہیں جو آئینی اداروں اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے میں حیل وحجت کررہے ہیں
٭۔ ۔ ۔ بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستان توڑنے کی سازش تھی جو ابھی بھی جاری ہے، آئندہ دس روز کے اندر بیلنس شیٹ جاری کی جائے گی جس میں ملکی خزانے بارے اصل صورتحال بتائی جائے گی
٭۔ ۔ ۔ ملکی نظام بدلنے کا آغاز کردیا، ایسی روایات قائم کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں ایک دوسرے سے دور نہ ہوں
٭۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم بارے تحفظات ہیں، قومی فرائض ادا کرتے ہوئے تمام ایشوز کو حل کریں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کا پریس کانفرنس سے خطاب
لاہور۔ عدلیہ کا بحران اتنا زیادہ بڑا نہیں ہے جتنا اسے ظاہر کیا جارہا ہے، تصادم پارلیمنٹ کی جانب سے نہیں بلکہ ان کی طرف سے ہورہا ہے جو ملک کے آئینی اداروں کو تسلیم نہیں کرتے اور عوام کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرنے میں ابھی تک حیل وحجت سے کام لے رہے ہیں اور انہوں نے پنجاب کے سب سے بڑے صوبہ کی اسمبلی کا اجلاس پونے دو ماہ بعد 9اپریل کو طلب کیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستان توڑنے کی سازش تھی جو اب بھی جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں جن لوگوں سے اپنی زندگی کو خطرہ ظاہر کیا تھا ان کے نام وقت آنے پر بتائے جائیں گے اسی مقصد کیلئے اقوام متحدہ سے محترمہ کے قتل کی انکوائری کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔آئندہ دس روز کے اندر ایک بیلنس شیٹ جاری کی جائے گی جس میں قوم کو بتایا جائے گا کہ ملک کے خزانے میں کیا ہے اور ہمیں کیا معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے جاتی عمرہ میں ابتدائی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف، چودھری نثار علی خان، اسحاق ڈار، خواجہ آصف، پیپلز پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض، مشتاق اعوان، عزیز الرحمن چن ودیگر بھی موجود تھے۔ قبل ازیں آصف علی زرداری لاہور ایئرپورٹ پر پہنچے تو میاں شہبازشریف اور چودھری نثار علی خان نے ان کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ لے کر جاتی عمرہ آئے جبکہ ملاقات سے قبل آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کے والد میاں محمد شریف مرحوم کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ میں میاں نوازشریف سے مل کر ایسی روایات قائم کردینا چاہتا ہوں کہ ہماری آئندہ نسلیں ایک دوسرے سے دور نہ ہوںاور ہماری کوششوں سے انشاء اللہ تعالیٰ ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمیں ساتھ رہنا ہوگا۔ عدلیہ کی بحالی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا بحران اتنا بڑا نہیں ہے جتنا اسے بنایا جارہا ہے۔ اعلان مری میں یہ معاملہ طے کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کا نظام بدلنے کا عہد کیا ہے جس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون کو سپیکر بنایا گیا ہے اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کو پوری پارلیمنٹ نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے۔ ہم عوام اور اللہ کی مدد سے نظام بدلیں گے۔ یہی شہید محترمہ کے خون کا بہترین انتقام ہوگا۔ معزول جسٹس خلیل الرحمن رمدے کا گھر جبرا خالی کروانے اور ان کا سامان باہر پھینکنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ منتخب وزیراعظم بلاتاخیر اس پر معذرت کی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نوازشریف ، مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی اور ایم کیو ایم کی مدد سے ایک نیا باب رقم کرنا چاہتا ہوں۔ ایم کیو ایم سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے تحفظات کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ سیاست میں ایسے تحفظات ہمیشہ موجود رہتے ہیں لیکن ہم اپنے قومی فرائض ادا کرتے ہوئے ان ایشوز کو حل کریں گے۔ صدر پرویز مشرف سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ میرے ان سے تعلقات کیوں ہوں گے۔ حکومت ، پارلیمنٹ ، ایوان صدر اور سینٹ کو یہ معاملات حل کرنے ہیں اور ان کے تعلقات کا انحصار ان کے اپنے رویوں پر ہے۔ میرا نوازشریف اور دیگر رہنماؤں کا کام تو صرف پالیسی دینا ہے۔ قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظربندی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وقت آنے پر یہ مسئلہ بھی حل کیا جائے گا۔ جب ان سے کہا گیا کہ عدلیہ کو سرفہرست رکھ لیا گیا ہے لیکن قومی ہیرو بارے کچھ نہیں کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو سرفہرست رکھنا ضروری تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں آصف علی زرداری نے کہا کہ ان کی شہادت پاکستان توڑنے کا منصوبہ تھا جو ابھی بھی جاری ہے۔ اس کا ایک ایکٹ بی بی کی شہادت تھا۔ اس سوال پر کہ محترمہ نے اپنی زندگی میں جن تین افراد سے خطرہ کا اظہار کیا تھا کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ محترمہ نے اپنے ایک خط میں تین افراد کا ذکر کیا تھا جس کا انکشاف وقت آنے پر کیا جائے گا۔ 12مئی 2007ء کو کراچی میں 48ہلاکتوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ جب عدلیہ آزاد ہوگی تو یہ معاملہ بھی وہی دیکھے گی۔ صوبہ سندھ کو وفاقی کابینہ میں مزید وزارتیں دینے سے متعلق انہوں نے کہا کہ کیا سندھ کیلئے یہ اعزاز کم ہے کہ وہاں سے ایک خاتون کو سپیکر بنایا گیا ہے۔ سندھ میں ہماری حکومت ہے آگے چل کر بھی اسے فیڈرل میں حصہ دیں گے۔ ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ابھی تک انہیں اس بات کی میاں صاحب سے اجازت نہیں ملی۔ خارجہ پالیسی اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے سوال پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم بلوچستان پر پہلے ہی معافی مانگ چکے ہیں۔ جب کابینہ حلف اٹھا لے گی تو اس کے بعد ہم اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر پالیسیاں بنائیں گے اور وہی پالیسی اختیار کی جائے گی جو ملک وقوم کے بہتر مفاد میں ہوگی۔ ملک میں امن وامان قائم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے زیادہ خمیازہ ہم نے بھگتا ہے۔ ہماری لیڈر شہید ہوئیں۔ بھائی اور بچے مارے گئے اس کے علاوہ مجھے سب سے زیادہ یہ تجربہ رہا ہے کہ تھانوں اور عدالتوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے اس کا حل عدالتی اور پولیس ریفارمز میں ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک پولیس کو اس حد تک سہولتیں نہیں دی جاتیں کہ وہ رزلٹ دے سکیں اور عدلیہ کو بھی خودمختار اور آزاد نہیں کیا جاتا اس وقت تک عام آدمی کو ریلیف انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم تیس دن کے اندر ایسے نظام کیلئے خدوخال واضح کردیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے کہاکہ ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے تحفظات موجود ہیں اور اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک ہمارے سوالات کے جوابات نہیں آجاتے۔ پارلیمنٹ کے دیگر اداروں سے ٹکراؤ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ نے کبھی بھی کسی سے محاذ آرائی نہیں کی بلکہ محاذ آرائی انہوں نے کی جنہوں نے پارلیمنٹ کو کچلا اور آئین توڑا اور اب بھی وہ ٹکراؤ کی باتیں کرتے ہیں اور ابھی تک پارلیمنٹ اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ پنجاب جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کی اسمبلی کا اجلاس پونے دو ماہ بعد 9اپریل کو طلب کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں عبوری وزیراعلی سے ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا اس کا اعلان وقت آنے پر کیا جائے گا تاہم صوبہ کے وزیراعلی میاں شہباز شریف ہوں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان کچھ زیادہ اختلافات نہیں ہیں۔ میثاق جمہوریت پر دونوں جماعتوں نے دستخط کررکھے ہیں اور دونوں اس پر قائم ہیں۔ یہ ہمارے منشور میں بھی شامل ہے اس پر عمل کیا جائے تو تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ وفاقی کابینہ کی تشکیل کے بعد آئندہ دس دن کے اندر بیلنس شیٹ جاری کی جائے گی جس کے ذریعے قوم کو بتایا جائے گا کہ جانے والوں نے خزانہ میں کیا چھوڑا ہے۔ ادارے کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ہمیں ان کی کس طرح تشکیل نو کرنی ہے۔
No comments:
Post a Comment