پرویز مشرف جب تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے ایسا لگے گا کہ جیسے کوئی نئی حکومت آئی ہی نہیں
،معزول ججوں کو گفت و شنید سے بحال کریں گے اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے
میرے اور آصف علی زرداری میں سے کوئی بھی ڈکٹیٹر نہیں ہے نہ ڈکٹیٹرشپ کا حامی ہے۔
پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ چاہتی ہیں کہ عدلیہ کو اپریل کی 30 تاریخ تک بھوربن معاہدے کے مطابق بحال کرلیا جائے۔
افتخار محمد چوہدری کو بحالی کے بعد ریٹائرڈ کر دینے کی باتیں بے بنیاد ہیں
افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے ایسی کوئی بات زیرِ غور آئی ہی نہیں
ہم کسی بھی معاملے کو بریکنگ پوائنٹ تک نہیں لے جانا چاہتے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ متحارب جماعتوں کا اتحاد بنا ہے اسے کسی صورت ناکام نہیں ہونے دوں گا
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کا امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو
اسلام آباد۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پرویز مشرف18فروری کے بعد قائم ہونے والے جمہوری نظام میں فٹ نہیں ہوتے،جب تک وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے ایسا لگے گا کہ جیسے کوئی نئی حکومت آئی ہی نہیں،معزول ججوں کو گفت و شنید سے بحال کریں گے اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے میرے اور آصف علی زرداری میں سے کوئی بھی ڈکٹیٹر نہیں ہے نہ ڈکٹیٹرشپ کا حامی ہے۔ دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ عدلیہ کو اپریل کی 30 تاریخ تک بھوربن معاہدے کے مطابق بحال کرلیا جائے۔افتخار محمد چوہدری کو بحالی کے بعد ریٹائرڈ کر دینے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے ایسی کوئی بات زیرِ غور آئی ہی نہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین یا جماعت کے کسی دوسرے رکن نے ان کی پارٹی کے ساتھ کوئی ایسی بات کی ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کو بریکنگ پوائنٹ تک نہیں لے جانا چاہتے۔پاکستان میں پہلی مرتبہ متحارب جماعتوں کا اتحاد بنا ہے اسے کسی صورت ناکام نہیں ہونے دوں گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں کیا۔سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں دیا گیا مینڈیٹ دراصل مشرف کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اِس جمہوری نظام میں فٹ نہیں ہوتے جو 18 فروری کے بعد قائم ہوا ہے اور جب تک وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے ایسا لگے گا کہ جیسے کوئی نئی حکومت آئی ہی نہیں۔ صدر مشرف کے بارے میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ سب اختیارات بھی انہوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جِن سے پارلیمنٹ کو خطرہ رہا ہے۔عدلیہ کی بحالی کے مسئلے پر نواز شریف نے کہا کہ جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہوا کرتی ہے کہ معاملات کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی معاملے کو ’بریکنگ پوائنٹ‘ تک نہیں لے جانا چاہتے۔پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ماضی میں متحارب جماعتوں کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑتی رہی ہیں، ان کے درمیان یہ پہلا اتحاد ہے، جِسے ہر قیمت پر کامیاب ہونا چاہیئے۔نواز شریف نے بتایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کسی بھی ایسی مشکل سے دوچار ہوجائے جِس سے باہر نکلنے کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے اس لیے ہم اتحاد کو کسی قیمت پر بھی توڑنا نہیں چاہتے۔ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے، دونوں جماعتوں کے قائدین ’آپس میں لچک کا پورا پورا اظہار کر رہے ہیں۔عدلیہ کی بحالی کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی لچک دار رویہ اپنائے ہوئے ہیںایسا نہیں ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کسی ڈیموکریٹ سے بات کر رہا ہے۔ یہ ایک ڈیموکریٹ دوسرے ڈیموکریٹ سے بات کر رہا ہے۔میرے اور آصف علی زرداری میں سے کوئی بھی ڈکٹیٹر نہیں ہے نہ ڈکٹیٹرشپ کا حامی ہے۔عدلیہ کے بارے میں ایک سوال پر میاں نواز شریف نے کہا کہ دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ اپریل کی 30 تاریخ تک بھوربن معاہدے پر عمل درآمد کرلیا جائے۔ اِس ضمن میں انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتیں بھوربن معاہدے پر کاربند ہیں اور چاہتی ہیں کہ اس کی روح کے مطابق عمل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو اِس لیے معرضِ وجود میں لایا گیا تاکہ مل بیٹھ کر معاہدے کی تفاصیل کو مزید طے کر لیا جائے۔پھر یہ کہ اِس معاہدے میں اگر کسی جانب سے کوئی ابہام ہے توکمیٹی اس کو دور کرے اور اِس متعلق بھوربن میں جو عزم کیا گیا تھا اسی کے مطابق عمل پیرا ہوا جائے۔اِس سوال کے جواب پر کہ کیا معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحال ہونے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے، نواز شریف نے کہا کہ ایسی خبریں درست نہیں، کیونکہ ایسی کوئی بات زیرِ غور آئی ہی نہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین یا جماعت کے کسی دوسرے رکن نے ان کی پارٹی کے ساتھ کوئی ایسی بات کی ہے۔
No comments:
Post a Comment