International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 22, 2008

پیپلز پارٹی کی حکومت کا پہلا بجٹ ہے ۔۔۔ تحریر : اے پی ایس،اسلام آباد



سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد سولہ سے بڑھا انتیس کرنے کی تجویز اتوار کو قومی اسمبلی سے مالیاتی بل کے ساتھ منطور ہونے کے باوجود وزیر قانون فاروق نائیک نے کہا ہے کہ معزول جج صرف آئینی پیکج کی منظوری پر ہی بحال ہوں گے۔اتوار کے روز قومی اسمبلی نے سالانہ بجٹ دو ہزار آٹھ اور نو کو قانونی جواز فراہم کرنے والے فائننس یا مالیاتی بل کی منظور دی جس میں وہ شق بھی شامل ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ مالیاتی بل کی شق نمبر اٹھارہ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کا تعین کرنے والے انیس سو ستانوے کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اس تعداد کو انتیس کر دیا جائے اور یہ ترمیم تین نومبر دو ہزار سات کے روز ہونے والی تبدیلیوں سے بھی بالا قرار دی جائے۔‘ جبکہ ایاز میر نے کہا ہے کہ مالیاتی بل کے ذریعے ججوں کی تعداد بڑھانا آئین اور عدلیہ کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ یہ تو آمروں کا طریقہ ہے کہ وہ درست کام کو بھی چور دروازوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایک منتخب حکومت کو آئین کا اس طرح سے تماشہ بنانا زیب نہیں دیتا۔فائننس بل میں شامل جب یہ شق ایوان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کی گئی تو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے بیگم عطیہ عنایت اللہ نے کہا کہ ان کی جماعت ججوں کی تعداد بڑھانے کی حامی ہے تاہم اس کے لیے جو طریقہ کار حکومت نے اختیار کیا ہے وہ نا مناسب ہے۔ انہوں نے مالیاتی بل کے ذریعے ججوں کی تعداد میں اضافے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی جماعت کی جانب سے اس بارے میں ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اس شق کی مخالفت نہ کئے جانے کے بعد رائے شماری کے بغیر ہی مالیاتی بل کی دیگر شقوں کی طرح یہ شق بھی منظور کر لی گئی۔ ججز سپریم کورٹ ایکٹ میں اس ترمیم کی منظوری کے بعد حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ کے رکن ایاز امیر نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مالیاتی بل کے ذریعے ججوں کی تعداد بڑھانا آئین اور عدلیہ کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ نکتہ اعتراض پر تقریر کرتے ہوئے ایاز امیر نے کہا کہ یہ تو آمروں کا طریقہ ہے کہ وہ درست کام کو بھی چور دروازوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایک منتخب حکومت کو آئین کا اس طرح سے تماشہ بنانا زیب نہیں دیتا۔ ایاز امیر کے مو¿قف کا جواب دیتے ہوئے تجویز کے محرک وزیر خزانہ نوید قمر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کی تجویز پر تمام اتحادی جماعتوں کے ارکان کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ اس لئے اس موقع پر اتحادی جماعت کے ایک رکن کا اعتراض بلا جواز ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی فہمید مرزا نے ایازامیر کے نکتہ اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تجویز پر منظوری کے بعد بحث کرنا بے مقصد ہے اگر اتحادی جماعتوں کے درمیان اس بارے میں کوئی مسئلہ ہے تو اسے پارٹی کی سطح پر حل کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما چودھری نثار نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی جماعت بھی ججوں کو اس طرح سے بحال کرنے کے حق میں نہیں ہے اور اس مقصد کے لئے صرف اور صرف انتظامی حکم کی حمایت کرے گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آج ان کی جماعت نے اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت فنانس بل کی مخالفت نہیں کی تاہم اگر اس شق پر رائے شماری کی نوبت آتی تو ان کی جماعت اس رائے شماری میں حصہ نہ لے کر اپنے مو¿قف کا اظہار کرتی۔ وزیر قانون فاروق نائیک نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فنانس بل میں ججوں کی تعداد میں اضافے کی شق شامل کرنے کا مقصد ان تمام ججوں کے مالیاتی معاملات کو پیچیدگی سے محفوظ رکھنا تھا۔ وزیر قانون نے کہا کہ جہاں تک تین نومبر کو معزول قرار دیئے گئے ججوں کا تعلق ہے، تو وہ اس آئینی پیکج کی منظوری کے بعد ہی بحال ہوں گے جس پر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔ وزیر خزانہ نے ایک روز پہلے اقتصادی سروے پیش کیا تھا وزیر خزانہ نوید قمر نے وزارت دفاع کے بجٹ کی تفصیل چھیالیس برس میں پہلی بار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سامنے پیش کر دیں جس پر پارلیمنٹ میں ارکان نے سیاسی تقسیم سے بالا تر ہو کر حکومت کو اس ’تاریخی‘ موقع پر مبارکباد پیش کی۔دو صفحات پر مشتمل پاکستان کی مسلح افواج کے اخراجات پر مشتمل اس مختصر تفصیل کے مطابق دفاع کے لیے مختص کردہ دو سو چورانوے ارب روپے کا بڑا حصہ آرمی کے لیے رکھا گیا ہے جس کی کل مالیت ایک سو اٹھائیس ارب روپے ہے۔ فضائیہ اور بحریہ کے لیے بالترتیب اکہتر اور انتیس ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جبکہ مسلح افواج کی اسٹیبلشمنٹ یا انتظامی اخراجات کا تخمینہ چھیاسٹھ ارب روپے لگایا گیا ہے۔ آرمی بجٹ کا بڑا حصہ اپنے ملازمین پر صرف کرے گی جس کے لیے اکہتر ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح فضائیہ اور بحریہ بھی اپنے بجٹ کا بڑا حصہ ملازمین پر خرچ کریں گے جبکہ فضائیہ کے آپریشنل اخراجات سولہ ارب اور بحریہ کے چار ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔ چار دہائیوں میں یہ پہلی بار ہے کہ حکومت نے دفاعی بجٹ کی تفصیل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی ہے جسکے بعد اب نہ صرف دونوں ایوانوں میں بلکہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں بھی اس بجٹ پر بحث کی جا سکے گی اور دیگر وزارتوں کی طرح اگر کوئی رکن اس بجٹ میں مختص کسی بھی رقم کے بارے میں کوئی بھی اعتراض اٹھاتا ہے تو مسلح افواج کے نمائندوں سے اسکی جواب طلبی کی جا سکے گی۔ سینیٹ میں وزیر خزانہ کی جانب سے دفاعی بجٹ کی یہ تفصیل قائد ایوان رضا ربانی نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت میں دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہد حسین نے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر حکومت کو مبارکبار دی۔ انہوں نے کہا کہ اب عوامی نمائندے نہ صرف دفاعی بجٹ پر بحث کر سکیں گے بلکہ اس تاثر کو بھی تقویت ملے گی کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اب صرف چند گنے چنے سیاسی رہنما رہ گئے ہیں جو بلوچستان میں رہتے ہوئے وفاق کی بات کرتے ہیں سینیٹ کے اجلاس میں منگل کو بلوچستان اور عدلیہ کے حوالے سے جذباتی اور تقاریر کی گئیں اور سینیٹ ارکان نے ا±ن سے مکمل سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ میر جان جمالی اور مسلم لیگ ق کے سینیٹر نے بلوچوں کو حقوق نہ ملنے کی صورت میں علیحدگی کا مطالبہ کرنے کی دھمکی دی۔ پیپلزپارٹی سےتعلق رکھنے والے سینیٹر صفدر عباسی نے بھی بجٹ پر بحث کے دوران ججوں کو بحال نہ کرنے اور مختلف معاملات میں میرٹ کو نظرانداز کرنے پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر حزب اختلاف اور اقتدار کے بعض ارکان سے داد سمیٹی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر جان جمالی نے اپنی جذباتی تقریر میں کہا کہ اگر مرکز نے بلوچستان کو اسکے حقوق سے اب بھی محروم رکھا تو وہ وقت دور نہیں جب وہاں جانے کے لیے پاکستانیوں کو پاسپورٹ درکار ہو گا۔ جان جمالی کا کہنا تھا کہ اب صرف چند گنے چنے سیاسی رہنما رہ گئے ہیں جو بلوچستان میں رہتے ہوئے وفاق کی بات کرتے ہیں لیکن اگر مرکز کی پالیسیوں میں تبدیلی نہ آئی تو پھر ’ہم بھی علیحدگی کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گے‘۔ جان جمالی نے کہا کہ ’میرا تعلق اس خاندان سے ہے جس کا انیس سو چونتیس سے محمد علی جناح کے ساتھ تعلق ہے جب وہ قائد اعظم بھی نہیں بنے تھے لیکن اب میرے لیے بھی وفاق کی بات کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے‘۔ انہوں نے بلوچ تحریک کے رہنما اکبر بگٹی کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اکبر بگٹی کے مطالبات کے مطابق بلوچستان کو اسکے وسائل کے مطابق رقم ادا کر دے ورنہ وقت بہت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور اب بات خودمختاری سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ جان جمالی نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز وزیراعلیٰ بلوچستان کے ہمراہ وزیراعظم سے ملنے جا ر ہے ہیں اور اس ملاقات میں انہی معاملات پر بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ’میری دعا ہے کہ اس ملاقات سے ہماری توقعات ہوری ہوں ورنہ حالات خراب ہو سکتے ہیں‘۔ گزشتہ تین ماہ میں ایسے فیصلے ہوئے ہیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی اس جذباتی تقریر پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بیشتر ارکان نے انکی حمایت کا اعلان کیا اور ان کی نشست پر جاکر جان جمالی کو مبارکباد دی۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صفدر عباسی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پریس میں حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ میرٹ کو نظرانداز کر رہی ہے۔ صفدر عباسی نے کہا کہ گزشتہ تین ماہ میں ایسے فیصلے ہوئے ہیں جن سے عدل کے اصولوں سے انحراف کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر پرویز مشرف نے تین نومبر کو جو کچھ کیا اس سے دو آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ ایک پرویز مشرف کی بطور صدر آئینی حیثیت سے متعلق ہے اور دوسری اعلی عدلیہ کے ساٹھ ججوں کی برطرفی ہے۔صفدر عباسی نے ججوں کی بحالی کے بارے میں اپنی جماعت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی بحالی میں لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ انکے بقول ایسا کرنے سے سیاسی بحران مزید گہرا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کو اعلان بھوربن کے مطابق ہی بحال ہونا چاہیے لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئینی ترمیم ججوں کی بحالی کے لیے ضروری ہے تو یوں ہی سہی لیکن ایسا فوراً ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی میں مزید تاخیر عوام برداشت نہیں کریں گے۔ سینیٹ نے ججوں کی تعداد بڑھانے سمیت فنانس بل کے ذریعے قوانین میں مجوزہ بعض ترامیم واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے قومی اسمبلی میں فنانس بل کے تحت ججوں کی تعداد میں اضافے کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی ہے۔اس درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے کی۔عدالت نے کہا کہ فنانس بل میں ان ججوں کی تعداد بڑھانے کی صرف تجویز دی گئی ہے لہذا یہ ناقابل سماعت ہے۔ درخواست گذار اظہر مقبول شاہ نے بدھ کو درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ستر کے تحت ججوں کی تعداد بڑہانے کے لیے بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے اور قانون سازی ہونے کے بعد ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل قومی اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد ا±سے سینیٹ میں بھیج دیا جاتا ہے جس کے بعد اسے منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اس درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش ہونے دیا جائے اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو موقع دیا جانا چاہیے۔ درخواست گذار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ججوں کی تعداد فنانس بل کے ذریعے بڑھائی گئی تو پھر سینیٹ اور صدر کا کردار ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکمراں اتحاد کے پاس سینیٹ میں اکثریت نہیں ہے اس لیے وہ فنانس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ججوں کی تعداد سترہ سے بڑھا کر انتیس کرنے کی تجویز دی تھی اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نون سے مشاورت کی تھی۔ دریں اثناء پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے سمیت فنانس بل کے ذریعے قوانین میں مجوزہ بعض ترامیم واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بارے میں پیش کی گئی تحریک استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دی ہے۔ سینیٹ نے ایوان صدر اور قومی سلامتی کونسل کے بجٹ میں اضافہ نہ کرنے سمیت متعدد بجٹ تجاویز کی بھی منظوری دی ہے۔ سینیٹ میں بجٹ پر بحث مکمل ہونے کے بعد بدھ کے روز سینیٹرز نے تحاریک اور مختلف قراردادوں کے ذریعے بجٹ میں مختلف ترامیم کی سفارشات، تجاویز اور مطالبات پیش کئے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے بجٹ کے بارے میں اختیارات صرف اس پر بحث تک ہی محدود ہیں اور بجٹ کو قانونی جواز فراہم کرنے والی دستاویز فنانس بل میں ترمیم سینیٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اسی بنا پر حزب اختلاف کے تین سینیٹرز نے تحریک استحقاق کے ذریعے فنانس بل کا معاملہ ایوان بالا میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بجٹ کی آڑ میں ملکی قوانین میں ستائیس ترامیم فنانس بل کے ذریعے منظور کرنے کی کوشش کی ہے جس میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے جیسا اہم معاملہ بھی شامل ہے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے اکہتر ارب اور انیس کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا۔پچھلے چھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ بجٹ سیشن کے دوران حزب اختلاف کا شور شرابے اور فنانس بل کی کاپیاں پھاڑنے والا اسمبلی میں موجود نہیں تھا۔یہ شاید پہلا موقع ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں بجٹ حزب اختلاف کے بغیر پییش کیا گیا ہے اس لیے ایوان میں صوبائی وزیر خزانہ عاصم کرد گیلو کی بجٹ تقریر کے دوران مکمل خاموشی تھی۔ بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف میں ایک ہی رکن ہیں سابق وفاقی وزیر سردار یار محمد رند اور وہ بھی ایک ہی مرتبہ اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت آئے تھے جب اراکین اسمبلی حلف لے رہے تھے اس کے بعد وہ اسمبلی کے اجلاس میں کبھی نہیں آئے۔ آج بھی انھوں نے چھٹی کی درخواست دی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بجٹ سے پہلے وفاقی حکومت سے بھیک مانگتے تھے جس کے بعد بلوچستان حکومت بجٹ پیش کرنے کے قابل ہوئی ہے۔سابق پانچ سالہ دور میں حزب اختلاف میں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے اراکین جن میں موجودہ وزیر اعلی موجود ہوتے تھے تو بجٹ تقریر کے دوران شدید نعرہ بازی کی جاتی ڈیسک بجائے جاتے اور بجٹ تقریر کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا دی جاتیں اور بقول اس وقت کے اپوزیشن اراکین کے یہ احتجاج مسلم لیگ کی ناقص پالیسیوں کے خلاف کیا جاتا تھا۔ ماضی میں مسلم لیگ قائد اعظم جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت نے خسارے کے پانچ بجٹ پیش کیے اوراب پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی مخلوط حکومت میں بھی تقریباًپانچ ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اصل خسارہ آٹھ ارب روپے سے زیادہ کا تھا لیکن وفاقی حکومت کی تین ارب روپے کی امداد کے بعد یہ خسارہ کم ہو کر پانچ ارب روپے تک رہ گیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے پندرہ ارب چھہتر کروڑ روپے رکھے گئے ہیں لیکن اس بجٹ میں نیا ترقیاتی منصوبہ کوئی نہیں ہے زیادہ تر رقم پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے مختص ہے۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کےذمے بلوچستان کے اربوں روپے ہیں اگر صوبے کو مل جائیں تو بلوچستان حکومت اپنے پاو¿ں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے سے جاری منصوبوں پر کافی لاگت ہو چکی ہے اور چونکہ وہ منصوبے بھی عوامی مفاد کی خاطر شروع کیےگئے ہیں اس لیے انہیں جاری رکھا گیا ہے۔ سٹیٹ بینک سے اوور ڈرافٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے بات کی گئی ہے کہ یا تو اسلام آباد یہ رقم ادا کرے اور یا اس قرضے کو آسان قرض یا سافٹ لون میں تبدیل کر دیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی مخلوط حکومت تقریباً پانچ ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اصل خسارہ آٹھ ارب روپے سے زیادہ کا تھا لیکن وفاقی حکومت کی تین ارب روپے کی امداد کے بعد یہ خسارہ کم ہو کر پانچ ارب روپے تک رہ گیاانہوں نے کہا کہ بلوچستان کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے عید کے دنوں میں دیہاتوں کے فقیر شہروں کا رخ کرتے ہیں اور عید کے دنوں میں پیسے کما کر واپس گاو¿ں چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان کی حکومتیں ایسی ہی ہیں جون کے مہینے میں اسلام آباد جا کر بھیک مانگتے ہیں اور پھر بجٹ تیار ہوتا ہے وگرنہ دیگر تین صوبوں کی طرح بلوچستان کا بجٹ بھی پہلے پیش کر دیا جاتا۔ سردار اسلم بزنجو بلوچستان میں واپڈا کے وزیر ہیں لیکن انھوں نے بجٹ تقریر سے پہلے واپڈا کے خلاف باتیں کیں اور کہا کہ ان کے پاس کوئی احتیارات نہیں ہیں لوگوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ فنانس بل میں اعلی عدلیہ کے ججوں کی اسامیوں میں جو اضافہ کیا جا رہا ہے ان اسامیوں پر پی سی او ججوں کو تعینات کیاگیا تو ان کی جماعت اس کی مخالفت کرے گی۔مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کی زیر صدارت سینئر رہنماو¿ں کے ایک غیر رسمی مشاورتی اجلاس کے بعد احسن اقبال نے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی بجٹ میں اعلی? عدلیہ کے ججوں کی تعداد میں اس لیے اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ ان اسامیوں پر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کا تقرر کیا جائے۔ صدر کے موخذاے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ کل سے پہلے اسی وقت صدر کے موخذاے کی تحریک لانے کو تیار ہیں تاہم ان کواپنی اتحادی جماعتوں کی طرف سے گرین سنگل کا انتظار کر رہے ہیں اور جیسے ان کو سنگل مل گیا تو مسلم لیگ نون اس معاملے میں سب سے آگے ہوگی۔ احسن اقبال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی بنیاد ججوں کی بحالی کے وعدہ پر رکھی گئی تھی اور ججوں کی بحالی سے یہ اتحاد مضبوط ہوگا۔ ان کے بقول حکمران اتحاد کی کامیابی کا انحصار دو باتوں ہے کہ کس قدر جلدی صدر پرویز مشرف اقتدار سے رخصت ہوتے ہیں اور کس قدر جلدی ان ججوں کو بحال کیا جاتا ہے جن کو صدر پرویز مشرف نے برطرف کیا تھا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا آئینی پیکیج کے حوالے سے قائم کمیٹی نے نواز شریف کو بریف کیا ہے اور آئینی پیکیج میں ان نکات پر کوئی اعتراض نہیں ہے جو میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق ہیں البتہ عدلیہ کی بحالی بارے میں چند نکات پر متبادل تجاویز تیار کرلی گئیں ہیں۔ ججوں کی بحالی کسی آئینی ترمیم کے ذریعے نہیں بلکہ اعلان مری میں دیئےگئے طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ججوں کی بحالی کے لیے کسی آئینی ترمیم کا سہارا لیا گیا تو صدر پرویز مشرف کے غیر قانونی اقدامات کو قانونی اور آئینی طور پر درست تسلیم کرلیں گے۔ اجلاس میں نواز شریف نے پارٹی رہمناوں کو آصف زرداری کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا۔ اے پی ایس۔


No comments: