اسلام آباد ۔ پاکستان کے ممتاز صحافی،تجزیہ نگار ، کالم نگار اور ٹیلی ویژن میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔جبکہ ایم ڈی پی ٹی وی یوسف بیگ مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور مینیجنگ ڈائریکٹر کا اضافی چارج بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کو دے دیا گیا ہے۔ہفتے کے روز ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان ٹیلی ویژن میں مصروف دن گزارا ۔انہوںنے ٹیلی ویژن حکام سے ملاقاتیں کیں اور ٹیلی ویژن کے بارے میں بریفنگ لی ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں ان کا بچپن سعودی عرب میں گزارا جہاں اُن کے والد انجنیئر کی حیثیت سے کام کرتے تھے ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایف ایس سی ڈی جے سائنس کالج کراچی سے اور ایم بی بی ایس کی ڈگری سندھ میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ انہوں نے حال ہی میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کی قدیم ترین امریکی درسگاہ سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی سے خارجہ اور دفاعی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں “ سی این این “ہیڈ کوارٹر میں تربیت کیلئے سکالر شپ ملی تھی ۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوںنے میڈیکل کے شعبے کو اختیار کیا پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور آئر لینڈ میں بھی خدمات سرانجام دیں۔اگرچہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تاہم دوران تعلیم ہی اُن کا رحجان جمہوریت تحریکوں ، دنیاکے حالات و واقعات کی طرف غیر معمولی تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت پاکستان نے نجی ٹی ویژن چینلز کو پاکستان میں کام کی اجازت دی تو ڈاکٹرشاہد مسعود ایک نجی ٹیلی ویژن سے وابستہ ہو گئے ۔یہ وہ وقت تھا جب امریکہ میں 9/11کے واقعات رونما ہوئے اور افغانستان پر امریکی حملوں کا آغاز ہوا۔ یہاں ہی سے انہیں اپنے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں سے شہرت ملی انہیں اپنے پروگرام (اینڈ آف دی ڈے )کی وجہ سے بھی خاصی شہرت ملی ۔ بے لاگ تبصروں پر ان کے پروگرام ’’ ویوز اینڈ نیوز ‘‘ کو کئی بار حکومتی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اے آر وائی چینل میں انہوں نے ڈائریکٹر نیوز کی ذمہ داریاں ادا کیں اپنے پروگرام میں وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے انٹرویوز کرتے تھے اورملکی حالات و واقعات و بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ بھی کرتے تھے ۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس پروگرام میں غیر معمولی شخصیات کے انٹرویوز لئے، ان میں صدر جنرل پرویز مشرف ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ’جیمز ولے ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔نواب اکبر بگٹی نے اپنی زندگی میں آخری انٹرویو ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہی دیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس دوران افغانستان ، عراق اور لبنان کی جنگ بھی کور کی ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کی جنگ ،صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کے ناقد تھے ۔ڈاکٹر شاہد مسعود کے مطابق وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے چنانچے اُس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے صدر مشرف اور ان کے ساتھیوں پر تنقید ختم نہ کی تو انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دباؤ کے باعث اے آر وائی ٹیلی ویژن نے انہیں ملازمت سے سبکدوش کیاتھا چنانچے جنوری 2007ء میں ڈاکٹر شاہد مسعود جی او ٹیلی ویژن سے وابستہ ہو گئے ۔ جیو ٹیلی ویژن میں ان کا پروگرام میرے مطابق شروع ہوا اس پروگرام کے تحت وہ سرکردہ شخصیات کے انٹرویوز کرتے تھے اور پاکستان اور دنیا کے حالات وواقعات کا تجزیہ کرتے تھے۔ڈاکٹر شاہد مسعود دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو بے بنیاد اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک تصور کرتے تھے۔پاکستان میں ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز پر پابندی لگا دی گئی ایمر جنسی کے خاتمے کے بعد جیو ٹیلی ویژن کی نشریات بحال ہو گئیں اپریل 2008ء میں انہوں نے اپنے پروگرام ’’ میرے مطابق ‘‘ میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کاانٹرویو لیا ۔21جولائی 2008ء کو دوبئی انتظامیہ نے جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’ میرے مطابق ‘‘ پر پابندی لگا دی اور ٹیلی ویژن حکام کو ہدایت کی کہ یہ پروگرام بند کر دئیے جائیں۔بتایا جاتاہے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام بند کرانے میں دوبئی انتظامیہ پر اسلام آباد کا دباؤ تھا۔ جس کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کو مجبوراً پاکستان منتقل ہوناپڑا ۔پاکستان میں 18فروری 2008ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا ۔ پاکستان کی نئی حکومت نے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہد مسعود کے حوالے کر دی ہے ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Sunday, June 22, 2008
ڈاکٹر شاہد مسعود نے چیئرمین اورایم ڈی پی ٹی وی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں
اسلام آباد ۔ پاکستان کے ممتاز صحافی،تجزیہ نگار ، کالم نگار اور ٹیلی ویژن میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔جبکہ ایم ڈی پی ٹی وی یوسف بیگ مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور مینیجنگ ڈائریکٹر کا اضافی چارج بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کو دے دیا گیا ہے۔ہفتے کے روز ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان ٹیلی ویژن میں مصروف دن گزارا ۔انہوںنے ٹیلی ویژن حکام سے ملاقاتیں کیں اور ٹیلی ویژن کے بارے میں بریفنگ لی ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں ان کا بچپن سعودی عرب میں گزارا جہاں اُن کے والد انجنیئر کی حیثیت سے کام کرتے تھے ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایف ایس سی ڈی جے سائنس کالج کراچی سے اور ایم بی بی ایس کی ڈگری سندھ میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ انہوں نے حال ہی میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کی قدیم ترین امریکی درسگاہ سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی سے خارجہ اور دفاعی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے۔ڈاکٹر شاہد مسعود وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں “ سی این این “ہیڈ کوارٹر میں تربیت کیلئے سکالر شپ ملی تھی ۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوںنے میڈیکل کے شعبے کو اختیار کیا پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور آئر لینڈ میں بھی خدمات سرانجام دیں۔اگرچہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تاہم دوران تعلیم ہی اُن کا رحجان جمہوریت تحریکوں ، دنیاکے حالات و واقعات کی طرف غیر معمولی تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت پاکستان نے نجی ٹی ویژن چینلز کو پاکستان میں کام کی اجازت دی تو ڈاکٹرشاہد مسعود ایک نجی ٹیلی ویژن سے وابستہ ہو گئے ۔یہ وہ وقت تھا جب امریکہ میں 9/11کے واقعات رونما ہوئے اور افغانستان پر امریکی حملوں کا آغاز ہوا۔ یہاں ہی سے انہیں اپنے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں سے شہرت ملی انہیں اپنے پروگرام (اینڈ آف دی ڈے )کی وجہ سے بھی خاصی شہرت ملی ۔ بے لاگ تبصروں پر ان کے پروگرام ’’ ویوز اینڈ نیوز ‘‘ کو کئی بار حکومتی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اے آر وائی چینل میں انہوں نے ڈائریکٹر نیوز کی ذمہ داریاں ادا کیں اپنے پروگرام میں وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے انٹرویوز کرتے تھے اورملکی حالات و واقعات و بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ بھی کرتے تھے ۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس پروگرام میں غیر معمولی شخصیات کے انٹرویوز لئے، ان میں صدر جنرل پرویز مشرف ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ’جیمز ولے ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔نواب اکبر بگٹی نے اپنی زندگی میں آخری انٹرویو ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہی دیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس دوران افغانستان ، عراق اور لبنان کی جنگ بھی کور کی ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ، عراق اور افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کی جنگ ،صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کے ناقد تھے ۔ڈاکٹر شاہد مسعود کے مطابق وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے چنانچے اُس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے صدر مشرف اور ان کے ساتھیوں پر تنقید ختم نہ کی تو انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دباؤ کے باعث اے آر وائی ٹیلی ویژن نے انہیں ملازمت سے سبکدوش کیاتھا چنانچے جنوری 2007ء میں ڈاکٹر شاہد مسعود جی او ٹیلی ویژن سے وابستہ ہو گئے ۔ جیو ٹیلی ویژن میں ان کا پروگرام میرے مطابق شروع ہوا اس پروگرام کے تحت وہ سرکردہ شخصیات کے انٹرویوز کرتے تھے اور پاکستان اور دنیا کے حالات وواقعات کا تجزیہ کرتے تھے۔ڈاکٹر شاہد مسعود دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو بے بنیاد اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک تصور کرتے تھے۔پاکستان میں ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلز پر پابندی لگا دی گئی ایمر جنسی کے خاتمے کے بعد جیو ٹیلی ویژن کی نشریات بحال ہو گئیں اپریل 2008ء میں انہوں نے اپنے پروگرام ’’ میرے مطابق ‘‘ میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کاانٹرویو لیا ۔21جولائی 2008ء کو دوبئی انتظامیہ نے جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’ میرے مطابق ‘‘ پر پابندی لگا دی اور ٹیلی ویژن حکام کو ہدایت کی کہ یہ پروگرام بند کر دئیے جائیں۔بتایا جاتاہے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام بند کرانے میں دوبئی انتظامیہ پر اسلام آباد کا دباؤ تھا۔ جس کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کو مجبوراً پاکستان منتقل ہوناپڑا ۔پاکستان میں 18فروری 2008ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا ۔ پاکستان کی نئی حکومت نے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہد مسعود کے حوالے کر دی ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment