International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 22, 2008

قومی اسمبلی میں بے نظیر کی شہادت پر ٢ منٹ کی خاموشی ، دعائے مغفرت



راولپنڈی میں یادگار تعمیر کرنے ، مری روڈ ، ائرپورٹ اور جنرل ہسپتال کا نام بے نظیر سے منسوب کرنے کا اعلان
بے نظیر چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں ، وفاق پر یقین رکھتی تھیں ، یوسف رضا گیلانی ، فہمیدہ مرزا اور ارکان اسمبلی کا خطاب
اسلام آباد ۔ وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد ائرپورٹ ، مری روڈ ، راولپنڈی جنرل ہسپتال کو بے بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے ، بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت پر یادگار بنانے اور فاٹا کے بچوں کے لیے بے نظیر بھٹو ٹرسٹ فاونڈیشن قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ہفتے کے روز قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں نے 1988 ء میں بے نظیربھٹو شہید کے ساتھ سیاسی سفر کا آغاز کیا وہ ایک بڑی لیڈر تھیں آج ایک خوشی کا بھی مقام ہے کہ پورا ایوان نے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔ جس کے بعد ان کی سالگرہ پر انہیں تحفہ مل گیاہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں تعلیم کے شعبے بالخصوص فاٹا میں بمباری اور دہشت گردی کے یتیم بچوں کے لیے بے نظیر بھٹو ٹرسٹ فاونڈیشن کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کی بجائے انسانیت کے لیے محفوظ ملک بنانا ہے ۔ہم نے اسلام آباد ائرپورٹ کو بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائرپورٹ کا نام دیا ہے ۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کے جنرل ہسپتال جہاں بے نظیربھٹو نے آخری سانسیں لی تھیں اس کو بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال کا نام دیا گیا ہے اور اس کے لیے پانچ کروڑ روپے کااعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جہاں بے نظیر بھٹو کو شہید کیاگیا تھا اس جگہ کو دنیا کی بہترین یادگار بنائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میرا دوسرا گھر اڈیالہ جیل ہے اس لیے وہاں کے تین قیدیوں کی قید میں تین ماہ کی کمی کرنے کی صدر کو مشورہ دیا ہے۔ جبکہ وہاں پر سزائے موت کے قیدیوں کو سزائے عمر قید میں تبدیل کرنے کی سمری تیار کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو چاروں صوبوںکی زنجیر تھی ۔ وہ وفاق پر یقین رکھتی تھی ان کے منشور میں بھی پہلی ترجیح تعلیم اور صحت ہے اس پر سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے کہاکہ بے نظیر بھٹو ایک بڑی لیڈر تھیں جو رکن پارلیمنٹ انکے بارے میں بولناچاہتا ہے وہ میرے دفاتر میں رجسٹرڈ پر اپنا نکتہ نظر بیان کر سکتے ہیں۔ ہفتے کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے پر وزیر اطلاعات شیری رحمان کی درخواست پر بے نظیر بھٹو کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور دعائے مغفرت کی گئی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی حافظ حامد سعید کاظمی نے دعا کرائی ۔ دعا کے بعد مسلم لیگ ( ق ) کے چیف وہیپ رکن قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ نے کہاکہ پوری قوم کی طرح ہم بھی آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت پر سوگ میں ہیں ۔ میں پہلے پیپلز پارٹی کا رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا۔ مگر بعد میں میرے والد کے قتل اور بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مجھے پارٹی چھوڑنا پڑی ۔ تاہم مجھے آج بھی حسرت رہی کہ کاش میں ان کی پارٹی کا رکن ہوتا مگر حالات ایسے آئے کہ مجھے پارٹی چھوڑنا پڑی ۔ میں اپنی جماعت مسلم لیگ ( ق ) اور چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کی جانب سے افسوس کااظہار کرتا ہوں ۔ ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی نے کہاکہ آج کا دن بے نظیر بھٹو کی یوم پیدائش خوشی کا دن تھا مگر انہیں دہشت گردی کے ذریعے قتل کر دیاگیا کہ انہیں شہید کر دیاگیا۔ انہوںنے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی قیادت کی آج ملک کو سخت ضرورت تھی ان کے اندر خداداد قائدانہ صلاحیتیں تھیں ۔ انہوںنے قومی مفاہمت کے عمل کا آغاز کیا جس کی ملک کو اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے کہاکہ میرے قائد اور میری جماعت آج بے نظیر بھٹو کے خاندان ، آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے کارکنان اور رہنماوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی شیر پاؤ گروپ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی آفتاب شیر پاؤ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ پورا ایوان اور قوم بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ ان کی جدوجہد غریبوںکی فلاح و بہبود کے لیے تھی۔ ہم انکے قتل پر آج افسردہ ہیں۔ ان کے قتل کی خبر سے پوری قوم صدمے کاشکار ہو گئی تھی۔ فاٹا کے ایم این ایز کے پارلیمانی لیڈر منیر خان اورکزئی نے کہا کہ میں فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی اورعوام کی جانب سے بے نظیربھٹو کی شہادت پر انکے خاندان سے اظہار تعزیت کرتے ہیں ۔ بے نظیربھٹو ایک بڑی لیڈر تھیں جن کاشمار دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں ہوتاہے ۔ انہوںنے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا تعلق فاٹا سے جوڑا جاتا ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ ملکی سطح پر بھی تحقیقات کرائی جائے کہ ان کی شہادت میں کون ملوث ہے ۔ اے این پی کے ایم این اے عبدالمتین نے کہاکہ بے نظیر بھٹو نے جان کا نذرانہ پیش کر کے ملکی و عالمی سیاست میںاہم کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ آج کی مخلوط حکومت دراصل بے نظیربھٹو کے ویژن کی عکاس ہے۔ بے نظیر بھٹو غریبوں اور بے کسوں کی لیڈر تھیں ہم ان کی شہادتپر ان کے خاندان اور پارٹی کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ ان کی شہادت صرف پیپلز پارٹی کا ہی نقصان نہیں ہے بلکہ پوریقوم کا نقصان ہے۔ جمعیت علماء اسلام ( ف ) کے مولانا عطاء الرحمان نے کہاکہ بینظیربھٹو کی برسی پر آج پوری قوم غم میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے نظیر بھٹو کو شہادت کا بلند مرتبہ عطا کیا ہے ۔ ان کی شہادت سے ان کے خاندان کے ساتھ ساتھ پوری قوم پر غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں ۔ میں مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی کی جانب سے بے نظیربھٹو کی شہادت پر ان کے خاندان سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔ ان کی شہادت سے قوم کو بڑا نقصان ہوا ہے ۔مدتوں تک ان کے نقصان کا خلاپورا نہیں کیا جاسکے گا ۔ میں پوری قوم اور پی پی کے رہنماوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگرقوم پارٹی نے اپنے اندر اتحاد پیدا کیا تو بے نظیر بھٹو کے مقصدکو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ بے نظیر اکیلے اس قوم کی قیادت کر رہی تھیں مگر اس وقت مجھے ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو اکیلے قوم کو لے کر چلے ۔ مسلم لیگ ن کے شیخ آفتاب احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج ہم نے بے نظیر بھٹو کی سالگرہ افسوس اور غم میں منا رہے ہیں ۔ ان کی شہادت پر پوری قوم افسردہ ہے کیونکہ لیڈر ہر وز پیدانہیں ہوا کرتے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اصولوں پرسودا نہ کر کے اس ملک اورجمہوریت کو بچایا ۔ حضرت امام حسین نے ایک آمر کے ساتھ کھڑے ہو گئے ۔ جب بے نظیر بھٹو ملک واپس آئیں تو حملے کے بعد انہیں مشورہ دیاگیا کہ اب آپ باہر نہ نکلیں مگر انہوں نے کہاکہ میری جان جمہوریت سے زیادہ اہم نہیں اور انہوں نے جلسوں میں جانا شروع کر دیا ۔ آج پیپلز پارٹی کی حکومت کاقیام بے نظیر بھٹو کے خون کا رنگ ہے ۔ہم ان کی شہادت پر غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ پی پی پی کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی شہباز بھٹی نے خطاب کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو ایک عالمی لیڈر اور پر امن اور انقلابی لیڈر تھیں بے نظیر بھٹو نے خطرات کو دیکھتے ہوئے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ آج بھی وہ زندہ ہیں۔ ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کا مشن پورا کریںگے ۔ پی پی پی کے آفتاب شعبان میرانی نے کہاکہ بے نظیر بھٹو کی شہادت صرف موجودہ نسل کا ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کا نقصان ہے وہ آج بھی میرے دل میں موجود ہیں ۔ سلیم حسنین نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے فرط جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور رو پڑیں جس کی وجہ سے مزید وہ اپنا خطاب مکمل نہ کر سکیں

No comments: