کرچی۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر شمشاداختر نے کہا ہے کہ مرکزی بینک نے تجارت وصنعت کو سہولت فراہم کرنے کے پیش نظر متعدد اہم درآمدی اشیاء پر35 فیصد کیش مارجن کی شرط ختم کردی ہے۔ ڈاکٹرشمشاد اختر نے یہ اعلان ہفتے کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹرکریڈٹ ایڈوائزی کونسل کے تیسرے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ اضافی فہرست کے اجرا کے ساتھ اب بیشتر خام مال کو کیش مارجن کی شرط سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام بینکوں کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت پاکستان ، اپٹما اور دیگر ٹریڈ باڈیز کے ارکان کو اشیاء سازی کے لئے خام مال کی ضرورت پوری کرنے اور برآمدی آرڈرز بروقت پورے کرنے کے قابل بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے صنعتی شعبے کے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صنعتی شعبے پر زور دیا کہ وہ بڑے پیمانے پر پیشگی درآمدی سودے نہ کریں۔ انہوں نے برآمدکنندگان سے کہا کہ وہ اپنی برآمدی آمدنی مقررہ وقت سے پہلے واپس لائیں۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے صنعت کے نمائندوں کو یقین دلایا کہ مرکزی بینک ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم ختم نہیں کرے گا اوربرآمد سے وابستہ صنعتوں کے لئے رعایتی قرض کی سہولت بدستورجاری رہے گی۔گورنر اسٹیٹ بینک نے اجلاس کو آگاہ کیاکہ رواں مالی سال کے دوران 31مئی2008 تک نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی بہتر رہی ہے حالانکہ معیشت کوپہنچنے والے متعدد داخلی وبیرونی دھچکوں کے باعث یہ سال’’ اقتصادی چیلنجوں کاسال ‘‘ تھا۔ ڈاکٹرشمشاداختر نے اجلاس کے شرکاء کوآگاہ کیاکہ نجی شعبے کو مجموعی طورپرقرضوں کی فراہمی مالی سال2007-08 میں تقریباً 16فیصد کے اضافے کے ساتھ 384 بلین روپے رہی جب کہ مالی سال 2006-07ء میں یہ 287 ارب روپے تھی۔ سالانہ بنیاد پر پرائیوٹ سیکٹر کریڈٹ میں مالی سال2007-08 ء میں 19فیصد کااضافہ ہوا ہے، جوگذشتہ سال کے 17 فیصد اضافے سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرضے کی فراہمی وسیع البنیاد رہی ہے کیونکہ معیشت کے تقریباً تمام شعبوں نے قرضے حاصل کئے ہیں۔نجی شعبے کوفراہم کئے جانے والے قرضوں کابڑا حصہ جو59 فیصد ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر سمیت اشیاء سازی کے شعبے نے حاصل کیا۔انہوں نے کہا کہ زیرکار سرمائے کے لئے قرضوں کی فراہمی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ جولائی2007 ء تا اپریل2008 ء کے عرصے کے دوران ان قرضوں کی فراہمی بڑھ کر 311 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ جب کہ گذشتہ مالی سال(2006-07)ء کے اسی عرصے کے دوران ان قرضوں کی فراہمی 152 ارب روپے تھی۔ افراط زر کادباؤ اور خام مال کی زائد لاگت رواں مالی سال کے دوران زیر کار سرمائے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے زیادہ قرضوں کی فراہمی کی اہم وجوہات ہیں۔گورنر، اسٹیٹ بینک نے کہا کہ نجی شعبے کی قرضوں کی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں نجی ملکی بینک اہم کردارانجام دے رہے ہیں،جیسا کہ ان بینکوں نے نجی شعبے کو مجموعی قرضوں کی فراہمی میں اپنا حصہ 72 فیصد سے بڑھا کر84 فیصد کرلیاہے۔ جب کہ سرکاری شعبے اورغیر ملکی بینکوں کاحصہ کم ہوگیاہے۔ سرکاری شعبے اورغیر ملکی بینکوں کا حصہ گذشتہ سال بالترتیب 22 فیصد اور5 فیصد تھا، جو اس سال کم ہوکربالترتیب 14 فیصد اورایک فیصد رہ گیا۔ڈاکٹر شمشاداختر نے کہاکہ رواں مالی سال کے پہلے 11ماہ کے دوران زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں سالانہ بنیادپر 30 فیصد کااضافہ ہواہے۔ بینکوں نے زرعی شعبے کومجموعی طورپر185 بلین روپے کے قرضے فراہم کئے۔جب کہ گذشتہ سال اسی عرصے میں 142 بلین روپے کے زرعی قرضے فراہم کئے گئے تھے۔ اس طرح ان میں43 بلین روپے کانمایاں اضافہ ہوا۔ موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ رواں مالی سال کے لئے زرعی قرضوں کی فراہمی کا200 بلین روپے کامجوزہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔گورنر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ PSCAC کے علاوہ ورکنگ گروپس اور ٹاسک فورسز بھی تشکیل دی گئی ہیں جن کا مقصد ڈیولپمنٹ فائنانس تک رسائی کو بہتر بنانا ہے، ان میں ایگریکلچر کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی، ایس ایم ای کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی، ٹاسک فورس برائے انفرااسٹرکچر اینڈ ہاؤسنگ وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر شمشاد اختر کے ابتدائی کلمات کے بعد کارپوریٹ سیکٹر، زرعی شعبے، ایس ایم ایز، مائکروفائنانس اور ہاؤسنگ سیکٹر سمیت معیشت کے مختلف شعبوں کوقرضوں کی فراہمی میں اضافے کے لئے وسائل و ذرائع پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان کے نمائندوں نے تفصیلی پریزنٹیشن دی،جس میں انڈسٹری کے مختلف شعبوں کی ترقی ، اس کی مزید ترقی کی راہ میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں پر روشنی ڈالی گئی اور اس سلسلے میں درپیش مسائل کے حل کے لئے اقدامات بھی تجویزکئے گئے۔ وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان نے معیشت کے تمام شعبوں کوقرضوں کی سہولت کی فراہمی کے ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور بینکوں کے کردار کوسراہا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی گورنر، ڈاکٹر شمشاد اختر نے وفاقی ایوان صنعت و تجارت پر زور دیا کہ وہ اپنے ارکان کے لئے ایک کوڈ آف کارپوریٹ گورننس تشکیل دے تاکہ گورننس اسٹرکچر اور شفافیت کو بہتر بنایا جاسکے۔شرح سود سے متعلق وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت پاکستان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شمشاد اختر نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان میں حقیقی شرح سود خطے میں سب سے کم ہے۔ لہٰذا انڈسٹری کوپائیدار ترقی اورمسابقت کویقینی بنانے کے لئے حقیقی شرح سودکو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کاروباری ترجیحات کاتعین کرنا چاہئے۔ انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ پروجیکٹ کی جانچ پڑتال کرتے وقت بینکوں کا ’’حساس تجزیہ‘‘ ہونا چاہئے کہ آیا حقیقی شرح سود میں تبدیلی کی صورت میں یہ پروجیکٹ برقرار رہ سکتا ہے۔کاشتکار برادری کے نمائندوں اور زراعت کے وفاقی و صوبائی سیکریٹریز نے زرعی شعبے کوقرضوں کی فراہمی میں اضافے کوسراہا، تاہم انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ چھوٹے کاشتکاروں کی قرضوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مزید نئی پروڈکٹس تیار کریں۔ گورنر، اسٹیٹ بینک نے اس امر پرزوردیا کہ مخصوص پروجیکٹس مثلاً کارپوریٹ فارمنگ یابینکوں کی جانب سے بھاری قرضہ دہی کے دیگر طریقے متعارف کرانے اورقرضہ دہی میں اضافے کے نتیجے میں آمدنی میں اضافے کے اثرات کاجائزہ لینے کے لئے زراعت کی وفاقی اورصوبائی وزارتیں، پلاننگ ڈیپارٹمنٹس، کاشتکاربرادری، بینکس اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان مربوط کوشش کریں۔ایس ایم ای شعبے کو قرضہ دہی کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹرشمشاداختر نے بینکوں پر زوردیا کہ نجی شعبے میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ضمن میں ایس ایم ای کاکردار بہت اہم ہے۔چنانچہ بینکوں کوایس ایم ای کے شعبے کو قرضہ دہی میں اضافے پرتوجہ مرکو زکرنی چاہئے۔ بینکوں کے نمائندوں نے وضاحت کی کہ جہاں تک درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کا تعلق ہے تو ان کوقرضہ دہی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اجلاس میں کمرشل بینکوں کے سربراہوں، وفاقی اورصوبائی سیکریٹریز، ٹریڈ چیمبرز/ ایسوسی ایشنز کے نمائندوں، اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران اور دیگر نے شرکت کی۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment