International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 22, 2008

بلوچستان کے آئندہ مالی سال٢٠٠٨-٠٩ کے لئے ٧١ ارب ١٩ کروڑ ١٤ لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا

کوئٹہ ۔ بلوچستان کے وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلو نے صوبے کے آئندہ مالی سال2008-09 کے لئے 71 ارب 19 کروڑ 14 لاکھ 28 ہزار روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں 18 ارب روپے خسارہ ظاہر کیا گیا ہے اگر وفاقی حکومت کی جانب سے تین ارب روپے ملتے ہیں تو پھر میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 15 ارب 74 کروڑ 53 لاکھ 20 ہزار روپے کا ہے جبکہ جاری اخراجات کا تخمینہ 47 ارب 52 کروڑ 17 لاکھ 26 ہزار روپے ہے آمدنی کا مجموعی تخمینہ 62 ارب 38 کروڑ 52 لاکھ 67 ہزار روپے لگایا گیا ہے ان میں صوبائی وسائل سے حاصل آمدنی 3 ارب 47 کروڑ 65 لاکھ 81 ہزار روپے ہے وفاقی محاصل سے حاصل رقم کا تخمینہ 48 ارب 6 کروڑ ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہیںہفتہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے دوسری طرف یہ آمر بھی میرے لئے باعث تشویش ہے کہ بلوچستان ترقی کے مختلف شعبوں میں ، جن میں تعلیم ، صحت، پانی ، بجلی ، زراعت ، لائیوسٹاک ، معدنیات وغیرہ شامل ہیں ، وہ ترقی حاصل نہیں کرسکا جس کا خواب بلوچستان کے ہر فرد نے دیکھا ہے محل وقوع کے اعتبار سے بلوچستان ایک انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے اور رب العزت نے اس خطے کو قدرتی وسائل کی دولت سے بھی مالامال کیا ہے بلوچستان کو اس ملک کا رقبے کا اعتبار سے بڑا صوبہ ہونے کے علاوہ اور بہت سے اعزازات حاصل ہیں جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں بلوچستان وسیع وعریض سمندر کا مالک ہے جہاں بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں مک کی دوتہائی ساحلی شاہراہ بلوچستان کے حصے میں آتی ہے بلوچستان نے سوئی گیس کے ذخائر سے ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے بلوچستان کے معدنی وسائل کسی سے پوشید نہیں ہیں صوبائی خزانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ جمہوری صوبائی حکومت وزیراعلی بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کی سربراہی میں ایسے رہنماء جمہوری اصولوں کی روشنی میں کام کرنے کا پکا ارادہ رکھتی ہے جن کا اصل مقصد اس صوبے کے تمام عوام کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے ساتھ ایک مستقل اور پرامن ماحول کا قیام ہے موجودہ جمہوری حکومت کا یہ اولین عزم ہے کہ بلوچستان کو معاشی اور معاشرتی ترقی کے اعتبار سے تمام دوسرے صوبوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کیا جائے اور اس صوبے کو امن وامان کا گہوارہ بنادیا جائے ہم بلوچستان کو ایک انتہائی مضبوط صوبہ بنادینے کا پکا عزم رکھتے ہیں بلوچستان کے موجودہ جمہوری حکومت کا ایک نیا وژن ہے اس وژن کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے ہم مندرجہ ذیل شعبوں میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کے لئے ملازمتوں کے مناسب مواقع فراہم کریں گے قابل اور ایماندار انتظامیہ کے بغیر ہمارا صوبہ ترقی نہیں کرسکتا لہذا یہ ہمارا اولین مشن ہوگا کہ ہم ایک ایماندار انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل کریں تاکہ وہ نیاوژن جو ہم بلوچستان کو دینا چاہتے ہیں اس کی تکمیل ہوسکے میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آئندہ مالی سال کے دوران ہم اپنے غیر ضروری اخراجات میں نمایاں کمی کریں گے اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات پر سختی سے عمل کیا جائے گا گاڑیوں ، مشینری اور دوسری دیرپا اشیاء کی خریداری پر مکمل پابندی رہے گی تاہم خاص حالات میں محکمہ مالیات کی سفارش پر وزیراعلی سے منظوری لی جاسکتی ہے کسی بھی مد میں خرچ کے لئے اضافی رقم کی فراہمی کے لئے محکمہ خزانہ کی سفارش اور وزیراعلی کی منظوری ضروری ہوگی وزیر خزانہ میر عاصم گیلو نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت POL کی مد کے خرچ میں کفایت شعاری کرے گی تاکہ اس غیر ترقیاتی مد میں بچت کی جائے سرکاری محکموں کو تنخواہوں کی مد سے اخراجات دوسری مدات میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی سرکاری دعوتوں میں جہاں تک ممکن ہوگا سادگی اختیار کی جائے گی بیرون ملک سیمنار میں شرکت اور حکومت کے خرچ پر تربیت حاصل کرنے پر پابندی ہوگی تاہم ایسے سیمینار یا تربیتی کور س میں شرکت کی اجازت ہوگی جن پر وفاقی حکومت یا بیرونی امداد سے رقم خرچ کی جائیگی ہوٹلوں میں سرکاری میٹینگوں کے انعقاد پر پابندی ہوگی حکومت مختلف شعبوں میں نئی اصلاحات متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے گی ایک سرکاری بل ،، بلوچستان پبلک اتھارٹی،،کے عنوان سے اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ سرکاری محکموں میں تمام طرح کی سرکاری اشیاء کی خریداری ایک واضح ضابطے اور قانون کے مطابق کی جاسکیں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے بجٹ کی ایک کثیررقم واجب الاداپنشن کی مدمیں خرچ ہوتی ہے اور یہ واجب الادا رقم ہر سال بڑھ رہی ہے اس سلسلے میں حکومت بلوچستان نے ایک قانون صوبائی ملازمین پنشن فنڈایکٹ ،،صوبائی اسمبلی سے منظور کروایا ہے اب آنے والی مالی سال کے دوران اس کے مطابق مختلف اقدامات کئے جائے گے اسی طرح سے ملازمین کی فلاح وبہبو د کے لئے جی پی فنڈایکٹ کا اجرا بھی عمل میں لایا گیا ہے جس کی صوبائی اسمبلی منظوری دے چکی ہے اس ایکٹ کے مطابق علحیدہ سے انوسٹمنٹ فنڈ کاقیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ حکومت کی مالی مشکلات پر قابو پایا جائے صوبائی حکومت نے موجودہ مالی قواعدوضوابط کو مزید بہتر بنانے کے لئے دو جلدوں میں،، بلوچستان فنانس مینول ،،بھی ترتیب دیا جو کہ تقریبا 1900 صحفات پرمشتمل ہے جس میں 1950 سے لے کر 2007 تک تمام مالیاتی قواعد،ہدایات ، پالیسیاں شامل ہوں گی اس عمل سے تمام سرکاری محکموں کو بروقت سرکاری کام نمٹانے میں مدد ملے گی صوبائی حکومت ملازمین کی فلاح بہبود کے لئے بہت سے اقدامات اٹھائے گی جن میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں ملازمین کی بینادی تنخواہوں میں آنے والے مالی سال میں 20 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے اسی طرح ریٹائرڈملازمین کی پینشن میں بھی 20 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے اس کے علاوہ ملازمین میڈیکل الاؤنس اور کنوینس الاؤنس میں بھی اسی طرح سے اضافہ کرنے کی تجویز ہے جس طرح سے وقافی حکومت نے اپنے ملازمین کے الاؤنس میں اضافہ کیا ہے دوران سروس دہشت گردی کے نتیجے میں فوت ہونے والے ملازمین کے لواحقین کے لئے مالی مراعات اور مالی معاونت جاری رہیں گی دوران سروس شہید ہونے والے پولیس ملازمین ، لیویز کے ملازمین اور جیل خانہ جات کے ملازمین کے لواحقین شہید ہونے والے ملازم کی پوری تنخواہ کی ادائیگی جاری رہے گی بی ایف فنڈ میں مرحوم ملازمین اور ان کے بچوں اور بیواؤں کے لئے مراعات جاری رہیں گی وفات جانے والے ملازمین کی لائف انشورنس کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے گا آنے والی مالی سال کے دوران 01-01-2009 سے تمام ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر انہیں انشورنس کی مد میں وہ رقم دی جائے گی جو رقم کسی ملازم کی دوران ملازمت فوت ہوجانے پر دی جاتی تھی اس مقصد کے حصول کے لئے حکومت بلوچستان نے دوطرح کے قوانین بھی بنائے ہیں جس میں ایک ،،صوبائی ملازمین کی گروپ انشورنس ایکٹ ،، اور دوسرا صوبائی ملازمین کی گروپ انشورنس کے رولزشامل ہیں آنے والے مالی سال سے گریڈ ایک تاگریڈ چار کے تمام ملازمین کو ایک اگلاگریڈ دیا جارہا ہے گریڈ 16 تا21 کے سیکریٹریٹ کے ملازمین کے یوٹیلیٹی الاؤنس میں آنے والے مالی سال سے چار سو روپے ماہانہ کا اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ گریڈ 1 تک گریڈ 15 کے سیکریٹریٹ ملازمین کے اس الاؤنس میں ماہانہ چار سو روپے کا پہلے ہی اضافہ کیا جاچکا ہے اس طرح سے گورنر سیکریٹریٹ اور چیف منسٹر سیکریٹریٹ کے ملازمین کے الاؤنس میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا بلوچستان پبلک سروس کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے صوبائی حکومت اس ادارے کو مزید کارآمد بنائے گی اور ایسی تمام تراسامیاں جن پر انتخاب کمیشن کے ذریعے ہونا مقصود ہے کمیشن کے حوالے کی جائیں گے تاکہ صوبے میں نوجوانوں میں بے روزگاری کو کرنے میں مدد ملے صوبائی سلیکشن بورڈ جوصوبے کے ملازمین کو 17 گریڈ سے لے کر 21 گریڈ میں محکمانہ ترقیوں کی سفارش کرتا ہے اس کے ماہانہ اجلاس باقاعدگی سے بلائے جائیں گے تاکہ تمام خالی آسامیاں پر اہل ملازمین کی بلاتاخیر ترقیاں کی جائیں صوبے میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لئے صوبائی حکومت سال 2008-2009 میں تقریبا 2425 نئی آسامیوں کی منظوری رہی ہے صوبائی حکومت اپنے محدود وسائل کے باوجودوفاقی حکومت کی مالی معاونت سے مختلف شعبوں میں لوگوں کی بینادی ضروریات فراہم کرنے کیل ئے مصروف عمل ہے ان اہم شعبومیں کاموں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے صوبے بھر میں مختلف مقامات پر ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے ہیں بلوچستان زرعی کالج بلیلی کو مزید تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے 66.988 ملین روپے کی لاگت سے ایک اسکیم پر عمل درآمد ہورہا ہے اس کالج سے تقریبا 500 طلباء زراعت کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں نومبر 2007 سے اس کالج میں ماسٹر ڈگری کلاسوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے زراعی تحقیقات کے شعبہ میں بھی اس وقت 649.809 ملین روپے کی لاگت سے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام ہورہا ہے اس طرح ایگریکلچر ایکسٹنشن کے شعبہ میں بھی تقریبا382.610 ملین روپے کی لاگت سے مختلف منصوبوں پر کام ہورہا ہے وزیر خزانہ نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت محکمہ زرعتی انجینئرنگ کے بلڈوزروں سے تقریبا پندرہ ہزار سے اٹھارہ ہزار ایکڑ ناقابل کاشت رقبہ کو قابل کاشت رقبہ میں تبدیل کررہی ہے اس مقصد کے لئے کاشتکاروں کو بھاری رقم کی سبسیڈی دی جارہی ہے آئندہ مالی سال کے دوران محکمہ کو تقریبا تین لاکھ تیس ہزار گھنٹوں کا ہدف دیا گیا ہے جس سے تقریبا 19 ہزار 748 ہیکٹر ناقابل کاشت رقبہ قابل کاشت رقبے میں تبدیل کیا جائے گابلوچستان میں 51 ہزار 360 ملین روپے کی لاگت سے جاری شدہ بڑے بڑے منصوبے جن میں میرانی ڈیم ،سبکزئی ڈیم، کچھینہر، پٹ فیڈرنہر کی توسعی ، کرتھرنہر ، زیر زمین پانی کو ریچارج کرنا ، بولان ڈیم ضلع کچھی ، شادی کورڈیم کی دبارہ تعمیر ، نواباتوزئی سٹوریج ڈیم ضلع قلعہ عبداللہ ، دس ڈیلے ایکشن ڈیم کی تعمیر اور ناڑی نہر کی بحالی شامل ہیں ان سے بلوچستان کی زرعی ترقی میں ایک ایسا سبز انقلاب برپا ہوگا جس سے بلوچستان کے غریب اور پسماندہ عوام کی خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا علاوہ ازیں حکومت بے زمین کاشتکاروں میں سرکاری زمین لیز پر دینے کے پروگرام پر بھی غور کررہی ہے حکومت کی طرف سے اس وقت ٹیوب ویلوں پر تقریبا 2 ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے خشک سالی کے اثرات کی وجہ سے حکومت اس سبسڈی کو آنے والے مالی سال میں بھی اسی سطح پر قائم رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں صوبے کی ضروریات کے لئے کافی مقدار میں گندم کی سالانہ ضرورت ہوتی ہے ہمیں تقریبا چار لاکھ میٹرک ٹن گندم اپنے صوبے میں باہر سے درآمد کرنی پڑتی ہے جبکہ تقریبا 20 ہزار میٹرک ٹن کی سبسڈی حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے اس مقصد کے لئے آنے والے مالی سال کے دوران تقریبا 50 کروڑ سبسڈی کے لئے رقم مختص کی گئی ہے وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجود مالی سال کے دوران مختلف پروگراموں کے تحت 103 نئی اور پرانی اسکیموں کی بحالی پر کام کرکے انہیں مکمل کیا گیا ہے بڑے پروجیکٹ جن میں سب کے لئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کچھی پلین واٹر سپلائی شامل ہے انشاء اللہ اگلے مالی سال یعنی 2008-09 میں مکمل کرلئے جائینگے کچھی پلین واٹر سپلائی پروجیکٹ کی تکمیل سے بھاگ شہر ،بختیار آباد،چھلگری ، حاجی شہراور اردگرد کے دیگر دیہات کا پانی کا دیرنیہ مسئلہ حل ہوجائیگا پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے پروجیکٹ کے کل 567 فلٹریشن پلانٹس نصب کئے جائیں گے اس طرح ہر یونین کونسل میں ایک فلٹریشن پلانٹ نصب کیا جائیگا مزیدبرآں چمالنگ کے علاقے کو ترقی یافتہ بنانے کے حکومت اقدامات کے تحت یہاں پانی کی فراہمی کے لئے رقم مختص کی گئی ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ خشک سالی کے دوران بندہوجانے والی اسکیمات کی بحالی کے پروگرام کے تحت اس سال 12 اسکیمات بحال کی گئیںہیں جبکہ آئندہ سال50 مزید اسکیمات بحال کردی جائیں گی گزشتہ سیلاب نے جہاں صوبے کے مختلف اضلاع میں نظام زندگی درہم برہم کردیا ہے وہیں 413 واٹر سپلائی اسکیموں کو بھی شدید متاثر کیا ہے ان متاثرہ اسکیمات میں سے 374 اسکمیں بحال کی جاچکی ہے اور ان کی بحالی پر تخمینہ لاگت 14 کروڑ روپے تھا جس میں سے حکومت نے 6 کروڑ روپے رواں مالی سال میں فراہم کردئیے ہیں اور 8 کروڑ روپے آئندہ سال مہیا کر دئیے جائیں گے علاوہ ازیں ڈیرہ !! کے پروگراموں کے تحت صوبے کے تمام اضلاع میں آبنوشی اسکیمات بنائی جائیں گے ان تمام اقدامات سے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی موجودہ شرح جو کہ 55 فیصد ہے بڑھ کر 62 فیصد ہوجائے گی اس وقت تقریبا 3000 ہزار ڈاکٹرز اور 2900 دوہزار نو سو نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی مدد سے محکمہ صحت بلوچستان تقریبا ایک ہزار 4 سو ہسپتالوں ، رورل ہیلتھ سنٹرز،بیسک ہیلتھ سنٹرز ، سول ڈسپینسریوں اور اس طرح کے دوسرے سنٹرز کی مدد سے جو کہ پورے بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہے وزیر خزانہ نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ حکومت کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہے معیاری تعلیم کے مواقع عام کرنے کے لئے صوبائی حکومت مختلف علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کررہی ہے اس سلسلے میں دس کیڈٹ کالج قائم کئے جارہے ہیں جن میں پانچ کالج تعمیر کے مراحل میں ہیں اور مزید پانچ منظور ہوچکے ہیں وفاقی حکومت سے فنڈز فراہم ہونے پر کام شرو ع کردیا جائے گا صوبہ میں فنی تعلیم کی سہولتیں بھی پیدا کی جارہی ہیں اس سلسلے میں بلوچستان کے 8 شہروں یعنی تربت، گوادر ،خانوزئی ، مسلم باغ ، اوتھل ، لورالائی ، خضدار اور سبی میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ قائم کئے جارہے ہیں ان اداروں میں سے تین خواتین کے لئے مخصوص ہیں اس کے علاوہ ایک ریذیڈنشل کالج اوتھل اور ایک ریذیڈنشل کالج ژوب میں قائم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے عوام کو معیاری تعلیم کی سہولتیں میسر ہوجائیں گی بلوچستان کے کم وبیش ہر ضلع میں کسی نہ کسی نوعیت کا تعلیمی ادارہ قائم کیا جارہا ہے تاکہ لوگوں کو تعلیم کی سہولتیں مقامی طور پر میسر آسکیں اس کے ساتھ نجی تعلیم کے فروغ کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے توسط سے صوبہ میں 300 نجی تعلیمی ادارے قائم کرنے میں نجی اداروں کی مالی معاونت کی جائے گی انہوں نے کہا کہ بلوچستان اپنی قدرتی چراگاہوں اور پرورش حیوانات کی بدولت پاکستان کے دیگر صوبوں میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے گزشتہ نصف دہائی کی شدید خشک سالی کی وجہ سے جہاں قدرتی چراگاہوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے وہاں جانوروں کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے صوبائی حکومت جانوروں کو مختلف بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے اور جانوروں کی پیداواری صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے کے لئے انتھک کوششیں کررہی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے حیوانی لحمیات کی کمی یعنی گوشت ، انڈے ، دودھ وغیرہ پر قابو پایا جاسکے ان مقاصد کے حصول کے لئے صوبے بھر میں 115 ویٹرنری ہسپتال 778 ڈسپنسریاں 64 مصنوعی تخم ریزی کے مراکز 15 ڈیر ی فارم 18 پولٹری فارم اور چھوٹے بڑے گوشت کی پیداوار کے لئے 3 سینٹرز اورااون کی بہترپیداوار کے لئے ایک مرکز کام کررہے ہیں اس کے علاوہ بیماریوں کی بروقت تشخیض کے لئے صوبائی اور ضلعی سطح پر 14 سینٹرز مصروف عمل ہیں اس کے علاوہ مختلف بیماریوں کے تدارک کے لئے 7.5 ملین ویکسین کی خوراک صوبہ بھر کے مال مویشیوں کو مفت لگائی گئی اور تقریبا 63 لاکھ 67 ہزار 740 جانوروں کا علاج معالجہ کیا گیا مختلف امدادی ایجنسیوں کے تعاون سے صوبے بھر میں بہت سے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں PSDP کے تحت 13 منصوبہ جات جاری ہیں جن کی کل مالیت 232 ملین روپے ہے جبکہ 11 نئے منصوبہ جات جن کی لاگت 319 ملین روپے ہے منظوری کے مراحل میں ہیں ایک اور بڑا منصوبہ مرکزی PMSDP کا ہے یہ منصوبہ وزیراعلی پاکستان کے خصوصی پیکج کے تحت شروع کیا گیا ہے جس کی تخمینہ لاگت 650.44 ملین روپے ہیں اس منصوبے کا پہلا فیز مالی سال 2006-07 کو مکمل ہوچکا ہے جبکہ دوسرے فیز پر کام جاری ہے جوکہ رواں مالی سال کے اختتام تک مکمل ہوجائے گا اس منصوبے کے تحت صوبہ بھر کے خشک سالی سے متاثرہ غڑیب مالداروں کو بلا معاوضہ 1 لاکھ25 ہزار 334 بھیڑ، بکریاں تقسیم کی جارہی ہیں تاحال اب تک تقریبا 80 ہزار بھیڑ بکریاں غریب مالداروں میں تقسیم کی جاچکی ہیں ایگریکلچرل سپورٹ پروگرام کے تحت 4 منصوبہ جات جن کی مالیت تقریبا 300 ملین روپے ہے ان پر بھی کام شروع کئے جاچکے ہیںانہوں نے کہا کہ اس شعبے میں مرکزی حکومت آنے والی مالی سال میں مندرجہ ذیل ترقیاتی کام کرے گی 700 دیہاتوں کو بجلی مہیا کی جائے گی بیسمہ ، دروازہ اور ہرم زئی میں KV132 کے گریڈ اسٹیشن بنائے جائیں گے KV220 دادو اور خضدار ٹرانسمیشن لائن پر کام کا آغاز کیا جائے گا جس کے مکمل ہونے پر بجلی کی کمی پر قابو پایا جائے گا اور لوڈشیڈنگ سے نجات مل سکے گی KV220 ڈی جی خان لورالائی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے گا شمسی توانائی کے ذریعہ 300 دیہاتوں کو روشن کیا جائے گا خضدار میں 100 میگاواٹ کے پاور ہاؤس کا کام شروع کیا جائے گاایران سے 1000 میگاواٹ براستہ پولان 220 KV ٹرانسمیشن کے کام کا آغاز کیا جائے گاکوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں KV132 کے گرڈسٹیشن بمعہ ٹرانسمیشن لائن کشمور سے سوئی ،ڈیرہ بگٹی پر کام کا آغاز کیا جائے گا کشمور ، سوئی ، ڈیرہ بگٹی ٹرانسمیشن لائن اور گرڈاسٹیشن کے پی سی ون منظور ہوگئے ہیں اور ہر ایک اسکیم کے لئے 100 ملین روپے مہیا کئے گئے ہیں KV132 شاہرگ ، زیارت ٹرانسمیشن لائن اسکیم کے قابل عمل ہونے کے سلسلے میں کاروائی ہورہی ہے جنگلات کو محفوظ کرنے اور ان کی ترقی کے لئے آنے والے مالی سال کے دوران تقریبا20 لاکھ پودے لگائے جائیں گے اس وقت جنگلااور جنگلی حیات کے فروغ کے لئے محکمہ جنگلات میں 220.131 ملین روپے کی لاگت سے مختلف اسکیموں پر عمل ہورہا ہے اور تقریبا 338.473 ملین روپے کی لاگت سے مزید ترقیاتی منصوبوں پر عمل شروع کیا جارہا ہے تاکہ جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ میں کوئی کمی نہ رہے

No comments: