International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 29, 2008

حکومتی عملداری اور خیبر آ پریشن ۔۔۔۔ تحریر اے پی ایس،اسلام آباد



قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں شروع کی جانے والی کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز نے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ مخالفین کے کئی مراکز اور موچوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس آپریشن کا سب سے بڑا مقصد پشاور کے مضافات میں گزشتہ کچھ عرصے سے جرائم کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر قابو پانا تھاہے۔ جبکہ وفاقی مشیر برائے داخلہ امور رحمان ملک کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقے خیبر میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی جا رہی بلکہ خاص خاص اہداف پر کارروائی کی جا رہی ہے۔ جمعہ کو باڑہ میں شروع کی جانے والی کارروائی ابھی تک کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز نے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کے علاوہ بعض اہم مراکز اور مورچوں کو تباہ کردیا ان کے مطابق آپریشن کے دوران ایک شخص ہلاک ہوا ہے جبکہ مخالفین کی طرف سے کی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں دیکھی گئی ہے۔ سکیورٹی فورسز کو ٹینک، توپخانے اور بکتر بندگاڑیوں کی مدد بھی حاصل تھی اور علاقے میں مکمل طور پر کرفیو نافذتھا جبکہ بعض راستوں کو آمدورفت کے لیے بند کردیا گیا کہ یہ کارروائی کسی گروہ یا فرد کے خلاف نہیں کی کی گئی بلکہ اس کا مقصد قبائلی علاقے باڑہ میں حکومتی عملداری کی بحالی اور ان جرائم کی روک تھام کرنا تھا پشاور میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر حکومت نے فرنٹیئر کور کو اجازت دے دی کہ وہ مبینہ جرائم پیشہ افراد کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کر دے تحصیل باڑہ مبینہ جرائم پیشہ افراد کا سب سے بڑا مرکز تھا س لیے انہوں نے پہلے یہاں سے کاروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد پشاور کے آس پاس علاقوں میں موجود بعض دیگر چھوٹے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی جائےگی۔’یہ بہت ہی گھمبیر مسئلہ ہے جوگزشتہ پندرہ سال سے پنپ رہا تھا لہذٰا اس آپریشن کے ذریعے مسئلے سے سیاسی طور پر نمٹنے کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘۔ دوسری طرف خیبر ایجنسی کے پولٹیکل حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی لشکر اسلام کے خلاف کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق سکیورٹی فورسز نے تحصیل باڑہ کے علاقے گنداو¿، کوئیی اور آس پاس کے گاو¿ں میں واقع لشکرِ اسلام کے مراکز اور مورچوں کو توپ کے گولوں سے نشانہ بنایا ہے۔ جبکہ مشیرِ داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں کارروائی اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ وہاں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے علاوہ ’الٹے سیدھے‘ سکول اور مدرسے بنائے گئے تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ پشاور میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے اغواء کے باعث صورتحال بگڑ گئی تھی اور صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور کے اردگرد بھی خاص خاص مقام پر جرائم پیشہ لوگ ہیں اور ان سے صوبائی حکومت نمٹ رہی ہے کیونکہ صوبے میں قانون پر عملدرآمد کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت مخصوص اہداف پر کارروائی کرتی ہے تو مرکزی حکومت اس کے ساتھ ہے اور یہ کہ اگر ان کو فورس یا لاجسٹک کی ضرورت ہو تو ہم ان کی مدد کے لیے تیار ہیں‘۔ پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے تحصیل باڑہ میں حکام کا کہنا ہے کہ دو مبینہ مقامی شدت پسند تنظیموں کے درمیا ن ہونے والی ایک جھڑپ میں نو افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے ہیں۔ جبکہ صوبہ سرحد کے ضلع دیر میں فوج کی بیرکوں پر راکٹ حملے کیے گئے ہیں۔پولٹیکل انتظامیہ کے ایک اہلکار نے جمعہ کی صبح باڑہ سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور سنڈا پل کے علاقے میں لشکر الاسلام کے مسلح افراد نے پہاڑ پر واقع انصارالاسلام کے مورچے پر قبضہ کرنے کے لیے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کردیا تھا۔اہلکار کے مطابق پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی میں لشکرالاسلام کے آٹھ اور انصارالاسلام کا ایک مبینہ جنگجو ہلاک ہوگیا جبکہ دونوں طرف سے چار چار افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔تاہم فریقین نے ہلاکتوں سے متعلق متضاد دعوے کیے ہیں۔ انصارالاسلام کے ترجمان مولانا مستمیم نے دعویٰ کیا ہے کہ لڑائی کے دوران مخالف فریق کے بارہ افراد ہلاک کیے گئے ہیں جن میں سے آٹھ کی لاشیں انکے پاس ہیں۔ صوبہ سرحد کے ضلع دیر میں واقع ملاکنڈ یونیورسٹی کے قریب فوجیوں کی بیرک پر دو راکٹ فائر کیے گئے ہیں جس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے تاہم پولیس نے ابتدائی تفتیش کی لیے ستاون مشکوک افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ادھر لشکرالاسلام کے ایک رہنما مستری گل نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انکے دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لڑائی کے دوران انکی مخالف تنظیم انصارالاسلام کے سات افراد ہلاک اور نو زخمی ہوگئے ہیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں مبینہ شدت پسند تنظیموں کے درمیان گزشتہ دو سال سے جاری لڑائی میں فریقین اپنا نقصان کم جبکہ دوسرے کی تعداد زیادہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔واضح رہے کہ تحصیل باڑہ میں دونوں مبینہ شدت پسند تنظیموں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں مقامی لوگوں کے مطابق اب تک دو سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں اور علاقے میں بظاہر حکومتی عملداری ختم ہوگئی ادھر صوبہ سرحد کے ضلع دیر میں واقع ملاکنڈ یونیورسٹی کے قریب فوجیوں کی بیرک پر دو راکٹ فائر کیے گئے ہیں جس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا ہے تاہم پولیس نے ابتدائی تفتیش کی لیے ستاون مشکوک افراد کو حراست میں لیا ہے۔دیر کے ضلعی رابطہ افسر ڈاکٹر عطاء الرحمن کے مطابق ابتدائی تفتیش کے بعد چالیس افراد کو ضمانت پر رہا کردیا گیا جبکہ سترہ افراد اب بھی زیرحراست ہیں ۔ انکے بقول حراست میں لیے گئے افراد میں سے پانچ زیادہ مشکوک افراد بھی شامل ہیں جن میں دو مقامی اور تین افغان ہیں۔انکے مطابق حملے کا نشانہ بننے والی عمارت میں جمعہ کے روز ہی تقریباً پانچ سو سے زیادہ فوجیوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ جنوبی اضلاع لکی مروت، پیزو، اورسرائے نورنگ میں بھی اضافی فوج کو تعینات کردیا گیا ہے فوج اور پولیس کے اہلکاروں نے تاجہ زئی چوک پر خاردار تاریں بچھاکر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔دوسری طرف پولیس نے دعویٰ کیا کہ پشاور کے مصروف بازار صدر میں کے ایک کار پاکنگ میں تخریب کاری میں استعمال ہونے والی ایک گاڑی کو قبضہ میں لے لیا گیا جس سے ساڑھے چار کلو وزنی دو اینٹی ٹینک مائن اور آتش گیر مادہ بر آمد کیا گیا پشاور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس طاہر خان نے بتایا کہ گاڑی میں نصب ٹائم بم کا بروقت نہ پھٹنے سے وہاں پر موجود پولیس اہلکار نے گاڑی سے دھواں اٹھتے دیکھکر آگ بجھانے کی کوشش کی۔ انکے بقول بعد میں فائر بریگیڈ کو بلاکر آگ بجھائی گئی اور پولیس نے گاڑی سے دو ساڑھے چار کلو وزنی اینٹی ٹینک مائن اور آتش گیر مادہ بر آمد کیا۔فوج اور پولیس کے اہلکار لکی مروت کے راستے بنوں، میانوالی اور پشاور کی طرف جانے والی گاڑیوں کی تلاشی لیتے رہے۔ صوبہ سرحد کی حکومت کی درخواست پر صوبے کے جنوبی اضلاع میں تقریباً بارہ ہزار اضافی فوجیوں کو تعیبنات کیا گیا۔ تاکہ ان علاقوں میں طالبانائزیشن کا عمل روکا جاسکے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وزیرستان میں متعدد چوکیاں تباہ کی گئی ہیں قبائلی جرگے نے شمالی وزیرستان میں قائم کردہ حفاظتی چوکیوں کے خاتمے تک مقامی طالبان سے مزید مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا گیا۔پینتالیس رکنی جرگے میں شامل ملک قادر خان نے بتایاتھا کہ انہوں نے صوبہ سرحد کے گورنر سے ملاقات میں واضح کر دیا تھا کہ جب تک حکومت شمالی وزیرستان میں قائم چیک پوسٹوں کو نہیں ہٹاتی تب تک جرگہ طالبان سے مذاکرات کرنے شمالی وزیرستان نہیں جائے گا۔ملک قادر کے مطابق ’ہم گورنر سے کہا کہ پانچ ستمبر کے معاہدے کے مطابق حکومت نئی چیک پوسٹ قائم نہیں کر سکتی لیکن حکومت نے ایسا کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ان کے مطابق انہوں نے گورنر سے کہا کہ اس شرط کو قبول کیے بغیر وہ طالبان سے مذاکرات جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ طالبان کا واحد مطالبہ یہی ہے کہ چیک پوسٹوں کو ہٹایا جائے لہذٰا ایسی صورت میں جرگے کا واپس میران شاہ جانا بے فائدہ ہوگا۔ملک قادر کا کہنا تھا کہ گورنر نے کہا کہ چیک پوسٹیں ہٹانے کے سلسلے میں وہ بے بس ہیں لہذٰا جرگہ ویسے جا کر طالبان کو معاہدے کی بحالی پر رضامند کرے لیکن بقول ان کے جرگے نے گورنر کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ جرگے نے چیک پوسٹوں کو ہٹائے جانے پر غور کرنے کے لیے گورنر کو چار دن کی مہلت دی اور بقول ان کے اگر حکومت نے رضامندی ظاہر کر دی تو جرگہ امن معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اپنی کوششیں دوبارہ شروع کر سکتا تھا۔ملک قادر خان نے بتایا کہ جرگے نے چیک پوسٹوں کو ہٹائے جانے پر غور کرنے کے لیے گورنر کو چار دن کی مہلت دی تھی اور بقول ان کے اگر حکومت نے رضامندی ظاہر کر دی تو جرگہ امن معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اپنی کوششیں دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔واضح رہے کہ پینتالیس رکنی جرگے نے میران شاہ میں اپنے چند روزہ قیام کے دوران مقامی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بعدپشاور میں گورنر سرحد کو ملاقات کے دوران صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا اور اسے پروگرام کے مطابق طالبان سے مذاکرات کرنے واپس میران شاہ جانا تھا۔پینتالیس رکنی جرگہ صوبہ سرحد کے گورنر علی جان اورکزئی کی سفارش پر تشکیل دیا گیا تھا اور اس میں جنوبی اور شمالی وزیرستان کے چار اراکینِ قومی اسمبلی مولانا نیک زمان، مولانا معراج الدین، مولانا صالح شاہ اور مولانا عبدالمالک کے علاوہ سابق سینیٹر متین شاہ بھی شامل تھے۔جرگے میں شمالی وزیرستان کے پندرہ، جنوبی وزیرستان کے آٹھ، خیبر ایجنسی کا ایک، ،اورکزئی ایجنسی اور جنڈولہ کے دودو، باجوڑ، پارہ چنار، بنوں اور پشاور کے تین تین قبائلی عمائدین شامل ہیں۔ امن جرگے کے انکار کے بعد شمالی وزیرستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان جاری جنگ بندی سے متعلق آخری امید بھی بظاہر دم توڑ گئی جس سے نہ صرف علاقے میں امن و امان کی صورتحال پر منفی اثر مرتب ہونے کا خدشہ بلکہ قبائلی علاقے میں القاعدہ کے دوبارہ منظم اور شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے متعلق امریکہ کے اعلی حکومتی اہلکاروں کے خدشات دور کرنے کی حکومتی کوششیں بھی زائل ہوسکتی تھی۔قبائلی علاقے خیبر ایجنسی اور صوبہ سرحد کے ضلع کرک میں ہونے والے دو مختلف بم دھماکوں میں دو افراد ہلاک جبکہ چار زخمی ہوگئے تھے۔خیبر ایجنسی کے پولٹیکل انتطامیہ کا کہنا تھا ضلع پشاور سے متصل تحصیل جمرود کے علاقے وزیر ڈنڈ میں ایک زوردار بم دھماکہ ہوا تھاجس میں دو افراد ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ جمرود کے تحصیلدار خالد کنڈی نے جائے وقوعہ پر صحافیوں کو بتایا تھاکہ بظاہر ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور کہیں جارہا تھا کہ حادثاتی طور پر اسکے جسم کے ساتھ بندھا ہوا دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا جسکے نتیجے میں حملہ آور سمیت ایک راہ گیر ہلاک ہو گیا انہوں نے مزید بتایا کہ مبینہ خودکش حملہ آور کے جسم کے اعضاء کو تحویل میں لے لیا گیا جس جگہ دھماکہ ہوا اس سے تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر خاصہ دار فورس کی ایک چوکی واقع ہے۔ دوسرا بم دھماکہ صوبہ سرحد کے ضلع کرک سے تقریباً چالیس کلومیٹر مغرب کی جانب بہادر خیل نامی گاو¿ں میں پاک فضائیہ کے سابق سکواڈن لیڈر کی رہائش گاہ کے سامنے ہوا جس میں دو بچوں سمیت تین افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ دھماکہ میں آتش گیر مادے کا استعمال کیا گیا ۔ پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں درجنوں مسلح قبائلیوں نے ایک مذہبی تنظیم کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاک افغان شاہراہ بند کر دی تھی اور حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کیا تھادوسری طرف پولیس نے پشاور کے علاقے شیخان میں ایک مزار پر حملے میں آٹھ افراد کو قتل کرنے کے جرم لشکر اسلام نامی مذہبی تنظیم کے امیر منگل باغ اور دیگر کارکنوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا مظاہرین کی قیادت کرنے والے خیبر امن کمیٹی کے صدر شاکر آفریدی کے مطابق حکومت کی موجودگی میں دن دہاڑے لشکر اسلام کے امیرمنگل باغ اور ان کے مسلح حامی لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی گاڑیاں چھین رہے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ جب تک مقامی انتظامیہ عوام کو تحفظ فراہم نہیں کرتی پاک افغان شاہراہ نہیں کھولی جائےگی۔ شاہراہ صبح دس بجے سے بند تھی جس کی وجہ سے افغانستان سے آنے جانے والی ہزاروں گاڑیاں شاہراہ کے دونوں جانب کھڑی تھی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز مذہبی تنظیم لشکر اسلام کے سینکڑوں کارکنوں نے شیخان گاو¿ں میں واقع بابا صاحب مزار پر حملہ کرکے نو افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا تھا۔ حملے میں لشکر اسلام کے ایک حامی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ شیخان گاو¿ں پشاور اور قبائلی علاقے باڑہ کے سنگم پر واقع ہے۔پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مذہبی تنظیم لشکر اسلام اور کوکی خیل قبیلے کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں سات افراد کی ہلاکت کے بعد متحارب گروہوں کے مابین عارضی فائر بندی طے پاگئی تھی مقامی مشران کا ایک جرگہ منعقد ہوا تھاجس میں دونوں فریقوں نے شرکت کی۔ مقامی ذرائع کے مطابق جرگہ کی کوششوں سے متحارب گروہوں کے مابین عارضی فائر بندی ہوگئی جس کے بعد علاقے میں فائرنگ کا سلسلہ بند ہوگیا ادھر تحصیل جمرود میں جھڑپوں کے بعد بندوبستی علاقے میں پیدا شدہ صورتحال پر غوروغوض کےلیے فرنٹیر ہاو¿س پشاور میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا تھاجس کی صدارت وزیر اعلی امیر حیدر خان ہوتی نے کی۔ اجلاس سے خطاب میں وزیراعلیٰ نے قبائلی علاقے میں صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور واضح ہدایات جاری کیں کہ قبائلی علاقے کی اس آگ کو بندوبستی علاقے تک نہ پھیلنے دیا جائے۔ امیر حیدر خان ہوتی نے حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ایریا کے گرد مضبوط حفاظتی دیوار تعمیر کرنے کی منظوری دی اور حکم دیا کہ دیوار کی تعمیر پر مزید وقت ضائع کئے بغیر عملی کام شروع کیا جائے تاکہ رہائشی اور انڈسٹریل علاقے کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ خیبرایجنسی کے ایک اعلی سرکاری اہلکار نے بتایا کہ لڑائی کا سلسلہ عارضی طورپر بند ہے تاہم متحارب گروہ ایک بار پھر شاہ کس اور وزیر ڈھنڈ کے علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے تھے انہوں نے تصدیق کی کہ جھڑپوں میں سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تاہم مقامی ذرائع نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بیس کے قریب بتائی سرکاری ذرائع کا کہنا تھاکہ سکیورٹی فورسز شاہ کس کے علاقے میں داخل ہوگئی تھی اور وہاں موجود لشکر اسلام کے مسلح حامیوں کے بنائے ہوئے مورچوں کے سامنے پوسٹیں بنانی شروع کردئیں تھیں۔ ادھر لشکر اسلام کے کمانڈر منگل باغ نے ایف ایم ریڈیو سے تقریر میں سکیورٹی فورسز کو شام تک علاقہ چھوڑ دینے کی مہلت دی یہ بھی اطلاعات تھیں کہ مذہبی تنظیم کی جانب سے دھمکیوں کے بعد باڑہ سب ڈویڑن میں تعینات زیادہ تر حاضہ دار اور لیوی اہلکار ڈیوٹیاں چھوڑ کر گھروں کو چلے گئے مقامی ذرائع کا کہنا تھا کہ نامعلوم مسلح افراد نے جمرود تحصیل سے لائن افسر سمیت پندرہ خاصہ دار اہلکاروں کو بھی اغواءکیا دوسری طرف کشیدگی کی وجہ سے شاہ کس اور وزیر ڈھنڈ کے علاقوں سے مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی بھی کی عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ شاہ کس سے ملحقہ پشاور کے علاقے حیات آباد سے بھی لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ حیات آ باد انڈسٹریل اسٹیٹ میں اسی کے قریب کارخانے بھی بند ہوگئے جبکہ متاثرہ علاقے میں تمام تجارتی مراکز اور بازاربند ہیں جبکہ جمرود تحصیل میں تمام تعلیمی ادارے اور نجی و سرکاری دفاتر بھی بند ہیں۔ خیبرایجنسی کے سنگم پر واقع پشاور شہر کا ایک بڑا تجارتی مرکز کارخانو مارکیٹ بھی کشیدگی کی وجہ سے مکمل طورپر بند ہے۔ خیبر ایجنسی میں شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں دو مقامی شدت پسند تنظیموں کے مسلح حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے خیبر ایجنسی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق تیراہ کے دور دراز علاقے سنڈہ پال اور آس پاس کے گاو¿ں میں شدت پسند تنظیموں لشکر اسلام اور انصار السلام کے مسلح حامیوں کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی تھی۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف بھاری اسلحہ کا آزادانہ استعمال کرتے رہے جبکہ جنگ بندی کے سلسلے میں ابھی تک انتظامیہ اور نہ ہی قبائلی مشران کی جانب سے کسی قسم کے کوئی اقدامات کیے گئے اس سلسلے میں مقامی انتطامیہ سے بارہا رابطہ کی کوشش کی گئی تاہم کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ یہ جھڑپیں تحصیل باڑہ سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر دور ہوئیں جہاں پر رسائی انتہائی مشکل تھی۔ جس علاقے میں شدت پسند تنظیموں کے مسلح حامیوں کے درمیان لڑائی ہوئی اسے انصار السلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جبکہ لشکر اسلام کی کوشش تھی کہ تحصیل باڑہ کے بعد ان علاقوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیں۔ خیبر ایجنسی میں مبینہ طور پر سرگرم کئی مقامی شدت پسند تنظیموں کے درمیان گزشتہ تین سالوں سے لڑائیاں جاری تھیں جس میں اب تک سینکڑوں افراد کے علاوہ بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت عام شہری جان بحق ہوئے ہیں۔صوبائی دارالحکومت پشاور کے سنگم پر واقع اس قبائلی ایجنسی میں حکومتی عملداری تقریباً ختم ہوچکی تھی۔



No comments: