لاہور۔ وکلاء پیپلز پارٹی کے آئینی پیکج کو تسلیم نہیں کرتے۔ آئینی پیکج کو تسلیم کرنے کا مطلب ایک ڈکٹیٹر کے 3نومبر 2007ء کے اقدام کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی اگر محترمہ بے نطیر بھٹو شہید کے وزیراعظم ہیں تو ان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی ہونے چاہئیں۔ کل آل پاکستان نمائندہ وکلاء کنونشن میں ملک گیر دھرنوں سمیت اہم فیصلے لئے جانے کی توقع ہے ۔ جسٹس افتخار محمد چودھری 26جولائی کو بہاولپور میں کنونشن سے خطاب کریں گے۔ کراچی ہائی کورٹ جسٹس ڈوگر کی آمد پر وکلاء پر تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔ جسٹس ڈوگر سندھ بھر میں رسوائی کے باعث بہتر ہے بار میں نہ جائیں۔ ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری اعتزاز احسن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران طاہر بیگ، امداد اعوان، عمرانہ بلوچ، امین جاوید، مسرت گیلانی اور خواجہ اظہر صدیق بھی موجود تھے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ کل لاہور ہائی کورٹ کے کراچی ہال میں منعقد ہونے والے آل پاکستان وکلاء نمائندہ کنونشن میں دیگر تجاویز کے ساتھ ایک تجویز یہ بھی دی جائے گی کہ پاکستان کے تمام شہروں کے اہم مقامات بشمول جی ٹی روڈ اور چوراہوں پر وکلاء اور سوک سوسائٹی دو گھنٹے کیلئے دھرنا دیں ۔ اگر یہ تجویز منظور ہوگئی تو اس دھرنا سے وکلاء کی تحریک مزید مضبوط ہوگی اور اگر کچھ لوگوں کی لاکھوں وکلاء وسوک سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کے لانگ مارچ سے آنکھیں نہیں کھلیں تو وہ کھل جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑی تو اس دھرنے کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دھرنے سے عوام کو پیش آنے والی مشکلات کا تعلق ہے میں ان سے پیشگی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگوں گا کیونکہ ہمیں عدلیہ کی بحالی کیلئے کوئی بھی قربانی دینا ہوگی۔ اعتزاز احسن نے بتایا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری 25جولائی کی شام کو ملتان پہنچیں گے اور اگلی صبح 26جولائی کو بہاولپور کیلئے روانہ ہوں گے جہاں پر وہ بہاولپور بار سے خطاب کریں گے۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پہلے کی طرح چیف جسٹس کا بھرپور استقبال کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر جنہیں ہم چیف جسٹس تسلیم نہیں کرتے سندھ کی جن بارز میں گئے ہیں انہیں سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکھر بار میں 700وکلاء میں سے صرف 35وکلاء موجود تھے جنہیں ملازمتیں دینے کے وعدے کئے گئے تھے۔ اسی طرح لاڑکانہ بار میں بھی لاڑکانہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احمد علی شیخ اور سیکرٹری موجود نہیں تھے اور باہر سینکڑوں وکلاء کے ہمراہ احتجاج کیا گیا۔ کراچی ہائی کورٹ میں گذشتہ روز جب جسٹس ڈوگر پہنچے تو باہر وکلاء اور سوک سوسائٹی کے لوگوں نے شدید احتجاج کیا جو انتہا کا تھا۔ ان نہتے لوگوں پر پولیس تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں اور اس حوالے سے ملک گیر احتجاج کیلئے بھی کل کے کنونشن میں لائحہ عمل دیا جائے گا۔ انہوں نے معزول چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس صبیح الدین کے صاحبزادے سمیت نعیم قریشی، جاوید بخاری اور دیگر وکلاء کے جسٹس ڈوگر کے حکم پر رہا ہونے سے انکار پر بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 20جولائی جس روز سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ کے ذریعے جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کیا تھا ہر سال عدلیہ کی بحالی کا دن منایا جائے گا اور اس روز بارز میں ان ججوں کی تصاویر آویزاں کی جائیں گی جو اس فیصلہ میں شامل تھے اور بعد میں پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ جبکہ 3نومبر جس روز ایک ڈکٹیٹر نے ایک بار پھر آئین شکنی کی اور 60ججوں کو گھر بھیج دیا کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔ اس بار کیونکہ 20جولائی اتوار کو ہے اس لئے میں تمام بار ایسوسی ایشنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ 21جولائی کو یوم آزادی عدلیہ منائیں اور ان ججوں کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے یہ عظیم فیصلہ سنایا۔ اس سوال پر کہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں آئینی پیکج کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ محترمہ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر کے باہر کھڑے ہوکڑ کہا تھا کہ افتخار محمد چودھری ان کے چیف جسٹس ہیں اور چیف جسٹس رہیں گے۔ ان کو وہ خود بحال کریں گی اور جو پرچم ان کے گھر سے اتارا گیا ہے وہ خود وہاں آکر لہرائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کو تسلیم کرنے کا مطلب ڈکٹیٹر کے 3نومبر 2007کے ان پانچوں اقدامات کو تسلیم کرنا ہے جن کے تحت 60ججوں کو برطرف کیا گیا، انہیں گرفتار کرکے فیملی سمیت نظر بند بھی کیا گیا شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس کے بعد دوسرا بڑا پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان مری کی صورت میں آیا جس پر شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دستخط موجود ہیں اور انہوں نے پوری قوم کے سامنے معزول ججوں کو قرارداد کے ذریعے 30دن کے اندر بحال کرنے کا عہد کیا۔ پیپلز پارٹی عہد شکنی نہیں کرسکتی اور اگر یوسف رضا گیلانی محترمہ کے وزیراعظم ہیں تو پھر ان کے چیف جسٹس بھی افتخار محمد چودھری کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتے۔ اگر یوسف رضا گیلانی ججوں کی رہائی کی جگہ انہیں بحال کرنے کا لفظ استعمال کرلیتے تو پانچ منٹ کے اندر معزول جج صاحبان بحال ہوجاتے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ ان کی بحالی کیلئے کسی ایگزیکٹو آرڈر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کے پاس سینٹ میں اکثریت نہیں ہے اس لئے آئینی پیج دوتہائی اکثریت سے منظور نہیں ہوسکے گا۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Friday, July 18, 2008
گیلانی اگر محترمہ کے وزیراعظم ہیں تو افتخار محمد چودھری کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا چیف جسٹس نہیں ہوسکتا۔اعتزاز احسن
لاہور۔ وکلاء پیپلز پارٹی کے آئینی پیکج کو تسلیم نہیں کرتے۔ آئینی پیکج کو تسلیم کرنے کا مطلب ایک ڈکٹیٹر کے 3نومبر 2007ء کے اقدام کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی اگر محترمہ بے نطیر بھٹو شہید کے وزیراعظم ہیں تو ان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی ہونے چاہئیں۔ کل آل پاکستان نمائندہ وکلاء کنونشن میں ملک گیر دھرنوں سمیت اہم فیصلے لئے جانے کی توقع ہے ۔ جسٹس افتخار محمد چودھری 26جولائی کو بہاولپور میں کنونشن سے خطاب کریں گے۔ کراچی ہائی کورٹ جسٹس ڈوگر کی آمد پر وکلاء پر تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔ جسٹس ڈوگر سندھ بھر میں رسوائی کے باعث بہتر ہے بار میں نہ جائیں۔ ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری اعتزاز احسن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران طاہر بیگ، امداد اعوان، عمرانہ بلوچ، امین جاوید، مسرت گیلانی اور خواجہ اظہر صدیق بھی موجود تھے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ کل لاہور ہائی کورٹ کے کراچی ہال میں منعقد ہونے والے آل پاکستان وکلاء نمائندہ کنونشن میں دیگر تجاویز کے ساتھ ایک تجویز یہ بھی دی جائے گی کہ پاکستان کے تمام شہروں کے اہم مقامات بشمول جی ٹی روڈ اور چوراہوں پر وکلاء اور سوک سوسائٹی دو گھنٹے کیلئے دھرنا دیں ۔ اگر یہ تجویز منظور ہوگئی تو اس دھرنا سے وکلاء کی تحریک مزید مضبوط ہوگی اور اگر کچھ لوگوں کی لاکھوں وکلاء وسوک سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کے لانگ مارچ سے آنکھیں نہیں کھلیں تو وہ کھل جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑی تو اس دھرنے کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دھرنے سے عوام کو پیش آنے والی مشکلات کا تعلق ہے میں ان سے پیشگی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگوں گا کیونکہ ہمیں عدلیہ کی بحالی کیلئے کوئی بھی قربانی دینا ہوگی۔ اعتزاز احسن نے بتایا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری 25جولائی کی شام کو ملتان پہنچیں گے اور اگلی صبح 26جولائی کو بہاولپور کیلئے روانہ ہوں گے جہاں پر وہ بہاولپور بار سے خطاب کریں گے۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پہلے کی طرح چیف جسٹس کا بھرپور استقبال کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر جنہیں ہم چیف جسٹس تسلیم نہیں کرتے سندھ کی جن بارز میں گئے ہیں انہیں سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکھر بار میں 700وکلاء میں سے صرف 35وکلاء موجود تھے جنہیں ملازمتیں دینے کے وعدے کئے گئے تھے۔ اسی طرح لاڑکانہ بار میں بھی لاڑکانہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احمد علی شیخ اور سیکرٹری موجود نہیں تھے اور باہر سینکڑوں وکلاء کے ہمراہ احتجاج کیا گیا۔ کراچی ہائی کورٹ میں گذشتہ روز جب جسٹس ڈوگر پہنچے تو باہر وکلاء اور سوک سوسائٹی کے لوگوں نے شدید احتجاج کیا جو انتہا کا تھا۔ ان نہتے لوگوں پر پولیس تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں اور اس حوالے سے ملک گیر احتجاج کیلئے بھی کل کے کنونشن میں لائحہ عمل دیا جائے گا۔ انہوں نے معزول چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس صبیح الدین کے صاحبزادے سمیت نعیم قریشی، جاوید بخاری اور دیگر وکلاء کے جسٹس ڈوگر کے حکم پر رہا ہونے سے انکار پر بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ 20جولائی جس روز سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ کے ذریعے جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کیا تھا ہر سال عدلیہ کی بحالی کا دن منایا جائے گا اور اس روز بارز میں ان ججوں کی تصاویر آویزاں کی جائیں گی جو اس فیصلہ میں شامل تھے اور بعد میں پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔ جبکہ 3نومبر جس روز ایک ڈکٹیٹر نے ایک بار پھر آئین شکنی کی اور 60ججوں کو گھر بھیج دیا کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔ اس بار کیونکہ 20جولائی اتوار کو ہے اس لئے میں تمام بار ایسوسی ایشنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ 21جولائی کو یوم آزادی عدلیہ منائیں اور ان ججوں کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے یہ عظیم فیصلہ سنایا۔ اس سوال پر کہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں آئینی پیکج کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے اعتزاز احسن نے کہا کہ محترمہ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھر کے باہر کھڑے ہوکڑ کہا تھا کہ افتخار محمد چودھری ان کے چیف جسٹس ہیں اور چیف جسٹس رہیں گے۔ ان کو وہ خود بحال کریں گی اور جو پرچم ان کے گھر سے اتارا گیا ہے وہ خود وہاں آکر لہرائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کو تسلیم کرنے کا مطلب ڈکٹیٹر کے 3نومبر 2007کے ان پانچوں اقدامات کو تسلیم کرنا ہے جن کے تحت 60ججوں کو برطرف کیا گیا، انہیں گرفتار کرکے فیملی سمیت نظر بند بھی کیا گیا شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس کے بعد دوسرا بڑا پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلان مری کی صورت میں آیا جس پر شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دستخط موجود ہیں اور انہوں نے پوری قوم کے سامنے معزول ججوں کو قرارداد کے ذریعے 30دن کے اندر بحال کرنے کا عہد کیا۔ پیپلز پارٹی عہد شکنی نہیں کرسکتی اور اگر یوسف رضا گیلانی محترمہ کے وزیراعظم ہیں تو پھر ان کے چیف جسٹس بھی افتخار محمد چودھری کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتے۔ اگر یوسف رضا گیلانی ججوں کی رہائی کی جگہ انہیں بحال کرنے کا لفظ استعمال کرلیتے تو پانچ منٹ کے اندر معزول جج صاحبان بحال ہوجاتے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ ان کی بحالی کیلئے کسی ایگزیکٹو آرڈر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کے پاس سینٹ میں اکثریت نہیں ہے اس لئے آئینی پیج دوتہائی اکثریت سے منظور نہیں ہوسکے گا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment