International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Friday, April 4, 2008

بیسٹ سولجر آف دی ایئر، جنرل اشفاق پرویز کیانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی



جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس سال کو سولجر کا سال قرار دیا ہوا ہے اور اس ضمن میں پرفیشنل سولجر کی کارکردگی کے حوالے سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وزیر اعظم ہائوس میں بریفنگ سے شروعات کر کے اپنے آپ کو بلکہ پوری پاک فوج کو دنیا بھر میں پرو فیشنل آرمی کا ثبوت دے کر نہ صرف پاک فوج کا وقار بلند کیا ہے بلکہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں بھی وہ مقام حا صل کرلیا ہے جو آٹھ سال پہلے ختم ہوچکا تھا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس اقدام نے دنیا بھر میں یہ پیغام دے دیا ہے کہ موجودہ عسکری قیادت پاکستان میں سول حکمرانی کی با لا دستی پر یقین رکھتی ہے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھناچاہتے ہیں اور جمہوری حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں آرمی چیف کی جانب سے سیاسی قائدین کو بریفنگ کے حوالے سے یہ ایک نہایت مثبت عمل تھا اور اس بریفنگ میں آرمی چیف کا رویہ انتہائی مثبت اور تعمیری تھا ۔ آرمی چیف نے اب تک کئے گئے اقدامات سے ثابت کر دیا ہے جمہوری حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیںملک کی اعلیٰ فوجی و سیاسی قیادت نے ملکی سلامتی ، بقاء سا لمیت دفاع اور استحکام کے لیے قومی وحدت و یکجہتی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق امور کے بارے میں حکمت عملی پارلیمنٹ طے کرے گی اور ادارے اس پر عمل کریں گے ۔فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیا نی کی جانب سے بدھ کو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور حکمران اتحاد کے قائدین کو قومی سلامتی بالخصوص اس حوالے سے خارجی و داخلی محاذ پر درپیش چیلنجز کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔سیاسی قیادت نے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے اجلاس میں اپنی مختلف آراء اور تجاویز پیش کیں ۔ ذرائع کے مطابق بریفنگ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی عالمی اتحاد میں موجودگی سے متعلق بھی مختلف سوالات کئے گئے ۔ قبائلی علاقوں کی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔پاک افغان تعلقات کا بھی مختلف پہلوو¿ں سے جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ملک میں قومی مفاہمت کو قبائلی علاقوں تک وسیع کیا جائے۔ بریفنگ کے بعد وزیر اعظم سید یوسف گیلانی نے سیاسی قائدین کی مشاورت سے فیصلہ کیا کہ فوج کے سر براہ کی بریفنگ کی روشنی میں صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے سیاسی حکمت عملی طے کی جائے گی اور اس جامع حکمت عملی میں سیاسی عمل معاشی ترقی کو ترجیح دی جائے گی اور اس حکمت و پالیسی کو فوج کا تعاون حاصل ہو گا مستقبل میں سیاسی حکومت اور پارلیمنٹ نے فیصلے کرنے ہیں ۔ پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل کیا جائے گا ۔ طے یہی ہوا ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کی قیادت بیٹھے گی اور آئندہ اجلاس کے حوالے سے اپنی ترجیحات اور سفارشات طے کرے گی ساری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ موجود ہے سیاسی حل نکالا جائے طاقت کا استعمال بند ہونا چاہیے ۔ فوج کی قیادت سے اس قسم کے مزید ایک دو اور اجلاس منعقد ہونگے حکمران اتحاد مسائل کے حل کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرے گا ۔ماضی میں حکومت نہیں بلکہ فوجی قیادت نے پالیسیاں طے کیں اور اب یہ ماحول پیدا ہوا ہے کہ عوام کی نمائندہ حکومت اور پارلیمنٹ نے فیصلے کرنے ہیں اور یقینا اس طرح پالیسیاں کامیاب رہتی ہیں قومی حکومت کا مقصد آزاد خارجہ پالیسی اور سیاسی عمل کے ذریعے مسائل کو حل کرنا ہے ۔ بریفنگ کے حوالے سے قوم میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا مثبت پیغام جائے گا اور پی ڈی اے کی حکومت کے حوالے سے امریکہ کو یہی پیغام ملے گا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کا حل چاہتی ہے پاک افغان سرحد 2ہزار کلو میٹر طویل ہے ۔امریکی سی آئی اے کے سربراہ سمیت اگر کسی کے پاس القاعدہ کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات میں تو وہ پاکستان کو دے محض بیانات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد گار ثابت نہیں ہونگے ۔ پاکستان حدود میں یکطرفہ کارروائی نا قابل قبول ہو گی ۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ مائیکل ہیڈن نے کوئی نئی چیز نہیں کہی ۔ وہی چیز دوہرائی جو امریکی انٹیلی جنس پاک افغان سرحد پر القاعدہ کی موجودگی کے حوالے سے ماضی میں کہتی رہی پاک افغان سرحد 2ہزار کلو میٹر طویل ہے اور امریکی سی آئی اے کے سربراہ کی جانب سے اس طرح کا بیان القاعدہ کے رہنماو¿ں کے مبینہ ٹھکانوں ی نشاندہی میں مدد گار نہیں ثابت نہیں ہو گا ۔ پاک بھارت قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے 31مارچ کو پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے ملک میں قیدیوں کی فہرست کا تبادلہ کیا تھا ۔ فہرست کے مطابق پاکستان میں 53سول قیدی اور 436ماہی گیر جیلوں میں ہیں جبکہ بھارت کی طرف سے فراہم کی گئی فہرست کے مطابق بھارتی جیلوں میں 133پاکستانی قید اور 14پاکستانی ماہی گیر گرفتار ہیں ۔ یہ فہرست 31مارچ تک حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ہے اور اس حوالے سے مزید معلومات بھارت فراہم کریگا ۔ ڈنمارک کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے کے مطالبات کے معلوم ہوا ہے اس وقت اسلام آباد میں ڈنمارک کا کوئی سفیر موجود نہیں ۔ ڈنمارک کے آخری سفیر ڈیڑھ سال قبل کوپن ہیگن چلے گئے تھے ۔ پاکستان متنازعہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت اور متنازعہ فلم بنانے کی سخت الفاظ میں مذمت کر نا اور یورپی دارالحکومتوں سمیت ہر فورم پر آواز اٹھانا ہوگی ۔ ایک بار پھر عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پرویز مشرف فوری طور پر مستعفی ہو ں ۔ ایگزیکٹو آرڈر سے چیف جسٹس سمیت تمام ججز بحال کیے جائیں اور بارہ اکتوبرکی صورت میں واپسی کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے ۔ پاکستان کے مسلمان لوگ اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔ یہاں شریعت نافذ ہو تو مسائل حل ہو جائیں گے پرویز مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی ، ججوں کی بحالی ، قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی اور امریکی غلامی سے آزادی نئی حکومت کے لیے امتحان ہے ۔ حکومت اس امتحان میں پوری نہ اتری تو ملک بحران سے نہیں نکل سکے گا حکومتی اتحاد کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اس لیے پارلیمنٹ میں پرویز مشرف کے مواخذے کی فوری تحریک آنی چاہیے ججوں کو چیف آف آرمی سٹاف نے غیر آئینی طور پر ہٹایا تھا ۔ تمام جج ایک آرڈر سے بحال ہو سکتے ہیں ۔ وزیراعظم کو فوری طور پر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تو یہ پرویز مشرف کے اقدام کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا ۔ قوم چاہتی ہے کہ پرویز مشرف فوری رخصت ہوں اور اس کی پالیسیاں تبدیل کی جائیں ۔ پرویز مشرف کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون اور روشن خیالی کی پالیسی نے ملک کی سرحدی و نظریاتی جڑیں ہلا دی ہیں ۔ ملک میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک امریکی غلامی پر مبنی پالیسیوں کو خیر باد نہیں کہہ دیا جاتا ۔ ہماری آزادی و خود مختاری اس وقت مکمل ہو گی جب امریکی اتحاد سے ہم باہرنکلیں گے اور اپنی پالیسیاں خود بنائیں گے دہشت گردی کے خلاف جنگ در اصل اسلام اور قوم کے خلاف جنگ ہے ۔ نئی حکومت اس جنگ سے فوری طور پر باہر نکل آئے ۔ قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی گرفتاری پر پوری قوم دل گرفتہ ہے ۔ وزیر اعظم کی تقریر میں انہیں رہا کرنے کا اعلان ہونا چاہیے تھا لیکن قوم کو اس حوالے سے مایوسی ہوئی ہے ۔پرویز مشرف موجود رہا یا اس کے جانے کے بعد اس کی پالیسیاں جاری رہیں تو لوگ مطمئن نہیں ہوں گے اورعوام کیلئے خاموش رہنا مشکل ہو جائے گا ۔




No comments: