International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, April 17, 2008

افغانستان میں ٢ پاکستانی انجینئروں کو اغوا کر لیا گیا ،مسلح گروپ نے تین ملین ڈالر بطور تاوان مانگ لیے

کابل۔ افعانستان میں ایک مسلح گروپ نے افغان تعمیراتی کمپنی کے لیے کام کرنے والے دو پاکستانی انجینئروں کو اغواء کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کی رہائی کے بدلے تین ملین ڈالر بطور تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک نامعلوم مقام سے عبداللہ نامی شخص نے سٹیلائٹ فون پر بتایا کہ ایک افغان مسلح گروپ نے تیرہ مارچ کو افغانستان کے صوبہ خوست میں امریفا نامی افغان تعمیراتی کمپنی کے لیے کام کرنے والے پانچ اہلکاروں کو اغواء کرلیا تھا جن میں سے ایک مقامی شخص اور چار افراد پاکستانی شامل تھے۔ اس شخص نے مزید بتایا کہ انہوں نے مقامی شخص اور دو پاکستانیوں کو رہا کردیا ہے مگر دو پاکستانی انجینئر ابھی تک ان کی تحویل میں ہیں جنہیں کمپنی کی جانب سے تین ملین ڈالر کی ادائیگی کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔ اسی سٹیلائٹ فون پر مبینہ مغوی ریاض حسین نے بتایاہے کہ ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور انہوں نے رواں سال فروری میں افغانستان کے امریفا نامی ایک تعمیراتی کمپنی کے اسلام آباد میں واقع دفتر میں ملازمت اختیار کرلی تھی بعد میں انہیں کام کرنے کے لیے کابل بھیج دیاگیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تیرہ مارچ کو خوست میں سڑک کی تعمیر کے حوالے سے کمپنی کی جانبسے ایک سروے کرنے میں مصروف تھے کہ مسلح افراد نے انہیں اپنے چار دیگرساتھیوں سمیت اغوا کرلیا ۔ان کے بقول تحصیل گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے پینتالیس سالہ جاوید اقبال بھی ان کے ساتھ قید ہیں۔ ریاض حسین نے روتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پاکستان، افغانستان اور امریفا کمپنی نے ان کی رہائی کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو اغواء کار انہیں قتل کردیں گے۔ان کے بقول’ اغواء کارروں نے کمپنی کے اعلیٰ حکام سے رابطہ قائم کرلیا ہے مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پیسے نہیں دیں گے ، بے شک انہیں قتل کردیں۔میں دل کا مریض ہوں اور حراست کے دوران مجھے ایک دفعہ دل کا دورہ پڑ بھی چکا ہے۔ہماری جان کو خطرہ ہے خدا کے لیے ہمیں یہاں سے رہا کیا جائے۔‘ اس سلسلے میں جب کابل میں امریفا کمپنی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نور علی جلالی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے پاکستانی اہلکاروں کے اغواء کی تصدیق کی البتہ انہوں نے اس شک کا اظہار کیا کہ مغوی پاکستانی انجنینئروں کا اغواء کارروں کے ساتھ تعلق ہوسکتا ہے تاکہ اس بہانے کمپنی سے پیسے لیکر اسے آپس میں بانٹ لیں۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی خوست کے حکام اور مقامی مشران کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم ابھی تک اس لیے کوئی پیشرفت اس لیے نہیں ہوسکی ہے کہ وہ تاوان کی رقم ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ان کے بقول اغواء کار ہروقت تاوان کی رقم اور دیگر طالبات کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے ضلع ہنگو کے علاقے ٹل میں ہیں لہذا پچانوے ہزار ڈالر ادائیگی کے بعد مغویوں کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ان کے مطابق اغواء کار کبھی پچانوے ہزار، کبھی ایک ملین اور کبھی ڈیڑھ ملین ڈالر بطور تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت ہزاروں پاکستانی مزرور اور ہنر مند افراد مختلف غیر حکومتی ادراروں اور کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں۔ماضی میں طالبان اور دیگر اغو کار گروپوں نے مختلف ممالک کے شہریوں کو اغواء کرکے ان کے بدلے مبینہ طور پرتاوان کی بھاری رقمیں وصول کرلی تھیں تاہم پاکستانیوں کے اغواء کے واقعات کم ہی پیش آئے ہیں۔ خوست میں ذرائع کا کہنا ہے کہ انجینئروں کے اغواء میں طالبان مبینہ طور پر ملوث ہیں تاہم عبداللہ نامی شخص نے خود کو ایک مسلح جرائم پیشہ گروپ کہا اور اس بات کی تردید کی کہ ان کا طالبان کے ساتھ کوئی تعلق ہے

No comments: