٭۔ ۔ ۔ پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے اعتراف کے بعد سپریم کورٹ کو یہ حق نہیں پہنچاتا کہ وہ اسے کوئی جواز فراہم کرے٭۔ ۔ ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو بغیر کسی تحریر آرڈر کے اپنے اہلخانہ سمیت گھروں میں قید کرنے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ رانا بھگوان داسلاہور ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے کہا ہے کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی اور پی سی او عدلیہ کا گلا گھونٹنے کیلئے لگائی گئی تھی ۔ اس غیر آئینی حکم سے انکار پر 60 سے زائد ججوں کو گھر جانا پڑا ۔ پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے اعتراف کے بعد سپریم کورٹ کو یہ حق نہیں پہنچاتا کہ وہ اسے کوئی جواز فراہم کرے ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججوںکو بغیر کسی تحریر آرڈر کے اپنے اہلخانہ سمیت گھروں میں قید کرنے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل ہاؤس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ممبر پاکستان بار حامد خان نے بھی خطاب کیا جبکہ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر انور کمال ، سپریم کورٹ بار کے نائب صدر غلام نبی بھٹی ، سیکرٹری امین جاوید چوہدری ، رانا اسد اللہ ، حافظ عبدالرحمان انصاری سمیت وکلاء کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔ قبل ازیں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کی آمد پر وکلاء نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کے علاوہ ان کے حق میں زبردست نعرے بازی کی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس بھگوان داس نے کہا کہ میں اللہ تعالی کا مشکور ہوں کہ جس نے مجھے ہمیشہ ثابت قدم رکھا ہے ، میری ریٹائرمنٹ کے بعد جس طرح آپ نے مجھے آج یہاں عزت ، محبت اور شفقت دی ہے میں انتہائی مشکور ہو ۔ انہوں نے کہا کہ وکالت ایک باعزت پیشہ ہے اس سے وابستہ افراد مصیبتوں کے ستائے ہوئے لوگوں کیلئے قانونی جنگ لڑتے ہیں اور جن کو اپنے حقوق کا علم نہیں انہیں اس کی آگاہی دیتے ہیں ۔ وکلاء صرف کالے کوٹ کا نا م نہیں بلکہ یہ ایک ا ادارہ ہے ، ایک تشخص ہے جس کا معاشرہ احترام کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے عوام زندہ بھی ہیں مجھے امید ہے کہ لاہوریے عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اور عدلیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، عدلیہ کے بغیر وکلاء نڈر اور بے خوف نہیں ہو سکتے اور اسی طرح وکلاء کی معاونت کے بغیر عدلیہ آزاد نہیں ہوسکتی ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اچھے فیصلے اچھے وکلاء کی معاونت سے ہوتے ہیں دونوں ایک دوسرے کی معاونت کے بغیر اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے بھوکے رہ کر پولیس کا تشدد برداشت کر کے ثابت قدم رہتے ہوئے تحریک جاری رکھی ہے جس پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر مختلف ادوار میں حملے ہوتے رہے ہیں ہر دور میں عدلیہ کو کمزور اور تابع کرنے کیلئے مداخلتیں ہوتی رہی ہیں اگر عدلیہ کمزور ہو گی تو وکلاء کا پیشہ کمزور ہو جائے گا لیکن تمام رکاوٹوں کے باوجود عدلیہ اپنی آزادی کی جنگ وکلاء کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 9 مارچ 2007ء کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیجتے ہوئے انہیں معطل کردیا گیا اور گھر میں نذر بند کردیا گیا ۔ یہ عدلیہ کو رسوا کرنے کی کوشش تھی جس کے خلاف وکلاء ،عدلیہ اور پوری سوسائٹی نے مداخلت کی ، لا ہور بار کا اس حوالے سے سب سے اہم کردار رہا ہے ۔ جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بار کے استقبالیہ میں شرکت کیلئے آئے تو چار گھنٹے کا سفر 25 گھنٹے میں طے ہو سکا ۔ جس طرح کا استقبال لاہور میں کیا گیا اس سے پورے ملک کے عوام اور وکلاء کو تقویت ملی اور پھر 20جولائی کو عدلیہ کے وقار اور عزت کی بحالی کا فیصلہ ہوا لیکن پھر اڑھائی ماہ بعد ہی عدلیہ پر دوسرا وار کیا گیا جو صریحا بد نیتی پر مبنی تھا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے پی سی او جاری کردیا گیا ۔ اس ایمرجنسی یا پی سی او سے کوئی حکومت یا پارلیمنٹ گھر نہیں گئی بلکہ اس کے ذریعے عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی اور 60 سے زائد ججوں کو گھر جانا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اپنی اس تحریک میں ثابت قدم رہیں ان کی منزل نزدیک سے نزدیک تر آتی جارہی ہے ۔ جسٹس (ر) بھگوان داس نے کہا کہ 1981ءٗ 2000ء اور 3 نومبر 2007ء کو آنے والے پی سی اوز میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ 81ء میں جنرل ضیاء الحق کے پی سی او سے بعض ججوں نے انکار کیا لیکن انہوں نے پنشن کی مراعات قبول کرلیں اسی طرح 2000ء میں جاری ہونے والے پی سی او سے بھی چیف جسٹس سمیت 6 ججوں نے انکار کیا لیکن قبل از وقت ریٹائرمنٹ قبول کرتے ہوئے انہوں نے بھی پنشن وصول کی لیکن 3نومبر 2007ء کو جاری ہونے والے پی سی او سے جن ججوں نے انکار کیا انہوں نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا انہوں نے پنشن کی مراعات قبول نہیں کیں اور وہ آج بھی آئینی جج ہیں اور اس بات کو پوری قوم بھی تسلیم کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 23 نومبر 2007ء کی سپریم کورٹ کا فیصلہ خودساختہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں جب پی سی او جاری کرنے والا شخص خود یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے3 نومبر کو غیر آئینی اقدام کیا ہے ۔ تو پھر خودساختہ عدالت کے پاس اس اقدام کو جائز قرار دینے کا کیا جواز تھا ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو خاندان سمیت بغیر تحریری آرڈر کے گھر میں قید رکھا گیا کسی کو ملنے کی اجازت نہ دی گئی اس اقدام کی نہ تو قانون اجازت دیتا ہے نہ ہی یہ اخلاقی ہے بلکہ اس سے ہمارے ملک کا عالمی سطح پر وقار مجروح ہوا ہے ۔ پوری دنیا کے سامنے ہم شرمسار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سب کو چاہیے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور غیر احکامات کو مسترد کردیں
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, April 17, 2008
٣ نومبر کی ایمرجنسی اور پی سی او عدلیہ کا گلا گھونٹنے کیلئے لگائی گئی ۔جسٹس (ر) رانا بھگوان داس
٭۔ ۔ ۔ پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے اعتراف کے بعد سپریم کورٹ کو یہ حق نہیں پہنچاتا کہ وہ اسے کوئی جواز فراہم کرے٭۔ ۔ ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو بغیر کسی تحریر آرڈر کے اپنے اہلخانہ سمیت گھروں میں قید کرنے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ رانا بھگوان داسلاہور ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے کہا ہے کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی اور پی سی او عدلیہ کا گلا گھونٹنے کیلئے لگائی گئی تھی ۔ اس غیر آئینی حکم سے انکار پر 60 سے زائد ججوں کو گھر جانا پڑا ۔ پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے اعتراف کے بعد سپریم کورٹ کو یہ حق نہیں پہنچاتا کہ وہ اسے کوئی جواز فراہم کرے ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججوںکو بغیر کسی تحریر آرڈر کے اپنے اہلخانہ سمیت گھروں میں قید کرنے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل ہاؤس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ممبر پاکستان بار حامد خان نے بھی خطاب کیا جبکہ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر انور کمال ، سپریم کورٹ بار کے نائب صدر غلام نبی بھٹی ، سیکرٹری امین جاوید چوہدری ، رانا اسد اللہ ، حافظ عبدالرحمان انصاری سمیت وکلاء کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔ قبل ازیں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کی آمد پر وکلاء نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کے علاوہ ان کے حق میں زبردست نعرے بازی کی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس بھگوان داس نے کہا کہ میں اللہ تعالی کا مشکور ہوں کہ جس نے مجھے ہمیشہ ثابت قدم رکھا ہے ، میری ریٹائرمنٹ کے بعد جس طرح آپ نے مجھے آج یہاں عزت ، محبت اور شفقت دی ہے میں انتہائی مشکور ہو ۔ انہوں نے کہا کہ وکالت ایک باعزت پیشہ ہے اس سے وابستہ افراد مصیبتوں کے ستائے ہوئے لوگوں کیلئے قانونی جنگ لڑتے ہیں اور جن کو اپنے حقوق کا علم نہیں انہیں اس کی آگاہی دیتے ہیں ۔ وکلاء صرف کالے کوٹ کا نا م نہیں بلکہ یہ ایک ا ادارہ ہے ، ایک تشخص ہے جس کا معاشرہ احترام کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے عوام زندہ بھی ہیں مجھے امید ہے کہ لاہوریے عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اور عدلیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، عدلیہ کے بغیر وکلاء نڈر اور بے خوف نہیں ہو سکتے اور اسی طرح وکلاء کی معاونت کے بغیر عدلیہ آزاد نہیں ہوسکتی ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اچھے فیصلے اچھے وکلاء کی معاونت سے ہوتے ہیں دونوں ایک دوسرے کی معاونت کے بغیر اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے بھوکے رہ کر پولیس کا تشدد برداشت کر کے ثابت قدم رہتے ہوئے تحریک جاری رکھی ہے جس پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر مختلف ادوار میں حملے ہوتے رہے ہیں ہر دور میں عدلیہ کو کمزور اور تابع کرنے کیلئے مداخلتیں ہوتی رہی ہیں اگر عدلیہ کمزور ہو گی تو وکلاء کا پیشہ کمزور ہو جائے گا لیکن تمام رکاوٹوں کے باوجود عدلیہ اپنی آزادی کی جنگ وکلاء کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 9 مارچ 2007ء کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیجتے ہوئے انہیں معطل کردیا گیا اور گھر میں نذر بند کردیا گیا ۔ یہ عدلیہ کو رسوا کرنے کی کوشش تھی جس کے خلاف وکلاء ،عدلیہ اور پوری سوسائٹی نے مداخلت کی ، لا ہور بار کا اس حوالے سے سب سے اہم کردار رہا ہے ۔ جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بار کے استقبالیہ میں شرکت کیلئے آئے تو چار گھنٹے کا سفر 25 گھنٹے میں طے ہو سکا ۔ جس طرح کا استقبال لاہور میں کیا گیا اس سے پورے ملک کے عوام اور وکلاء کو تقویت ملی اور پھر 20جولائی کو عدلیہ کے وقار اور عزت کی بحالی کا فیصلہ ہوا لیکن پھر اڑھائی ماہ بعد ہی عدلیہ پر دوسرا وار کیا گیا جو صریحا بد نیتی پر مبنی تھا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے پی سی او جاری کردیا گیا ۔ اس ایمرجنسی یا پی سی او سے کوئی حکومت یا پارلیمنٹ گھر نہیں گئی بلکہ اس کے ذریعے عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی اور 60 سے زائد ججوں کو گھر جانا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اپنی اس تحریک میں ثابت قدم رہیں ان کی منزل نزدیک سے نزدیک تر آتی جارہی ہے ۔ جسٹس (ر) بھگوان داس نے کہا کہ 1981ءٗ 2000ء اور 3 نومبر 2007ء کو آنے والے پی سی اوز میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ 81ء میں جنرل ضیاء الحق کے پی سی او سے بعض ججوں نے انکار کیا لیکن انہوں نے پنشن کی مراعات قبول کرلیں اسی طرح 2000ء میں جاری ہونے والے پی سی او سے بھی چیف جسٹس سمیت 6 ججوں نے انکار کیا لیکن قبل از وقت ریٹائرمنٹ قبول کرتے ہوئے انہوں نے بھی پنشن وصول کی لیکن 3نومبر 2007ء کو جاری ہونے والے پی سی او سے جن ججوں نے انکار کیا انہوں نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا انہوں نے پنشن کی مراعات قبول نہیں کیں اور وہ آج بھی آئینی جج ہیں اور اس بات کو پوری قوم بھی تسلیم کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 23 نومبر 2007ء کی سپریم کورٹ کا فیصلہ خودساختہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں جب پی سی او جاری کرنے والا شخص خود یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے3 نومبر کو غیر آئینی اقدام کیا ہے ۔ تو پھر خودساختہ عدالت کے پاس اس اقدام کو جائز قرار دینے کا کیا جواز تھا ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو خاندان سمیت بغیر تحریری آرڈر کے گھر میں قید رکھا گیا کسی کو ملنے کی اجازت نہ دی گئی اس اقدام کی نہ تو قانون اجازت دیتا ہے نہ ہی یہ اخلاقی ہے بلکہ اس سے ہمارے ملک کا عالمی سطح پر وقار مجروح ہوا ہے ۔ پوری دنیا کے سامنے ہم شرمسار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سب کو چاہیے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور غیر احکامات کو مسترد کردیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment