International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Friday, June 6, 2008
طاقت کا سنگدلانہ استعمال اور مسائل کا شکار بنا کر عوام کو دبایا گیا ہے ۔۔ تحریر : اے پی ایس،اسلام آباد
صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ قیادت میں اہلیت کی کمی سے ملک کمزور ہوسکتا ہے،مستحکم معیشت اور مضبوط دفاع کے بغیر مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکتے،لیڈر شپ کی انتظامی اہلیت ہی ملکی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ا بھی ملک کی طاقت کا انحصار اس کی مضبوط معیشت، دفاع، انسانی وسائل اور اس کی قیادت کی انتظامی مہارت پر ہوتا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی کمزوری سے ملک کو نقصان پہنچ سکتاہے۔ حکومتوں پر دفاع، عوام کی فلاح و بہبود اور داخلی و خارجی خطرات سے تحفظ کو یقینی بنانے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے معیشت کا استحکام اور بڑھتی ہوئی شرح نمو بہت اہم ہوتے ہیں اگر کسی ملک کی معیشت مستحکم نہ ہو یا آگے نہ بڑھ رہی ہو تو وہ ترقی کے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔ ہر حکومت کو مواصلاتی ڈھانچہ کی ترقی، ملک کے اندر اور علاقے کے ممالک کے ساتھ مواصلاتی رابطوں، پانی، توانائی، ٹیلی مواصلات، صنعت اور زراعت کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ تخفیف غربت، روزگار کے مواقع اور تعلیم و صحت کی بہتر سہولتوں کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی سے عوام کی فلاح و بہبود پر بھی مناسب توجہ دی جانی چاہئے۔ جبکہ بدعنوانی اور ایٹمی پھیلاو¿ کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ 8 سال کے دوران ایٹمی پروگرام پر عالمی دباو¿ کی وجہ دراصل کمزور قیادت ہے، ان برسوں میں قیادت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے دفاع میں انتہائی کمزور رہی ہے اور اس نے اپنے 8 سالہ دور اقتدار میں مغربی ممالک اور انکے خبررساں اداروں (میڈیا) کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بدنام اور اسکینڈلائزکرنے کی کھلی چھوٹ دیئے رکھی ۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہر شخص خود کو عقلِ کل سمجھتا ہے، جرمنی ، جنوبی افریقہ اور دیگر متعدد یورپی کمپنیوں نے لیبیا اور ایران کو ایٹمی آلات فروخت کئے ، جو کچھ انہوں نے فروخت کیا اس کی تفصیلات بھی ان کمپنیوں کے پاس ہیں،سوئس حکومت نے اپنی کمپنیوں کواس قسم کی دستاویزات تلف کرنے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ لیبیا اور ایران کسی کو بھی ہم نے کچھ نہیں دیا، دولت کا لالچ نہیں،ایٹمی پروگرام کو اسکینڈلائز کیا گیا انہوں نے کمزور قومی قیادت پر الزام عائدکیا کہ اس نے ایٹمی پروگرام پر مغربی حکومتوں اور اخباری میڈیا کا دباو¿ قبول کیا نواز شریف نے ایٹمی تجربات سے باز رہنے کیلئے تمام تر پیشکشوں ، دباو¿ ، لالچ اور دھونس دھمکیوں کو ٹھکرا دیا تھا اس مرتبہ یہ ہماری کمزور قومی قیادت تھی جو مغربی میڈیا کے سامنے جھک گئی اور ہمارے ایٹمی پروگرام کو اسکینڈلائز کرنے کی اجازت دی گئی آخر ان آٹھ برسوں میں امریکا کی حکومت اور میڈیا نے اپنے صف اول کے اتحادی( پاکستان) کے ایٹمی پرو گرام اور اس کے سائنسدانوں کو اس قدرچن چن کر الزامات، تنقید اور دباو¿ کا نشانہ کیوں بنایا جب قومی قیادتیں اس قدر کمزور ہوں تو بیرونی قوتیں مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور ہم سے یہی کچھ ہوا، مشرف اور نواز شریف کے دور کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ایک دور میں تمام تر لالچ، پیشکشوں، دھمکیوں اور دباو¿ کے باوجود نواز شریف نے ایٹمی تجربات کئے ، انہوں نے تمام ذاتی فوائد ، رقوم اور غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے دیئے جانے والے اعزازات مسترد کر دیئے اورنہ تو ایٹمی دھماکوں کو ملتوی کیا اور نہ ہی ایٹمی دھماکوں کے شیڈول کو روکا۔عوام کو ڈنڈوں سے ہانک کر ان پر فیصلے مسلط کردیئے جاتے ہیں، فیصلے عوام سے لاتعلق اور بالاتر ہوکر کئے جاتے ہیں ،نتیجتاً عوام کے باشعور طبقہ وکلاء کو بھی لاٹھیوں اور گرفتاریوں کا سامنا رہا ہے، طاقت کے سنگدلانہ استعمال اور مسائل کا شکار بنا کر عوام کو دبایا گیا ہے بہر حال اب بہت جلد ملک کا ہر شہری آزادی محسوس کرے گا وکلا تحریک ملک کی آنے والی نسلوں کی بہتری کیلئے ہے۔آزاد عدلیہ کے ذریعے عوام کی تمام زیادتیوں کا ازالہ ہو گا جلد ہی ملک میں آزاد عدلیہ اور آئین کی بالادستی ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ جب وکلاء اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے تو ہر شخص خود کو آزاد شہری محسوس کرے گا حکومت اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتی ہے لیکن اندرون سندھ وکلاءکو دھمکیاں دی جارہی ہیں وکلاءآئینی پیکیج کونہیں مانتے ججوں کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ بحال کیا جاسکتا ہے آئینی پیکیج کا مقصد یہ ہے کہ ججز بحال نہ ہوسکیں۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی میں شامل رہی ہے لیکن وہ پی سی او کے ججوں اور 3/ نومبر کے اقدامات کو سپورٹ کررہی ہے اگر عدلیہ اور ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو پارلیمنٹ کا وجود ختم ہوجائے گا اگر ججز بحال نہ ہوئے تو کراچی بار میں کوئی وزیر نہیں آئے گا پورے پاکستان سے لوگ اس میں شرکت کریں گے۔ محض نعروں پر قناعت نہ کریں بلکہ اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا بنائیں وکلا کا کوئی نمائندہ اسمبلی میں بھی ہونا چاہیے جو آپ کے مطالبات کی آواز کو اسمبلی میں بلند کر سکے جب کہ مذاکرات کے ساتھ مسائل حل کروانے کی ضرورت بھی ہے اگر یہ سب کام ہو جاتے ہیں تو پھر آپ منزل کا تعین کر کے ا±سے پا لیں گے۔ وزیر دفاع چوھدری احمدمختار نے کہا ہے کہ صدرپرویز مشرف منتخب صدر ہیں۔ لہٰذا ایکس سروس مین سوسائٹی کی جانب سے ان کے مواخذے یا کوٹ مارشل کا مطالبہ درست نہیں،تاہم پارٹی صدر کے ہٹائے جانے پر فوائد کا جائزہ لے رہی ہے حکومت اس ساری صورتحال کا خاموشی سے جائزہ لے رہی ہے لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ جب صدر پرویز کے پاس دو عہدے تھے اس وقت یہ لوگ کیوں خاموش رہے۔ اس وقت ایکس سروس مین سوسائٹی نے ان کے کورٹ ماشل کا مطالبہ کیوں نہ کیا اور یہ مطالبہ اس وقت کیا جاسکتا تھا جب وہ حاضر سروس تھے۔ اب وہ ریٹائر جرنیل ہیں جبکہ منتخب صدر ہیں۔ پہلے یہ لوگ ان کے گن گاتے تھے اب حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلائے۔ حکومت ہر آپشن دیکھ رہی ہے اور کوئی حتمی فیصلہ کئے بغیر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہماری اولین ترجیح ملک کو سنوارنا ہے۔ ہم کسی کے پیچھے بھاگنا نہیں چاہتے۔ ہم بڑی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ جب مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا کوئی شخص بھی ان کے خلاف کھڑا نہیں ہوا تھا۔ سب نے انہیں اچھا کہا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کا مطالبہ حقیقی نہیں۔ میرے خیال میں ایسے مطالبات توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ غلط یا درست صدرمشرف منتخب صدر ہیں۔ ہم نے صدر مشرف کے تحت الیکشن میں حصہ لیا ہے اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم انہیں صدر تسلیم نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا صدر کو ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں اس سوال پر احمدمختار نے کہا کہ یہ پارٹی کی پالیسی ہے اور پارٹی ہی فیصلہ کرے گی کہ آیا ان کا مواخذہ ہونا چاہئے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی جائزہ لے رہی ہے کہ صدر مشرف کو ہٹائے جانے پر کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ آئینی پیکج پر قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ جنرل (ر) جمشید گلزار کیانی کا انٹرویو اچھا نہ تھا۔ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ انہوں نے صدر مشرف کے زیرنگرانی خدمات سرانجام دی ہیں۔ جب تک وہ فائدے اٹھاتے رہے مشرف اچھا تھا جیسے ہی ان کو کارنر کیا گیا تو وہ صدر کے خلاف ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ جو فورسز پاور میں تھیں ان کو آہستہ آہستہ کمزور کیا جارہا ہے۔ مغربی طاقتیں بھی اب منتخب جمہوری حکومت کی بات سن رہی ہیں۔ صدر مشرف کو اپنی جماعت مسلم لیگ (ق) کی ہار کے بعد اقتدار چھوڑ دینا چاہئے تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وفاقی حکومت نے قومی مفاہمتی آرڈیننس ، این آر او کے تحت ارکان اسمبلی کو تحفظ دینے کیلئے کارروائی کا آغاز کردیا ہے اور پارلیمانی ضابطہ اخلاق کمیٹی کی تشکیل کیلئے اپوزیشن سے مشاورت کی گئی ہے ۔ وزارت قانون وانصاف کی طرف سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اپوزیشن لیڈرز چوہدری پرویز الٰہی اور سینیٹر کامل علی آغا کو خطوط موصول ہوئے ہیں۔ جس میں قومی مفاہمتی آرڈیننس کے تحت پارلیمانی ضابطہ اخلاق Ethicsکمیٹی کی تشکیل کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ پارلیمانی اخلاقیات کمیٹی 16 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مساوی نمائندگی ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن سے 8،8 اراکین اس کمیٹی میں شامل ہونگے۔ این آر او آرڈیننس میں کہاگیا ہے کہ پارلیمانی اخلاقیات کمیٹی کی پیشگی اجازت کے بغیر کسی رکن کو حکومت گرفتار نہیں کرسکے گی اور سیاسی اختلافات کی بناء پر انتقامی کارروائیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کمیٹی خصوصی اقدامات کرے گی۔ماہرین قانون اور ممتاز وکلاء رہنماو¿ں نے آئینی پیکج پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے معزول ججوں کو بے بس اور پی سی او ججوں کو مضبو ط اور مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا ہے مجوزہ آئینی ترامیم سے انتظامیہ طاقتور اور عدلیہ کمزور ہو جائے گی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ براہ راست وزیراعظم کے دباو¿ میں آ جائے گا‘ موجودہ آئینی پیکج دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں دو شخصیات ہی محور ہیں ان میں ایک معزول چیف جسٹس اور دوسری موجودہ چیف جسٹس ہے وکلاء نے حکومتی آئینی تجاویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں طے شدہ امور کو ایک بار پھر چھیڑا جا رہا ہے۔ ججز کی مدت ملازمت کا معاملہ ایل ایف او کے ذریعے بھی اٹھایا گیا تھا‘ ہائی کورٹ کیلئے 62 سال سے 65 سال کی عمر مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم پارلیمنٹ نے 1973ئکے آئین کو ہی برقرار کھا تھا۔ مجوزہ آئینی تجاویز کے ذریعے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحالی کی صورت میں بے اختیار کرنے اور ان کی مدت ملازمت بطور چیف جسٹس کم کی جا رہی ہے اور دوسری طرف انہی تجاویز کے دوسرے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو نہ صرف تحفظ دیا جا رہا ہے بلکہ ان کی دوبارہ چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ صدرپرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو پی سی او کے ذریعے 60 سے زیادہ جج معزول کر دیئے تھے نئے پیکج میں پی سی او کے ذریعے حلف اٹھانے والوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے جس کو وکلاءکسی قیمت پر منظور نہیں کریں گے بعض ما ہرین نے نئے مجوزہ آئینی پیکج کو اچھی اور بری تجاویز کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ معزول ججوں کو جس طریقہ سے بحال کیا جا رہا ہے اور جو اختیارات دیئے جا رہے ہیں اس کے بعد وہ غیر موثر ہو کر رہ جائیں گے۔ سپریم کورٹ میں موجودہ اور معزول ججوں کو جمع کر دیا گیا تو حکومتی مشینری کی من مانیاں شروع ہو جائیں گی کیونکہ نئے قوانین کے تحت از خود کارروائی کا اختیار سلب کیا جا رہا ہے اور لارجر بنچ کی تشکیل کا حق چیف جسٹس سے لیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا آئینی پیکج خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے۔ اس کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ کھلی بحث ہو۔ جتنی معلومات حاصل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر پرویز مشرف اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بچانے اور معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مزید بے بس کرنے کی سازش ہو رہی ہے جس کو وکلاء کبھی پسند نہیں کریں گے وکلاء اور پارلیمنٹ کے نمائندوں کواعتماد میں لے کر متفقہ تجاویز تیار کی جائیں تاکہ دستور کو کسی ایک شخص یا خاص مدت کیلئے نہ بنایا جا سکے بلکہ وسیع تر قومی مفاد میں قانون سازی ہو سکے۔ وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے قوم کو عوام دوست اور ترقی پسند بجٹ دینے کا تہیہ کر رکھا ہے جس میں انتہائی نادار افراد کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ حکومت ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجوں سے آگاہ ہے اور عوام کی توقعات پر پورا اترے گی پاکستان پیپلز پارٹی زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ذریعے معاشرے کے انتہائی نادار اور پست طبقوں کی زندگیوں میں معیاری تبدیلی لانے کے اپنے وعدوں پر قائم ہے۔ انہوں نے پارٹی کے ارکان پر زور دیا کہ وہ کھلی کچہریوں کے انعقاد کے ذریعے عوام سے قریبی رابطے رکھ کر ان کی شکایات کے ازالہ میں سرگرم کردار ادا کریں آئندہ بجٹ پارٹی اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے مختلف وعدوں کی تکمیل کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ حکومتی ترجیحات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے ایسے اقدامات پر زور دیا ہے جو ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد دیں زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے کی ترقی، توانائی اور پانی کی قلت پر قابو پانا، انسانی وسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ انتہائی کم آمدنی والے گروپوں کو ریلیف کی فراہمی وہ حقیقی مقاصد ہیں جو بجٹ میں کئے جائیں گے۔وزیراعظم نے بجٹ کو عوام کی ضروریات کے مطابق بنانے کیلئے اراکین پارلیمنٹ کی تجاویز کو سراہا ہے۔ ان تجاویز سے بجٹ کو حقیقت پسندانہ بنانے اور عوام کی امنگوں کے مطابق رکھنے میں مدد ملے گی۔ اس موقع پر اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے کم آمدنی کے سرکاری ملازمین کو مستقل کرنے کا وزیراعظم کا فیصلہ بروقت، جرائتمندانہ اور عوام سے کئے گئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے وعدے کی تکمیل ہے۔ عوام کا وزیر اعظم سے مطالبہ ہے کہ تمام اراکین اسمبلی کی ما ہا نہ تنخواہ روک کر بجلی پیدا کر نے والی کمپنیوں کو واجب ا لا ادا رقم ادا کی جا ئے تا کہ وہ فر نس آئل خرید سکیں اور ملک بھر کے شہریوں کو یکساں بجلی فراہم کی جا سکی ۔ عوام کو اس بات کا گہرا صد مہ ہوا ہے کہ حکومت صارفین سے تو ما ہا نہ بل تو لے لیتی ہے مگر ان کمپنیوں کو ادا نہیں کر تی جس کی وجہ سے بجلی کا بحران پیدا ہوا ہے۔ اے پی ایس ،اسلام آباد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment