دوست محمد کھوسہ شہباز شریف کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کے رکنِ پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد پنجاب کے وزیراعلی دوست محمد کھوسہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اور گورنر پنجاب نے نئے وزیراعلٰی کے انتخاب تک بطور نگران وزیراعلی کام کرتے رہنے کی ہدایت کی ہے۔سرکاری ترجمان نے دوست محمد کھوسہ کے استعفے کی تصدیق کر دی ہے۔ وہ دوست محمد کھوسہ شہباز شریف کے حق میں اس عہدے سے دستبردارہوئے ہیں جبکہ ان کے استعفے کے ساتھ ہی آئین کے مطابق پنجاب کابینہ بھی تحلیل ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کے رکن کی حثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ وہ ضمنی انتخابات میں بلا مقابلہ کامیاب قرار پائے جانے کے بعد ایوان تک پہنچے ہیں۔جمعہ کے روز خصوصی طور پر بلائے گئے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وہ حلف اٹھانے کے لیے پہنچے تو ان کے حامی اراکین اسمبلی نے ’شیر آیا شیر آیا‘ کے نعرے لگائے۔ شہبازشریف نے حلف اٹھایا تو ایوان میں ’ویلکم ویلکم شہباز‘ اور ’گومشرف گو‘ کے نعرے لگے۔دریں اثناء پی سی او کے تحت معرض وجود میں آنے والی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کی بطور رکن صوبائی اسمبلی کامیابی کے نوٹیفیکیشن کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ا±میدوار خرم شاہ نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے جس میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے شہباز شریف کے صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس موسیٰ لغاری پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ دوسرے فریق کو سنے بغیر میاں شہباز شریف کی کامیابی کے نوٹیفکیشن کے خلاف حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتے۔ عدالت نے وفاق، الیکشن کمیشن اور میاں شہباز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس کی سماعت نو جون تک ملتوی کر دی ہے۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک ہی روز قبل اپنے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں شہباز شریف کو وزیر اعلی نامزد کرچکی ہیں۔شہباز شریف نے اسمبلی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دو ماہ کے دوران ان کی حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں رہی لیکن اب وہ بجٹ میں عوام کو بھر پور ریلیف دینے کی کوشش کریں گے۔ان سے پوچھا گیا کہ بطور وزیر اعلی وہ صدرپرویز مشرف سے کیسے تعلقات رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایوان صدر کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق تعلقات کار رکھے جائیں گے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صوبے کو پیپلز پارٹی کا قلعہ بنانے کے بیان کے ردعمل میں انہوں نے کہا کہ ’ہم پورے پاکستان کو اپناقلعہ سمجھتے ہیں اور پورے ملک کو مضبوط کریں گے‘۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ پی سی او کے حلف یافتہ ججوں کو نہیں مانتے اور عدلیہ بحالی کے لیے وکلاء کی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وکلاء کی لانگ مارچ کا مسلم لیگ نون جگہ جگہ استقبال کرے گی۔ شہباز شریف اگرچہ ابھی وزیر اعلی منتخب نہیں ہوئے لیکن اجلاس کی کارروائی کے دوران وہ نشست پر بیٹھے جو قائد ایوان کے لیے مخصوص سمجھی جاتی ہے جبکہ وزیر اعلی دوست محمد کھوسہ برابر والی نشست پر بیٹھے تھے۔ دوست محمد کھوسہ نے ایوان میں داخل ہونے سے پہلے ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ وہ آج شام تک اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اعلی ان کے پاس امانت تھی جسے وہ واپس سونپ کر خوشی محسوس کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جب وہ مستعفی ہونگے تو ساتھ ہی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔ حکمران اتحادی جماعتیں اعلان کرچکی ہیں کہ دوست محمد کھوسہ کے مستعفی ہونے کے بعد سنیچر کو وزارت اعلی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کیے جائیں گے اور اتوار کو انتخاب عمل میں آئے گا جس میں شہباز شریف اتحادی جماعتوں کے امیدوار ہونگے۔ اسی شام وہ گورنر ہاو¿س میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے۔ بارہ اکتوبر سنہ انیس سو ننانوے کو جب چیف آف آرمی سٹاف نے وزیر اعظم میاں نوازشریف کا تختہ الٹا تو شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی تھے۔ فوج نے انہیں گرفتار کرلیا تھابعد میں ایک معاہدے کے تحت وہ جلاوطن کردیئے گئے اور سنہ دوہزار دو کے انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔اٹھارہ فروری دوہزار آٹھ کے انتخابات میں انہیں اور ان کے بڑے بھائی کو نااہل قرار دیا لیکن ان انتخابات میں ان کی جماعت کے اراکین بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے۔ اب شہباز شریف ضمنی انتخابات کے لیے بھکر کے حلقہ پی پی اڑتالیس سے بلامقابلہ ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں۔ان کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف لاہور کے حلقہ ایک سو تئیس قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کی ضمنی انتخاب کے لیے اہلیت کے فیصلے اور شہباز شریف کی بلامقابلہ کامیابی کے نوٹیفیکشن کے خلاف درخواستوں پر شریف برادران کو اٹھارہ جون کو عدالت میں طلب کیا ہوا ہے ۔جسٹس فضل میراں چوہان، جسٹس حسنات احمد خان اور جسٹس محمد احسن بھون پر مشتمل بینچ نے یہ نوٹس آزاد امیدوار نور الٰہی اور خرم شاہ کی طرف سے دائر درخواستوں پر جاری کیے ہیں۔ ان درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف انتخابات لڑنے کے اہل نہیں ہیں اس لیے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔ عدالت نے اس استدعا کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو درخواست پر حتمی فیصلہ آنے تک انتخاب لڑنے سے روک دیا جائے۔عدالت نے شہباز شریف کے بلامقابلہ منتخب ہونے کے نوٹیفیکیشن کے اجراء پر عملدرآمد روکنے کی درخواست بھی مسترد کردی۔ نواز شریف نے لاہورکے حلقہ این اے ایک سو تئیس سے جبکہ شہباز شریف نے لاہور کے دو حلقوں سمیت پنجاب کے پانچ حلقوں سے صوبائی نشست کے لیے کاغذات جمع کرائے تھے اور وہ بھکر سے بلامقابلہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب بھی ہو ئے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے درمیان آئینی پیکج کے حوالے سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی ۔پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ملاقات کی تصدیق کی تھی اس ملاقات میں میاں شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار اور خواجہ آصف بھی شریک ہوئے تھے۔اطلاعات کے مطابق ملاقات کے دوران دونوں رہنما ججوں کی بحالی، مجوزہ آئینی پیکِج ، صدر کے ممکنہ مواخذے اور آئندہ بجٹ پر بات چیت کی۔واضح رہے کہ چار جماعتی حکومتی اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان ججوں کی بحالی کے طریقہ کار پر تاحال اختلاف رائے موجود ہے۔ پیپلز پارٹی آئینی پیکج کے ذریعے ججوں کی بحالی چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) بضد ہے کہ اعلانِ بھوربن کے مطابق انتظامی حکم جاری کرکے ججوں کو بحال کیا جائے۔ دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج پر غور کے لیے آج مسلم لیگ (ن) کی جائزہ کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے۔ معزول ججوں کی بحالی آئینی ترمیم کے ذریعے ہوگی اور معزول ججوں کو وہی سینیارٹی دی جائےگی جو ان کو تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو حاصل تھی ۔صدیق الفاروق کے مطابق راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی کا منگل کو پہلا اجلاس پنجاب ہاو¿س میں ہوا اور آئندہ دو تین دن اس پر مزید اجلاس ہوں گے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) آئینی پیکج پر اپنی رائے ظاہر کرے گی۔ کمیٹی میں جاوید ہاشمی، چوہدری نثار علی خان، اسحٰق ڈار خواجہ آصف، احسن اقبال اور خواجہ حارث ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ کمیٹی کے سیکریٹری کے طور پر اے کے زیڈ شیر دل خدمات انجام دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آئینی پیکِج کا مسودہ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے اتوار کو مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف سے رائیونڈ میں ملاقات کے دوران ان کے حوالے کیا تھا۔ نوازشریف سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ معزول ججوں کی بحالی آئینی ترمیم کے ذریعے ہوگی اور معزول ججوں کو وہی سینیارٹی دی جائےگی جو ان کو تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو حاصل تھی۔ فاروق نائیک نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کی معیاد کے سوال پر کہا تھا کہ اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور اس معاملے پر اتحادی جماعتوں کے سربراہان کی ملاقات میں فیصلہ ہوگا۔ لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کی ضمنی انتخاب کے لیے اہلیت کے فیصلے اور شہباز شریف کی بلامقابلہ کامیابی کے نوٹیفیکشن کو چیلنج کردیا گیا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کی ابتدائی سماعت کے لیے تین رکنی بنچ تشکیل دید ی لاہور ہائی کورٹ میں یہ تین مختلف رٹ درخواستیں خرم شاہ اور نورالہی کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔درخواست دہندگان کے وکیل ڈاکٹر ایم محئی الدین قاضی نے الیکشن ٹریبونل اور چیف الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں کو چیلنج کیا ہے جن کے تحت نواز شریف اور شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی کو درست قراردیا گیا تھا۔ نواز شریف نے لاہور کے حلقہ این اے ایک سو تئیس سے جب کہ شہباز شریف نے لاہور کے دوحلقوں سمیت پنجاب بھر سے پانچ حلقوں سے صوبائی نشست کے کاغذات جمع کرائے تھے۔ انتخابی عذرداریاں سننے والے الیکشن ٹریبونل کے دونوں ججوں نے الگ الگ کیسوں میں شریف بردران کی اہلیت کےبارے اختلافی فیصلے دیے تھے۔ ایک جج نے انہیں اہل اور دوسرے نے نااہل قرار دیا تھا۔ چیف الیکشن کمیشن نے فیصلے پر اختلاف رائے کی وجہ سے ریٹرنگ افسر کے شریف بردران کو اہل قرار دینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ڈاکٹر ایم محئی الدین قاضی نے کہا کہ ان کے موکلین نے موقف اختیار کیا ہے کہ چیف الیکشن کمیشنر، الیکشن ٹریبونل اور ریٹرنگ افسروں کے فیصلے آئین اور قانون سے متصادم ہیں۔ ایک الگ رٹ میں کہا گیا ہے کہ جب انہی بنیادوں پر شہبازشریف الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے تو ان کے پی پی اڑتالیس بھکر سے بلامقابلہ کامیابی کے نوٹیفیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ کے تین ججوں جسٹس فضل میراں چوہان، جسٹس حسنات احمد اور جسٹس محمد احسن بھون پر مشتمل تین رکنی بنچ جمعرات کو اس بات کی سماعت کرے گا کہ یہ رٹ درخواستیں باقاعدہ سماعت کے قابل ہیں یا نہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن سے شہباز شریف کی بلامقابلہ کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہو جانے کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا یہ اجلاس چھ جون کو ہوا لیکن اس سے پہلے یعنی جمعرات کی شام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس بلا لیا گیا ۔اس اجلاس میں مسلم لیگ نون کے صدرشہباز شریف کو وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے اتحادی جماعتوں کا امیدوار نامزد کیا گیا۔اسمبلی سے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے روبرو اپنے عہدے کا حلف اٹھانا ہوگا۔ مسلم لیگ نون گورنر پنجاب کے بارے میں کئی بار اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرچکی ہے۔ مسلم لیگی صوبائی وزرائ نے گذشتہ مہینے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا جس میں خود سلمان تاثیر نے گورنر کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ نامزد وزیر اعلٰی شہباز شریف کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ سول بیوروکریسی کے ساتھ درشت رویہ رکھتے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے ابھی حکومت نہیں سنبھالی تھی لیکن ان افسروں کی فہرستیں تیار کرلی گئی تھیںجنہیں سابق دور میں قواعد میں نرمی کرکے اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ان میں وہ افسران شامل تھے جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کنٹریکٹ دیا گیا، ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی یا وہ ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں سے آئے تھے ۔یہ فہرستیں پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری جاوید محمود نے تیار کروائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر تعیناتی کا انفرادی طور پر جائزہ لے رہے ہیں اور اس کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سب سے اونچے عہدے پر فائز اس بیوروکریٹ نے اپنے دفتر کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیئے ہیں اور سیکرٹریٹ کے راستے میں حائل کنکریٹ کی ان رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے جنہیں سابق دور میں لگایا گیا تھا۔ چیف سیکرٹری نے اس بات کی تو تصدیق کی تھی کہ ایسے افسروں کی فہرستیں تیار کی جارہی ہیں جن کے مستقبل کا فیصلہ وہ کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایسے افسروں کی تعداد کتنی ہے اور وہ کون لوگ ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس اور دیگر اہم محکموں میں تعینات ایسے سینیئر افسروں کی تعداد نوے سے زیادہ ہے جنہیں دوبارہ نوکریاں دی گئیں۔ جبکہ دوسرے محکموں سے حکومتِ پنجاب آنے والے افراد ستر سے زیادہ بتائے گئے ۔پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری نے یہ بھی کہا تھاکہ ضروری نہیں کہ ایسے تمام سینیئر افسروں کو ہٹادیا جائے جنہیں سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تعیناتی میرٹ پر ہوئی ہے اور اس عہدے پر وہ افسر ناگزیر ہے تو اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ انہوں نے واضح کیا کہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جنہیں تبدیل کیا جانا ضروری ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی چودھری پرویز الہی اعلٰی سول و ملٹری افسروں سے ذاتی تعلقات استوار رکھنے کے لیے مشہور ہیں، تو نامزد وزیر اعلٰی شہباز شریف کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ سول بیوروکریسی کے ساتھ درشت رویہ رکھتے ہیں۔ اٹھارہ فروری کو عام انتخابات کے نتائج سے جب یہ واضح ہوگیا کہ اگلے وزیر اعلٰی شہباز شریف ہونگے تو پنجاب سے سینیئر افسروں نے ازخود عہدے چھوڑنے شروع کردئیے تھے۔ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس احمد نسیم نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی، وزیر اعلٰی کے پرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندر نے اپنا تبادلہ وفاق میں کروالیا، ایڈیشنل چیف سیکرٹری نجیب اللہ ملک اور سیکرٹری ہاو¿سنگ خالد سلطان بھی اپنا ٹرانسفر مرکز میں کروا چکے ہیں۔ لاہور کے ایس ایس پی آپریشن آفتاب چیمہ تربیت کے لیے چلے گئے ہیں جبکہ پنجاب میں نئے چیف سیکرٹری کی تعیناتی کے بعد صوبے کی سیکرٹری سروسز مسز وسیم افضل رخصت پر چلی گئی ہیں۔ پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری جاوید محمود کی تقرری نومنتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے انٹرویو کے بعد کی لیکن تاثر یہی ہے کہ انہیں پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف کی سفارش پر تعینات کیا گیا۔ جاوید محمود ان کی وزارت اعلٰی کے دور میں ان کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے ہیں اور ان کی حکومت چلے جانے کےبعد کسی اہم عہدے پر تعینات نہیں کیے گئے۔ وہ اس بات کو نہیں مانتے کہ شہباز شریف سینیئر افسروں سے برا سلوک روا رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے شہباز شریف کو ایسے کسی افسر سے ناراض ہوتے نہیں دیکھا جو ایمانداری سے فرائض انجام دیتا ہو لیکن جہاں کام میں تساہل برتا جائے وہاں وہ ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف سے آٹھ برس پہلے جب پنجاب کی وزارت اعلٰی لے لی گئی تھی اس وقت سے لیکر اب تک پنجاب کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی آچکی ہے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے ختم کردیئے گئے ہیں جبکہ محکمہ پولیس میں تفتیشی ونگ کو الگ کیا گیا ہے اور انتظامی کنٹرول میں مقامی حکومتوں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ نوتعینات شدہ چیف سیکرٹری نے کہا کہ نیا نظام چند برس سے کام کررہا ہے۔ کچھ فیڈ بیک اچھا ہے اور بعض پہلوو¿ں میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اس پر سیاسی سطح پر غور ہورہا ہے اورتبدیلی کی ضرورت ہوئی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ نامزد وزیر اعلٰی شہباز شریف کو ساڑھے آٹھ برس بعد جہاں صوبے کا تبدیل شدہ انتظامی ڈھانچہ ملے گا وہیں انتظامی امور میں پیپلزپارٹی کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ اعتزاز احسن نے ٣١ مارچ کوجمعہ کے روز شہبازشریف سے ان کی ڈیفنس میں واقع اقامت گاہ پر ملاقات کی تھی اور اس مو قع پرمسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھاکہ پارلیمان عدلیہ کے پیچھے فولاد کی طرح کھڑی ہوگی۔ان کے بقول مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی تہتر کے آئین کا حلف اٹھائیں گے اور اس مقصد کے لیے ان کی جماعت کے ارکان اسمبلی تین نومبر سے پہلے والے آئین کی کاپیاں اپنے ساتھ ایوان میں لے جائیں گے اور اسی پرحلف لیں گے۔ عدلیہ کی بحالی کے لیے پارلیمان میں پیش کی جانے والی قرارداد کی اہمیت سیاسی اور اخلاقی ہوگی اور اس قرارداد کو منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پارلیمان کی طرف سے عدلیہ کی بحالی کے فیصلہ کو صدر اورعدلیہ کو دونوں کو تسلیم کرنا چاہئے اورتسلیم کرنا پڑے گا۔ اعتزاز احسن نے کہا تھاکہ جس طرح غالب کا کوئی شعر آئین کا حصہ نہیں بن سکتا ہے اس طرح فرد واحد بھی آئین میں ترمیم نہیں کرسکتا ہے۔ غیر قانونی طریقہ سے کی جانے والی ترمیم کو آئین میں شائع کرا کے اس کو آئین کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ان کے بقول ایوان صدر میں اعلان مری کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اور ان سازشوں کے خلاف پیش بندی کی جا رہی ہے۔خیال رہے کہ اعتزاز احسن اور شریف برادران کے درمیان تعلقات اس وقت استوار ہوئے تھے جب اعتزاز احسن نے بارہ اکتوبر ننانوے کے بعد نواز شریف کے وکیل کی حیثیت سے ان کے مقدمات کی پیروی کی تھی۔ بینظیر بھٹو کی زندگی میں گزشتہ برس جب اعتزاز احسن لندن گئے تو نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بھائیوںنے انہیں کھانے پر مدعو کیا تھا اور شریف برادران کے ساتھ ملاقات کے چند روز بعد اعتزاز احسن کی بینظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی تھی۔ شہباز شریف، اعتزاز احسن کی نظر بندی کے دوران ان سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پر بھی گئے تھے۔حکومت نے کو قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں انیس سو بارہ فوجی افسران کو سویلین عہدوں پر تعینات کیا گیا۔مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی برجیس طاہر کے پوچھے گئے سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے اسٹیبلشمینٹ ڈویڑن کے انچارج وزیر نے بتایا ہے کہ پانچ سو چونتیس فوجی افسران کو اسٹیبلشمینٹ ڈویڑن کے ذریعے تعینات کیا گیا۔ جواب میں مزید بتایا گیا ہے کہ تیرہ سو اٹھہتر فوجی افسران کو اسٹیبلشمینٹ ڈویڑن سے ہٹ کر براہ راست مختلف وزارتوں میں تعینات کیا گیا۔ واضح رہے کہ تاحال سویلین عہدوں پر فوجی افسران کی تعیناتی کے بارے میں متضاد معلومات آتی رہی ہیں۔ حکومت اور فوجی ترجمانوں نے سویلین عہدوں پر تعینات فوجی افسران کی تعداد ہمیشہ چھ سو سے کم بتائی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بیشتر فوجی افسران کو فوری سویلین عہدوں سے واپس بلانے کا حکم دیا تھا۔ جب سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انہوں نے دو ہفتوں کے اندر سویلین عہدوں پر تعینات ایسے فوجی افسران جن کی ضرورت نہیں ہے انہیں واپس بلانے کی ہدایت کی تھی۔ وزیراعظم کی جانب سے فوجی افسران کو واپس فوج میں بھیجنے کے لیے دی گئی مہلت ختم ہوگئی ہے لیکن تاحال یہ معلوم نہیں کہ کتنے فوجی افسران واپس گئے اور کتنے اب بھی تعینات ہیں۔ تاحال یہ معلوم نہیں کہ کتنے افسران واپس فوج میں جاچکے ہیں۔ اس بارے میں جب فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ درست تعداد کے بارے میں انہیں فی الوقت معلومات نہیں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ جب آرمی چیف نے سویلین عہدوں پر تعینات فوجی افسران کو واپس بلانے کا حکم دیا تھا، اس وقت تین سو پندرہ حاضر سروس افسران سویلین عہدوں پر تعینات تھے۔ ان کے بقول ان میں سے بیشتر افسران سویلین عہدے چھوڑ کر واپس فوج میں آچکے ہیں جبکہ کچھ افسران اب بھی ایسے ہیں جن کے لیے ان کے محکموں نے باضابطہ درخواست دی ہے کہ انہیں فی الحال واپس نہ کیا جائے۔ ایوان میں جب فارم ہاو¿س کے نام پر بڑے بڑے پلاٹ الاٹ کرنے کی جانچ کا مطالبہ ہوا تو سید خورشید شاہ نے کہا ’اگر حکومت نے جانچ شروع کی تو آپ لوگ ہی حکومت پر تنقید کریں گے کہ انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔‘قومی اسمبلی میں جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران اکثر وزیر غائب رہے اور اکثر محکموں سے متعلق سوالات کے جوابات سید خورشید شاہ نے دیئے۔ جب اسلام آباد میں فارم ہاو¿س کے لیے پلاٹ الاٹ کرنے کا معاملہ آیا تو سید خورشید شاہ نے ایوان کو بتایا کہ نیلامِ عام کے ذریعے آٹھ پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ اس دوران ایوان میں جب فارم ہاو¿س کے نام پر بڑے بڑے پلاٹ الاٹ کرنے کی جانچ کا مطالبہ ہوا تو سید خورشید شاہ نے کہا ’اگر حکومت نے جانچ شروع کی تو آپ لوگ ہی حکومت پر تنقید کریں گے کہ انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر پورا ایوان متفقہ ہو تو حکومت تحقیقات کراسکتی ہے۔ جس پر پورے ایوان میں ڈیسک بجنا شروع ہوگئے اور بیشتر اراکین نے اس کی تائید کی۔ خورشید شاہ نے بعد میں ایوان کو یقین دلایا کہ وہ وزیراعظم کو اس بارے میں آگاہ کریں گے اور ان سے سفارش کریں گے کہ وہ جانچ کروائیں۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Friday, June 6, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment