International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Friday, June 6, 2008

آصف زرداری جمہوری استحکام کیلئے بے نظیر شہید جتنے ہی پر عزم ہیں ۔۔۔ نصیر جنجو عہ










صدر کا 58ٹو بی استعمال کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ اس کیلئے کوئی جواز موجود نہیں۔مسلم لیگ (ن) جلد اپنی وزارتوںمیں واپس آ جائے گی ۔ اعلان مری موجود ہے معزول ججوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی شبہات نہیں ہونے چاہیں ۔ جبکہ جناب آصف زرداری نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججز واپس آئیں گے اس کا ذکر اعلان مری میں بھی ہے ۔ آئینی پیکج حتمی نہیں اس میں تبدیلیا ںہو سکتی ہیں۔ اور شریک چیئر مین آصف زرداری نے اعتزاز احسن سے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے ہم سے بات چیت کریں نا ممکن کو ممکن بنانا سیاستدان کا کام ہے غذاتی قلت کی ذمہ دار سابق حکومت ہے تاہم اس کے حل کیلئے بھی وہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں بھارت کے ساتھ مشترکہ صنعتی زون بنانے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں ان کامسلم لیگ (ق) کے ساتھ بیٹھنا مشکل ہے کیونکہ عوام اس پر سوالات پوچھیں گے۔ صدر پرویز مشرف سمیت سب سے مذاکرات کریں گے اگر عوام چاہیں تو صدر پرویز مشرف سے ضرور بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ صدر کے مواخذے کیلئے مطلوبہ ممبران کی تعداد پوری ہو سکتی ہے۔ آصف زرداری جمہوری نظام کے استحکام اور فروغ کیلئے صدر کے اختیارات کی وزیراعظم کو واپسی چاہتے ہیں ۔صدر کا 58ٹو بی استعمال کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ اس کیلئے کوئی جواز موجود نہیں۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے دہشت گردی سے آصف زرداری کا گھر بھی ا±جڑا ۔ آصف زرداری پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں ایم کیو ایم کے بغیر حکومت بنا سکتے تھے لیکن مفاہمت کی پالیسی کے تحت انہیں اپنے ساتھ ملایا ۔نیگرو پونٹے کا پہلا دورہ طے شدہ تھا اب وہ پاکستان نہیں آرہے ۔ بلوچستان کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا تاہم اس کو حل کریں گے۔ آئینی پیکج بہت جلد تمام پارٹیوں کو پیش کردیا جائے گا اور تمام پارٹیوں سے مشاورت کے بعد ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا ججز کی پوزیشن اس آئینی پیکج میں ہے مگر ججز کی معیاد 3سال سے کم کر نے کی کوئی بات نہیں ہے آئینی پیکج بجٹ سے پہلے پارلیمنٹ میں آسکتا ہے تاہم ممکن ہے بحث بعد میں ہو۔ آئینی پیکج چار ٹر آف ڈیمو کریسی ( میثاق جمہوریت )پر مبنی ہے فرنٹیئر پوسٹ کے چیف رحمت شاہ آفریدی کا فی عرصے سے جیل میں تھے مگر افسوس کسی نے ان کی رہائی کے لئے آواز نہیں اٹھائی ۔ یہ آئینی پیکج جولائی کے مہینے میں منظور ہو جانا چاہیے ۔ اس پیکج پر اعتراضات نہیں ہوں گے تاہم تجاویز آ سکتی ہیں ۔ ااگرچہ ان کے نزدیک مسئلہ بلوچستان حل نہیں ہوا تاہم انھوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا ہوا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل ضرور حل کریں گے ۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی نےس صدر پرویز مشرف کو کبھی آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اوروہ چاہتے ہیں وہ چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو۔ فوجی سربراہان، گورنرز اور ججوں سمیت آئینی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار صدر کے بجائے وزیر اعظم کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھنے کی تجویز ہے، سینٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیت کا نمائندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی شق ختم کرنے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے کی بھی شقیں شامل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کی دفعہ 62 ‘ 63 اور 90 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ دفعہ 62 اور 63 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے بارے میں ہیں اور دفعہ 90 صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور ترمیم کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم اور کابینہ کو بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ چاروں صوبوں کے گورنرز اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کے مشورے سے مشروط کرنے کی تجویز پیکج میں دی گئی ہے ۔مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق آئین میں کنکرنٹ لسٹ کو 80 فیصد ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے مشورے سے ہو گا ۔ اور اگر یہ نہیں ہوں گے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے مشورے سے یہ تقرر کیا جائے گا۔ نیشنل فنانس کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کو شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹ کے قائد ایوان کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ آئینی پیکج میں ایک شق شامل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں ۔ ایک دوسری شق کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے تاہم اس کے لیے مزید صلاح و مشورے ہوں گے۔ آئینی پیکج کے مطابق کوئی بھی شخص دو سے زائد مرتبہ صدر نہیں بن سکے گا اور صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے کی تجویز بھی آئینی پیکج میں شامل ہے ۔آئینی پیکج کے مطابق آرٹیکل 104کے تحت نگران حکومت سپیکر کی مشاورت سے قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں گورنر کی مشاورت سے کی جائے گی ۔سی سی آئی کا اجلاس ہر سال میں دو دفعہ ہو گا ۔ قومی اقتصادی کونسل کو فعال بنایاجائے گااور فنانشل کونسل کا اجلاس تین سال بعد ہو گا اجلاس میں پیش کی گئی قرار داد کے مطابق بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیا اور دوسری سیاسی جماعتوں سے آئینی پیکج کے بارے میں مشاور ت کی تائید کی ۔ آصف علی زرداری کے سیاسی اقدامات جمہوریت کی طرف سفر و عوام کو بحران سے نکالنے کیلئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے اور اجلاس نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آصف علی زرداری جو پالیسی بھی اختیار کریں گے پارٹی اس پر عملدرآمد کرے گی یہ مجوزہ آئینی پیکج مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اور اس پر نواز شریف کی جانب سے آنے والی آو¿ٹ پٹ کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہاکہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے آئینی پیکج کی منظوری کے بعداس کو نواز شریف ، ایم کیو ایم ، اسفند یار ولی اور دوسری جماعتوں کو بھیج دیا گیاہے۔ آئینی پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سب جماعتوں سے لیں گے وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں گے جس کے تحت 90ہزار فوجیوں کو شملہ میں مذاکرات کے ذریعے رہاکروایا گیا اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین کو واپس لیاگیااور بے نظیر کی اسی پالیسی کے تحت صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ۔وہ آئینی پیکج پر صدر پرویز مشرف سے بھی ڈائیلاگ کریں گے اور پارلیمنٹ سے اسے منظور کروائیں گے اور پوری دنیا کی جمہوری قوتوں کے سامنے رکھیں گے اور ان سے مشاورت کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر مشرف کوقرار دئیے جانے کے حوالے سے یہ حق پیپلزپارٹی کا ہے کیونکہ قوم نے پی پی پی کو بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور آصف زرداری اس مینڈیٹ کو سبو تاڑ نہیں ہونے دیں گے وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے ججوں کی بحالی کیلئے وہ وکلاء سے بھی بات چیت کریں گے کیونکہآصف زرداری ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔جمہوریت اور آمریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے آئینی پیکج کی منظوری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی لیکن ان کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس کو منظور کروا لیں وکیلوں کا اور آصف زرداری کا موقف مختلف نہیں ہے ۔ جب انھوںنے شدید مشکلات کے اندر آئی ایس آئی کی بات نہیں مانی تو اب ان حالات کے اندر کس طرح ما نیں گے۔ آئی ایس آئی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے پریشر ہو گا بل سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہوگا ۔ صوبوں میں اور قومی اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے بل کو وہاں سے پاس کروائیں گے اور پھر سینیٹر سے درخواست کر وائیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے اور اس ضمن میں قانونی و آئینی اصلاحات کے لئے 62 نکاتی آئینی پیکج کا مسودہ تیار کیا گیا ہے وہ ججوں کو مناسب عرصہ میں بحال کریں گے بعض دوست ” شارٹ کٹ “ چاہتے ہیں لیکن قانونی ٹیم اس طریقے سے متفق نہیں،وکلاء دوست بھی آ صف زرداری کی میر ی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن آصف زرداری ان تمام مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں ، اور وہ پاکستان بچانے کیلئے صحافیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں،میڈیا کی آزادی کیلئے بے نظیر شہیدجتنا ہی وہ پر عزم ہیں آصف زرداری جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے اپنے وعدے اور عزم پر کاربند ہیں لیکن ملک کی صورتحال‘ جمہوریت کی حالت اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا‘ 62 نکات پر مبنی آئینی پیکج کا مسودہ سب کے سامنے ہے اور اس پر پاکستان پیپلز پارٹی غور کر رہی ہے جسے وزیراعظم اور کابینہ کو بھجوا رہے ہیں۔ اس کی ایک کاپی وہ اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور دیگر پارٹنرز کو بھجوائیں گے اور پھر اس پر بحث شروع کرائیں گے۔ آصف زرداری کی کوشش یہ ہے کہ بجٹ سے قبل وہ یہ کام کرلیں اگر اس سے قبل نہ کر سکے تو اسے بجٹ شیڈول کے بعد پیش کریں گے لیکن اس پر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسودے کو پڑھیں اور پھر اپنی رائے دیں۔ یہ پیکج 1973ء کے دستور سے کم کی چیز نہیں۔آصف زرداری 1973ء کے آئین کے لئے پرعزم ہیں۔ دوسروں کے مقابلے میں آصف زرداری اوران کی جماعت جمہوری اصولوں اور قدروں کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی عوام کو مایوس نہیں کیا اور نہ کریں گے۔ گندم ‘ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ سے لے کر جمہوریت تک ہر کوئی جاننا چاہتا ہے‘ سیاست امکانات کا نام ہے‘ آصف زرداری نے سب سے کہا ہے کہ تسلی رکھیں‘ وعدہ کرتا ہوں کہ جمہوریت کو مضبوط بنائیں گے ‘ گندم کی قیمتیں کم ہوں گی اور اس ملک کو اقتصادی طور پر ہر انتظام کے ساتھ چلا کر دکھائیں گے۔ تیل کی قیمتوں کے بارے میں 6 دن کی بجائے چھ سال پہلے سوچنا چاہیے تھا‘ گندم کی عالمی سطح پر کمی کے بارے میں پہلے سے منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جیسے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی بصیرت سے پاور پلانٹ اس وقت لگائے جب لوگ ہمارے اقدام پر ہنستے تھے۔ اس کی بدولت 2700 میگا واٹ بجلی آسکی۔آصف زرداری کو یہ بھی احساس ہے کہ ججوں کو چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی‘ اس لئے ان کی حکومت نے فوراً جج صاحبان کو رہا کیا۔ ان کی تنخواہوں کے لئے حکم دیا۔آصف علی زرداری کا اہداف درست اور سمت سیدھی ہے‘ وہ ججوں کو بحال کریں گے لیکن مناسب وقت میں ایسا ہوگا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے اشارہ دیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ایوان صدر میں صدر پرویز مشرف کے دن گنے جا چکے ہوں،عوام روٹی یا بجلی نہیں صدر پرویز سے نجات چاہتے ہیں وہ سو فیصد درست ہے کیونکہ صدر کو ہٹانے کے لئے ان پر عوام کی طرف سے ”شدید“ دباو¿ ہے اور ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ اگرچہ انھوں نے مشرف کوماضی کی باقیات قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ آئین کے تحت صدر کے پاس اب بھی وزیراعظم کو ہٹانے اور اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات موجود ہیں۔ ”آخری حد“ یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں مشرف چلے جائیں صدر ماضی کا ورثہ ہیں اور وہ جمہوریت کے درمیان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، انہوں نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے مذاکرات اور عالمی دباو¿ کے نتیجے میں وردی اتار دی۔ لیکن اس سے مشرف ڈیموکریٹ یا ایک سویلین صدر نہیں بن گئے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی صدارت قانونی ہے۔ یہ تمام معاملات آصف زرداری کے سامنے ہیں، اور ان پرپاکستان کے عوام کا شدید دباو¿ ہے ۔عوام پیپلزپارٹی سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں روٹی یا بجلی نہیں چاہئے وہ مشرف کو ہٹانا چاہتے ہیں آصف زرداری سیاستدان ہیں جو عوام کو جوابدہ ہیں پیپلزپارٹی مکمل جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک فارمولے پر کام کررہی ہے کیونکہ آخر کار یہ ہو چکا ہے، آپ ایک غیر جمہوری اور غیر منتخب صدر نہیں رکھ سکتے آپ قطعی ایسا نہیں کر سکتے ۔ جناب آصف زرداری کے نزدیک کشمیر میں فوج کم اور پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون ہونا چاہئے۔ اکیونکہ پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون قائم کرکے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اورمقبوضہ کشمیر سے فوجوں کی کمی 60 سال پرانے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ پاک بھارت ویزہ سسٹم کو آسان بنایا جائے تاکہ دونوں جانب کے عوام کو سفری سہولیات میں آسانیاں ہوں ۔بے نظیر بھٹو کے قتل کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کیلئے پیپلز پارٹی نے بھارت سے مدد مانگی ہے اور کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک عالمی ادارے میں مل کر قرارداد پیش کریں تو اسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، یہ درخواست آصف علی زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھر جی سے ملاقات میں کی آصف زرداری نے ا±مید کی ہے کہ ان کے (شہید بینظیر ) قتل پر دونوں ملک مشترکہ قرارداد پیش کریں گے جو تاریخ میں یادگار ہوگاقومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی قراردادیں منظور کر چکی ہیں، اس کے بعد آصف زرداری نہیںسمجھتے کہ اس پر کسی بحث کی گنجائش باقی ہے، اب صرف وزیر خارجہ اقوام متحدہ کو ایک خط لکھیں گے اور اس کی پیروی کریں گے“

No comments: