وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اپنے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔جمعرات کو قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کو چھ دہائیوں سے سماجی اور اقتصادی ترقی سے محروم رکھاگیا اور ان محرومیوں کا ازالہ کیے بغیر صورتحال کو بہتر کرنا ممکن نہ ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت قبائلی علاقوں کو ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہاں پر سیاسی سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تاکہ قبائلی اپنے جمہوری حقوق کو استعمال کر سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان پر پاک افغان سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالنا درست نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اپنی جانب پاکستان نے سرحد پر ایک ہزار چوکیاں بنائیں اور ایک لاکھ سے زائد فوج سرحد کی دیکھ بھال کے لیے تعینات کی گئی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی بار ایک روزہ دورے پر جمعہ کو افغانستان جارہے ہیں، نے افغان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پر باڑ لگانے کی پاکستانی تجویز کو مسترد کردیا گیا، بائیو میٹرک نظام کے تحت لوگوں کی شناخت کے لیے شروع کیے گئے عمل کوبھی افغان حکومت نے رد کردیا جبکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لگ بھگ 24لاکھ افغان مہاجرین اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان تمام تر حالات کے باوجود دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور باہمی اعتماد کو فروغ دیتے ہوئے مشترکہ طور پر انسداد دہشت گردی کو کوششوں میں تعاون کرے۔
پاکستانی وزیرخارجہ نے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدوں پر بیرونی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امن کے لیے کی جانے والی بات چیت نیک نیتی سے کی جارہی ہے اور ان لوگوں سے رابطہ کیا گیا ہے جو ہتھیار پھینک کر تشدد کی راہ ترک کرنے کو تیار ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کی کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور ضرورت پڑنے پر ایسے عناصر سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔
امریکہ یا کسی اور ملک کا نام لیے بغیر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کے بعض دوست قبائلی علاقوں میں حکومت کے امن معاہدوں کی پالیسی پر بدگمانی کا شکار ہیں کیونکہ وہ اس پالیسی کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کا مقصد مشروط اطاعت نہیں بلکہ بقائے باہمی اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی عمل داری قائم کرنا ہے۔
ادھر امریکی چیئر مین جوائنٹ چیفس ایڈمرل مولن نے بھی پاکستان کی فوجی قیادت سے بات چیت کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردی کے خلاف بڑی بہادری سے لڑ رہی ہے اور وہ اس عزم کو سراہتے ہیں اور وہ پراعتماد ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط فوجی تعاون جاری رہے گا۔ جمعرات کو پاکستان سے روانگی کے وقت دیے گئے اس بیان میں انہوں نے کہا کہ امریکی فوج پاکستانی حکومت کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ دونوں ملکوں کو درپیش دہشت گردی کے خطرے سے بہتر انداز میں نمٹا جاسکے۔ایڈمرل مولن کا یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب امریکی ذرائع ابلاغ میں قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں پر کڑی تنقید کی جارہی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان معاہدوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو منظم ہونے کا موقع ملے گا۔
No comments:
Post a Comment