اس وقت سیاسی قیاد ت ا یسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی اغراض کے لیے قوم کو یرغمال بنا رکھاہے ۔ ان کی موجودگی میں آزاد قوم کی حیثیت سے فیصلے نہیں ہوسکتے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی نہیں امریکہ کی جنگ ہے جس کا منصوبہ نائن الیون سے بھی پہلے بنایا گیا تھا ۔ وزیراعظم کا 100 دن کا منصوبہ فریب کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ حکومت میں کرپٹ افرادعوام کو ریلیف دینے کے بجائے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔ عوام کا اس وقت اہم ترین مسئلہ امریکہ سے آزادی حاصل کرنا ہے ۔ جب تک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی پالیسیاں خود نہیں بنائیں گے ، ہمارے مسائل بڑھتے جائیں گے قبائلی علاقوں میں کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ پشاور میں جان بوجھ کر اضطراب پیدا کیاگیا ۔ وہاں نارمل حالات چل رہے تھے ۔ کوئی خدشہ نہیں تھا لیکن وہاں جان بوجھ کر بے چینی اور مصنوعی صورتحال پیدا کی گئی ہے ۔ صرف امریکہ کو یہ باور کرانے کے لیے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے تہذیبی جنگ کے نام سے ایک پلان تیار کیا ۔ ہر جگہ اسلامی تحریکوں کو خطرہ بنا کر پیش کیا گیا اور مغربی میڈیا ان کو دہشت گردقرار دینے میں مصروف ہو گیا ۔ نائن الیون سے پہلے سارا نقشہ تیار کیا گیا یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ کے چار ایئر پورٹس سے بیک وقت ہوائی جہاز اڑتے ہیں اور وہ دو اہم عمارتوں اور پینٹاگون سے ٹکراتے ہیں اور امریکی فوج اور فضائیہ اس سے غافل رہتی ہے ؟ یہ سب کچھ یہودیوں کا کھیل ہے جنہوں نے امریکہ کو بھی اس میں ملوث کیا ۔ اس واقعہ کو بنیاد بناکر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور اب پاکستان کو میدان جنگ بنایا جارہاہے ۔ اس جنگ میں ہمارے حکمران امریکہ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ ہمیں اس طرح کے حکمرانوں سے جان چھڑانا ہو گی موجودہ پارلیمنٹ کی حیثیت قابل رحم ہے ۔ تمام فیصلے حسب سابق فرد واحد کر رہاہے ۔ رچرڈ باو¿چر بار بار ڈکٹیٹ کرانے یہاں آ جاتاہے جبکہ قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ انتخابات میں اس لیے حصہ نہیں لیا کیونکہ ہمیں معلوم تھاکہ امریکی سیٹ اپ میں سکیم تیار کی گئی تھی ۔ ترکی کے صدر کو ہم پر دباو¿ ڈالنے کے لیے بلایا گیا تھا کہ ہم اس شکنجے میں سر دے دیں ۔ ہمارا موقف یہ تھاکہ پرویز مشرف کے زیر انتظام اور موجودہ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ لینے سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اور آج یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت صدر کے آگے بے بس ہے اور مشرف دن بدن مضبوط ہو رہاہے اور اسی کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے ۔اب مشرف کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ اس کی پالیسی چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ عوام لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی ، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت گری سے تنگ ہیں ۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہیں موجودہ حکمران آمرانہ نظام کے ساتھ ڈیل کے تحت آئے ہیں اور امریکن بار بار یہاں آ کر انھیں باور کراتے ہیں کہ تمہارا مسئلہ جمہوریت اور مشرف نہیں بلکہ دہشت گردی ہے ۔ تم فوج کو عوام کے ساتھ لڑاو¿ اور اس پر یلغار کرو اور مشرف کو نہ چھیڑو اس کے رہنے سے تمہارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے موجودہ حکمرانوںکے پاس حوصلہ ہے اورنہ کوئی پروگرام ہے ۔ وہ یہ کہہ کر جان چھڑانے کے کوشش کرتے ہیں کہ ” موجودہ مسائل انھیں ورثے میں ملے ہیں “ ۔ حکمران آزاد قوم کی حیثیت سے فیصلے کریں ، عدلیہ کو بحال کریں۔ جبکہ لال مسجد ایکشن کمیٹی نے از خود جامعہ حفصہ کی بحالی کا اعلان کیا ہے اورگذشتہ روزسے دوبارہ لال مسجد کے پہلو میں خیموں میں جامعہ حفصہ کے قیام اور تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ایکشن کمیٹی نے مولانا عبدالعزیز کی رہائی ‘جامعہ فریدیہ کی بحالی اور جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے پارلیمنٹ ہاو¿س اورچاروں صوبوں میں احتجاجی پروگرامات کے انعقاد کا اعلان بھی کیا ہے ۔جبکہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے خلاف بدنام زمانہ سائلینس آپریشن کے ذمہ داران کے خلاف ایف آئی ار کے اندراج اور آزاد و غیر جانبدارا ججز پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے قیام کامطالبہ کیا گیا ہے ۔ اس امر کااظہار گزشتہ اتوارکو لال مسجد سے ملحقہ شاہراہ پر شہداء لال مسجد کانفرنس میں جاری مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے ۔ کانفرنس وفاقی المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے 50 سے زائد جید اور ممتاز علماء کرام دینی ومذہبی جماعتوں کے رہنماو¿ں نے خطاب کیا ۔لال مسجد ایکشن کمیٹی کے سرپرست اعلیٰ قاری سعید الرحمان نے اعلان لال مسجد کانفرنس کے نام سے مشترکہ اعلامیہ کانفرنس میںپڑھا۔ ہزاروں شرکاء نے کھڑے ہو کر اعلامیہ کی تائید کی مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آج جب سانحہ لال مسجد کو ایک سال پورا ہو گیا ‘ایک سال قبل اسی مقام پر جو ظلم اورقتل اور خون کی ہولی کھیلی گئی وہ تاریخ کاسیاہ ترین باب ہے ۔قرآن مجید پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے والے معصوم اور نہتے طلبہ وطالبات پر گولیوں کی جو بارش کی گئی اور اپنے ہی ملک کے محب وطن لوگوںپر جو مطالم ڈھائے گئے اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ ایک سال مکمل ہونے پر یہ عظیم الشان اجتماع لال مسجد کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے دباو¿ کے باوجود لال مسجد کی انتظامیہ کے بارے میں حرف غلط کی طرح شکایت نہیںکی ‘ ہم لال مسجد کے شہداء کے اسلام کے نفاذ کے مطالبہ کو حق اور صحیح سمجھتے ہیں اور آج اسی مطالبہ کا ہم بھی اعادہ کرتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے لیے اور اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ اس میں اسلامی نظام نافذ کرنا وقت کا عین تقاضا ہے ‘ ہم ا س اجتماع کو ملک میں اسلامی نظام کے لیے سنگ میل سمجھتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ شہدائے لال مسجد کا خون بے مقصد اور رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ہم اس اجتماع کی عظیم الشان تعداد کو اس امر کا مظہر سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اس کا مملکتی مذہب اسلام ہے اور مدارس دینیہ اس اسلامی قلعہ کے نظریاتی محافذ ہیں اورہم یہ ذمہ داری ہر قیمت پر ادا کرتے رہیں گے ہم جہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں اور انہیں کسی بھی موقع پر جدا نہیںکیا جا سکتا وہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مدارس دینیہ آزاد تھے آزاد ہیں اور آزاد رہیںگے اس کی داخلی اور خارجی خود مختاری کو ہر حال میں قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور حکومت کو باور کراتے ہیں کہ شعائر اسلامی کو اگر ریاستی تشدد سے محفوظ نہ رکھا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے ہم یہ اعلان بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ اجتماع مدارس دینیہ کی تحفظ کی تحریک ہے اور ایک ایک مسجد و مدرسہ کے تحفظ اور مقاصد کے حصول تک یہ تحریک جاری رہے گی ۔ ہم اس پر انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ دارالعلوم دیو بند سے متعلق تمام مدارس ‘ تنظیموں اور تحریکات کی نمائندگی یہاں موجود ہ ہے جو ہماری اجتماعی قوت کا حسین مظہر ہے اورہماری کوشش ہو گی کہ مقاصد کے حصول تک اس اجتماعیت کو نہ صرف قائم رکھا جائے بلکہ اس کے حسن وقوت میں مزید اضافہ کیا جائے ‘ اس پر ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کے بعد چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں اس طرح عظیم الشان احتجاجی اجتماعات منعقد کریں گے اور اگر ہمارے مطالبات من وعن تسلیم نہ کیے گئے یا اس میں تاخیری حربے استعمال کیے گیے توہم پارلیمنٹ کے سامنے ایک بڑے احتجاجی پروگرام کا اعلان کریں گے جس میں دینی قوتوں کی طاقت کا مظاہرہ ہو گا ‘ سردست دوسرا بڑا احتجاجی اجتماع اگست 2008 کی 10 تاریخ کو لاہور میں منعقد ہو گا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بدنام زمانہ سائلنس آپریشن کے حقیقی ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے ہمارے مشورے سے آزاد ‘ غیر جانب دار ججز پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن قائم کیا جائے جو سانحہ لال مسجد کی تحقیقات کرے ۔ تاکہ اس کی سفارشات کی روشنی میں آپریشن کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ مولانا عبدالعزیز پر قائم تمام مقدمات واپس لیے جائیں اور انہیں باعزت طورپر بری اور رہا کیا جائے تاکہ وہ حسب سابق لال مسجد اور اس کی شاخوں میں خطابت اور تعلیمی خدمات ادا کر سکیں ۔ جامعہ فریدیہ میںپولیس کی نفری بٹھائی گئی ہے جو ایک مدرسہ پر غاصبانہ قبضہ ہے ‘ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پولیس کی نفری ہٹا کر جامعہ فریدیہ کو فورا تعلیمی نظم کے لیے کھول دیا جائے ۔ ورنہ ہم احتجاجی پروگرام جامعہ فریدیہ میں منعقد کرکے خودکھول دیں گے اور پھر امن و امان کی ذمہ داری انتظامیہ پرہو گی۔ جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر ہماری پہلی ترجیح ہے اور ایک انچ بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹیںگے ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ایک سال میں اس کی تعمیر نہ ہو سکی ۔ ہم از خود سے جامعہ حفصہ کی بحالی کا اعلان کرتے ہیں اور تعمیر تک طالبات تعلیمی سفر کو خیموں میں جاری رکھیں گی ۔ آج سے انشاء اللہ جامعہ حفصہ میں تعلیم شروع ہوجائے گی ۔ اسی روز اچانک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تھانہ آبپارہ کے سامنے ارجنٹائن پارک کے قریب میلوڈی چوک پر زور دار خودکش بم دھماکے سے 10پولیس اہلکاروں سمیت 11افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ حکومت نے جاں بحق ہونے واالوں کی تعداد 8اور زخمیوں کی تعداد 23بتائی ہے ۔ دھماکہ شام 8بجے کے قریب ہوا جب لال مسجد شہداء کانفرنس اختتام پذیر ہوئی اور جیسے ہی دعاختم ہوئی تو زوردار دھماکہ ہوا جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں 50کے قریب پولیس اہلکار موجود تھے جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار زیادہ تر اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی ہے ۔ دھماکے کے بعد ملک میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ۔ اہم تنصیبات کی سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں جبکہ اسلام آباد کے ہسپتالوں میںا یمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات اور زخمیوں کو ہر ممکن طبی امداددینے کا حکم دیاہے ۔ دھماکے کے فوری بعد اسلام آباد کے تمام داخلی ا ور خارجی راستوں پر سیکورٹی کو سخت کردیا گیاہے ۔ مشیر داخلہ رحمن ملک نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 8 پولیس جوانوں کے شہید ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ دھماکے میں 23 افراد بھی ن زخمی ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ دھماکہ کرنے والا 35 سے37 سالہ نوجوان تھا جس کے سر اور دھڑ مل گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک گھناو¿نا جرم ہے اس میں ملو ث لوگوں کو ہر ممکن کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ہم حالت جنگ مین ہے ملک دشمن عناصر اس طرح کے واقعات سے ملک کو عدم استحکا م میں دھکیل رہے ہیں میری قوم سے اپیل ہے کہ وہ ان عناصر کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں جاں بحق ہونے والے کے لواحقین سے دلی ہمدردی ہے سیکورٹی میں غفلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگریہ دھماکہ لال مسجد کے قریب ہوتا تو زیادہ نقصان ہوتا ۔ سیکورٹی میںکوئی غفلت نہیں تھی انہوں نے کہا کہ پولیس کسی خود کش حملہ آور کو نہیں روک سکتی کیونکہ جو لوگ خودکش حملہ آور ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی ہاتھ میں لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو نہیں روکا جاسکتا ۔ تفصیلات کے مطابق دھماکے میں جاں بحق ہونے والے سات پولیس اہلکاروں کی لاشوں کو پولی کلینک میں جبکہ تین کی لاشوں کو پمز ہسپتال میں لایاگیا ھماکے میں ایک راہ گیر محمد صدیق جو G-6/1-3 کارہائشی تھاجبکہ پولی کلینک کے ڈاکٹر نے بتایا کہ ہسپتال میں 2 افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں اور 34 افراد زخمی آئے ہیں جن میں 7 کی حالت نازک ہے اور 20 کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔ ادھر آئی جی پولس نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خود کش بم دھماکہ تھا جس میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ دھماکے کے فوری بعد 40زخمیوں کو قریبی ہسپتال پولی کلینک پہنچایا گیا جہاں زیادہ تر زخمیوں کی حالت نازک ہے ۔ دھماکے سے لاشوں کے اعضاءدور دور تک بکھر گئے عینی شاہدین کے مطابق پولیس اہلکاروں کی ٹوپیاں بیجز اور بیلٹ دور دور جا گرے ۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ۔ دھماکے کے فوراً بعد ایدھی ایمولینس گاڑیاں جائے واقعہ پر پہنچ گئیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا ۔ دھماکے کے بعد لاشوں کے جلنے کی بد بو دور دور تک پھیل گئی ۔ واقعہ کے بعد پولیس نے علاقہ کی تاکہ بندی کردی اور کسی کو جائے واقعہ پر جانے کی اجازت نہ تھی ۔ زخمی ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے ۔ دھماکے کے بعد زخمیوں کی چیخ و پکار سے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا علاقے میں خوف و حراس پھیل گیا ۔ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ قریبی گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے واقعہ کے بعد ملک بھر میں ہائی الرٹ کردیا گیا اور آئی جی نے مشکوک افراد اور گاڑیوں کی چیکنگ کا حکم دے دیا ۔ جائے حادثہ پر موجود پولیس اہلکاروں نے بتایا ہے کہ یہ ایک خود کش حملہ تھا اور اس کا نشانہ پولیس اہلکار ہی تھے۔مقامی پولیس کے ڈی ایس پی ممتاز نے بتایا کہ اس خودکش حملے میں مرنے والے افراد کا تعلق پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس سے تھا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ مرنے والوں کے اعضائ دور دور تک بکھر گئے، قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور رہائشی عمارتوں کے مکین خوفزدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ یاد رہے کہ یہ دھماکہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کی برسی کے موقع پر علماءکنونشن کا انعقاد ہو رہا تھا اور اس حوالے سے شہر بھر میں سکیورٹی کا خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔ مسجد کی اردگرد کی سڑکوں اور گلیوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور دن بھر پولیس کے اہلکار اسلام آباد کی سڑکوں پر گشت بھی کرتے رہے۔ دھماکے کے بعد سیکورٹی حکام نے تمام گاڑیوں کی چیکنگ کا احکامات جاری کر دئیے دریں اثناء وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اسلام آباد کے ہسپتالوں کی انتظامیہ کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ زخمیوں کے علاج و معالجے میں کوئی کسر نہ اٹھا ئیں ۔ جبکہ اس سے ایک روز پہلے جماعت اسلامی پاکستان نے لال مسجد جامعہ حفصہ کے خلاف فوجی آپریشن کے بارے میں فیکس فائنڈنگ مشن کمیشن کی رپورٹ جاری کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران شہید ولاپتہ طلبہ وطالبات کی تعداد 4234بنتی ہے۔ آپریشن کیلئے بغیر پائلٹ جاسوسی طیارے ، 111بریگیڈ کے ایس ایس جی کمانڈوز ، 10ویں کور کی ریگولر انفنٹری اور رینجرز کو استعمال کیا گیا تھا۔ کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف لاشیں جل گئی تھیں بلکہ ان کی ہڈیاں تک بگڑ گئیں۔ کمانڈوز نے معصوم طالبات کے خلاف آر پی جی فائیو اور آر پی جی سیون راکٹوں اور آگ ودھواں پیدا کرنے والے دستی بموں کا بے تحاشا استعمال کیا جس سے طالبات کے جسموں کے چیتھڑے بکھر گئے ۔ فیکس فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کے مطابق حکومت لال مسجد میں ایک بھی جنگجو ، دہشت گرد اور غیر ملکی عسکریت پسند کی موجودگی کو ثابت نہیں کرسکی۔ جماعت اسلامی پاکستان نے مطالبہ کیا ہے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرکے عدالتی کمیشن بنایا جائے، آپریشن کے سب سے بڑے مجرم پرویز مشرف کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ جماعت اسلامی نے سانحہ کے خلاف 11جولائی بروز جمعہ کو ملک گیر احتجاج اور یوم استغفار منانے کی کال دی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ ہفتہ کو جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے پریس کانفرنس میں جاری کی۔ جماعت اسلامی کے فیکٹس فائنڈنگ مشن کی یہ رپورٹ 51صفحات پر مشتمل ہے۔ کانفرنس کے موقع پر صوبائی نائب امیر میاں محمد اسلم، ضلعی امیر سید محمد بلال بھی موجود تھے۔ فرید احمد پراچہ نے کہا سانحہ لال مسجد قومی تاریخ کا المناک ترین ، کربناک اور بدترین واقعہ ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی قوم کی بچیوں ، بچوں اور مدرسہ ومسجد کے خلاف پاک فوج کو استعمال کیا۔ ہر سطح پر مطالبات کے باوجود عدالتی کمیشن نہیںبنا۔ قوم پوچھنا چاہتی ہے زلزلہ زدگان کی لاوارث بچیاں جو جامعہ حفصہ میں موجود تھیں کہاں گئیں۔ اتنے بڑے جرم کا نہ کوئی مقدمہ د رج ہوا نہ گرفتاری ہوئی۔ نوٹس لینے پر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو گھر بھیج دیا گیا۔ پاکستان کی سالمیت کو درپیش خطرات کا سبب لال مسجد وجامعہ حفصہ کی مظلومیت ہے۔ اس سانحہ کے حوالے سے امریکی عزائم کو کامیابی ہوئی۔ امریکہ نے جنگ کو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان منتقل کردیا۔ جماعت اسلامی نے سانحہ کو روکنے کیلئے کردار ادا کیا تھا کمیشن کی رپورٹ میں تمام تفصیلات کو جمع کیا گیا ہے۔ طالبات کے والدین سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جامعہ حفصہ کے ریکارڈ کو چیک کیا گیا ہے۔ اس سانحہ کا سب سے بڑا مجرم پروی مشرف ابھی تک اقتدار میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے جرائم میں آئین کو دو مرتبہ توڑنے ، وزیرستان آپریشن، کراچی میں خونریزی پر مشتمل واقعات اور سب سے بڑی چارج شیٹ لال مسجد آپریشن ہے۔ جب تک اس بڑے مجرم کو گرفتار ، آئین ، تعزیرات پاکستان ، دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار نہیں کیا جاتا صورتحال درست نہیں ہوگی۔ جو لوگ پرویز مشرف کو تحفظ دے رہے ہیں وہ بھی لال مسجد وجامعہ حفصہ کی طالبات کے قاتل ہیں۔ وہ بھی شریک جرم ہیں۔ پرویز مشرف کو پھانسی سے بچانے کیلئے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو اللہ کی مقرر کردہ سزاو¿ں میں کمی یا ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی لال مسجد وجامعہ حفصہ کے حوالے سے فوج کی پوزیشن کی وضاحت کریں چونکہ نعشوں کے چیتھڑوںپر وکٹری کے نشان بنائے گئے تھے۔ آرمی ایکٹ کے تحت اس وقت کے آرمی چیف کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ لال مسجد آپریشن میں قادیانی افسران نے کلیدی کردار ادا کیا ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ انہوں نے مولانا عبدالعزیز کی رہائی ، انہیں لال مسجد کا خطیب مقرر کرنے، لاپتہ طالبات کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کرنے، جامعہ حفصہ کی اپنی جگہ پر تعمیر اور جامعہ فریدیہ کی بحالی کے مطالبات کئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایجنسیوں کا ہر طرح کا سیاسی کردار ختم کیا جائے۔ ایجنسیوں کو قوم اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ 2نومبر کی عدلیہ کو بحال کرکے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سانحہ لال مسجد کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ عدالت کے حکم کے مطابق آپریشن کے دوران جانی ومالی نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ جماعت اسلامی قوم سے اپیل کرتی ہے کہ لال مسجد وجامعہ حفصہ کے بچوں اور بچیوں کے خون کا ان پر قرض ہے ملک بھر میں بھرپور ردعمل کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ جمعہ 11جولائی کو یوم استغفار ویوم احتجاج منایا جائے۔ حکومت کے 100دن مکمل ہونے کے باجوود نہ عدلیہ بحال ہوئی ، پرویز مشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہوا نہ امریکی مداخلت بند ہوئی ہے۔ حکمرانوں پر واضح کردینا چاہتے ہیں حالات یہی رہے تو 1974ء کے نظام مصطفی تحریک سے بڑی تحریک اٹھے گی۔اے پی ایس
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Monday, July 7, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment