International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, July 15, 2008

جنوبی افریقہ اور سوئٹزرلینڈ میں ڈاکٹر قدیر خان کے نیٹ ورک کے خلاف قانونی کاروائی شروع ہو چکی ہے۔حکومتی وکیل احمر بلال



اسلام آباد ۔ وفاق کے وکیل احمر بلال نے کہا ہے کہ ایٹمی سائنسدان ایک فوجی ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے اس لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حفاظتی اقدامات سخت کیے گئے ہیں۔وفاق کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواستوں پر عدالت میں جواب داخل کروایا گیا اس جواب کے حق میں دلائل دیتے ہوئے احمر بلال صوفی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2004ء میں جب ڈاکٹر عبدالقدیر کا نیٹ ورک سامنے آیا تو اْس وقت سے حکومت پر بہت زیادہ بین الاقوامی دباؤ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نیٹ ورک دبئی، سوئٹزرلینڈ اور جنوبی افریقہ میں تھا اور جنوبی افریقہ اور سوئٹزرلینڈ میں اس نیٹ ورک کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ احمر بلال نے کہا کہ اگر جج صاحب کہیں تو وہ یہ قانونی کارروائی انہیں چیمبر میں دکھا سکتے ہیں۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد ایران، لیبیا اور شمالی کوریا گئے تھے اور انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ وفاق کے وکیل نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جو صورتحال چل رہی ہے اْس کی وجہ سے ملک انتہائی نازک دور سے گْزر رہا ہے اور اس پر ڈاکٹر قدیر کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر ایک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سب سے پہلے ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ملک کے عوام دوبارہ محکوم نہ بن جائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے تجویز دی ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک میں گھومنے پھرنے کے اجازت دی جائے اور اْن کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ پر کوئی بات نہ کی جائے۔ یہ تجویز انہوں نے منگل کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بیجا میں رکھنے کے حوالے سے دائر پانچ درخواستوں کی سماعت کے دوران دی۔ انہوں نے درخواست گزاروں کے وکیل جاوید اقبال جعفری اور وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل احمر بلال صوفی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمن سے کہا کہ وہ مل کر بیٹھ جائیں اور اس سلسلے میں کوئی اقدام تجویز کریں۔ درخواست گْزاروں کے وکیل جاوید اقبال جعفری نے حکومت کی طرف سے داخل کروائے گئے جواب کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں لگایا گیا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ جواب کس نے دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت میں زیر سماعت پانچ مختلف درخواستوں میں صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف، داخلہ امور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر رحمان ملک اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ انہوں نے فیڈریشن کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے اس جواب کو اپنے موکل کے خلاف توہین آمیز تحریر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اْن کے مؤکل کے خلاف صرف الزام تراشی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہو۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اْن کے موکل ڈاکٹر عبدالقدیر عدالت میں پیش ہوکر تمام حقائق عدالت کو بتانے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل کو بھی عدالت میں طلب کیا جائے اور ان درخواستوں کی سماعت چیمبر میں کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پیر کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ قومی راز صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’ ان دی لائن آف فائر’ میں افشا کیے ہیں۔ جاوید اقبال جعفری نے عدالت سے استدعا کی کہ ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ قومی راز افشا کرنے میں کون ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور شمالی کوریا پہلے ہی اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے کوئی ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ ملک میں بہت سے ایسے وزیر اعظم پھر رہے ہیں جن کے پاس قومی راز ہیں لیکن اْن کے ساتھ تو ایسا سلوک نہیں کیا جاتا جیسا اْن کے موکل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے عدالت کو بتایا تھا کہ عبدالقیر خان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ہر کسی سے مل سکتے ہیں تاہم آج حکومت کی طرف داخل کرائے گئے جواب میں یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ ان پر لگائی گئیں پابندیاں مزید سخت کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ اْن کے رشتہ داروں کو بھی نہیں ملنے دیا جا رہا۔ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی

No comments: