International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, March 29, 2008

دہشت گردی کی منڈی کو جب تک ختم نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ موجود رہے گا ، مولانا فضل الرحمن

اس منڈی کی موجودگی سے ہر قسم کا مال ملتا رہے گا ، دنیا اس جانب توجہ دے
پرویز مشرف کی دہشت گردی کے حوالے سے جنگ کی پالیسی کو عوام مسترد کر چکے ہیں
پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کی حکومت تمام قومی ایشوز کا پارلیمنٹ میں تعین کرے گی
دوسروں کی جنگ لڑنے سے آگ کے شعلے ہماری سرزمین پر بھڑک رہے ہیں
ملک میں کسی ایک سیاسی جماعت نہیں اتحاد کی حکومت قائم ہو رہی ہے
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کی رچرڈ باؤچر سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس

اسلام آباد۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ پرویز مشرف کی دہشت گردی کے حوالے سے جنگ کی پالیسی کو قوم مسترد کر چکی ہے شاید امریکہ کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ طاقت سے مسئلے حل نہیں ہوتے سیاسی راستہ موجود ہے ملک میں کسی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اتحاد کی قومی حکومت قائم ہو گی پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کی حکومت تمام پالیسیاں پارلیمنٹ میں وضع کرے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں سینیٹر طلحہ محمود کے زرعی فارم پر امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ملاقات میں خطے کی صورتحال ، دہشت گردی سے متعلق جنگ کی پالیسی ، قبائلی علاقوں کے حالات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملاقات میں اس امر کا جائزہ لیاگیا کہ بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے پاکستان کا مستقبل کا کردار کیا ہو گا ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی سے متعلق اپنے دیرینہ موقف سے امریکی عہدیدار کو آگاہ کیا وقت نے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے طاقت کے استعمال سے متعلق امریکی پالیسی نے جنگ میں اضافہ کیا ہے دہشت گردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے شدت پسندی کو وسعت ملی ہے جو آگ افغانستان میں بھڑکائی گئی تھیں ا س کے شعلوں نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نئی حکومت ان پالیسیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی انہوں نے کہاکہ امریکہ پر واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت مسئلے کے حل کیلئے جنگ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سیاسی طریقے سے مسئلے کو حل کیا جائے گا پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کے تحت قومی حکومت کی سمت ہو گی کہ اس مسئلے میں سیاسی حل کو ترجیح دی جائے گی جس طرح جمہوری لوگوں کے نزدیک سیاست میں عسکریت جمع نہیں ہو سکتی اس طرح ریاست کی سطح پر بھی سیاست اور عسکریت کا فلسفہ نہیں چل سکتا دنیا میں مشترکہ مفادات ہوتے ہیں قوموں کے مفادات بھی ہوتے ہیں تاہم مفادات کے حصول کیلئے کسی خطے میں طاقت کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ان مفادات کیلئے عسکری رسائی اور مہم جوئی کی جائے اگر خطے میں عالمی قوتوں کے اقتصادی مفادات ہیں تو اس کیلئے تعاون مثبت راستہ موجود ہے پوری انسانیت کے مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں کوئی قوم دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی یہی مثبت پیغام امریکہ کو دیا ہے کسی اعلیٰ امریکی سٹیٹ آفس کے عہدیدار سے میری یہ پہلی ملاقات تھی اس بنیاد پر ایشوز پر بحث ہونی چاہیے رد عمل کا جائزہ تو لیاجائے مشکلات کی اصل وجوہات اور نقصانات کو مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا یہ منڈی کس لئے لگائی ہے جب تک منڈی کو ختم نہیں کیا جاتا ہر قسم کا مال ملتا رہے گا ہم انسانیت کو امن اور ترقی کا پیغام دینا چاہتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہے لگتا ہے امریکہ کو حقائق کا ادراک ہو گیا ہے کہ طاقت مسائل کا حل نہیں ہے سیاسی راستہ موجود ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے جنگ کے بارے میں پالیسی کے حوالے سے عوامی امنگوں کے مطابق نہ ہونے کی وجہ پاکستان میں اس آگ کے شعلے بھڑک اٹھے آج کی حکومت رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے عوامی خواہشات کے مطابق پالیسی بنائے گی امن کے بغیر اقتصادی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے بدامنی میں معاشی ترقی کا دعویٰ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے امریکی عہدیدار سے صدر پرویز مشرف کے مستقبل سے متعلق امور پر گفتگو نہیں ہونی یہ ہمارے ملک کا داخلی معاملہ ہے البتہ امریکہ پر ضرور یہ واضح کیاگیا ہے کہ پاکستان میں فرد واحد کی تمام پالیسیوں کو عوام نے مسترد کر دیا ہے انہوں نے کہاکہ پہلی بار عوام کو اطمینان حاصل ہو رہا ہے کہ امریکی عہدیداروں سے ہونے والی گفتگو میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کے احساسات جذبات کا خیال رکھا جارہا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہمارے ذریعے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مسائل کا حل کا وقت گزر چکا ہے جب سرحد میں ہماری حکومت تھی تو ہم نے اس کی بھرپور کوششیں کی تھیں ایک سوال کے جواب میں انہو ںنے سیاسی جماعتوں کی مشترکہ پالیسی کے حوالے سے حکومت کردار ادا کر سکتی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہماری جانب سے مخلوط حکومت کو ترجیح دینے کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ کسی ایک جماعت نہیں بلکہ اتحاد کی قومی حکومت قائز ہو گی آزاد خارجہ پالیسی ہماری ترجیحات میں شامل ہے اسی لئے حکومت میں شامل ہوئے ہیں اس طرح قوم کو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے

No comments: