International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, March 29, 2008
ُفوج قومی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرے ، حکومت میں فریق نہ بنے ۔ مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر بطور وزیراعظم جس اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے ۔ میں دل کی گہرائیوں سے اس پر وزیراعظم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں یقینا یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور متفقہ طورپر ان پر اعتماد کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی سیاسی اور روحانی خانوادے کیساتھ ساتھ پسماندہ علاقے سے بھی ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ یقینا ان کا وزیراعظم کے طور پر انتخاب ملک کے محروم طبقوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہو گا ۔ آج انہوں نے اپنے خطاب میں سو دنوں کے لیے جو راہنما پالیسی دی ہے میں اس اصول کی بنیاد پر بات کرنا چاہوں گاجس اصولی کا تعین قومی حکومت کر رہی ہے کہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے اب یہ بات وضاحت طلب ضرور ہے کہ جو کچھ وزیراعظم نے فرمایا طے شدہ فیصلے ہیں یا ان کی ترجیحات اور تجاویز ہیں جو انہوں نے ایوان کے سامنے رکھیں اور اب اس پر مذاکرہ ہو گا اس پر مباحثہ ہو گا ۔ مشاورت ہو گی اور پارلیمنٹ کی مشاورت سے کسی حتمی فیصلے پر پہنچنا ہو گا ۔ بنیادی بات کہ جس میں اداروں کی تقویت کی بات کی گئی ہے اس حوالے سے ہمیں اسی بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ ہمیں ایک مضبوط اورطاقتور پاکستان چاہیے ۔ ماہرین آئین ضرور ا س بات کی تائید کریں گے کہ مملکت اس کو کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ وفاقی حکومت صوبائی اسمبلیاں اور حکومتیں اور تمام وہ ادارے جو چونگی وصول کرنے کے مجاز ہوں جب ہم مملکت کی اس تعریف کو دیکھتے ہیں آئین کے اوراق پر تو ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عوام کے منتخب ادارے اسی کا نام مملکت ہے لیکن عملاً ہمیشہ منتخب اداروںکی اہمیت کو ختم کیا جاتا رہا ہے اور فوج جو ملکی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے اس نے خود سٹیٹ کی حیثیت حاصل کر لی اور جس کو دستور مملکت کہنا ہے اس کو ہمیشہ زمین بوس کیا گیا اسے قتل کیا گیا ۔ جہاں ہم کس چیز کو مملکت کہیں ۔ میں سمجھتا ہوں فوج قومی ادارہ ہے لیکن جب فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو اپنی قومی اور پیشہ وارانہ ذمہ داری ہی ادا کرنی چاہیئے اور اسے حکومت میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ اور اس طرح پاکستان طاقتور اور مضبوط نظر آئے گا میرا ایک ذاتی تاثر اور تجزیہ ہے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کی سیاست پر اثر انداز ہونے والے عوامل داخل بھی ہو رہے ہیں ۔ اور خارجی بھی ہوتے ہیں ۔ داخلی عوامل زیادہ منظر پرنطر آتے ہیں لیکن بین الاقوامی مناظر پس منظر میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہم داخلی عوامل کی بنا پر فیصلے کرتے ہیںلیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اور عالمی سیاست میں ایک محوریت آجانے کے بعد اور نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہماری ملکی سیاست پر بین الاقوامی عوامل زیادہ موثرنظر آرہے ہیں ۔ اس حوالے سے میرا تاثر یہ ہے کہ ہم اس ایجنڈے میں اپنے داخلی عوامل پر زیادہ زور دے رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام داخلی اور خارجی عوامل پریکساں توجہ دی جائے ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو تمام پہلوؤں پر مساوی نظر ڈالنی چاہیئے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment