International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, April 24, 2008
اتحاد بچانے کی خاطر ن لیگ کا چیف جسٹس کی مد ت ملازمت کم کر نے پر غور
اسلام آباد : اب تک پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی بحالی کی سب سے بڑی چیمپئن بنی آ رہی مسلم لیگ (ن) جسٹس افتخار محمد چوہدری سے متعلق آئینی ترمیم پر غور کر رہی ہے جس کے تحت ان کی مدت ملازمت 2013ء کی بجائے 2010ء میں ختم ہوجائے گی۔ اگرچہ پارٹی قیادت کی جانب سے اس انتہائی متنازع ایشو پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی ایسے رہنما ہیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحاد کو بچانے کیلئے مسئلے کے اس حل پر غور کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس بات پر قائم ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کو 2013ء تک کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت ایک مشکل صورتحال میں ہے کیونکہ عدلیہ کی 2 نومبر کی پوزیشن پر بحالی کیلئے پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کی رضامندی سے قرارداد پیش کرنے کیلئے اسے معزول چیف جسٹس کی مدت ملازمت کے ایشو پر جھکنا پڑ رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ اور بھارت میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی مدت ملازمت طے نہیں کی جاتی جبکہ امریکا میں سپریم اور فیڈرل کورٹس کے ججوں کو تاحیات مقرر کیا جاتا ہے۔ تاہم، امریکا میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جج 70 سے 75 سال کی عمر کا ہوجاتا ہے تو وہ رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے سکتا ہے۔ اگر دونوں جماعتوں کے درمیان یہ ایشو طے ہوجاتا ہے تو مسلم لیگ (ن) اسے ججوں کی بحالی اور پی پی اے این پی کے ساتھ اتحاد بچانے کا سمجھوتا قرار دے سکتی ہے۔ تاہم، یہ سمجھا جاتا ہے کہ 9 مارچ 2007ء سے عدلیہ کی بحالی کیلئے جدوجہد کرنے والی وکلاء برادری اور سول سوسائٹی اسے تسلیم نہیں کرے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت بننے کے 30 روز کے اندر ججوں کی بحالی کے معاملے پر اپنے عزم سے ہٹنے پر آصف زرداری کو اپنی مقبولیت میں کمی کا سامنا ہے، مسلم لیگ (ن) بھی یہ سمجھتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ ججوں کی مدت ملازمت کے ایشو پر سمجھوتا کرلیا گیا تو میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کی مقبولیت کا انجام بھی وہی ہوگا۔ شاید، مسلم لیگ (ن) کو اس معاملے میں زیادہ نقصان ہو۔ ایک پارٹی ذریعے کا یہ ماننا تھا کہ شاید یہ پیپلز پارٹی کی چال ہے کہ ججوں کی بحالی کے ایشو پر مسلم لیگ (ن) کو اپنے حقیقی موقف سے ہٹا کر اسے سیاسی طور پر نقصان پہنچایا جائے کیونکہ مسلم لیگ (ن) لوگوں کے دلوں کی بات زبان پر لاکر روز بہ روز مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے معزول ججوں کی بحالی کے نعرے پر 18 فروری کے انتخابات میں حصہ لیا۔ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جاتی رہی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مدت ملازمت طے نہیں کی جاتی۔ تاہم، یہ صرف شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ہوا جب 1976ء میں ایک آئینی ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت 4 سال جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت 5سال مقرر کی گئی۔ بھٹو نے یہ ترمیم اس لئے منظور کرائی کیونکہ وہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کے اس وقت کے باوقار چیف جسٹس صاحبان (ترتیب وار) سردار محمد اقبال اور جسٹس صفدر شاہ سے خوش نہیں تھے۔ جسٹس صفدر شاہ کے کیس میں بھٹو اس وقت ناراض ہوگئے تھے جب جسٹس صفدر نے سیاسی بناء پر پولیس کے محکمے میں بھرتی ہونے والے افسران کی برطرفی کے احکامات جاری کئے تھے اور نیشنل عوامی پارٹی (موجودہ عوامی نیشنل پارٹی) کے چند کارکنوں کی ضمانت منظور کرلی تھی۔ یہ آئینی ترامیم جنرل ضیاء الحق کے مارشل کے دور میں ختم کردی گئی تھیں۔ جنرل ضیاء نے وہی نظام بحال کردیا تھا جس کے تحت چیف جسٹسز سمیت تمام ججز ریٹائرمنٹ کی مقررہ حد پر ہی ریٹائر ہوجاتے تھے۔ ہائی کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال جبکہ سپریم کورٹ کے معاملے میں یہ 65سال ہے۔ اپنے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) میں پرویز مشرف نے 65 سال کو 68 میں تبدیل کیا جبکہ ہائی کورٹس کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بھی 62 کی بجائے 65 کردی۔ تاہم، 17ویں ترمیم کے بعد عمر کی یہ حد واپس اس ہی پوزیشن پر چلی گئی جس پر پہلے تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ، ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے منظور کرائی گئی چھٹی (6th) ترمیم کے ٹھیک 32 سال بعد ان کے داماد آصف علی زرداری ایک شخص کیلئے مخصوص ترمیم لانا چاہتے ہیں جس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ستم ظریفی یہ ہے کہ نظام اور اداروں کو مستحکم بنانے کی بجائے ملک کے آئین میں شخصی مفادات کیلئے ترامیم کی گئی ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ملکی عدلیہ کی آزادی کیلئے ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ 9 مارچ اور بعد میں 3 نومبر کو دیئے گئے اپنے فیصلوں میں جسٹس افتخار محمد چوہدری عدلیہ کی آزادی کا نشان بن چکے ہیں۔ صرف اسلئے کہ آج کا ایک طاقتور شخص ان کا چہرا نہیں دیکھنا چاہتا، جسٹس افتخار کی مدت ملازمت کم کرنے کا مطلب پاکستانی عوام کے خوابوں سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment