International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, April 24, 2008

حکمران اتحاد کیساتھ رابطے، صدارتی کیمپ ایک بار پھر بڑھنے لگا

اسلام آباد: تیزی سے سکڑتے ہوئے صدارتی کیمپ میں ایک بار پھر اضافہ شروع ہو گیا ہے۔ صدارتی کیمپ تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا تھا جس کے باعث صدر مشرف بھی بے اختیار ہوتے جا رہے تھے لیکن حکمران اتحاد سے رابطے قائم ہو جانے کے بعد صدارتی کیمپ نے ایک بار پھر بڑھنا شروع کر دیا ہے۔ صدر کو اس وقت کمک کی اشد ضرورت تھی اور یہ کمک حکمران اتحاد انہیں رضامندی کے ساتھ فراہم کر رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے وہ تمام رہنما جو ایوان صدر کے ساتھ رابطوں میں رہے اور مختلف معاملات پر ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے رہے انہیں آصف علی زرداری کی رضامندی حاصل تھی۔ مذکورہ رہنما ایسا کوئی کام نہیں کر رہے جو آصف علی کے علم میں نہ ہو۔ صدر مشرف کی جانب سے کی جانے والی اٹارنی جنرل پاکستان ملک قیوم کی اہم ترین تقرری کے بارے میں یہی خیال تھا کہ انہیں فوری طور پر برطرف کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ملک قیوم ہر لحاظ سے صدر کے آدمی ہیں اور وہ نہ صرف صدر کا پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں بہترین دفاع کرتے ہیں بلکہ پیچیدہ عدالتی معاملات پر ان کو مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کی تعیناتی وزیراعظم پاکستان کے اختیارات میں شامل ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی صرف اس وقت کارروائی کریں گے جب آصف علی زرداری انہیں ایسا کرنے کیلئے کہیں گے۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ ملک قیوم کو ان کے عہدے پر برقراررکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک وزیراعظم کو ملک قیوم کی جگہ پر کسی اور کو تعینات کرنے کیلئے نہیں کہا۔ وزیراعظم کے مشیر رحمان ملک، وزیر قانون فاروق نائیک، مشیر ایم اے درانی، سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ، سید شریف الدین پیرزادہ اور متعدد دیگر شخصیات کی سرگرمیاں نہ صرف باعث دلچسپی ہیں بلکہ توجہ کی طالب ہیں۔ حال ہی میں نہ صرف اٹارنی جنرل بلکہ دیگر بھی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مستفید ہوئے جس کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کیلئے یونیورسٹی ڈگری کی شرط کو ختم کر دیا گیا۔ اس شرط کو خاص طور پر زرداری کیلئے ختم کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما حافظ حسین احمد نے حال ہی میں برجستہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مذکورہ قانون سازی فرد واحد نے کی تھی اور اسے فرد واحد کیلئے ہی ختم کر دیا گیا“ جس وقت بیک جنبش قلم ا علیٰ عدلیہ کے تقریباً 60ججوں کو برطرف کیا گیا، ملک قیوم اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز تھے اور تب سے اب تک وہ معزول ججوں کی بحالی کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے رہے حتیٰ کہ اب بھی وہ اس معاملے پر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ زرداری کی جماعتوں کو بھی معلوم ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب ججوں کی بحالی کے معاملے پر زرداری ، نواز مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہوئے تو ملک قیوم نے بیان دیا کہ ججوں کو پارلیمینٹ کی قرارداد کے ذریعے بحال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موقف واضح طور پر معاہدہ مری اور مسلم لیگ (ن) کے موقف کے خلاف ہے تاہم ایوان صدر صرف اسی بات کو تسلیم کرتا ہے ملک قیوم اب بھی صدر کو بہترین قانونی امداد فراہم کر رہے ہیں تاہم تعلیمی قابلیت کی شرط کے خلاف سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے صدر پرویز کو ”آمر“ قرار دے دیا۔ موجودہ حالات میں اس قسم کے بیان کی اجازت ہے۔ فاروق نائیک ملک قیوم کو اعلیٰ عدلیہ میں قانونی معاملات سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں مشورے دیتے رہتے ہیں وہ بھی ایوان صدر کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے میں ہیں۔ اب یہ بات تو سب ہی کو معلوم ہے کہ فاروق نائیک بھی اس معاملے (ججوں کی بحالی) کی مخالفت کرتے رہے جس کی مخالفت ایوان صدر شدت کے ساتھ کر رہا تھا تاہم انہوں نے ایسا اپنے طور پر نہیں بلکہ اپنے سربراہ آصف علی زرداری کے کہنے پر کیا جو موجودہ حالات میں منفرد عملی شخصیت کے روپ میں ا بھر کر سامنے آئے ہیں۔ باخبر حلقوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یونیورسٹی ڈگری کی شرط ختم کئے جانے کے معاملے پر ایوان صدر تمام کارروائی میں شامل رہا۔ مذکورہ شرط کے خاتمے سے ایوان صدر کو اپنے امیج ا ور اس مختصر مخالفت کے سوا کچھ نہیں کھونا پڑا جو 2002ء میں مذکورہ شرط عائد کرنے پر انہیں برداشت کرنا پڑی تھی۔ چونکہ آصف زرداری نان گریجوایٹ تھے لہٰذا ایوان صدر کو ان کی سہولت کیلئے مذکورہ اقدام پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ایوان صدر کے ساتھ پی پی پی کا سب سے ٹھوس رابطہ رحمن ملک کے ذریعے ہے جو صدر کے سابقہ ساتھیوں کے بینظیر بھٹو اور دیگر پی پی پی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے خفیہ لیکن اعلیٰ سطحی مذاکرات میں برابر شریک رہے۔ یہ مذاکرات اکتوبر 2007ء میں بینظیر بھٹو کی وطن واپسی تک جاری رہے۔ مذاکرات کا عمل تقریباً دو سال سے زائد عرصہ تک جار ی رہا جس میں رحمن ملک کااہم کردار تھا۔ صدر مشرف کے اہم ترین ساتھی طارق عزیز بھی رحمن ملک کے ساتھ اپنے رابطوں کو اسی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جیسے وہ ماضی میں ہونے والے خفیہ مذاکرات میں رکھتے ہیں۔ رحمن ملک بینظیر بھٹو کے قابل اعتماد مشیروں میں شامل تھے جو زرداری کو وراثت میں ملے۔ اب آئندہ بھی یہی توقع ہے کہ رحمان ملک کو جو درجہ بینظیر کی زندگی میں حاصل تھا اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ جب ر حمن ملک کو مشیر برائے داخلہ امور تعینات کیا گیا تو انہوں نے کسی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تمام اعلیٰ تقرریاں بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں طے کر لی تھیں جنہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ کوئی بھی وزیر داخلہ نہیں ہو گا۔ کہانی یہی ختم نہیں ہو جاتی، رحمن ملک کے محکمے کے سیکرٹری سید کمال شاہ بھی صدر کے تعینات کردہ افراد میں شامل ہیں۔ جنہوں نے معزول ججوں کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹنے کیلئے جاری ہونے والے بہت سے کڑے احکامات جاری کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ بھی ایوان صدر کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔ درانی کو حال ہی میں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے عہدے سے ہٹا کر وزیراعظم کا مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کیا گیا ہے کچھ عرصہ قبل صدر کے ہمدرد ایک کالم نویس نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ زرداری نے رحمن ملک اور درانی کی تعیناتی ایوان صدر کی درخواست پر کی ہے۔ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج بھی بدستور اعلیٰ ترین خفیہ ادارے کی سربراہی کر رہے ہیں ان کا بھی صدر مشرف سے قریبی تعلق ہے اور صدر پرویز نے ہی انہیں اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔ آئی ایس آئی کا سربراہ وزیراعظم کے ماتحت ہوتا ہے۔ شدید سکڑاؤ کا شکار مشرف کیمپ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ناکام رہا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ صدارتی کیمپ غیرلچکدار رویہ رکھنے پر نوازشریف کیخلاف سخت بیانات جاری کرتاہے۔ صدارتی کیمپ کی کوشش ہے کہ نوازشریف کوحکمران اتحاد میں تنہا کرنے کے بعد آخرکار انہیں اس اتحاد سے باہر نکلوا دیا جائے۔ ماضی میں ایک بڑا اور طاقتو صدارتی کیمپ اب سکڑ کر مختصر ہو چکا ہے ماضی میں صدر کو انٹیلی جنس سروس کی جانب سے جو اہم سپورٹ دستیاب تھی وہ بھی اب ختم ہو چکی ہے تاہم صدر کے پرنسپل سیکرٹری محسن حفیظ اور طارق عزیز ہی اب وہ شخصیات جو صدر کو سیاسی معاملات پر مشورے دیتی ہیں اور تمام سیاسی سرگرمیاں صرف صدر کی مرضی سے انجام دیتی ہیں تاہم صدر کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) ایسے کسی بھی رابطے کی شدت کے ساتھ مخالف ہے تاہم صدر کے پی پی پی کی قیادت کے ساتھ زبردست روابط ہیں اور وہ مختلف معاملات پر ہونے والی تازہ ترین سرگرمیوں بارے باخبر رہتے ہیں اگرچہ شریف الدین پیرزادہ کو وزیراعظم کے سینئر مشیر کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن وہ بھی اٹارنی جنرل کے ذریعے صدر پرویز اور پی پی کی حکومت دونوں کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیلوں، بیوروکریٹس اور دیگر اعلیٰ سطحی ملازمین کی ایک طویل فہرست ہے جو صدر پرویزکے ہمدرد ہیں انہیں گزشتہ 8سالوں کے دوران ملازمتیں فراہم کی گئی تھیں اور یہ افراد موجودہ حکومت کے دور میں اپنے عہدوں پر موجود ہیں تاہم ان تمام حقائق کے باوجود زرداری پر الزام لگا ہے کہ بعض افراد ان کی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔

No comments: