International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, May 5, 2008

چیف جسٹس کے عہدے کی مد ت 3 سال کر نے کیلئے زرداری کو فضل الرحمن کی حمایت کی یقین دہانی


اسلام آباد: جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت مقرر کرنے کے سلسلے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔ اتوار کے روز معلوم ہوا کہ ”زرداری کی مختصر بریفنگ کے بعد فضل الرحمن نے ان کو اس وقت حیران کردیا جب انہوں نے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی حمایت کا یقین دلایا“۔ ایک اور نئی صورتحال یہ پیدا ہوئی ہے کہ انہوں (فضل الرحمن) نے زرداری کو کہا ہے کہ وہ ججوں کی بحالی کیلئے کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہ کریں کیونکہ آئینی اور قانونی مسائل پر سنجیدہ مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے فضل الرحمن سے ملاقات میں ججوں کے معاملے اور خاص طور پر چیف جسٹس کے عہدے کی مدت مقرر کرنے پر اپنے موقف میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی اگرچہ اس معاملے پر ان کی پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مسلسل مذاکرات میں مصروف ہے۔ عہدے کی تین سال مدت مقرر کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس سال جون میں ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ مسلم لیگ ن، وکلاء کمیونٹی اور سول سوسائٹی اس امر کے سخت خلاف ہیں۔ فضل الرحمن نے زرداری کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو رکوانے کیلئے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت مقرر کرنے کیلئے آگے بڑھنے کاعندیہ دیکر اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی حامی قوت ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ زرداری سے ملاقات کے دوران فضل الرحمن نے جو کچھ کہا وہ تھا ”سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال مقرر کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے“۔ زرداری نے بھی زیر غور تجویز کے بارے میں بتایا۔ ذرائع نے بتایا کہ ”جے یو آئی کے سربراہ نے زرداری کو بتایا ہے کہ ان کی پارٹی مجوزہ ترامیم کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی حمایت کرے گی لیکن بنیادی فارمولا یہ ہونا چاہئے کہ تمام پی سی او ججز بحال کردیئے جائیں یا معزول کردیئے جائیں لیکن آئینی ترامیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہونی چاہئے“۔ ذرائع نے بتایا کہ فضل الرحمن نے ججوں کی بحالی اور مجوزہ آئینی پیکیج پر مذاکرات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے چھوٹے اتحادیوں جے یو آئی اور اے این پی کو نظرانداز کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق فضل الرحمن نے زدراری کو کہا کہ ایک پارٹی کے ساتھ تمام معاملات پر فیصلے کرنے کے بعد ہمیں اعتماد میں لینا مناسب نہیں ہے تاہم انہوں نے تمام معاملات پر زرداری کی حمایت کی۔ فضل الرحمن نے زرداری کو بتایا کہ اگرچہ ان کی پارٹی پیپلز پارٹی کی حکومت کی حمایت کرنے پر قائل ہے لیکن باقاعدہ توثیق سے قبل قرارداد اور آئینی پیکیج کے مسودے کا جائزہ ضرور لیا جائے گا۔ ”ہماری پارٹی میں بھی آئینی ماہرین ہیں جن سے مشورہ کیا جا سکتا ہے“۔ تاہم زرداری نے آئینی ماہرین کو کمیٹی میں شامل کرنے کیلئے فضل الرحمن کو پیشکش کی نہ ہی انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا۔ ”اس طرح طریقہ کار طے کرنے کیلئے کام کرنے والی کمیٹی میں جے یو آئی (ف) اور اے این پی کا کوئی نمائندہ نہیں ہوگا“۔ جب مولانا فضل الرحمن نے ججوں کی بحالی کے معاملے پر ڈیڈ لائن کے بارے میں دریافت کیا تو زرداری نے مختصر سا جواب دیا ”ہم 12 مئی کے آس پاس رہیں گے“۔ ا جب جے یو آئی (ف) کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیانہونے والے مذاکرات کے عمل سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ”ہم قرارداد یا آئینی پیکیج پربلا سوچے سمجھے دستخط نہیں کریں گے“۔ انہوں نے کہا کہ ”اگرچہ نظرانداز کئے جانے پر ہمارے تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے کمیٹی میں شامل ہونے کا مطالبہ نہیں کیا“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم نے زرداری کو بتایا کہ اگر پی سی او ہی معیار ہے تو پھر تمام پی سی او ججوں کو سزا ملنی چاہئے یا پھر سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جانا چاہئے“۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قانونی اور آئینی مسائل کے باعث ان معاملات میں ڈیڈ لائن پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا۔

No comments: