International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, May 5, 2008

زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی؟ پرانا سوال، نئے پہلو

زمین پر زندگی کا آغاز آج سے ساڑھے تین ارب سال قبل ہوا
اس وقت زمین کا ماحول آج سے بے حد مختلف ‘ہر طرف سادہ نامیاتی مرکبات کی بھرمار اور فضا میں آکسیجن کی بجائے میتھین بھری تھی
اس وقت سائنس کے سامنے جو سب سے بڑے حل طلب سوالات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز آج سے تقریباً ساڑھے تین ارب سال قبل اس وقت ہوا جب زمین کا ماحول آج سے بے حد مختلف تھااور ہر طرف سادہ نامیاتی مرکبات کی بھرمار تھی اور فضا میں آکسیجن کی بجائے میتھین بھری تھی۔ اسی دوران کروڑوں برسوں پر محیط عرصے میں مختلف کیمیائی مادوں کے تعامل سے بے حد سادہ جینیاتی مادہ آر این اے پیدا ہوا جو آہستہ آہستہ ارتقائی منازل طے کر کے ایک خلیے والے جان دار میں تبدیل ہو گیا۔ یہ یک خلوی جاندار اربوں برس کی ارتقائی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اور ڈارون کے بیان کردہ’قدرتی چناؤ‘کے عمل سے گزرتا ہوا موجودہ دور کے بے حد پیچیدہ پودوں اور جانوروں کی شکل میں ڈھل گیا۔برطانیہ کے مشہور ماہرِ حیاتیات رچرڈ ڈاکنز نے اپنی کتاب ’پرکھوں کی داستانیں‘(The Ancestors Tales) میں ایسی 39 ممکنہ سیڑھیوں کا ذکر کیا ہے جن سے گزر کر بیکٹریا انسان بنا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر پائی جانے والی حیات کے مختلف النوع نمونے ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک ہی عظیم زنجیر کی کڑیاں ہیں جو حلقہ بہ حلقہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ آپ نے خبروں میں پڑھا ہو گا کہ سائنس دان مریخ اور نظامِ شمسی کے دوسرے سیاروں، حتیٰ کہ بعض سیاروں کے چاندوں پر بھی زندگی کے آثار کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ Search for Extraterrestrial Intelligence یا SETI نامی منصوبہ آسمان کی سمت نظریں جمائے بیٹھا ہے کہ کہیں سے کوئی ایسا ریڈیو سگنل مل جائے جس سے اندازہ ہو سکے کہ وہ کسی ذہین مخلوق نے نشر کیا ہے۔ لیکن اس پروگرام کو آج تک اس قسم کا کوئی سگنل نہیں ملا اور کوئی نہیں جانتا کہ آیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا دوسرے سیاروں پر بھی زندگی موجود ہے یا نہیں۔ تاہم اوپر بیان کردہ نوخیز زمین کے حالات کئی دوسرے سیاروں یا ان کے چاندوں پر ممکن ہیں۔ جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہاں بھی زندگی اسی طریقے سے وجود میں آ سکتی ہے جیسے زمین پر ظہور پذیر ہوئی تھی یا پھر زمین پر زندگی کا جنم اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھاجس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ہے؟ بظاہر تو ایسا نظر آتا ہے کہ جب تک زمین سے باہر کسی اور جگہ زندگی کا سراغ نہ ملے اس وقت تک اس سوال کا جواب دینا ناممکن ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ سٹیٹ یونی ورسٹی آف ایری زونا کے ماہرِ فلکیات پال ڈیویز کہتے ہیں کہ یہ کہنا عام رواج میں شامل ہو گیا ہے کہ زندگی کا ظہور فطری عمل ہے اور اس کا وجود میں آنا کوئی بڑی بات نہیںچناں چہ کائنات زندگی سے بھری پڑی ہے۔ درحقیقت کسی کو اس کا صحیح جواب معلوم نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ کائنات زندگی سے اٹی پڑی ہو، ہو سکتا ہے کہ ہم اکیلے ہوں، یا یہ بھی ممکن ہے کہ اصل صورتِ حال ان دو حالتوں کے بیچ میں کہیں ہو۔تاہم ڈیویز کہتے ہیں کہ ’کیا سازگار ماحول دستیاب ہونے کے بعد زندگی آسانی سے وجود میں آجاتی ہے؟کے سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں زمین سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، سائنس دان سمجھتے ہیں کہ دنیا میں پائی جانے والی تمام حیات کا سرچشمہ ایک ہی ہے یعنی تمام پودوں اور جانوروں، بشمول انسانوں، کا ماخذ ایک ہی ہے۔بات حیرت انگیز لگتی ہے۔ بظاہر دنیا کے جان دار ایک دوسرے سے انتہائی مختلف نظر آتے ہیں۔ بھلا ایک ٹی بی کے جرثومے، چیڑ کے درخت، گلاب کے پھول،ہاتھی اور کوئل میں کیا چیز مشترک ہو سکتی ہے؟لیکن یہ سارے اختلافات ظاہری ہیں۔ خلیے کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو تمام زندگی کے بنیادی کیمیائی تعاملات اور توانائی پیدا کرنے کے طریقے دنیا بھر میں یکساں ہیں اور سب سے بڑھ کر نسل کی تقسیم کے لیے سبھی ایک ہی جیسا ڈی این اے استعمال کرتے ہیں۔اسی دریافت کو بنیاد بناتے ہوئے مصنوعی طور انسان کے لیے طبی لحاظ سے اہم مرکبات تیارکیے جاتے ہیں۔ مثلاً آج کل ذیابیطس کے علاج کے لیے جو انسولین بنائی جاتی ہے اس کا جین انسانی ڈی این اے میں سے کاٹ کر بیکٹریا کے جین میں لگا دیا جاتا ہے اور بیکٹریا کی مشینری اسے اپنا جین سمجھ کر فٹافٹ انسولین بنانا شروع کر دیتی ہے۔ بیکٹریا کی تیار کردہ یہ انسانی انسولین دنیا بھر کی ادویات کی دکانوں پر دستیاب ہے اور اسے ذیابیطس کے کروڑوں مریض استعمال کرتے ہیں۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر زمین پر حالات اتنے ہی ساز گار تھے تو پھریہاں زندگی صرف ایک ہی بار کیوں پیدا ہوئی؟ زمین پر تو اسے کئی مختلف موقعوں پر نمودار ہونا چاہیئے تھا اور ان میں سے ہر قسم دوسروں سے اتنی مختلف ہوتی کہ اسے پہچانا جا سکتا۔ ڈیویز نے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں اسی بات کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر زندگی کا نمودار ہونا اتنا ہی آسان ہے تو پھر چاہیئے تھا کہ زندگی نے زمین پر کئی بار جنم لیا ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے جان داروں کی عظیم اکثریت خوردبینی ہے۔لیکن خوردبین سے دیکھنے کے بعد بھی ان کے جینیاتی مادے اور کیمیائی تعاملات کا پتا نہیں چلتا، اس مقصد کے لیے تفصیلی تجربات ضروری ہیں۔تاہم مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس پہلو سے کسی نے تحقیق نہیں کی تھی۔ اب کہیں جا کر ماہرینِ حیاتیات نے دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے خوردبینی جانوروں کے جینیاتی مادے کا جائزہ لینا شروع کیا ہے تاکہ اگر کہیں سے ’غیر‘جینیاتی مادے کا سراغ لگایا جا سکے، یعنی ایسا جینیاتی مادہ جو ہمارے ڈین این اے یا آر این اے کی طرح نہ ہو۔ اس کے علاوہ اس قسم کی زندگی کے دوسرے کیمیائی تعلاملات جانچنے کے لیے بھی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں کیوں کہ اس ’غیر‘زندگی کے تعاملات ہماری طرح کی زندگی کے تعلاملات سے یکسر مختلف ہوں گے۔ اگر ایسا کوئی جان دار دریافت ہو گیا تو اس سے کائنات میں زندگی کے وجود کے بارے میں ہمارے نظریات بدل جائیں گے اور یہ معلوم ہو جائے گا کہ ہم اس وسیع و عریض دنیا میں تنہا نہیں ہیں

No comments: