International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, May 28, 2008

توانائی کے شدید بحران کے باعث آئندہ بجٹ کے معاشی اہداف کا حصول مشکل ہے ، رپورٹ

اسلام آباد ۔ ملک میں توانائی کے شدید بحران کے نتیجے میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کے معاشی اہداف کا حصول ایک چیلنج ہوگا۔ایک رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت گزشتہ سات سال سے اوسطاً 7فیصد جبکہ صنعتی پیداوار12.5 فیصد سالانہ بڑھی۔ اس دوران بجلی کیطلب 13 اور گیس کی طلب میں12 فیصد سالانہ اضافہ ہوتا رہا۔گزشتہ دس سالوں کے دوران پن بجلی اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت نہ ہو سکے۔ حکومتی اعلانات کے باوجود کسی بڑے آبی منصوبے اور ایران بھارت گیس پائپ لائن پر عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔ سردیوں میں گیس پائپ لائنوں میں پریشر کی کمی معمول بن چکی ہے۔بجلی اور گیس کے بھاری بل ادا کرنے کے باوجو ان کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کو یومیہ 35سو میگا واٹ جبکہ کاروباری حلقے اس کمی کو5ہزار میگا واٹ قرار دیتے ہیں۔ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت سے چھوٹی صنعتوں کے ساتھ مختلف فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ۔صنعتی پیداوار کی کمی کے نتیجے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو رواں مالی سال کے ٹیکس وصولی کے ہدف پر نظر ثانی کر کے اسے 990ارب روپے تک کم کرنا پڑا۔ توانائی کی کمی پر برآمدی اہداف میں کمی کے ساتھ درآمدات‘ بجٹ اور تجارتی خساروں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ صنعتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اقتصادی اہداف کا حصول توانائی کے بحران پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں۔ اگلے تین سال کے دوران مکمل ہونے والے منصوبوں سے3 ہزار میگا واٹ بجلی دستیاب ہو گی جو بڑھتی ہوئی طلب اور لوڈ شیڈنگ میں کمی کی نظر ہو جائے گی جبکہ بجلی اور گیس کے نئے منصوبوں کی تکمیل کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ اس دوران پیٹرولیم کے ریکارڈ عالمی نرخوں پر اوگرا پر سوئی گیس اور فرنس آئل کی قیمت بڑھانے کا دباؤ موجود ہے جس سے تھرمل بجلی مزید مہنگی ہو سکتی ہے ۔ماہرین کے مطابق اگلے چار سال توانائی بحران کی صورتحال میں واضح تبدیلی کا امکان نہیں۔ عالمی ماہرین کے مطابق سب سے سستی اور محفوظ توانائی پن بجلی سے حاصل ہوتی ہے تاہم پاکستان میں یہ منصوبے سیاست کا شکار ہیں۔ توانائی کی طویل المدت پالیسی اور رسد میں اضافے کے بغیر نہ تو صارفین کو مطمئن کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کا خواب پورا کرنا ممکن ہے

No comments: