سیاسی جماعتیں عوام کو مایوس نہ کریں اور 30اپریل تک ہر صورت معزول ججز کو بحال کردیں۔ اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تووکلا لانگ مارچ نکالیں گے وکلاءکی منزل قریب آچکی ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی جماعتیں کبھی بھی یہ نہیں چاہتیں کہ عدلیہ کو مکمل طورپر آزاد کیا جائے یہ نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ دنیا بھر کے حکمران عدلیہ کو مکمل طورپر آزاد نہیں چاہتے کیونکہ وہ حکومت کو بے لگام گھوڑے کی طرح استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ ملک سے جاگیرداری سسٹم اور آمریت کے خلاف تحریک کو حتمی شکل دینا ہوگی تاکہ ملک میں قائم ناانصافی کو روکا جاسکے۔ ملک کی خوش قسمتی ہے کہ موجودہ حکومت نے معزول ججز کو بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ عدلیہ بحال ہو، عوام کاکہنا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اس وقت تسلیم کی جائے گی جب ججز کو بغیر کسی شرط پر بحال کیا جائے۔ ایسوسی ایٹد پریس سروس کے مطابق ججوں کی بحالی کے بعد آئینی پیکج کی حمایت ناگزیر ہے ۔ جبکہ پنجاب سے رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب دھرتی کے دوسرے بڑے سپوت لیڈر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ توڑنے والوں کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے،عوام نے تبدیلی کیلئے مینڈیٹ دیا اب تاخیر نہیں ہونی چاہیے،صدر کی موجود گی جمہوریت کیلئے خطرناک ہے، ایوان صدر کا مکین نہیں چاہتا کہ سیاستدان مل بیٹھیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو، عوام سیاست سے فوج کے کردار کے خاتمے کا دعا گو ہیں عوام میڈیا پر کوئی پابندی دیکھنا نہیں چاہتے، 30 اپریل کو 30دن پورے ہونے والے ہیں ججوں کی بحالی کے بعد آئینی پیکج کی حمایت کرینگے اس سے قبل قومی اسمبلی میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے قرار دادکی منظوری کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو آرڈر جاری ہونا بھی ضروری ہے۔ معزول ججوں کی صرف بحالی کافی نہیںعوام انہیں عملی طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی نیت پر کوئی شک شبہ نہیں۔ لیکن پی ایم ایل ن کے وزراء نے ملک کے وسیع تر مفاد میں صدر مشرف سے حلف لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کو توڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں نواز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ آمریت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اگر عدلیہ آزاد نہیں ہے تو سیاست دان، صحافی اور جمہوریت بھی آزاد نہیں ہوگی۔ یہ 70 اور 80 کی دہائی نہیں ہے اب وقت بدل گیاہے اور وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلی میں ہمیں بھی خود کو ڈھالنا ہوگا۔ جس نے بھی پاکستان کے ساتھ ذیادتی کی قانون اور آئین توڑا اسے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ عوام نے عام انتخابات میں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں اور آمریت کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ عوام تبدیلی کے انتظار میں ہیں اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اعلان مری کے مطابق ججوں کو بحال کرنا ہے اور 2 نومبر کی پوزیشن پر انہیں لانا ہے۔ اعلان مری میں ساری بات طے ہو چکی ہے۔ حکمرانوں نے 30 دن میں ایک قرار داد کے ذریعے جج بحال کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اعلان مری پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ وہ حکومت بنائیں اپنی ذات کیلئے کسی قسم کے کوئی مطالبات نہیں کیے لیکن صدر مشرف کے حوالے سے پی ایم ایل ن کے تحفظات تھے اس کے باوجود ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ان کے وزراء نے ان سے حلف لیا۔ اعلان مری کے تحت 30 اپریل تک ججوں کو نئی حکومت نے بحال کرنا ہے اور توقع ہے کہ اس سے پہلے پہلے اس سلسلے میں قرار داد آجائے گی لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ صرف قرار دادہی کافی نہیں ججوں کی بحالی کیلئے اسی وقت ایگزیکٹو آرڈر کا اجراء ہونا چاہیے اور ججوں کواپنی ذمہ داریاں سنبھال لینی چاہیں۔ اٹھاون ٹو بی کے استعمال کے حوالے سے اٹھاون ٹو بی کا استعمال کیوں ہوگا نئی حکومت جج بحال کر رہی ہے جنہیں گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا انہیں نکال تونہیں رہے جو اسمبلی ملک اور عوام کے مستقبل کو روشن کرنے کیلئے کام کر رہی ہے اسے توڑنے کا کیا جواز ہو گا۔عوام کو امید ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اعلان مری پر عمل کریں گے اور عوام کی توقعات پر پورے اتریں گے اور دعا کرتے ہیں کہ اتحادی حکومت قائم رہے ماضی کی دو متحارب جماعتیں جو اس وقت ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں کامیابی سے اپنی منزل تک پہنچیں، فوج اپنا کام کرے اور سیاست میں آنے سے گریز کرے۔ جن ججوں نے 2 نومبر کو حلف لینے سے انکار کیا تھا ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانی چاہیں۔ صدر کے وہی اختیارات ہونے چاہیں جو پارلیمانی جمہوریت میں ہوتے ہیں۔ نئے حکمرانوں کو عہد کرنا ہوگا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں اور آمریت کے ایجنٹ نہیں بنیں گے۔ صحافیوں نے ملک میں میڈیا کی آزادی اور بحالی جمہوریت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں ان کی جدوجہد پر انہیں سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عزت بھی کی جائے ۔ نئی حکومت نے بھی لاوارثوں کی طرح میڈیا کے لوگوں کو پارلیمنٹ کے سامنے دھوپ میں بٹھایا ہوتا ہے سابقہ حکومت میں ایسا نہیں تھا تمام ٹی وی چینلز کے کیمرے اندر جاتے رہے اور اپنا کا م کرتے رہے صرف حکومت کے آخری دنوں میں پابندی لگائی گئی ۔ اگر میڈیا کے کیمرے پارلیمنٹ کی چوکھٹ سے اندر نہیں جاسکتے تو موجودہ حکومت خواہ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کتنے ہی بلند بانگ دعو ے کیوں نہ کرے وہ سب فضول ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی،جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف اس بات کا نوٹس لیں پیمرا آرڈیننس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے عوام میڈیا پر پابندیوں کے حق میں نہیں ہیں جو بھی آئین قانون اور جمہوریت کے خلاف قدم اٹھائے اس پر ضرورتنقید ہونی چاہئے۔ جبکہ نواز شریف نے کہا ہے کہ ایوان صدر سے سازش ہورہی ہے اور سازشی لوگ بھی وہیں بیٹھے ہوئے ہیں شریف الدین پیر زادہ اورملک قیوم کتنے بڑے سازشی انسان ہیں پرویز مشرف نے خود سازش کر کے اس ملک میں قبضہ جمایا ہوا ہے اور ان کے اردگرد سازشی ٹولہ بیٹھا ہواہے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور مشرف ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ضمنی انتخاب کے حوالے سے سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا ہے کہ میں عوام سے پوچھ کر فیصلہ کرونگا ۔ پارلیمنٹ کو توڑنا اور آئین کی دھجیاں بکھیرنا ملک اور قوم کے ساتھ بغاوت ہے جوکہ ایسا جرم ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ توڑنے والوں کے ہاتھ توڑ دینے چاہئیں‘ عوام تو آئین اور دستور کے مطابق سب کو کام کرنا دیکھنا چاہتے ہیں‘ لہٰذ آئینی کام کرنے سے کیوں گھبرائیں‘ اگر ہم ہی ڈرگئے تو قوم آگے کیسے بڑھے گی۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ لوگوں کو آٹا ملے‘ بچے اسکول جائیں اور لوگوں کو انصاف ملے مگر جب انصاف دینے والے کرسیوں پر نہیں بیٹھیں گے تو انصاف کیسے ملے گا؟ یہ ساری چیزیں ادھوری رہ جائیں گی۔ ابھی پندرہ دن ہوئے ہیں کہ پنجاب حکومت بنی ہے مسائل پر قابو پانا ان کی ذمہ داری بنتی ہےاگرچہ آصف علی زرداری آئینی پیکیج لانا چاہتے ہیں لیکن پی ایم ایل ن نے کہا ہے کہ پہلے ججز کو قرارداد کے ذریعے بحال کرلیں اس کے بعد میثاق جمہوریت کے مطابق کام کریں گے اور آئینی پیکیج کی بھی حمایت کریں گے۔ ترقی ، تحفظ اور گڈ گورننس کی موثر پالیسی اور عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے،سیاسی استحکام پیدا کیے بغیر معاشی اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے،ملکی ترقی کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے،منتخب حکومت فنڈز جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کی جانچ پڑتال بھی کرے۔موجودہ مخلوط حکومت 18فروری کو غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے اور اس کو انتہائی سوچ سمجھ و ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہئے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔ پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جس کو انتہائی حکمت عملی اور دانشمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض ملک دشمن عناصر مسائل پیدا کر رہے ہیں اگر 30اپریل تک جج بحال نہ ہوئے تو لانگ مارچ کی کال دی جائے گی قومی اسمبلی کے اجلاس کا غیر متوقع طور پر غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونا باعث تشویش ہے کیونکہ اس اجلاس کو اعلان مری کے مطابق ججوں کی بحالی کیلئے بلایاگیا تھا۔ عوام کسی بھی مائینس ون یامائینس ٹو کے فارمولے کو قبول نہیں کرینگے۔ چیف جسٹس اور دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی مدت ملازمت کا تعین آئینی کے روح کے منافی ہے۔ وکلاءکسی ذاتی مفادکے لئے نہیں بلکہ ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی تحریک چلا رہے ہیں، اس لئے وکلاء متحد رہیں اور اپنی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔عدلیہ کی آزادی کیلئے جدوجہداستحکام پاکستان کی تحریک بن گئی ہے اس تحریک کی روشنی میں آزاد عدلیہ کی منزل قریب آچکی ہے ملک میں جاری حالیہ تحریک کوئی سیاسی تحریک نہیں نہ ہی اس کے کوئی سیاسی مقاصد ہیں۔ جبکہ عوام کا یہ پرزور مطالبہ ہے کہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ پی سی او ججوں کابھی مواخدہ کیاجائے جبکہ معزول ججوں کی بحالی حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے اگر معزول جج 30 اپریل تک بحال نہ ہوئے تو وہ اپنی تحریک کو دوبارہ شروع کردیں گے، چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت معزول کیے گئے60ججوں کی بحالی میں تین روز رہ گئے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس۔اے پی ایس۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Sunday, April 27, 2008
بے لگام گھوڑے ۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی
سیاسی جماعتیں عوام کو مایوس نہ کریں اور 30اپریل تک ہر صورت معزول ججز کو بحال کردیں۔ اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تووکلا لانگ مارچ نکالیں گے وکلاءکی منزل قریب آچکی ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی جماعتیں کبھی بھی یہ نہیں چاہتیں کہ عدلیہ کو مکمل طورپر آزاد کیا جائے یہ نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ دنیا بھر کے حکمران عدلیہ کو مکمل طورپر آزاد نہیں چاہتے کیونکہ وہ حکومت کو بے لگام گھوڑے کی طرح استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ ملک سے جاگیرداری سسٹم اور آمریت کے خلاف تحریک کو حتمی شکل دینا ہوگی تاکہ ملک میں قائم ناانصافی کو روکا جاسکے۔ ملک کی خوش قسمتی ہے کہ موجودہ حکومت نے معزول ججز کو بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ عدلیہ بحال ہو، عوام کاکہنا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اس وقت تسلیم کی جائے گی جب ججز کو بغیر کسی شرط پر بحال کیا جائے۔ ایسوسی ایٹد پریس سروس کے مطابق ججوں کی بحالی کے بعد آئینی پیکج کی حمایت ناگزیر ہے ۔ جبکہ پنجاب سے رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب دھرتی کے دوسرے بڑے سپوت لیڈر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ توڑنے والوں کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے،عوام نے تبدیلی کیلئے مینڈیٹ دیا اب تاخیر نہیں ہونی چاہیے،صدر کی موجود گی جمہوریت کیلئے خطرناک ہے، ایوان صدر کا مکین نہیں چاہتا کہ سیاستدان مل بیٹھیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو، عوام سیاست سے فوج کے کردار کے خاتمے کا دعا گو ہیں عوام میڈیا پر کوئی پابندی دیکھنا نہیں چاہتے، 30 اپریل کو 30دن پورے ہونے والے ہیں ججوں کی بحالی کے بعد آئینی پیکج کی حمایت کرینگے اس سے قبل قومی اسمبلی میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے قرار دادکی منظوری کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو آرڈر جاری ہونا بھی ضروری ہے۔ معزول ججوں کی صرف بحالی کافی نہیںعوام انہیں عملی طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی نیت پر کوئی شک شبہ نہیں۔ لیکن پی ایم ایل ن کے وزراء نے ملک کے وسیع تر مفاد میں صدر مشرف سے حلف لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کو توڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں نواز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ آمریت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اگر عدلیہ آزاد نہیں ہے تو سیاست دان، صحافی اور جمہوریت بھی آزاد نہیں ہوگی۔ یہ 70 اور 80 کی دہائی نہیں ہے اب وقت بدل گیاہے اور وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلی میں ہمیں بھی خود کو ڈھالنا ہوگا۔ جس نے بھی پاکستان کے ساتھ ذیادتی کی قانون اور آئین توڑا اسے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ عوام نے عام انتخابات میں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں اور آمریت کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ عوام تبدیلی کے انتظار میں ہیں اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اعلان مری کے مطابق ججوں کو بحال کرنا ہے اور 2 نومبر کی پوزیشن پر انہیں لانا ہے۔ اعلان مری میں ساری بات طے ہو چکی ہے۔ حکمرانوں نے 30 دن میں ایک قرار داد کے ذریعے جج بحال کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اعلان مری پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ وہ حکومت بنائیں اپنی ذات کیلئے کسی قسم کے کوئی مطالبات نہیں کیے لیکن صدر مشرف کے حوالے سے پی ایم ایل ن کے تحفظات تھے اس کے باوجود ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ان کے وزراء نے ان سے حلف لیا۔ اعلان مری کے تحت 30 اپریل تک ججوں کو نئی حکومت نے بحال کرنا ہے اور توقع ہے کہ اس سے پہلے پہلے اس سلسلے میں قرار داد آجائے گی لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ صرف قرار دادہی کافی نہیں ججوں کی بحالی کیلئے اسی وقت ایگزیکٹو آرڈر کا اجراء ہونا چاہیے اور ججوں کواپنی ذمہ داریاں سنبھال لینی چاہیں۔ اٹھاون ٹو بی کے استعمال کے حوالے سے اٹھاون ٹو بی کا استعمال کیوں ہوگا نئی حکومت جج بحال کر رہی ہے جنہیں گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا انہیں نکال تونہیں رہے جو اسمبلی ملک اور عوام کے مستقبل کو روشن کرنے کیلئے کام کر رہی ہے اسے توڑنے کا کیا جواز ہو گا۔عوام کو امید ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اعلان مری پر عمل کریں گے اور عوام کی توقعات پر پورے اتریں گے اور دعا کرتے ہیں کہ اتحادی حکومت قائم رہے ماضی کی دو متحارب جماعتیں جو اس وقت ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں کامیابی سے اپنی منزل تک پہنچیں، فوج اپنا کام کرے اور سیاست میں آنے سے گریز کرے۔ جن ججوں نے 2 نومبر کو حلف لینے سے انکار کیا تھا ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانی چاہیں۔ صدر کے وہی اختیارات ہونے چاہیں جو پارلیمانی جمہوریت میں ہوتے ہیں۔ نئے حکمرانوں کو عہد کرنا ہوگا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں اور آمریت کے ایجنٹ نہیں بنیں گے۔ صحافیوں نے ملک میں میڈیا کی آزادی اور بحالی جمہوریت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں ان کی جدوجہد پر انہیں سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عزت بھی کی جائے ۔ نئی حکومت نے بھی لاوارثوں کی طرح میڈیا کے لوگوں کو پارلیمنٹ کے سامنے دھوپ میں بٹھایا ہوتا ہے سابقہ حکومت میں ایسا نہیں تھا تمام ٹی وی چینلز کے کیمرے اندر جاتے رہے اور اپنا کا م کرتے رہے صرف حکومت کے آخری دنوں میں پابندی لگائی گئی ۔ اگر میڈیا کے کیمرے پارلیمنٹ کی چوکھٹ سے اندر نہیں جاسکتے تو موجودہ حکومت خواہ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کتنے ہی بلند بانگ دعو ے کیوں نہ کرے وہ سب فضول ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی،جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف اس بات کا نوٹس لیں پیمرا آرڈیننس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے عوام میڈیا پر پابندیوں کے حق میں نہیں ہیں جو بھی آئین قانون اور جمہوریت کے خلاف قدم اٹھائے اس پر ضرورتنقید ہونی چاہئے۔ جبکہ نواز شریف نے کہا ہے کہ ایوان صدر سے سازش ہورہی ہے اور سازشی لوگ بھی وہیں بیٹھے ہوئے ہیں شریف الدین پیر زادہ اورملک قیوم کتنے بڑے سازشی انسان ہیں پرویز مشرف نے خود سازش کر کے اس ملک میں قبضہ جمایا ہوا ہے اور ان کے اردگرد سازشی ٹولہ بیٹھا ہواہے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور مشرف ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ضمنی انتخاب کے حوالے سے سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا ہے کہ میں عوام سے پوچھ کر فیصلہ کرونگا ۔ پارلیمنٹ کو توڑنا اور آئین کی دھجیاں بکھیرنا ملک اور قوم کے ساتھ بغاوت ہے جوکہ ایسا جرم ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔ پارلیمنٹ توڑنے والوں کے ہاتھ توڑ دینے چاہئیں‘ عوام تو آئین اور دستور کے مطابق سب کو کام کرنا دیکھنا چاہتے ہیں‘ لہٰذ آئینی کام کرنے سے کیوں گھبرائیں‘ اگر ہم ہی ڈرگئے تو قوم آگے کیسے بڑھے گی۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ لوگوں کو آٹا ملے‘ بچے اسکول جائیں اور لوگوں کو انصاف ملے مگر جب انصاف دینے والے کرسیوں پر نہیں بیٹھیں گے تو انصاف کیسے ملے گا؟ یہ ساری چیزیں ادھوری رہ جائیں گی۔ ابھی پندرہ دن ہوئے ہیں کہ پنجاب حکومت بنی ہے مسائل پر قابو پانا ان کی ذمہ داری بنتی ہےاگرچہ آصف علی زرداری آئینی پیکیج لانا چاہتے ہیں لیکن پی ایم ایل ن نے کہا ہے کہ پہلے ججز کو قرارداد کے ذریعے بحال کرلیں اس کے بعد میثاق جمہوریت کے مطابق کام کریں گے اور آئینی پیکیج کی بھی حمایت کریں گے۔ ترقی ، تحفظ اور گڈ گورننس کی موثر پالیسی اور عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے،سیاسی استحکام پیدا کیے بغیر معاشی اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے،ملکی ترقی کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے،منتخب حکومت فنڈز جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کی جانچ پڑتال بھی کرے۔موجودہ مخلوط حکومت 18فروری کو غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے اور اس کو انتہائی سوچ سمجھ و ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہئے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔ پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جس کو انتہائی حکمت عملی اور دانشمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض ملک دشمن عناصر مسائل پیدا کر رہے ہیں اگر 30اپریل تک جج بحال نہ ہوئے تو لانگ مارچ کی کال دی جائے گی قومی اسمبلی کے اجلاس کا غیر متوقع طور پر غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونا باعث تشویش ہے کیونکہ اس اجلاس کو اعلان مری کے مطابق ججوں کی بحالی کیلئے بلایاگیا تھا۔ عوام کسی بھی مائینس ون یامائینس ٹو کے فارمولے کو قبول نہیں کرینگے۔ چیف جسٹس اور دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی مدت ملازمت کا تعین آئینی کے روح کے منافی ہے۔ وکلاءکسی ذاتی مفادکے لئے نہیں بلکہ ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی تحریک چلا رہے ہیں، اس لئے وکلاء متحد رہیں اور اپنی تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔عدلیہ کی آزادی کیلئے جدوجہداستحکام پاکستان کی تحریک بن گئی ہے اس تحریک کی روشنی میں آزاد عدلیہ کی منزل قریب آچکی ہے ملک میں جاری حالیہ تحریک کوئی سیاسی تحریک نہیں نہ ہی اس کے کوئی سیاسی مقاصد ہیں۔ جبکہ عوام کا یہ پرزور مطالبہ ہے کہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ پی سی او ججوں کابھی مواخدہ کیاجائے جبکہ معزول ججوں کی بحالی حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے اگر معزول جج 30 اپریل تک بحال نہ ہوئے تو وہ اپنی تحریک کو دوبارہ شروع کردیں گے، چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت معزول کیے گئے60ججوں کی بحالی میں تین روز رہ گئے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس۔اے پی ایس۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment