International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, April 28, 2008

ارب کے قر ضوں کی معافی ،اسٹیٹ بینک رپورٹ قو می اسمبلی میں پیش کر نے سے گر یزاں 54

اسلام آباد : سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افسر شاہی 1400 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہچکچا رہی ہے جس میں 60 ہزار بااثر سیاستدانوں، آرمی افسروں، غیر ملکی کمپنیوں اور کاروباری افراد کے نام شامل ہیں۔ ان افراد نے جنرل مشرف کے دور میں بینکوں سے 54 ارب روپے کے قرضے خاموشی سے معاف کرائے ہیں اور اس قومی لوٹ مار سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے افراد پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ موقع بڑا دلچسپ ہوگا جب یہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی کیونکہ اس لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والے بااثر افراد اپوزیشن بنچوں پر سب سے آگے ہوں گے۔ اس نئی صورتحال کا رسوا کن پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پہلے پیش کی تھی جہاں ایک ازخود نوٹس کے تحت ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے لوٹ مار کیخلاف سماعت جاری تھی لیکن پارلیمنٹ میں یہی رپورٹ مختلف حیلے بہانے بنا کر پیش نہیں کی جا رہی۔ اس بات نے ان لوگوں کو حیران کردیا ہے جو ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اس وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جب وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے پاس ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو بتا چکے ہیں کہ مرکزی بینک کو متعلقہ معلومات اکٹھا کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے کسی افسر نے نئے وزیر خزانہ کو نہیں بتایا کہ گزشتہ ماہ یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس ہچکچاہٹ نے اور بھی بہت افسروں کو حیران کردیا ہے اور وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے سٹیٹ بینک کو وہ رپورٹ پیش کرنے سے روک دیا جو پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں زیر غور جس میں شوکت عزیز حکومت کے بااثر افراد نے 54بلین روپے کے قرضے معاف کروائے تھے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے یہ قرضے سیاسی رشوت کے طور پر معاف کئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سٹیٹ بینک کے آڈٹ کے دوران اس سکینڈل کا انکشاف کیا۔ آڈٹ کے دوران معلوم ہوا کہ ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے واجب الادا 54 ارب روپے معاف کر دیئے گئے، جس میں ایک شوگر اور ایک گھی مل پنجاب اور بلوچستان کے وزراء کی ملکیت تھیں۔ ازخود نوٹس کے نتیجے میں سٹیٹ بینک کو ہدایت کی گئی کہ وہ قرض معاف کروانے والوں کے نام پیش کرے اور مرکزی بینک نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان بااثر شخصیات کے ناموں کی فہرست پیش کر دی تھی۔ نئی پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد رکن اسمبلی میاں ستار نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اسمبلی میں سوال کیا اور 1999ء تا 2008ء کے عرصے میں بینکوں سے قرضے معاف کروانے والوں کی فہرست طلب کی۔ اس سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے ہاؤس کو تحریری طور پر بتایا کہ سٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کو بتایا ہے کہ مطلوبہ معلومات کیونکہ مختلف بینکوں میں بکھری ہوئی ہیں اور 9 سال کے عرصے پر محیط ہے اور قرض لینے والوں کی فہرست بھی طویل ہے۔ ڈار نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے تمام معلومات جمع کرنے کیلئے مزید وقت مانگا ہے۔دستیاب دستاویز اس معاملے پر خاموش ہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کو قومی اسمبلی میں کیوں پیش نہیں کیا جا رہا ہے۔

No comments: