پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز تیس اپریل تک ججوں کو بحال کرنے کے پابند ہیں تیس اپریل تک تمام معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ ہر صورت پورا کیاجائے ۔حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں نے اس سلسلے میں اعلان مری پر دستخط کئے ہوئے ہیں اور آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں اس پر عمل کریں ۔ججوں کی بحالی کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہے ججوں کو فرد واحد پی سی او کے تحت اتار کر گھرو ںمیں نظر بند کر دیتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے اور پھر ان ججو ںکو بحا ل کرنے کیلئے اتنا بڑا پہاڑ عبور کرنا پڑے گا غیر قانونی اقدام کو قانونی بنانے کیلئے اتنی مشکلات اٹھانا کہاں کا قانون ہے ایسا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوم نے آمریت کے خاتمے اور عدلیہ کی بحالی کا مینڈیٹ دیا ہے اور وہ اس سے انحراف ناممکن ہے۔ 18فروری کو قوم کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ پر قائم رہنا ہوگا۔عوام اس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں کرنے دیں گے ۔ ججوں کی بحالی کی قرارداد اور آئینی پیکج دو الگ الگ معاملات ہیں ۔ یہ قرار داد ایسے ہی جائے گی جج بحال ہوں گے اور اس کے بعد چارٹر آف ڈیمو کریٹک پر مبنی ترامیم آئیں گی ۔ نئی حکومت کے کرتا دھرتا چارٹر آف ڈیمو کریٹک پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ جبکہ نواز شریف یہ بھی چاہتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی ہونی چاہیے اور یہ موزوں وقت ہے ۔ اگرحکومت نے عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔ عوام اس تاخیر کو اچھی نظرسے نہیں دیکھتے ۔ میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی دعا ہے کہ حکمران اتحاد برقرار رہے جب تک ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی نہ ملک کے مسائل حل ہو نگے نہ ہی امن قائم ہوگا آج دنیا بھر میں قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کے تحفظ کی بات ہورہی ہے اگر ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی تو سر مایہ کار بھی بلا خوف و خطر پاکستان میں سر مایہ کاری کرینگے کوئی بھی معاشرہ کفر کی حالت میں قائم تو رہ سکتا ہے لیکن ظلم کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے وکلاء کی جدو جہد کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان کے عوام نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ وکلاء کی جد و جہد ضرور کامیاب ہوگی اور قوم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا خواب جلد شر مندہ تعبیر ہوگا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججزکی دوبارہ بحا لی ناگزیر ہے عدلیہ بحال ہو اور عدلیہ کو آزاد عدلیہ بنایا جائے ۔ اگر نئی حکومت بھی عوام کے مسائل حل نہ کر سکی تو اس کا بھی اقتدار میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں جمہوری قوتوں کی کامیابی سے ہی ملک میں جمہوریت کو فروغ ملے گا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے کہا ہے کہ صدر نے ججز کو برطرف کرکے غلط کیا تھا اگر موجودہ حکومت عدلیہ کا بحران حل نہ کر سکی تو ہم قوم کو اس بحران سے نجات دلانے کیلئے قرارداد لائینگے ۔ ججز کی بحالی آئینی اور قانونی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے ‘ نواز شریف بھی اسی پر سیاست چمکا رہے ہیں وہ حکومت سے الگ نہیں ہونگے ۔ ملک میں نہ پہلے جمہوریت تھی نہ اب ہے جب تک حقیقی جمہوریت نہیں آتی 58ٹو بی کا اختیار صدر کے پاس رہنا چاہیے ۔اس کے خاتمے کی قرارداد آئی تو اس بارے میں سوچیں گے۔ حکومت نے ابھی تک ججز کی بحالی ‘ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو صدر بنانے ‘دس سالہ قیمتیں واپس لانے سمیت کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا ‘اب حکومت قو م سے معذرت کرے، جتنی مہنگائی ایک ماہ میں ہوئی ہے اتنی سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں بھی نہیں ہوئی اس ایک ماہ کے دوران پانچ ارب روپے کا منافع کس نے کمایاجلد قوم کو آگاہ کیا جائیگا ۔ اگر بلوچستان کے مسئلے پر ہمارے دور میں بنائی گئی کمیٹی کی 37سفارشات پر مکمل عملدرآمد کر لیا جاتا تو شاید اکبر بگٹی کی ہلاکت نہ ہوتی ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججز کو جس طرح نکالا گیا اور اب جس طرح حکومت نے سیکرٹری خارجہ امور ریاض احمد خان کو نکالا ہے دونوں طریقے غلط ہیں ۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے کہا تھا کہ ہم ایک ماہ میں ججز کو بحال کر دیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا جسکی وجہ سے قوم پریشان ہے اور ہم اسے مزید پریشان نہیں دیکھنا چاہتے ‘ اگر حکمرانوں نے ججز بحال نہ کئے تو ہم قرارداد لا کر قوم کو اس بحران سے نجات دلائینگے اور اسکا طریق کار جلد طے کر لینگے ۔ ا ہماری خواہش ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور اگر نواز شریف نے حکمران اتحاد کو چھوڑ دیا تو حکومت کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا گورنر اسٹیٹ بینک نے معیشت کے متعلق جو بیان دیا ہے وہ حکومتی دباو¿ کا حصہ ہے ‘صورتحال اسکے برعکس ہے ‘ پاکستان کی معیشت مضبوط ہے ۔ جن ممالک میں مکمل جمہوریت ہوتی ہے وہاں پر 58ٹو بی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں اس لئے یہ اختیار صدر کے پاس رہنا چاہیے ہم اسکے حق میں ہیں ۔ جبکہ مشاہد حسین نے کہا ہے کہ حکمران اتحاد نے وعدے کئے تھے کہ ڈاکٹر عبد القدیر کو صدر بنائینگے ‘ قیمتیں کم کریں گے اور ججز کو بحال کیا جائے گا لیکن اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا اور اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو قوم سے معذرت کر لے اور بتائے کہ انہیں حکومت میں آ کر پتہ چلا ہے کہ یہ سب کچھ ممکن نہیں ۔ سیکرٹری خارجہ ریاض احمد کو صرف اس وجہ سے نکالا گیا ہے کیونکہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی مخالفت کی تھی کیونکہ یہ تحقیقات پاکستان کے مفاد میں نہیں اور اس سے بیرونی مداخلت کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا جو خطرناک ہو سکتا ہے ۔ ہم نے قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کی حمایت اس لئے کی تھی کیونکہ بینظیر بھٹو کے قتل میں اپوزیشن لیڈر کا نام لیا جارہا تھا اوراسی وجہ سے ہم نے اسکی حمایت کی ۔ پاکستان ڈیفالٹر ہونے کی طرف نہیں جارہا اور ہمیں امید ہے کہ وزیر خزانہ قوم کو اصل حقائق بتائینگے لیکن اب معیشت کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہے ن لیگ والے پرویز مشرف کے ساتھ کھانے بھی کھاتے ہیں ‘ موسیقی بھی سنتے ہیں اور جب اتنا کچھ کرتے ہیں تو انہیں بیرونی ممالک کے دوروں پر بھی جانا چاہیے ملکی مسائل کا حل ڈنڈا یا آپریشن نہیں بلکہ مذاکرات ہیں اور ہماری حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سفارشات بھی تیار کی تھیں لیکن ان پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا‘ اب موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نئی کمیٹی کی سفارشات کیساتھ ہماری سفارشات پر بھی عمل کرے کیونکہ یہ ملک میں مفا د ہوگا ۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ وہ ججز کی بحالی کو آئینی و قانونی نہیں سمجھتے ہم ججز کی بحالی کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ اس بحران کو آئین اور قانون کے مطابق حل کیا جانا چاہئے اور اگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تو اس بحران کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔مشاہد حسین نے کہا کہ (ن) لیگ درحقیقت ایک علاقائی جماعت ہے جس کا ملک بھر میں کوئی وجود نہ ہے اور اس وقت (ن) لیگ حکمران اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ دونوں رہنماو¿ں نے کہا کہ اس ملک میں نہ تو پہلے جمہوریت ٹھیک تھی اور نہ ہی اب ٹھیک ہے ۔ انہوں نے کہا ہمارے دور میں کوئی بحران پیدا نہ ہوا اور ہم نے مہنگائی پر مکمل کنٹرول رکھا لیکن موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد صرف ایک ماہ میں اتنی مہنگائی بڑھی جتنی گذشتہ پانچ سالوں میں بھی نہ بڑھی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والا وقت عوام کے لئے کسی بڑے عذاب سے کم نہ ہوگا۔ موجودہ حکومت کو غلط بیانی کے علاوہ کوئی کام نہیں اور غلط اعدادوشمار پیش کئے جا رہے ہیں‘ایک دن آئے گا جب ورلڈ بینک کے نمائندے یہاں آکر کہیں گے کہ جو اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں وہ غلط ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معزول چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے انصاف کی فراہمی کے لئے سوموٹو کے تحت اپنے خلاف ایکشن لینے پر ملک کی ”مقدس گائیں“ نئے سیاسی حکمرانوں کو اس بات پر قائل کر چکی ہیں کہ ان کے طاقتور اور ظالموں کو عدالتوں میں بلانے کے اختیارات ختم کردیئے جائیں متعدد بڑی پیشکشوں اور کوششوں کے باوجود معزول چیف جسٹس کا اس عزم پر قائم رہنا کہ وہ کرپشن اور احتساب کے اہم معاملات کے حوالے سے کسی بھی سمجھوتے کے خلاف کارروائی کریں گے، کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویزمشرف مزید پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ معزول چیف جسٹس پارلیمینٹ کے اندر اور باہر بیٹھی ”مقدس گائیں“کو ہاتھ نہ لگائیں قانونی ماہرین کے مطابق معزول چیف جسٹس کو جون 2005 میں عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس مقرر کئے جانے کے بعد سے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویزمشرف کیوں ان سے خوفزدہ ہیں اور ان کی مدت ملازمت مختصر کرنے اور اختیارات ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں تاکہ اگر وہ بحال ہوں تو غیرفعال چیف جسٹس ہوں۔ قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس افتخار محمد چودھری نے عام لوگوں کے بنیادی مسائل پر سوموٹو نوٹسز لئے اور ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران بار بار اعلیٰ بیوروکریسی کو یاد کرایا کہ وہ بدعنوانی چھوڑ دیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ جسٹس افتخار کے طاقتور اسٹبلشمنٹ کے خلاف اسی رویئے کی وجہ سے انہیں بنیادی طور پر دو بار معطل کیا گیا ان قانونی دماغوں کے مطابق شوکت عزیز حکومت ”بگ باس“ جنرل (ر) پرویزمشرف کے اہل خانہ اور دوستوں کو نوازنے اختیارات منتقل کرنے اور سہولتیں دینے کے لئے کام کررہی تھی اس کی ایک بڑی مثال معمولی قیمت پر صدر کے رشتے داروں اور دوستوں کو معمولی قیمت پر سٹیل ملز کی نجکاری ہے سٹیل ملز اور دیگر اہم قومی اثاثوں کے خریداروں میں صدر پرویز کے علاوہ موجودہ حکمرانوں کے رشتے دار اور دوست بھی شامل ہیں ان قانونی ماہرین کے مطابق یہی حقیقت جسٹس افتخار چودھری اور قوم کے لئے بدقسمتی ثابت ہوئی اور پیپلزپارٹی کے معزول چیف جسٹس کی مدت ملازم مختصر کرنے اور سوموٹو اختیارات ختم کرنے کے بارے میں سخت موقف کی وجہ بنا۔ معزول چیف جسٹس کے دور میں سپریم کورٹ نے نہ صرف عام آدمی کے بنیادی مسائل سے براہ راست تعلق رکھنے والے ایشوز پر ازخود نوٹسز لئے بلکہ ہر قسم کا دباو¿ مسترد کرکے غیرجانبدارانہ تاریخی فیصلے کئے اور اسی باعث آمریت کے غصے کو دعوت دی جسٹس افتخار محد چودھری کی طرف سے ازخود نوٹس لئے جانے والے چند مقدمات کی تفصیل درج ذیل ہے اور جو آصف علی زرداری کو معزول چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پتنگ بازی کی وجہ سے لاہور سمیت مختلف شہروں میں مسلسل انسانی اور مالی نقصان کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا۔ پتنگ بازی کی تقاریب میں پرویزمشرف بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے اور پتنگ اڑانے بنانے اور اس کی خرید و فروخت پر 25اکتوبر 2005 کو مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ سپریم کورٹ نے یہ کارروائی ڈور پھرنے کے باعث متعدد انسانی ہلاکتوں کے واقعات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کی اور بعض قانونی ماہرین کے خیال میں یہ پہلا بڑا کیس تھا جو حکمرانوں کے غصے کا باعث بنا۔8اکتوبر 2007ء کو معزول چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے حکام کو اسلام آباد کے مضافات میں چک شہزادمیں ان تمام فارموں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی ہدایت کی جنہیں رہائشی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا ان فارمز کو 2003ء میں بااثرشخصیات نے معمولی قیمت پر جڑواں شہروں کی سبزیوں کی ضروریات پورا کرنے کے مقاصد سے خریدا تھا۔ ان فارم ہاو¿سوں کے الاٹیوں میں صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی شامل تھے اور تخمینے کے مطابق ان فارم ہاو¿سوں کی قیمت کھربوں روپے تھی جو ایک غریب قوم کے ساتھ سنگین مذاق تھا اور3 نومبر کے بعد آنیوالی عدلیہ نے جو پہلا فیصلہ کیا وہ یہ تھا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سابق احکامات کالعدم قرار دیدیئے۔ جسٹس افتخار نے ملک بھر سے سینکڑوں لاپتہ افراد کی شکایات پر ازخود نوٹس لیا ان لاپتہ افراد کو خفیہ ایجنسیوں نے مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اٹھایا تھا اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کا یہ موقف تھا کہ یہ افراد جن کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور ان افراد کو جیل میں رکھ کر ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے عدالت عظمیٰ صرف یہ چاہتی تھی کہ ایسے افراد منظر عام پر آئیں تاکہ ان کے اہل خانہ کو ان کے متعلق علم ہو سکے۔ معزول چیف جسٹس نے مشرف حکومت کے حمایت یافتہ لینڈ مافیا کے سربراہ شاہ شربیل کی طرف سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں کچی آبادی زبردستی خالی کرانے اور ایک پبلک پارک کو تجارتی منصوبے میں بدلنے کی کوششوں پر بھی ازخود نوٹس لیا اور جسٹس افتخار کے احکامات پر وہاں رہائشی غریب معزول چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کیلئے دعا گو رہے۔ 5 اپریل 2005ء کو عدالت عظمیٰ نے سٹیٹ بینک کو صارفین کے تحفظ کے حوالے سے گائیڈ لائنز دیں جس کے نتیجے میں یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے ملک بھر میں بینکوں کے باہر شیڈز بھی تعمیر کئے گئے۔ 14 اپریل 2006ء کو سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو گلبرگ کے ایک پارک (ڈونگی گراو¿نڈ) کو کمرشل کرنے اور وہاں کام کرنے سے روک دیا۔ حکومت کا وہاں ایک کمپنی کو پلازہ اور سینما بنانے کی اجازت دینے کا ارادہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے سی ڈی اے کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف میں ایک پبلک پارک کو گالف گراو¿نڈ میں بدلنے کے کام سے روک دیا اس منصوبے کی تکمیل سے صرف چند رئیس افراد کو فائدہ ہونا تھا جبکہ علاقے کے رہائشیوں نے بچوں کیلئے موجود واحد پارک سے محروم ہو جانا تھا۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن میں فاطمہ جناح پارک میں ایک عالمی ادارے کے ریسٹورنٹ کی تعمیر بھی رکوا دی جس سے لوگوں نے شہر کے واحد بڑے پارک کے بڑے حصے سے محروم ہو جانا تھا یہ کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔ یکم جون 2006ء کو سپریم کورٹ نے پیمرا کے سربراہ کو ایک آرکیڈ کا غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا حکم دیا پولیس قانونی مالکوں کی طرف سے شکایات درج کروانے کے باوجود خاموش تماشائی تھی۔ جولائی 2007ء میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو بااثر لینڈ مافیا کی طرف سے لاہور میں تعمیر کی جانیوالی کثیرالمنزلہ عمارت گرانے کا بھی حکم دیا۔ 14ستمبر 2006ءکو سپریم کورٹ نے کراچی سٹی گورنمنٹ کی یہ اپیل مسترد کردی جس میں اس نے کراچی کی چھ اہم سڑکوں پر کمرشل پلاٹ بنانے کی پابندی معطل کرنے کی درخواست کی تھی سندھ حکومت نے عوام نے ججز کی بحالی میں تاخیر اور خصوصاً چیف جسٹس کی مدت ملازمت کم کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اگرچہ میاں نواز شریف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ تمام ججز کی بحالی اعلان مری کے مطابق ہو گی اور اگر ہم قوم سے کیا گیا وعدہ پورا نہ کر سکے تو ہمیں حکومت میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہوگا ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افسر شاہی 1400 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہچکچا رہی ہے جس میں 60 ہزار بااثر سیاستدانوں، آرمی افسروں، غیر ملکی کمپنیوں اور کاروباری افراد کے نام شامل ہیں۔ ان افراد نے جنرل مشرف کے دور میں بینکوں سے 54 ارب روپے کے قرضے خاموشی سے معاف کرائے ہیں اور اس قومی لوٹ مار سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے افراد پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ موقع بڑا دلچسپ ہوگا جب یہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی کیونکہ اس لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والے بااثر افراد اپوزیشن بنچوں پر سب سے آگے ہوں گے۔ اس نئی صورتحال کا رسوا کن پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پہلے پیش کی تھی جہاں ایک ازخود نوٹس کے تحت ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے لوٹ مار کیخلاف سماعت جاری تھی لیکن پارلیمنٹ میں یہی رپورٹ مختلف حیلے بہانے بنا کر پیش نہیں کی جا رہی۔ اس بات نے ان لوگوں کو حیران کردیا ہے جو ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اس وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جب وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے پاس ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو بتا چکے ہیں کہ مرکزی بینک کو متعلقہ معلومات اکٹھا کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے کسی افسر نے نئے وزیر خزانہ کو نہیں بتایا کہ گزشتہ ماہ یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس ہچکچاہٹ نے اور بھی بہت افسروں کو حیران کردیا ہے اور وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے سٹیٹ بینک کو وہ رپورٹ پیش کرنے سے روک دیا جو پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Monday, April 28, 2008
ججز کی بحالی میں تاخیر۔۔۔۔۔ عوام کے شدید تحفظات تحریر چودھری احسن پریمی
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز تیس اپریل تک ججوں کو بحال کرنے کے پابند ہیں تیس اپریل تک تمام معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ ہر صورت پورا کیاجائے ۔حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں نے اس سلسلے میں اعلان مری پر دستخط کئے ہوئے ہیں اور آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں اس پر عمل کریں ۔ججوں کی بحالی کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہے ججوں کو فرد واحد پی سی او کے تحت اتار کر گھرو ںمیں نظر بند کر دیتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے اور پھر ان ججو ںکو بحا ل کرنے کیلئے اتنا بڑا پہاڑ عبور کرنا پڑے گا غیر قانونی اقدام کو قانونی بنانے کیلئے اتنی مشکلات اٹھانا کہاں کا قانون ہے ایسا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوم نے آمریت کے خاتمے اور عدلیہ کی بحالی کا مینڈیٹ دیا ہے اور وہ اس سے انحراف ناممکن ہے۔ 18فروری کو قوم کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ پر قائم رہنا ہوگا۔عوام اس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں کرنے دیں گے ۔ ججوں کی بحالی کی قرارداد اور آئینی پیکج دو الگ الگ معاملات ہیں ۔ یہ قرار داد ایسے ہی جائے گی جج بحال ہوں گے اور اس کے بعد چارٹر آف ڈیمو کریٹک پر مبنی ترامیم آئیں گی ۔ نئی حکومت کے کرتا دھرتا چارٹر آف ڈیمو کریٹک پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ جبکہ نواز شریف یہ بھی چاہتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی ہونی چاہیے اور یہ موزوں وقت ہے ۔ اگرحکومت نے عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔ عوام اس تاخیر کو اچھی نظرسے نہیں دیکھتے ۔ میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی دعا ہے کہ حکمران اتحاد برقرار رہے جب تک ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی نہ ملک کے مسائل حل ہو نگے نہ ہی امن قائم ہوگا آج دنیا بھر میں قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کے تحفظ کی بات ہورہی ہے اگر ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی تو سر مایہ کار بھی بلا خوف و خطر پاکستان میں سر مایہ کاری کرینگے کوئی بھی معاشرہ کفر کی حالت میں قائم تو رہ سکتا ہے لیکن ظلم کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے وکلاء کی جدو جہد کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان کے عوام نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ وکلاء کی جد و جہد ضرور کامیاب ہوگی اور قوم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا خواب جلد شر مندہ تعبیر ہوگا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججزکی دوبارہ بحا لی ناگزیر ہے عدلیہ بحال ہو اور عدلیہ کو آزاد عدلیہ بنایا جائے ۔ اگر نئی حکومت بھی عوام کے مسائل حل نہ کر سکی تو اس کا بھی اقتدار میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں جمہوری قوتوں کی کامیابی سے ہی ملک میں جمہوریت کو فروغ ملے گا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے کہا ہے کہ صدر نے ججز کو برطرف کرکے غلط کیا تھا اگر موجودہ حکومت عدلیہ کا بحران حل نہ کر سکی تو ہم قوم کو اس بحران سے نجات دلانے کیلئے قرارداد لائینگے ۔ ججز کی بحالی آئینی اور قانونی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے ‘ نواز شریف بھی اسی پر سیاست چمکا رہے ہیں وہ حکومت سے الگ نہیں ہونگے ۔ ملک میں نہ پہلے جمہوریت تھی نہ اب ہے جب تک حقیقی جمہوریت نہیں آتی 58ٹو بی کا اختیار صدر کے پاس رہنا چاہیے ۔اس کے خاتمے کی قرارداد آئی تو اس بارے میں سوچیں گے۔ حکومت نے ابھی تک ججز کی بحالی ‘ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو صدر بنانے ‘دس سالہ قیمتیں واپس لانے سمیت کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا ‘اب حکومت قو م سے معذرت کرے، جتنی مہنگائی ایک ماہ میں ہوئی ہے اتنی سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں بھی نہیں ہوئی اس ایک ماہ کے دوران پانچ ارب روپے کا منافع کس نے کمایاجلد قوم کو آگاہ کیا جائیگا ۔ اگر بلوچستان کے مسئلے پر ہمارے دور میں بنائی گئی کمیٹی کی 37سفارشات پر مکمل عملدرآمد کر لیا جاتا تو شاید اکبر بگٹی کی ہلاکت نہ ہوتی ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججز کو جس طرح نکالا گیا اور اب جس طرح حکومت نے سیکرٹری خارجہ امور ریاض احمد خان کو نکالا ہے دونوں طریقے غلط ہیں ۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے کہا تھا کہ ہم ایک ماہ میں ججز کو بحال کر دیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا جسکی وجہ سے قوم پریشان ہے اور ہم اسے مزید پریشان نہیں دیکھنا چاہتے ‘ اگر حکمرانوں نے ججز بحال نہ کئے تو ہم قرارداد لا کر قوم کو اس بحران سے نجات دلائینگے اور اسکا طریق کار جلد طے کر لینگے ۔ ا ہماری خواہش ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور اگر نواز شریف نے حکمران اتحاد کو چھوڑ دیا تو حکومت کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا گورنر اسٹیٹ بینک نے معیشت کے متعلق جو بیان دیا ہے وہ حکومتی دباو¿ کا حصہ ہے ‘صورتحال اسکے برعکس ہے ‘ پاکستان کی معیشت مضبوط ہے ۔ جن ممالک میں مکمل جمہوریت ہوتی ہے وہاں پر 58ٹو بی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں اس لئے یہ اختیار صدر کے پاس رہنا چاہیے ہم اسکے حق میں ہیں ۔ جبکہ مشاہد حسین نے کہا ہے کہ حکمران اتحاد نے وعدے کئے تھے کہ ڈاکٹر عبد القدیر کو صدر بنائینگے ‘ قیمتیں کم کریں گے اور ججز کو بحال کیا جائے گا لیکن اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا اور اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو قوم سے معذرت کر لے اور بتائے کہ انہیں حکومت میں آ کر پتہ چلا ہے کہ یہ سب کچھ ممکن نہیں ۔ سیکرٹری خارجہ ریاض احمد کو صرف اس وجہ سے نکالا گیا ہے کیونکہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی مخالفت کی تھی کیونکہ یہ تحقیقات پاکستان کے مفاد میں نہیں اور اس سے بیرونی مداخلت کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا جو خطرناک ہو سکتا ہے ۔ ہم نے قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کی حمایت اس لئے کی تھی کیونکہ بینظیر بھٹو کے قتل میں اپوزیشن لیڈر کا نام لیا جارہا تھا اوراسی وجہ سے ہم نے اسکی حمایت کی ۔ پاکستان ڈیفالٹر ہونے کی طرف نہیں جارہا اور ہمیں امید ہے کہ وزیر خزانہ قوم کو اصل حقائق بتائینگے لیکن اب معیشت کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہے ن لیگ والے پرویز مشرف کے ساتھ کھانے بھی کھاتے ہیں ‘ موسیقی بھی سنتے ہیں اور جب اتنا کچھ کرتے ہیں تو انہیں بیرونی ممالک کے دوروں پر بھی جانا چاہیے ملکی مسائل کا حل ڈنڈا یا آپریشن نہیں بلکہ مذاکرات ہیں اور ہماری حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سفارشات بھی تیار کی تھیں لیکن ان پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا‘ اب موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نئی کمیٹی کی سفارشات کیساتھ ہماری سفارشات پر بھی عمل کرے کیونکہ یہ ملک میں مفا د ہوگا ۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ وہ ججز کی بحالی کو آئینی و قانونی نہیں سمجھتے ہم ججز کی بحالی کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ اس بحران کو آئین اور قانون کے مطابق حل کیا جانا چاہئے اور اگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تو اس بحران کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔مشاہد حسین نے کہا کہ (ن) لیگ درحقیقت ایک علاقائی جماعت ہے جس کا ملک بھر میں کوئی وجود نہ ہے اور اس وقت (ن) لیگ حکمران اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ دونوں رہنماو¿ں نے کہا کہ اس ملک میں نہ تو پہلے جمہوریت ٹھیک تھی اور نہ ہی اب ٹھیک ہے ۔ انہوں نے کہا ہمارے دور میں کوئی بحران پیدا نہ ہوا اور ہم نے مہنگائی پر مکمل کنٹرول رکھا لیکن موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد صرف ایک ماہ میں اتنی مہنگائی بڑھی جتنی گذشتہ پانچ سالوں میں بھی نہ بڑھی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والا وقت عوام کے لئے کسی بڑے عذاب سے کم نہ ہوگا۔ موجودہ حکومت کو غلط بیانی کے علاوہ کوئی کام نہیں اور غلط اعدادوشمار پیش کئے جا رہے ہیں‘ایک دن آئے گا جب ورلڈ بینک کے نمائندے یہاں آکر کہیں گے کہ جو اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں وہ غلط ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معزول چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے انصاف کی فراہمی کے لئے سوموٹو کے تحت اپنے خلاف ایکشن لینے پر ملک کی ”مقدس گائیں“ نئے سیاسی حکمرانوں کو اس بات پر قائل کر چکی ہیں کہ ان کے طاقتور اور ظالموں کو عدالتوں میں بلانے کے اختیارات ختم کردیئے جائیں متعدد بڑی پیشکشوں اور کوششوں کے باوجود معزول چیف جسٹس کا اس عزم پر قائم رہنا کہ وہ کرپشن اور احتساب کے اہم معاملات کے حوالے سے کسی بھی سمجھوتے کے خلاف کارروائی کریں گے، کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویزمشرف مزید پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ معزول چیف جسٹس پارلیمینٹ کے اندر اور باہر بیٹھی ”مقدس گائیں“کو ہاتھ نہ لگائیں قانونی ماہرین کے مطابق معزول چیف جسٹس کو جون 2005 میں عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس مقرر کئے جانے کے بعد سے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویزمشرف کیوں ان سے خوفزدہ ہیں اور ان کی مدت ملازمت مختصر کرنے اور اختیارات ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں تاکہ اگر وہ بحال ہوں تو غیرفعال چیف جسٹس ہوں۔ قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس افتخار محمد چودھری نے عام لوگوں کے بنیادی مسائل پر سوموٹو نوٹسز لئے اور ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران بار بار اعلیٰ بیوروکریسی کو یاد کرایا کہ وہ بدعنوانی چھوڑ دیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ جسٹس افتخار کے طاقتور اسٹبلشمنٹ کے خلاف اسی رویئے کی وجہ سے انہیں بنیادی طور پر دو بار معطل کیا گیا ان قانونی دماغوں کے مطابق شوکت عزیز حکومت ”بگ باس“ جنرل (ر) پرویزمشرف کے اہل خانہ اور دوستوں کو نوازنے اختیارات منتقل کرنے اور سہولتیں دینے کے لئے کام کررہی تھی اس کی ایک بڑی مثال معمولی قیمت پر صدر کے رشتے داروں اور دوستوں کو معمولی قیمت پر سٹیل ملز کی نجکاری ہے سٹیل ملز اور دیگر اہم قومی اثاثوں کے خریداروں میں صدر پرویز کے علاوہ موجودہ حکمرانوں کے رشتے دار اور دوست بھی شامل ہیں ان قانونی ماہرین کے مطابق یہی حقیقت جسٹس افتخار چودھری اور قوم کے لئے بدقسمتی ثابت ہوئی اور پیپلزپارٹی کے معزول چیف جسٹس کی مدت ملازم مختصر کرنے اور سوموٹو اختیارات ختم کرنے کے بارے میں سخت موقف کی وجہ بنا۔ معزول چیف جسٹس کے دور میں سپریم کورٹ نے نہ صرف عام آدمی کے بنیادی مسائل سے براہ راست تعلق رکھنے والے ایشوز پر ازخود نوٹسز لئے بلکہ ہر قسم کا دباو¿ مسترد کرکے غیرجانبدارانہ تاریخی فیصلے کئے اور اسی باعث آمریت کے غصے کو دعوت دی جسٹس افتخار محد چودھری کی طرف سے ازخود نوٹس لئے جانے والے چند مقدمات کی تفصیل درج ذیل ہے اور جو آصف علی زرداری کو معزول چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پتنگ بازی کی وجہ سے لاہور سمیت مختلف شہروں میں مسلسل انسانی اور مالی نقصان کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا۔ پتنگ بازی کی تقاریب میں پرویزمشرف بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے اور پتنگ اڑانے بنانے اور اس کی خرید و فروخت پر 25اکتوبر 2005 کو مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ سپریم کورٹ نے یہ کارروائی ڈور پھرنے کے باعث متعدد انسانی ہلاکتوں کے واقعات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کی اور بعض قانونی ماہرین کے خیال میں یہ پہلا بڑا کیس تھا جو حکمرانوں کے غصے کا باعث بنا۔8اکتوبر 2007ء کو معزول چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے حکام کو اسلام آباد کے مضافات میں چک شہزادمیں ان تمام فارموں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی ہدایت کی جنہیں رہائشی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا ان فارمز کو 2003ء میں بااثرشخصیات نے معمولی قیمت پر جڑواں شہروں کی سبزیوں کی ضروریات پورا کرنے کے مقاصد سے خریدا تھا۔ ان فارم ہاو¿سوں کے الاٹیوں میں صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی شامل تھے اور تخمینے کے مطابق ان فارم ہاو¿سوں کی قیمت کھربوں روپے تھی جو ایک غریب قوم کے ساتھ سنگین مذاق تھا اور3 نومبر کے بعد آنیوالی عدلیہ نے جو پہلا فیصلہ کیا وہ یہ تھا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سابق احکامات کالعدم قرار دیدیئے۔ جسٹس افتخار نے ملک بھر سے سینکڑوں لاپتہ افراد کی شکایات پر ازخود نوٹس لیا ان لاپتہ افراد کو خفیہ ایجنسیوں نے مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اٹھایا تھا اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کا یہ موقف تھا کہ یہ افراد جن کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور ان افراد کو جیل میں رکھ کر ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے عدالت عظمیٰ صرف یہ چاہتی تھی کہ ایسے افراد منظر عام پر آئیں تاکہ ان کے اہل خانہ کو ان کے متعلق علم ہو سکے۔ معزول چیف جسٹس نے مشرف حکومت کے حمایت یافتہ لینڈ مافیا کے سربراہ شاہ شربیل کی طرف سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں کچی آبادی زبردستی خالی کرانے اور ایک پبلک پارک کو تجارتی منصوبے میں بدلنے کی کوششوں پر بھی ازخود نوٹس لیا اور جسٹس افتخار کے احکامات پر وہاں رہائشی غریب معزول چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کیلئے دعا گو رہے۔ 5 اپریل 2005ء کو عدالت عظمیٰ نے سٹیٹ بینک کو صارفین کے تحفظ کے حوالے سے گائیڈ لائنز دیں جس کے نتیجے میں یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے ملک بھر میں بینکوں کے باہر شیڈز بھی تعمیر کئے گئے۔ 14 اپریل 2006ء کو سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو گلبرگ کے ایک پارک (ڈونگی گراو¿نڈ) کو کمرشل کرنے اور وہاں کام کرنے سے روک دیا۔ حکومت کا وہاں ایک کمپنی کو پلازہ اور سینما بنانے کی اجازت دینے کا ارادہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے سی ڈی اے کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف میں ایک پبلک پارک کو گالف گراو¿نڈ میں بدلنے کے کام سے روک دیا اس منصوبے کی تکمیل سے صرف چند رئیس افراد کو فائدہ ہونا تھا جبکہ علاقے کے رہائشیوں نے بچوں کیلئے موجود واحد پارک سے محروم ہو جانا تھا۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن میں فاطمہ جناح پارک میں ایک عالمی ادارے کے ریسٹورنٹ کی تعمیر بھی رکوا دی جس سے لوگوں نے شہر کے واحد بڑے پارک کے بڑے حصے سے محروم ہو جانا تھا یہ کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔ یکم جون 2006ء کو سپریم کورٹ نے پیمرا کے سربراہ کو ایک آرکیڈ کا غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا حکم دیا پولیس قانونی مالکوں کی طرف سے شکایات درج کروانے کے باوجود خاموش تماشائی تھی۔ جولائی 2007ء میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو بااثر لینڈ مافیا کی طرف سے لاہور میں تعمیر کی جانیوالی کثیرالمنزلہ عمارت گرانے کا بھی حکم دیا۔ 14ستمبر 2006ءکو سپریم کورٹ نے کراچی سٹی گورنمنٹ کی یہ اپیل مسترد کردی جس میں اس نے کراچی کی چھ اہم سڑکوں پر کمرشل پلاٹ بنانے کی پابندی معطل کرنے کی درخواست کی تھی سندھ حکومت نے عوام نے ججز کی بحالی میں تاخیر اور خصوصاً چیف جسٹس کی مدت ملازمت کم کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اگرچہ میاں نواز شریف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ تمام ججز کی بحالی اعلان مری کے مطابق ہو گی اور اگر ہم قوم سے کیا گیا وعدہ پورا نہ کر سکے تو ہمیں حکومت میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہوگا ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افسر شاہی 1400 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہچکچا رہی ہے جس میں 60 ہزار بااثر سیاستدانوں، آرمی افسروں، غیر ملکی کمپنیوں اور کاروباری افراد کے نام شامل ہیں۔ ان افراد نے جنرل مشرف کے دور میں بینکوں سے 54 ارب روپے کے قرضے خاموشی سے معاف کرائے ہیں اور اس قومی لوٹ مار سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے افراد پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ موقع بڑا دلچسپ ہوگا جب یہ رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی کیونکہ اس لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والے بااثر افراد اپوزیشن بنچوں پر سب سے آگے ہوں گے۔ اس نئی صورتحال کا رسوا کن پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پہلے پیش کی تھی جہاں ایک ازخود نوٹس کے تحت ملک کی مقدس گائیوں کی طرف سے لوٹ مار کیخلاف سماعت جاری تھی لیکن پارلیمنٹ میں یہی رپورٹ مختلف حیلے بہانے بنا کر پیش نہیں کی جا رہی۔ اس بات نے ان لوگوں کو حیران کردیا ہے جو ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اس وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے جب وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے پاس ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو بتا چکے ہیں کہ مرکزی بینک کو متعلقہ معلومات اکٹھا کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے کسی افسر نے نئے وزیر خزانہ کو نہیں بتایا کہ گزشتہ ماہ یہی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس ہچکچاہٹ نے اور بھی بہت افسروں کو حیران کردیا ہے اور وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے سٹیٹ بینک کو وہ رپورٹ پیش کرنے سے روک دیا جو پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment