International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, April 28, 2008

طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف افتخار کے اقدامات کے باعث انکے اختیار ات ختم کر نے کی کوششیں

اسلام آباد : معزول چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے انصاف کی فراہمی کے لئے سوموٹو کے تحت اپنے خلاف ایکشن لینے پر ملک کی ”مقدس گائیں“ نئے سیاسی حکمرانوں کو اس بات پر قائل کر چکی ہیں کہ ان کے طاقتور اور ظالموں کو عدالتوں میں بلانے کے اختیارات ختم کردیئے جائیں متعدد بڑی پیشکشوں اور کوششوں کے باوجود معزول چیف جسٹس کا اس عزم پر قائم رہنا کہ وہ کرپشن اور احتساب کے اہم معاملات کے حوالے سے کسی بھی سمجھوتے کے خلاف کارروائی کریں گے، کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویزمشرف مزید پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ معزول چیف جسٹس پارلیمینٹ کے اندر اور باہر بیٹھی ”مقدس گائیں“کو ہاتھ نہ لگائیں قانونی ماہرین کے مطابق معزول چیف جسٹس کو جون 2005 میں عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس مقرر کئے جانے کے بعد سے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویزمشرف کیوں ان سے خوفزدہ ہیں اور ان کی مدت ملازمت مختصر کرنے اور اختیارات ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں تاکہ اگر وہ بحال ہوں تو غیرفعال چیف جسٹس ہوں۔ قانونی ماہرین کے مطابق جسٹس افتخار محمد چودھری نے عام لوگوں کے بنیادی مسائل پر سوموٹو نوٹسز لئے اور ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران بار بار اعلیٰ بیوروکریسی کو یاد کرایا کہ وہ بدعنوانی چھوڑ دیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ جسٹس افتخار کے طاقتور اسٹبلشمنٹ کے خلاف اسی رویئے کی وجہ سے انہیں بنیادی طور پر دو بار معطل کیا گیا ان قانونی دماغوں کے مطابق شوکت عزیز حکومت ”بگ باس“ جنرل (ر) پرویزمشرف کے اہل خانہ اور دوستوں کو نوازنے اختیارات منتقل کرنے اور سہولتیں دینے کے لئے کام کررہی تھی اس کی ایک بڑی مثال معمولی قیمت پر صدر کے رشتے داروں اور دوستوں کو معمولی قیمت پر سٹیل ملز کی نجکاری ہے سٹیل ملز اور دیگر اہم قومی اثاثوں کے خریداروں میں صدر پرویز کے علاوہ موجودہ حکمرانوں کے رشتے دار اور دوست بھی شامل ہیں ان قانونی ماہرین کے مطابق یہی حقیقت جسٹس افتخار چودھری اور قوم کے لئے بدقسمتی ثابت ہوئی اور پیپلزپارٹی کے معزول چیف جسٹس کی مدت ملازم مختصر کرنے اور سوموٹو اختیارات ختم کرنے کے بارے میں سخت موقف کی وجہ بنا۔ معزول چیف جسٹس کے دور میں سپریم کورٹ نے نہ صرف عام آدمی کے بنیادی مسائل سے براہ راست تعلق رکھنے والے ایشوز پر ازخود نوٹسز لئے بلکہ ہر قسم کا دباؤ مسترد کرکے غیرجانبدارانہ تاریخی فیصلے کئے اور اسی باعث آمریت کے غصے کو دعوت دی جسٹس افتخار محد چودھری کی طرف سے ازخود نوٹس لئے جانے والے چند مقدمات کی تفصیل درج ذیل ہے اور جو آصف علی زرداری کو معزول چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پتنگ بازی کی وجہ سے لاہور سمیت مختلف شہروں میں مسلسل انسانی اور مالی نقصان کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا۔ پتنگ بازی کی تقاریب میں پرویزمشرف بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے اور پتنگ اڑانے بنانے اور اس کی خرید و فروخت پر 25اکتوبر 2005 کو مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ سپریم کورٹ نے یہ کارروائی ڈور پھرنے کے باعث متعدد انسانی ہلاکتوں کے واقعات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کی اور بعض قانونی ماہرین کے خیال میں یہ پہلا بڑا کیس تھا جو حکمرانوں کے غصے کا باعث بنا۔8اکتوبر 2007ء کو معزول چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے حکام کو اسلام آباد کے مضافات میں چک شہباز میں ان تمام فارموں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی ہدایت کی جنہیں رہائشی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا ان فارمز کو 2003ء میں بااثرشخصیات نے معمولی قیمت پر جڑواں شہروں کی سبزیوں کی ضروریات پورا کرنے کے مقاصد سے خریدا تھا۔ ان فارم ہاؤسوں کے الاٹیوں میں صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی شامل تھے اور تخمینے کے مطابق ان فارم ہاؤسوں کی قیمت کھربوں روپے تھی جو ایک غریب قوم کے ساتھ سنگین مذاق تھا اور3 نومبر کے بعد آنیوالی عدلیہ نے جو پہلا فیصلہ کیا وہ یہ تھا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سابق احکامات کالعدم قرار دیدیئے۔ جسٹس افتخار نے ملک بھر سے سینکڑوں لاپتہ افراد کی شکایات پر ازخود نوٹس لیا ان لاپتہ افراد کو خفیہ ایجنسیوں نے مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اٹھایا تھا اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کا یہ موقف تھا کہ یہ افراد جن کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور ان افراد کو جیل میں رکھ کر ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے عدالت عظمیٰ صرف یہ چاہتی تھی کہ ایسے افراد منظر عام پر آئیں تاکہ ان کے اہل خانہ کو ان کے متعلق علم ہو سکے۔ معزول چیف جسٹس نے مشرف حکومت کے حمایت یافتہ لینڈ مافیا کے سربراہ شاہ شربیل کی طرف سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں کچی آبادی زبردستی خالی کرانے اور ایک پبلک پارک کو تجارتی منصوبے میں بدلنے کی کوششوں پر بھی ازخود نوٹس لیا اور جسٹس افتخار کے احکامات پر وہاں رہائشی غریب معزول چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کیلئے دعا گو رہے۔ 5 اپریل 2005ء کو عدالت عظمیٰ نے سٹیٹ بینک کو صارفین کے تحفظ کے حوالے سے گائیڈ لائنز دیں جس کے نتیجے میں یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے ملک بھر میں بینکوں کے باہر شیڈز بھی تعمیر کئے گئے۔ 14 اپریل 2006ء کو سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو گلبرگ کے ایک پارک (ڈونگی گراؤنڈ) کو کمرشل کرنے اور وہاں کام کرنے سے روک دیا۔ حکومت کا وہاں ایک کمپنی کو پلازہ اور سینما بنانے کی اجازت دینے کا ارادہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے سی ڈی اے کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف میں ایک پبلک پارک کو گالف گراؤنڈ میں بدلنے کے کام سے روک دیا اس منصوبے کی تکمیل سے صرف چند رئیس افراد کو فائدہ ہونا تھا جبکہ علاقے کے رہائشیوں نے بچوں کیلئے موجود واحد پارک سے محروم ہو جانا تھا۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف نائن میں فاطمہ جناح پارک میں ایک عالمی ادارے کے ریسٹورنٹ کی تعمیر بھی رکوا دی جس سے لوگوں نے شہر کے واحد بڑے پارک کے بڑے حصے سے محروم ہو جانا تھا یہ کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔ یکم جون 2006ء کو سپریم کورٹ نے پیمرا کے سربراہ کو ایک آرکیڈ کا غیر قانونی قبضہ ختم کرنے کا حکم دیا پولیس قانونی مالکوں کی طرف سے شکایات درج کروانے کے باوجود خاموش تماشائی تھی۔ جولائی 2007ء میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو بااثر لینڈ مافیا کی طرف سے لاہور میں تعمیر کی جانیوالی کثیرالمنزلہ عمارت گرانے کا بھی حکم دیا۔ 14ستمبر 2006ء کو سپریم کورٹ نے کراچی سٹی گورنمنٹ کی یہ اپیل مسترد کردی جس میں اس نے کراچی کی چھ اہم سڑکوں پر کمرشل پلاٹ بنانے کی پابندی معطل کرنے کی درخواست کی تھی سندھ حکومت نے

No comments: