ایسوسی ایٹڈ پریس سروس اسلام آباد
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اورعسکریت پسند لیڈر بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی مولوی عمر نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے بقول حکومت ان کے بعض مطالبات ماننے سے انکاری ہے۔ کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر ترجمان نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ وزیرستان کے قبائلی علاقوں ، درہ آدم خیل اور وادی سوات سے فوجوں کے انخلاء کے طالبان کے مطالبے کو ماننے میں حکومت مخلص نہیں ہے۔ مولوی عمر نے کہا کہ طالبان پاکستانی حکومت سے مزاکرات میں مخلص ہیں تاکہ ان کے بقول جو جنگ قبائلی علاقوں میں ان پر مسلط کی گئی ہے وہ ختم ہو اور امن وامان قائم ہو۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ان مطالبات کو تسلیم نہ کرنے سے امن معاہدے کے لیے ہونے والے مزاکرات میں تعطل کے بعدقبائلی اور دیگر علاقوں میں اب امن و امان کی صورتحال میں خرابی کی ذمہ دار ی حکومت پر ہوگی نہ کہ تحریک طالبان پاکستان پر۔ واضح رہے کہ پاکستانی حکام اور بیت اللہ محسود کے درمیان قبائلی جرگوں اور عمائدین کی مدد سے ایک امن معاہدہ طے کرنے کے لیے حال ہی میں کوششیں شروع کی گئی تھیں اور اس پیش رفت کے بعد بیت اللہ محسود نے اپنے جنگجوو¿ں کو سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے نہ کرنے کا حکم بھی دیا تھا تاکہ بات چیت کے عمل کو جاری رکھا جاسکے۔ حکومت پاکستان نے بھی بالواسطہ طور پر اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور یہ امید پیدا ہوئی کہ پاکستان میں تشدد کے واقعات میں مزید کمی آجائے گی لیکن جمعہ کے روز مردان میں ایک پولیس تھانے پر کار بم دھماکے میں چار افراد کی ہلاکت کے بعد بظاہر امن معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی تھی کیونکہ تحریک طالبان کے ترجمان مولوی عمر نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ ان کے ساتھیوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کا بدلہ ہر صورت لیا جائے گا۔حکومت سے بات چیت معطل: طالبان طالبان کا کہنا ہے کہ حکومت نے تین مطالبات تسلیم کر لیے ہیں پاکستان میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قائم طالبان کی تنظیم نے کہا ہے کہ حکومت سے ان کے مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔تنظیم کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ان کے بعض اہم مطالبات ماننے سے انکار کیا ہے جس کی وجہ سے ’دونوں طرف‘ ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور مذاکرات کا عمل رک گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا موقف معلوم کرنے کےلیے رابطہ کیا گیا تو وہ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ مذاکرات کی تعطلی کا اعلان پیر کو بیت اللہ محسود کے ترجمان مولوی عمرنے بی بی سی کو کیے گئے ٹیلی فون پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے جو اراکین جرگہ میں شامل تھے وہ حکومت کی رویے سے مایوس ہوکر واپس آگئے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہمیں نئی حکومت سے بہت توقعات تھیں لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے خیر سگالی کے جو بیانات جاری کیے جارہے تھے وہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔‘ انہوں نے الزام لگاگیا کہ حکومت مذاکرات میں مخلص اور سنجیدہ نہیں ہے۔ ترجمان نے دھمکی دی کہ اس کے بعد اگر عسکریت پسندوں کی طرف سے کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ ان سے جب مذاکرات کی ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو ترجمان نے کہا کہ ’حکومت میں شامل بعض ادارے نہیں چاہتے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کامیاب ہوں۔‘ طالبان کے مطالبات کیا ہیںحکومت کو چار مطالبات پیش کئے تھے جن میں جنوبی وزیرستان، سوات اور درہ آدم خیل سے فوج کا فوری انخلاء، قیدیوں کا تبادلہ، حکومتی کاورائیوں میں وزیرستان سے سوات تک متاثر ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ دینا اور تحریک طالبان کے کارکنوں کو وزیرستان سے کراچی تک آزادانہ سفر کی اجازت ہوگی۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستانی ادراوں کے علاوہ کچھ بیرونی ممالک بھی سرگرم عمل ہیں اور وہ بھی نہیں چاہتے کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان اور خاموشی ہوں۔ مولوی عمر نے کہا کہ ’مذاکرات میں بنیادی بات یہ تھی کہ امن معاہدے سے قبل حکومت وزیرستان، سوات اور درہ آدم خیل سے فوج واپس بلائے گی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا اور ان سے کیا گیا وعدے پر عمل درامد نہیں کیا جاسکا۔ ترجمان نے کہا کہ ’ہماری طرف سے فوج کا قبائلی اور دیگر علاقوں سے انخلائ ہی سب سے بڑا مطالبہ تھا لیکن حکومت نے اپنا وعدہ پوار نہیں کیا لہذا ہم نے بھی مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔‘ ایک سوال کے جواب میں مولوی عمر نے کہا کہ انہوں نے حکومت کو چار مطالبات پیش کئے تھے جن میں جنوبی وزیرستان، سوات اور درہ آدم خیل سے فوج کا فوری انخلائ ، قیدیوں کا تبادلہ، حکومتی کاررورائیوں میں وزیرستان سے سوات تک متاثر ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ دینا اور تحریک طالبان کے کارکنوں کو وزیرستان سے کراچی تک آزادانہ سفر کی اجازت شامل ہوگی ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے تین مطالبات تسلیم کیے تاہم وزیرستان اور دیگر علاقوں سے فوج کی واپسی اور چیک پوسٹیں ختم کرنے سے انکار کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فوج کی واپسی کا مطالبہ تسلیم کیا تو بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس وقت تقریباً ایک سو فوجی اور سکیورٹی اہلکار طالبان کے زیرحراست ہیں جبکہ دو سو کے قریب طالبان جنگجو مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اٹھارہ فروری کو ہونے والےانتخابات کے نتیجے میں قائم حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں امن وامان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کا عندیہ دیا تھا اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات شروع ہونے کے بعد قبائلی اور دیگر علاقوں میں مقامی طالبان کی کارروائیوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
No comments:
Post a Comment