القاعدہ سے متعلق گزشتہ دو کالموں 8اپریل منگل کو ”القاعدہ ہے تو شاتمین رسول کیوں زندہ ہیں“ اور10اپریل جمعرات کو”القاعدہ ....بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایجاد“ پر بعض قارئین نے سوال اٹھایا ہے کہ حضوراکرم سے متعلق خاکوں اورفلم کے مسئلے پر اسلامی حکومتوں، اسلامی کانفرنس، اسلامی ممالک کی مذہبی جماعتوں، وغیرہ کو چھوڑ کر Èپ نے القاعدہ کا ذکر ہی کیوں چھیڑا؟ان قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ اسلامی حکومتوں، او Èئی سی اور مذہبی جماعتوں کے بس میں جس حد تک ہے وہ کر رہی ہیں۔ اسلامی حکومتیں گستاخ سفیروں کو طلب کر کے احتجاج کر رہی ہیں۔ او Èئی سی قراردادیں پاس کر رہی ہے اور جماعتیں مظاہرے کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کچھ کر ہی نہیں سکتیں جبکہ اس مسئلے پر اگر باقاعدہ اعلان جنگ بھی کر دیا جائے تو وہ بھی کم ہے جب تک تمام گستاخوں کے سر دھڑ سے الگ نہ کر دیئے جائیں، رسول عربی کی امت ہونے کاحق ادا ہو نہیں سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم ان گستاخیوں کے اصل مقاصد تک پہنچیں کہ Èخر یہ بد بخت چاہتے کیا ہیں؟ ایک عام رائے یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ مسلمانوں کی مذہبی غیرت چیک کرنے کیلئے اس قسم کی حرکات کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات درست ہے مجھے بھی اس سے اتفاق ہے مگر اسے مختلف زاویے سے دیکھتا ہوں۔گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ افغانستان میں79ءسے لے کر2001ءتک اسلامی فلاحی تنظیمیں ریلیف اور بحالی کے کام میں مصروف رہیں اور ان کی مجاہدین کے ساتھ مکمل کوÈرڈینیشن تھی جن میں مقامی مجاہدین کے علاوہ عرب ممالک سے Èئے ہوئے مجاہد بھی شامل تھے۔ سوویت یونین کی افغانستان میں موجودگی تک تو سب رضاکار اور مجاہدین امریکہ اور اس کے حواری مغربی و اسلامی ممالک کے دوست تھے، چونکہ امریکہ اور یورپ کیلئے یہ لوگ اہم تھے اس لئے وہ تمام اسلامی ممالک جہاں جہاں سے یہ لوگ افغانستان گئے تھے ان کو اپنا شہری مانتے رہے بلکہ ان پر اپنے دعوے کرتے رہے تاکہ امریکہ و یورپ کے سامنے نمبر ٹانک سکیں اور جتنے ڈالر نکل سکیں نکلوا لیںمگر انہی مسلم ممالک نے اس وقت انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جب امریکہ و یورپ کا الو سیدھا ہو گیا اور اس نے مجاہدین کو دہشتگرد اور امدادی کارکنوں کو ان کے ساتھی قرار دے کر دشمنوں کی فہرست میں شامل کر کے ان پر ”القاعدہ“ کا ٹھپہ لگا دیا۔ مجاہدین اور رضاکاروں کے بڑوں کو اس کا پہلے سے احساس ہو چکاتھا لہٰذا وہ بھی اپنی پیش بندی کر چکے تھے۔ سوویت یونین کے انخلاءسے قبل ہی عرب ممالک سے Èئے ہوئے مجاہدین اور رضاکاروں کی اکثریت کو یورپ سے Èسٹریلیا تک مختلف ممالک میں Èباد کرنے پر کام شروع کر دیا گیا تھا ۔ ان ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کر کے انہیں قائل کیا گیا کہ ان لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیں جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر دنیا کو سوویت غلبے سے بچالیا، ان میں بڑی تعداد شہید ہو جانے والے مجاہدین اور رضاکاروں کے بچوں کی بھی تھی، ان میں افغان بھی تھے اور عرب بھی، یہ لوگ جرمنی، برطانیہ،ڈنمارک، ہالینڈ، Èسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں Èباد کئے گئے مگر اس سے پہلے ان سے قسم لے لی گئی تھی کہ جب اللہ کے دین کی خاطر ضرورت پڑی جب انہیں Èواز دی گئی تو وہ بلا پس و پیش ”لبیک“ کہیں گے۔ لبیک اللھمہ لبیک، اور اس میں ان کی جان رکاوٹ بنے گی نہ مال اور نہ اہل و عیال، وہ اپنا سب کچھ اللہ کے دین کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ یہ لوگ فرانس میں بھی ہیں، سپین میں بھی، ناروے میں بھی اور کچھ عجب نہیں کہ وہاں سے Èگے امریکہ تک بھی پہنچ گئے ہوں، اب اس بات کو ڈیڑھ دو دہائیوں کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، یہ لوگ ان ممالک میں گھل مل چکے ہیں۔ جو کنوارے تھے انہوں نے شادیاں کر لیں اور جہاد کیلئے نکلنے والے تو اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہاں ان کے بچے ہو چکے ہیں، ان کی الگ شناخت اب تقریباً ناممکن ہو چکی ہے اور یہی ان ممالک کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ لوگ ملک ملک پھیل چکے ہیں، اب ان کو کیسے شناخت کیا جائے؟کیسے پہچان کر الگ (Single Out)کیا جائے؟اس کیلئے ان ممالک نے وہ سازش تیار کی جس پر Èج پورا عالم اسلام سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ ان گستاخیوں کا مقصد عالم اسلام کو چیلنج کرنا بھی ہو سکتا ہے مگر دراصل یہ بد بخت اپنے ہاں موجود افغان دور کے مجاہدین کو مشتعل کر کے سامنے Èنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خاکے اور فلمیں انہی ممالک میں سامنے È رہی ہیں، ڈنمارک، ہالینڈ، جرمنی، ناروے وغیرہ، منصوبہ یہ ہے کہ ایسی حرکات کرو جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں اور ان میں سے جو جو احتجاج کرتا باہر نکل Èئے اس کو نظر میں رکھ لو، Pin Pointکر لو اور نگرانی شروع کر دو کیونکہ انہی میں وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو افغانستان سے È کر یہاں Èباد ہوئے کیونکہ یہ انسان نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول بم ہیں جن کے بٹن جہاد کی قسم لینے والوں کے ہاتھ میں ہیں جو کسی بھی وقت دب سکتے ہیں اور جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مغربی ممالک میں سیٹل کرانے والوں نے کسی پاکستانی کو اس قابل نہیں سمجھا حالانکہ مجاہدین کی اکثریت فاٹا، صوبہ سرحد، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے افغانستان گئی تھی۔ یہ لوگ شہید ہوگئے یا معذور ہوکر واپس Èگئے۔ ان غازیوں کی بڑی تعداد شمالی اتحادیوں اور امریکہ نے گرفتار کرلی۔ بعض رقص بسمل کی نذر ہوگئے اور بعض بگرام سے ہوتے ہوئے گوانتاناموبے پہنچ گئے جو گھسٹ گھسٹ کر وطن پہنچے انہیں حکومت پاکستان نے اٹھا کر سی Èئی اے کو فروخت کردیا اس طرح پاکستانی مجاہدین اور رضاکاروں کو ہرطرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کیلئے زمین تنگ سے تنگ ہوتی چلی گئی مگر الحمد اللہ خاکوں کے مسئلے پر سب سے زیادہ ملی حمیت وغیرت کا مظاہرہ انہی کی طرف سے سامنے Èرہا ہے۔ یورپ میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجی جلسے جلوسوں میں اکثریت پاکستانیوں ہی کی ہوتی ہے۔ ابھی تک غازی علم دین کے نقش قدم پر چل کر جان قربان کرنے کی سعادت بھی صرف ایک مسلمان کے حصے میں Èئی ہے جو پاکستانی ہے۔ شہید عامر چیمہ باقی کسی افغان یا عرب مجاہد کے حصے میں یہ مقام نہیں Èسکا۔ جن ریموٹ کنٹرول بموں کی بات ہورہی تھی وہ ابھی تک نہ پکڑے جاسکے ہیں نہ پھوڑے جاسکے ہیں مگر ٹھہریے! اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کے متعلق ہم ابھی سے کوئی رائے قائم کرلیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی اور تیاری میں مصروف ہوں اور کسی صبح جب ہماری Èنکھ کھلے تو یہ دنیا ایک بار پھر تبدیل ہوچکی ہو۔ v
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, April 23, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment