اسلام آباد . پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ججوں کی بحالی تک اپنے حالیہ دورہ لندن کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات قابو سے باہر ہوں اور اتحاد میں کوئی اختلاف پید ا ہو۔نواز شریف عدلیہ کی بحالی 30اپریل سے قبل چاہتے ہیں جبکہ آصف زرداری کو اس ڈیڈلائن سے اتفاق نہیں۔قابل اعتبار ذرائع نےبتایا کہ نواز شریف اورآصف زرداری کے درمیان ہونے والی ون ٹو ون ملاقات میں نواز شریف نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے معاملے پر اعلان مری کینتیجے میں متفقہ تاریخ 30اپریل سے ایک دن بھی آگے نہیں جاسکتی،جس کے جواب میں آصف زرداری نے ہنستے ہوئے جواب دیا ”مجھے (جیو)ٹی وی کے کاؤنٹ ڈاؤن پر اعتبار نہیں ہے“ لیکن انہوں نے ان الفاظ کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ 30اپریل کی تاریخ کے حوالے سے سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ اہلیہ کلثوم نواز سرجری کے لئے لندن جا چکی ہیں لیکن نواز شریف نے اپنا دورہ ملتوی کردیا اور آصف زرداری کو بتایا کہ وہ ایسا ججوں کی بحالی یقینی بنانے کیلئے کر رہے ہیں۔اس کے جواب میں آصف زرداری نے نواز شریف کو بتایا کہ الطاف حسین سے ملاقات کیلئے وہ بھی لندن جانا چاہتے ہیں لیکن میں بھی اپنا دورہ ملتوی کررہا ہوں۔میڈیا پر دکھائے جانے والے معاملات سادہ نہیں ہیں کیونکہ ابھی بھی کچھ پیچیدہ معاملات ہیں جن کو کمیٹی طے کرے گی جو کہ دونوں جماعتوں کے نمائندوں اور وکلاء پر مشتمل ہو گی۔قطع نظر اس کے کہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا کہا گیا ہے دونوں رہنماؤں نے ججوں کی بحالی کی قرارداد کا معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے کہ وہ اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرے،حالانکہ پریس کانفرنس میں آئینی پیکج کی تیاری کیلئے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد پارٹیوں میں بھی رابطے شروع ہو گئے ہیں اور ن لیگ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ کمیٹی جلد از جلد تشکیل دی جائے تاکہ 30اپریل سے قبل قرارداد پیش کی جاسکے۔پیپلز پارٹی میں موجود ذرائع کے مطابق آصف زرداری آئینی پیکج کو قرارداد سے منسلک کرنے، قرارداد کو پیش کرنے اور ججوں کی بحالی سے قبل آصف زرداری (ن)لیگ سے کچھ مفاہمت چاہتے ہیں۔یہ وہی پیکج ہے جس کے تحت پیپلز پارٹی افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت میں تخفیف چاہتی ہے لیکن مسلسل ا س کی نفی کرتی آئی ہے۔دونوں جماعتوں کی جانب سے بیانات اور اعلانات حقائق اور بند کمروں میں ہونے والی ملاقاتوں سے یکسر مختلف ہیں۔پیپلز پارٹی آئینی پیکج کے حوالے سے بہت گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کی مدت ملازمت کو مقرر کردیا جائے لیکن درحقیقت وہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔پارٹی کے قابل اعتبار ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کو جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کچھ اختلافات ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمیدڈوگرکے ساتھ ہی چلا جائے۔ذرائع کے مطابق جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قومی مفاہمتی آرڈیننس(این ۔آر ۔او)کے معاملے دوبارہ اٹھانے کے حوالے سے کچھ خدشات موجود ہیں۔این ۔آر۔ او جسے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع قانون کی حیثیت حاصل ہے جس کے تحت چند مخصوص افراد کو رعایت دی گئی ،جن میں آصف زرداری سر فہرست ہیں جن کو نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی کرپشن کے کئی مقدمات کا سامنا تھا۔آئینی پیکج کے حوالے سے (ن)لیگ کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد میں ترامیم کے حوالے سے اتفاق رائے کے بعد پیکج پر پارلیمنٹ میں بحث کی جاسکتی ہے اور اسے پاس بھی کیا جاسکتا ہے ۔مسلم لیگ (ن)کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی پیکج اور ججوں کی بحالی کی قرارداد میں کسی قسم کا کوئی بھی ربط نہیں چاہتے۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کی مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک ہونے والے میڈیا کے نمائندے دونوں رہنماؤں اور خصوصاً آصف زرداری کے جوابات سے مطمئن نہیں تھے،دونوں رہنماعوام کی توقعات کے مطابق ججوں کی بحالی اور معاملات کے طے ہوجانے کے حوالے سے خاصے پرامید ہیں جبکہ (ن)لیگ کے ایک رہنما کا خیال ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے قرارداد ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد اگلے ماہ پیش کی جائے گی جبکہ دیگر تمام رہنماؤں کو پورا یقین ہے کہ 30اپریل سے قبل اس تمام جدوجہد کا مقصد حاصل کر لیا جائے گا۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, April 23, 2008
زرداری اور نواز نے ججوں کی بحالی تک لندن کے دورے ملتوی کردیئے
اسلام آباد . پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ججوں کی بحالی تک اپنے حالیہ دورہ لندن کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات قابو سے باہر ہوں اور اتحاد میں کوئی اختلاف پید ا ہو۔نواز شریف عدلیہ کی بحالی 30اپریل سے قبل چاہتے ہیں جبکہ آصف زرداری کو اس ڈیڈلائن سے اتفاق نہیں۔قابل اعتبار ذرائع نےبتایا کہ نواز شریف اورآصف زرداری کے درمیان ہونے والی ون ٹو ون ملاقات میں نواز شریف نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی کے معاملے پر اعلان مری کینتیجے میں متفقہ تاریخ 30اپریل سے ایک دن بھی آگے نہیں جاسکتی،جس کے جواب میں آصف زرداری نے ہنستے ہوئے جواب دیا ”مجھے (جیو)ٹی وی کے کاؤنٹ ڈاؤن پر اعتبار نہیں ہے“ لیکن انہوں نے ان الفاظ کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ 30اپریل کی تاریخ کے حوالے سے سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ اہلیہ کلثوم نواز سرجری کے لئے لندن جا چکی ہیں لیکن نواز شریف نے اپنا دورہ ملتوی کردیا اور آصف زرداری کو بتایا کہ وہ ایسا ججوں کی بحالی یقینی بنانے کیلئے کر رہے ہیں۔اس کے جواب میں آصف زرداری نے نواز شریف کو بتایا کہ الطاف حسین سے ملاقات کیلئے وہ بھی لندن جانا چاہتے ہیں لیکن میں بھی اپنا دورہ ملتوی کررہا ہوں۔میڈیا پر دکھائے جانے والے معاملات سادہ نہیں ہیں کیونکہ ابھی بھی کچھ پیچیدہ معاملات ہیں جن کو کمیٹی طے کرے گی جو کہ دونوں جماعتوں کے نمائندوں اور وکلاء پر مشتمل ہو گی۔قطع نظر اس کے کہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا کہا گیا ہے دونوں رہنماؤں نے ججوں کی بحالی کی قرارداد کا معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیا ہے کہ وہ اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرے،حالانکہ پریس کانفرنس میں آئینی پیکج کی تیاری کیلئے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد پارٹیوں میں بھی رابطے شروع ہو گئے ہیں اور ن لیگ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ کمیٹی جلد از جلد تشکیل دی جائے تاکہ 30اپریل سے قبل قرارداد پیش کی جاسکے۔پیپلز پارٹی میں موجود ذرائع کے مطابق آصف زرداری آئینی پیکج کو قرارداد سے منسلک کرنے، قرارداد کو پیش کرنے اور ججوں کی بحالی سے قبل آصف زرداری (ن)لیگ سے کچھ مفاہمت چاہتے ہیں۔یہ وہی پیکج ہے جس کے تحت پیپلز پارٹی افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت میں تخفیف چاہتی ہے لیکن مسلسل ا س کی نفی کرتی آئی ہے۔دونوں جماعتوں کی جانب سے بیانات اور اعلانات حقائق اور بند کمروں میں ہونے والی ملاقاتوں سے یکسر مختلف ہیں۔پیپلز پارٹی آئینی پیکج کے حوالے سے بہت گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کی مدت ملازمت کو مقرر کردیا جائے لیکن درحقیقت وہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔پارٹی کے قابل اعتبار ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کو جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کچھ اختلافات ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمیدڈوگرکے ساتھ ہی چلا جائے۔ذرائع کے مطابق جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قومی مفاہمتی آرڈیننس(این ۔آر ۔او)کے معاملے دوبارہ اٹھانے کے حوالے سے کچھ خدشات موجود ہیں۔این ۔آر۔ او جسے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع قانون کی حیثیت حاصل ہے جس کے تحت چند مخصوص افراد کو رعایت دی گئی ،جن میں آصف زرداری سر فہرست ہیں جن کو نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی کرپشن کے کئی مقدمات کا سامنا تھا۔آئینی پیکج کے حوالے سے (ن)لیگ کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد میں ترامیم کے حوالے سے اتفاق رائے کے بعد پیکج پر پارلیمنٹ میں بحث کی جاسکتی ہے اور اسے پاس بھی کیا جاسکتا ہے ۔مسلم لیگ (ن)کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی پیکج اور ججوں کی بحالی کی قرارداد میں کسی قسم کا کوئی بھی ربط نہیں چاہتے۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کی مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک ہونے والے میڈیا کے نمائندے دونوں رہنماؤں اور خصوصاً آصف زرداری کے جوابات سے مطمئن نہیں تھے،دونوں رہنماعوام کی توقعات کے مطابق ججوں کی بحالی اور معاملات کے طے ہوجانے کے حوالے سے خاصے پرامید ہیں جبکہ (ن)لیگ کے ایک رہنما کا خیال ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے قرارداد ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد اگلے ماہ پیش کی جائے گی جبکہ دیگر تمام رہنماؤں کو پورا یقین ہے کہ 30اپریل سے قبل اس تمام جدوجہد کا مقصد حاصل کر لیا جائے گا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment