International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, April 23, 2008

عوامی مینڈیٹ کیخلاف عمل کرنے سے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے





نیو یارک . امریکی کانگریس کیلئے تیار کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بش انتظامیہ نے صدر پرویز مشرف پر معزول ججوں کی بحالی کیلئے کبھی دباؤ نہیں ڈالا اور ان کا غیر مقبول پاکستانی صدر پر زیادہ انحصار سے واشنگٹن میں ایجنسیوں کے درمیان تنازعات شروع ہوسکتے ہیں۔رپورٹ میں آصف زرداری کو پاکستان کی متنازع شخصیت قرار دیا ہے‘ جو وقتاً فوقتاً خود کو پیپلزپارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرکے مزے لیتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ پیپلزپارٹی مختلف حیلے بہانوں سے معاملے کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے‘ تاہم امریکی کانگریس ان کے بارے میں بخوبی جانتی ہے کہ وہ ذوالفقار بھٹو کی اوکسفورڈاور ہاورڈ سے تعلیم یافتہ بیٹی بے نظیر کے نان گریجویٹ شوہر ہیں۔اعتزازاحسن کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ پیپلزپارٹی کی روایتی افسر شاہی میں طاقت کے نئے مرکز کی نمائندگی کر سکتے ہیں اور بہت سوں کے نزدیک مستقبل میں پارٹی لیڈر بن سکتے ہیں۔نواز شریف کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا کہ مغرب مخالف سخت بیانات کے بعد واشنگٹن میں ان کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی طرف سے امریکی عہدیداروں کو تقریباً ڈانٹ پڑی ہے جب انہوں نے نیگرو پونٹے سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کے بارے میں کوئی وعدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔رپورٹ میں نئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے فیصلے کی تعریف کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہاگیا ہے کہ آرمی کی طرف سے معزول ججوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اقدامات میں مداخلت یا مشرف کی جلد رخصتی کیلئے دباؤ غیر جانبدارانہ ساکھ کو متاثر کرسکتا ہے۔کانگریس ریسرچ سروس کی طرف سے کانگریس اور ہاؤس آف کمیٹیز کیلئے تیار کردہ رپورٹ میں ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ کو یہ تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا کا پاکستان میں عدلیہ کی بحالی میں کردار سرگرم نہیں رہا ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مشرف کی ایمرجنسی کے تحت معزول کئے گئے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے ا سٹیٹس کے بارے میں جب سینٹ میں سوال کیا گیا تو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ جان نیگرو پونٹے نے تسلیم کیا کہ امریکی حکومت اس معاملے پر خاموش رہی ہے۔”مشرف کی طرف سے مارچ 2007 ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کئے جانے کے نتیجے میں شروع ہونے والی وکلا تحریک 2007ء میں پھیلنے والے اینٹی مشرف جذبات اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے ایک اہم پہلو ہے‘ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ‘ وکلا ابھی تک عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رکھے ہوئے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے جس کی جسٹس چوہدری برسر عام حمایت کررہے ہیں“۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ پر مشرف کے کریک ڈاؤن پر امریکی حکومت کو بے حسی کا الزام دیا ہے پنجابی اعتزاز احسن پیپلزپارٹی میں طاقت کا نیا مرکز بن سکتے ہیں اوربہت سے لوگوں کے نزدیک مستقبل کے پارٹی لیڈر ہوسکتے ہیں انتخابات میں کامیابی سے قبل اس بات کے اشارے مل رہے تھے کہ پارٹی کو متحد رکھنے کیلئے زرداری احسن کو اپنے نائب کا عہدہ دے سکتے ہیں۔ رپورٹ میں مشرف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ2007ء کے دوران اہم پاکستانی اتحادی پرویز مشرف کی گرتی ہوئی مقبولیت اور کم ہوتے سیاسی اثرورسوخ کے باعث بش انتظامیہ کے پاس قابل بھروسہ انتخابی عمل اور نتائج کے انتظار کے بعد کوئی پلان بھی نہیں ہے اور کوئی قابل عمل آپشن نہیں بچا ہے ۔ان نتائج کے مطابق جن میں مشرف کے پارلیمانی اتحادیوں کو بھر پور شکست ہوئی بش انتظامیہ کی طویل مدت سے اختیار کردہ پالیسی ناکام ہوگئی اور پرویز مشرف سے الگ سویلین اور ملٹری رہنماؤں کے ساتھ مزید قریبی رابطہ رکھنے کا دباؤ ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی حد تک امریکی حکومت نے پیپلز پارٹی پر مشرف کی حامی مسلم لیگ ق کی باقیات کے ساتھ معاہدہ کرنے کا دباؤ ڈال کراسلام آباد میں اتحاد بنائے جانے کے عمل میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ۔رپورٹ کے مطابق کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بش انتظامیہ ابھی اس پالیسی سے چمٹی ہوئی ہے جس کے ساتھ وہ مورچہ بند مشرف کو کمزوری اور عوامی حمایت سے محرومی کے باوجود اقتدار میں رکھنا چاہتی ہے ۔رپورٹ کے مطابق اس پالیسی سے واشنگٹن میں مختلف اداروں کے درمیان تنازعات کھڑے ہوسکتے ہیں کیونکہ کچھ سفارتکاروں نے کہا ہے کہ مشرف کومسترد کرنے والے مینڈیٹ کے خلاف عمل کرنے سے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔

No comments: