International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, April 26, 2008

برطانوی اہلکاروں کو اسلام آباد ایئر پورٹ پرپاکستانیوں کی برطانیہ روانگی روکنے کے اختیارات

اسلام آباد : پاکستانی حکام نے برطانوی اہلکاروں کواسلام آباد سے برطانیہ سفر کرنے والے مسافروں کی روانگی روکنے کے لئے اختیارات تفویض کر دئیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ اقدام برطانیہ کو پاکستان کی سرزمین پر ہی ڈی پورٹ کرنے کا حق دینے کے متراد ف ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پاکستانیوں کو دستاویزات میں کسی قسم کی کمی کی بناء پر برطانیہ سفر کرنے سے روک دیا گیا جبکہ مذکورہ دستاویزات کی پڑتال میزبان ملک میں (منزل پر) پہنچنے کے بعد کی جانی چاہیے تھی۔ یہ بات مزید حیران کن ہے کہ نہ صرف برطانیہ سفر کرنے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں بلکہ بہت سے واقعات میں مختلف الزامات کے تحت لوگوں کے پاسپورٹ بھی ضبط کئے گئے ہیں۔ بعض واقعات میں کئی سال پہلے برطانیہ میں مدت سے زائد قیام کرنے کاالزام لگاتے ہوئے بھی ایسا کیا گیا۔ برطانوی ہائی کمیشن اور ایف آئی اے دونوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایئر لائنز رابطہ آفیسر (ALO) کی تعیناتی کی تصدیق کی ہے۔ تا ہم دونوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ آفیسر کی تعیناتی کا مقصد مسافروں کی دستاویزات کی بنیاد پر مشاورت فراہم کرنا ہے۔ برطانوی ہائی کمیشن نے رابطے پر بتایا کہ اے ایل او ایئر لائنز اور ایف آئی اے دونوں کو مسافر کی دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد یہ تجویز کرتا ہے کہ آیا برطانیہ یا کسی دیگر ملک سفر کرنے والے مسافر کی سفری دستاویزات درست ہیں یا نہیں۔ اے ایل او کے اختیارات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے برطانوی ہائی کمیشن نے کہا کہ مذکورہ افسر کو مسافروں کے پاسپورٹ ضبط کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اے ایل او ایف آئی اے کے اہلکاروں کیساتھ ملکر مسافروں کی دستاویزات کی قانونی حیثیت جانچتا ہے۔ برطانوی ہائی کمیشن نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ ”اسلام آباد ایئر پورٹ پر برٹش ایئر ویز کا کوئی افسر تعینات نہیں بلکہ برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے ایک اے ایل او تعینات کیا گیا ہے۔ نامکمل دستاویزات پر مسافروں کو برطانیہ سفر کرنے کی اجازت دینے والی ایئر لائنز کو برطانوی قانون کے تحت 2 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا جا سکتا ہے“ عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصول کے تحت تمام قسم کی دستاویزات کی پڑتال اس ملک کی ذمہ داری ہے۔ جہاں سے مسافر روانہ ہوتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں معاملہ مختلف ہے جہاں پاکستان کی سرزمین پر ہی پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا اختیار برطانوی اہلکاروں کو حاصل ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی واضح ذمہ داری حکومت پاکستان اور وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے برطانوی اہلکاروں کواپنی سرزمین پر ایسے انتظامات کرنے کی اجازت دی۔ حاصل شدہ معلومات کے مطابق تا حال صرف اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہی یہ معاملہ درپیش ہے۔ تا ہم مستقبل میں دائرہ کار دیگر ایئر پورٹس تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ جس سے برطانیہ سفر کرنے والے پاکستانی مسافر متاثر ہوں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ اے ایل او کی تعیناتی کا مقصد برطانوی ایئر لائنز سے سفر کرنے والے مسافروں کی دستاویزات کی قانونی حیثیت کو جانچنا ہے تا ہم عملی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بہت سے واقعات میں پاکستانیوں کے پاسپورٹ ضبط کرنے کے بعد انہیں کہا گیا کہ جب برطانوی ہائی کمیشن مطمئن ہو جائے گا تو پاسپورٹ اسلام آباد میں قائم برطانوی ہائی کمیشن سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل طارق پرویز نے بھی اسلام آباد ایئر پورٹ پر اے ایل او کی تعیناتی کی تصدیق کی۔ تاہم یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ مذکورہ افسر کو پاسپورٹ ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے ایل او کا کام صرف رابطہ کاری ہے، کارروائی کرنا اس کا کام نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے ایل او صرف برٹش ایئر لائنز کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کی دستاویزات کی پڑتال کر سکتا ہے اگر آپ کے علم میں اس کے برعکس کوئی واقعہ ہے تو میں اس کی انکوائری کرا سکتا ہوں اور اگر کسی کا پاسپورٹ ضبط کیا گیا ہے تو اس کی مدد بھی کر سکتا ہوں۔ ڈی جی نے مزید کہا کہ اگر برطانیہ میں مدت سے زائد قیام کیا گیا ہے تو تب بھی پاسپورٹ ضبط نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دستاویزات میں کوئی شک موجود ہو تو امیگریشن عملہ سفارتخانے کو کیس بھجوانے کی بجائے موقع پر فیصلہ کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی برطانیہ کو اپنا رابطہ آفیسر تعینات کرنے کی اجازت محض اسلام آباد ایئر پورٹ کی حد تک ہی ہے دیگر کسی ایئر پورٹ پر برطانیہ کو ایسے افسروں کی تعینات کی اجازت نہیں۔

No comments: